مجلس  ۲۸ ۔ اکتوبر      ۲ ۲۰۲ءعشاء   :نادم گنہگار کی محبوبیت   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

04:29) حسب معمول تعلیم۔۔۔

08:07) دو قسم کے گناہ ہیں ایک جاہی اور باہی۔۔

08:54) خانقاہ میں دو ہی چیزیں تو سکھائی جاتی ہیں۔۔۔

11:11) اللہ تعالی فضلا اور احسانا معاف فرماتے ہیں اللہ تعالی پر کوئی قرضہ نہیں ہے۔۔

11:50) جس سے اللہ تعالی دین کا کام لے رہے ہیں تو اکابر کی کتابوں کا مطالعہ کریں۔۔

12:34) اگر کبھی خطاء ہوجائے تو اللہ تعالی سے تلافی کرفی جائے۔۔۔

13:57) مچھلی کی مثال۔۔

16:06) توبہ کی سواری۔۔

17:51) لذت فرار اور لذت قرار۔۔

20:13) مانا کہ میر گلشنِ جنت تو دُور ہے عارف ہے دل میں خالقِ جنت لیے ہوئے

24:20) گناہوں پر جری نہیں ہونا ہے۔۔

24:48) نادم گنہگار کی محبوبیت:۔ اگر کبھی خطا ہوجائے تو ان حرام لذتوں سے اللہ سے استغفار و توبہ کرکے اس کی تلافی کردی جائے جیسے دریا سے مچھلی کو کوئی زبردستی باہر گھسیٹ لے تواس کاقاعدہ ہے کہ وہ تڑپ کرپھردریا میں کود جاتی ہے،آرام سے ٹہلتے ہوئے نہیں جاتی، جب مچھلی کو دریا سے نکالتے ہیں تو مچھلی سمجھتی ہے کہ اب میری موت ہے، پانی سے باہر مچھلی کو اپنی موت نظر آتی ہے لہٰذا وہ کود کر تڑپ کر دوبارہ دریا میں چلی جاتی ہے اور وہیں چین پاتی ہے۔ میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں

30:08) جب بندہ اﷲ سے روتا ہے تو گویا اپنا پیام اللہ تعالیٰ سے عرض کرتا ہے کہ یااللہ! مجھے معاف کردیجیے، میرے گناہوں کو معاف فرمادیجیے۔ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ کا ایک جملہ ہے، حضرت آسمان کی طرف دیکھتے تھے اور ایک نعرہ لگاتے تھے کہ یاربیّ! معاف فرمادیجیے، یہ میرے شیخ کا ہر وقت کا نعرہ تھا، جب دیکھو یا ربیّ معاف فرمادیجیے کا نعرہ لگایا کرتے تھے جیسے اﷲ تعالیٰ سے ہر وقت باتیں کر رہے ہوں، اور اس درد سے فرماتے تھے گویا اللہ کو دیکھ رہے ہیں،ایسا ایمان تھا۔

31:07) حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے قلعے پر حملہ کیا ہوا ہے۔۔

38:21) آہ! میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ کی یاد آتی ہے، وہ عام حالات میں روزانہ پانچ پارے تلاوت کرتے تھے اور جب کبھی بہت کیفیت طاری ہوتی تو دس پارہ بھی تلاوت کرتے تھے اور تلاوت کے درمیان نعرہ بھی لگاتے تھے، یعنی زور سے اﷲ کہتے تھے، دس بیس آیتوں کے بعد اﷲ کی محبت میں ایسا نعرہ لگاتے تھے جیسے ریل کے انجن میں اسٹیم بھرجائے اور انجن کے پھٹنے کا ڈر ہو تو اس کا ڈھکن کھول دیا جاتا ہے، ایسے ہی حضرت کے دل میں اﷲ کی محبت کی اسٹیم اتنی بھرجاتی تھی کہ درمیان درمیان میں زور سے اللہ کہتے تھے تو ایسا مزہ آتا تھا کہ مسجد ہل جاتی تھی۔

42:07) حضرت پھولپوری رحمہ اللہ اپنے وقت کے صدیق تھے تلاوت کےدرمیان میںا للہ تعالیٰ سے عرض کرتے تھے کہ آجا مری آنکھوں میں سماجا مرے دل میں کیا شان تھی! ایک مرتبہ اپنے شیخ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ کو خط میں لکھا کہ جب میں دنیا کی زمین پر چلتا ہوں تو مجھےایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں آخرت کی زمین پر چل رہا ہوں۔ حکیم الامت نے پڑھ کرفرمایا یہ شخص اپنے وقت کا صدیق ہے، اس کو اولیائے صدیقین کا درجہ ملا ہواہے۔ جس کے لیے دنیا کی زمین آخرت کی زمین بن جائے ایسے شخص کےایمان و یقین کا کیا پوچھتے ہو!کبھی کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر فرماتے تھے اے قرارِ جانِ بے قراراں

49:46) اے قرارِ جانِ بے قراراں! اے اللہ ! آپ بے قرار جانوں کے لیے قرار ہیں، آپ کے نام سے ہمیں سکون ملتاہے۔ حضرت ا س طرح یا ربیّ کہتے تھے کہ کیا کوئی یا ابّا کہے گا، ابّا کی محبت والے ربّا کی محبت کو کیا جانیں۔ تو جب حضرت یا ربیّ!معاف فرمادیجیے کہتے تھے تو اس وقت ان کا پیام اللہ تعالیٰ تک کس طرح پہنچتا تھا، اس پر میرا یہ اردو شعر ہے؎ میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے میری آہِ بے نوا! تو نے کمال کردیا جب بندہ اپنے ربّا کواپنی آہ کے ذریعہ سلام و پیام پیش کرتا ہے، تو آہ خودبخود اﷲ تک پہنچ جاتی ہے حالانکہ آہ کوئی راکٹ یا سیارہ نہیں ہے۔کیوں ؟ اس کی وجہ عرض کرتاہوں۔

54:38) اللہ اور ہماری آہ میں مناسبت کہ آہ کو اللہ تعالیٰ کے نام پاک سے بے حد مناسبت ہے، اگر آپ زور سے کھینچ کر اللہ کہیں گے تو آپ کو اپنی آہ بھی اللہ میں شامل معلوم ہوگی، اللہ کہیے اور آہ کہیے۔ بتائیے! اللہ کے نام میں آہ شامل ہے یا نہیں؟ یہی دلیل ہے کہ میرا اللہ سچامیرا اللہ ہے جو اپنے بندوں کی آہ کو اپنے نامِ پاک میں لیے ہوئے ہے۔ کسی اور باطل خدا کے نام میں آپ کو اپنی آہ شامل نہیں ملےگی۔رام چندر کا نام لو،ہے ہماری آہ؟ آپ فرعون کا نام لو، اس نے بھی خدائی کا دعویٰ کیا تھا تو فرعون کے نام میں ہماری آہ شامل ہے؟ نمرود کے نام میں ہماری آہ شامل ہے؟ شدّاد کے نام میں ہماری آہ شامل ہے؟ غرض دنیا میں جتنے باطل خدائی والے ہیں کسی کے نام میں ہماری آہ شامل نہیں ہے، یہی بہت بڑی دلیل ہے کہ ہمارا اﷲ سچا ہے۔

55:48) اللہ تعالیٰ کے نامِ پاک میں بندوں کی آہ پوشیدہ ہے اس پر ایک قصہ سن لیجیے!بخاری شریف کی روایت ہے: (صحیح البخاری(قدیمی) کتاب الانبیاء،ج ۱ ص ۴۸۷) دو عورتیں کہیں جارہی تھیں، ان کے ساتھ ان کا ایک ایک بچہ بھی تھا،ایک کے بچہ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا تو جس کا بچہ نہیں تھا اس نے دعویٰ کردیا کہ یہ میرا بچہ ہے حالانکہ اس کا نہیں تھا، اس کا تو بھیڑیا اٹھاکر لے گیا تھا۔

اب دونوں عورتوں نے جھگڑا شروع کردیا۔حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام ، دو پیغمبروں کے سامنےیہ قضیہ پیش ہوا،تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے دونوں کی بات سن کرفیصلہ یہ فرمایا کہ تم دونوں آپس میں لڑتی ہو، ایک کہتی ہے کہ یہ میرا بچہ ہے، دوسری کہتی ہے کہ میرا ہے تو اس کو آدھا آدھا کرکے تم دونوں میں تقسیم کردیتا ہوں۔ تو جس کا بچہ نہیں تھا وہ تو راضی ہو گئی اور جس کا بچہ تھا وہ تڑپ گئی اور اس نے کہا کہ ایسا نہ کیجیے، بچہ اسی عورت کو دے دیجیے۔اس نے کہا کہ یانبی اللہ! اے اللہ کے پیغمبر! اس کو نہ کاٹیے آپ اسی عورت کو دے دیجیے حالانکہ وہ اس کا بچہ نہیں تھا لیکن پہلی عورت نے اپنے بچہ کے بارے میں سوچا کہ اگر مجھے نہیں ملتا تو میرا بچہ زندہ تو رہے گا، کاٹنے سے تو مرجائے گا،تو جس کا اصلی بچہ تھا وہ اسے کاٹنے پر راضی نہیں ہوئی، اصلی اولاد کی محبت جوش میں آگئی۔علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:

57:18) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ بچہ اسی عورت کا ہے، یہ محبت دلیل ہے کہ یہ بچہ اسی کی اولاد ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ہماری آہ کو اپنی ذاتِ پاک اور نام پاک میں لیاہوا ہے، یہ ان کی محبت اور رحمت کی دلیل ہے کہ وہ ہمارے اللہ ہیں۔ جس طرح ماں باپ کی محبت دلیل ہے ان کے اصلی ماں باپ ہونے کی، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہماری آہ کو اپنے نام پاک کے ساتھ لگائے ہوئے ہے۔ آہ اور اللہ۔سبحان اللہ! اس پر میرا شعر ہے میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے میری آہِ بے نوا! تو نے کمال کردیا

01:02:45) مایوسی پر ایک صاحب کے لیے نصیحت۔۔۔

01:03:59) مادراں را مہر من آموختم چوں بود شمعے کہ من افروختم یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے ہی ماؤں کو محبت کرنا سکھایا ہے اور ماؤں کی محبت میری ایک ادنیٰ سی بھیک ہے تواِسی سے اندازہ لگا لو کہ میری محبت کا آفتاب کیسا ہوگا؟ تم ماؤں کی محبت پر ناز کرتے ہو اور ان کی محبت کو یاد کرتے ہو۔ ارے! اماں، ابا سے زیادہ ربا کو یاد کروں کیوں کہ ماؤں کے دل میں محبت اللہ تعالیٰ نے ہی نے تو رکھی ہے۔ جب ماں کے اندر خدائے تعالیٰ کی رحمت کی ادنیٰ بھیک کا یہ اثر ہے تو حق تعالیٰ جو ارحم الراحمین ہیں، ان کی رحمت کی کیا شان ہوگی۔

01:07:27) میرا پیام کہہ دیا جاکے مکاں سے لامکاں اے میری آہِ بے نوا! تو نے کمال کردیا مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے اتنا روتا ہوں اور پھر بھی رونے سے جی نہیں بھرتا ؎ اے دریغا ا شکِ من دریا بُدے تا نثارِ دلبرے زیبا شدے کاش! میرے آنسو دریا ہوجاتے تو میں آنسوؤں کا دریا کا دریا اپنے اللہ پر فدا کردیتا، اتناروتاکیونکہ تھوڑا رونے سے میرا جی نہیں بھرتا اور فرماتے ہیں؎ ہر کجا بینی تو خوں بر خاکہا پس یقیں می داں کہ آں از چشمِ ما اے دنیا والو! جہاں کہیں دیکھو کہ کسی مٹی پرکچھ خون پڑا ہوا ہے، پس یقین کرلینا کہ یہاں جلال الدین رومی ہی خون کے آنسو رویا ہوگا۔ مولانا رومی کایہ جذبہ تو دیکھو! اتنا کوئی رو نہیں سکتا لیکن کم از کم رونے کا جذبہ تو ہواور ہمارا کیا حال ہے ؟ حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔

01:10:15) روتی ہے خلق میری خرابی کو دیکھ کر روتا ہوں میں کہ ہائے میری چشم تر نہیں ہماری بدحالی اور تباہی اور گناہوں کی غلاظتوں میں غرق رہنا اتنا زیادہ ہے کہ دوسروں کو ہم پر رحم آرہا ہے یعنی اللہ والے ہم پر غم کررہے ہیں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries