مجلس  ۲۲ ۔ اکتوبر      ۲ ۲۰۲ءفجر  :بدگمانی ایسا مرض ہے جس نے شیطان کو بھی مردود کیا !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

05:55) ایک بڑے عالم جنہوں نے تصویر وغیرہ سب ختم کر دیں ان کا تذکرہ۔۔۔

05:56) متقی تو شبہِ گناہ سے بھی بچتا ہے۔۔۔

06:59) موبائل سے متعلق حضرت مفتی محمد نعیم صاحب دامت کی بات کہ گناہ کہ علاوہ بھی اس میں رنگینیاں اتنی ہیں کہ انسان ان میں ڈوبتا جاتا ہے اور نمازوں تک کی فکر نہیں ہوتی۔۔۔

07:58) صحبتِ اہل اللہ کی تاثیر کی وجہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اور بزرگوں سے بھی سنا کہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں میں یہ خاصیت ہے کہ جو ان کے ساتھ رہتا ہے اللہ والا بن جاتا ہے۔ ان کی صحبت میں یہ اثر کیوں ہے؟ بات یہ ہے کہ حکم ہے تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللہ کہ اللہ کے اخلاق کو اختیار کرو اور اللہ والے اس صفت سے متصف ہوتے ہیں، متخلق باخلاق اللہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے اخلاق میں ایک صفت ہے جس کی خبر قرآن پاک نے دی ہے کہ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی طرف کھینچ لیتاہے۔ اللہ والے اس صفت کے مظہر ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی اس صفت کے ظاہر ہونے کی جگہ اولیاء اللہ ہیں، اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ان کو اپنی تجلی اجتباء کا مرکز بنادیتے ہیں۔

لہٰذا جو ان کے پاس رہے گا اس کو بھی جذب مل جائے گا، وہ بھی اللہ کی طرف کھینچ جائے گا لیکن جذب کسی کو جلد اور کسی کو دیر سے ملتا ہے۔ سوکھی لکڑی جلد جل جاتی ہے اور گیلی لکڑی دھواں دیتی رہتی ہے، دیر سے جلتی ہے، جو لوگ گناہوں کی زندگی گزارچکے ہیں اور گناہوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں ان کو اللہ والا ہونے میں وقت لگے گا۔ اس میں شیخ کا قصور نہیں ہے، طالب کا اپنا قصور ہے، جو مریض بدپرہیزی کرے گا اس کا مرض کیسے اچھا ہوگا۔ ڈاکٹر لاکھ اچھی دوا دے لیکن اگر مریض چُھپ چُھپ کر بدپرہیزی کرتا ہے تو شفاء کیسے ہوگی۔ ڈاکٹر کا اس میں کیا قصور ہے۔ پہلے گناہ چھوڑو پھر اللہ کو پائو گے، گناہ چھوڑنا شرط ہے۔ دلیل اِنْ اَوْلِیَآئُ ہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود نفی فرمادی کہ ہمارا کوئی ولی نہیں مگر متقی بندے یعنی جو گناہوں سے بچتے ہیں۔ جو اللہ والوں کی صحبت میں رہتے ہیں

اور اللہ والا بننا چاہتے ہیں لیکن نفس سے مغلوب ہوکر کبھی گناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے لیکن پھر توبہ کرتے ہیں ایک دن ان کو بھی اللہ تعالیٰ اپنے اولیاء کی برکت سے جذب فرمالیتے ہیں۔ ان کو بھی جذب کی تجلی مل جاتی ہے لیکن جو لوگ اللہ کا ارادہ ہی نہیں کرتے اور ٹھان رکھا ہے کہ گناہ نہیں چھوڑنا ہے ان پر اللہ والوں کے جذب کی لہریں اثر انداز نہیں ہوتیں۔ اس کی مثال ایسی ہے جس کی بجلی کا کرنٹ لگا ہو تو جو اس کے پاس جاتا ہے اس کو بھی کرنٹ لگ جاتا ہے لیکن جو کرنٹ سے بچنا چاہتے ہیں وہ لکڑی کی کھڑائوں پہن کر جاتے ہیں جس سے بجلی ان کو نہیں کھینچتی۔

اسی طرح جو گناہوں کی لکڑی پر پیر رکھے ہوئے ہیں اللہ والوں کی جذب کی بجلی ان کو نہیں لگتی اور وہ محروم رہتے ہیں۔ دنیا کی کرنٹ ہلاک کرتی ہے اور اللہ کے جذب کی کرنٹ حیاتی دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے مجذوب حیاتِ جاوداں پاجاتے ہیں۔

10:46) موبائل کے حادثے کا ذکر ۔۔۔بس نصیب میں یہی تھا ان کو شہادت کی موت ملی۔۔۔جوان کو بھی موت ہے۔۔۔بس اللہ سے شکایت نہ کریں۔۔۔ہم ان واقعات سے سبق نہیں لیتے۔۔۔

16:11) بدگمانی ایسا مرض ہے جس نے شیطان کو بھی مردود کیا۔۔۔

اس بدگمانی کی وجہ سے تو آج ہم اصلاح نہیں کراتے۔۔۔

21:28) قدم سوئے مرقد نظر سوئے دنیا کدھر جارہا ہے کدھر دیکھتا ہے

22:25) اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہیے۔۔۔

22:51) لورالائی کے ایک مدرسے کا ذکر کہ کوئی چھت نہیں اور سامنے بڑے بلڈنگ بن رہی ہے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries