مجلس۲  نومبر ۲ ۲۰۲ءعشاء  :دلوں کا اطمینان اللہ کے ذکر میں ہے   ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

06:49) جب شیخ دیکھتا ہیکہ میرے مُرید ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں تو دل خوش ہوتا ہے۔۔۔

06:49) قرآن ِپا ک کو تجوید سے پڑھنا فرض ہے۔۔۔

15:21) نامحرم لڑکیوں سے باتیں کرنا یہ اللہ کا عذاب ہے۔۔۔

17:25) انٹر نیٹ کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔

18:59) حیا سے متعلق احادیث ِمبارکہ ۔۔۔اللہ تعالیٰ جس کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں اس سےحیاچھین لیتے ہیں۔۔۔

21:32) جب حیا ختم تو سب ختم۔۔۔

21:49) یو ٹیوب ،ویڈیو گیم،کارٹون،سمارٹ فون وغیرہ کے منفی اثرات۔۔۔

30:37) حسب ِ معمول مظاہر حق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

33:37) دلوں کا اطمینان صرف اللہ کی یاد میں ہے جس طرح سے مچھلی کو پانی میں چین ملتا ہے ایسے ہی اللہ کے نام کے صدقہ میں دلوں کو چین ملتا ہے۔

37:21) گناہ ہوجائیں تو کیا ہوا بس اللہ سے معافی مانگ لو۔۔۔

37:55) اللہ تعالیٰ جو دل پیدا کرتاہے،جومائوں کے پیٹ میں دل بناتا ہے اس خدا نے قرآنِ پاک میں اعلان کیا: ﴿ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ؁ ﴾ (سورۃ الرعد، آیۃ:۲۸) اے دنیا والو! کانوں سے غفلت کی روئی نکال کر خوب غور سے سنو! صرف اللہ ہی کی یاد سے تمہیں چین نصیب ہوگا۔

42:15) اگر دنیاوی اسباب میں چین ہوتا تو امریکہ جیسے امیر ملک میں بڑے بڑے مال دار خودکشی نہ کرتے جبکہ آج تک کسی ولی اللہ نے خودکشی نہیں کی۔

44:24) میں سارے عالَم کو چیلنج کرتا ہوں، دنیائے کفر اور یورپ کو بھی اعلان کرتا ہوں کہ ثابت کریں دنیا میں کسی ولی اللہ نے کبھی خودکشی کی ہو، جس کے دل پر خدا کا ہاتھ ہو وہ دل کبھی بے چین اور بے قرار نہیں ہوسکتا۔ آہ! ایک شیراگر لومڑی سے کہہ دے کہ اے لومڑی! تیری پیٹھ پر میرا ہاتھ ہے؎ روبہے کہ ہست او را شیر پُشت بِشکند کلّہ پلنگاں را بہ مُشت مولانا جلال الدین رومیرحمہ اللہ مثنوی مولانا روم میں فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شیر کسی لومڑی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ دے کہ گھبرانا مت میں تمہارے ساتھ ہوں تو وہ لومڑی ایک گھونسے سے چیتوں کا کلّہ توڑ دے گی ۔تو جس کے دل پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہو وہ خودکشی کرسکتا ہے؟ میرا ایک شعر سن لیجیے ؎ زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا ان کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا

47:00) بیان کے درمیان میں ایک پرچی آئی اس پر نصیحت کہ مشورہ واجب العمل نہیں ہوتا ۔۔۔

47:57) زندگی پُر کیف پائی گرچہ دل پُر غم رہا ان کے غم کے فیض سے میں غم میں بھی بے غم رہا اور علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ کا شعر ہے؎ ترے غم کی جو مجھ کو دولت ملے غمِ دو جہاں سے فراغت ملے اللہ کی محبت کا ایک ذرّۂ غم، خدائے تعالیٰ کی محبت کا ایک ذرّۂ درد اگرہمیں عطا ہوجائے تو دونوں جہان کے سلاطین کی سلطنت ہماری نگاہوں سے گرجائے گی، سورج و چاندہمیں پھیکے نظر آئیں گے، خدا کے نور کے سامنے بے نور ہوں گے کیونکہ سورج و چاند بھی اللہ تعالیٰ کے بِھک منگے ہیں، سورج و چاند کی روشنی خدائے تعالیٰ کی بھیک ہے اور جس کے دل میں خود اللہ آتا ہے تو اس کے دل کے عالَم کا کیا عالَم ہوگا۔

49:57) خواجہ عزیز الحسن مجذوب رحمہ اللہ اپنے شعر میں فرماتے ہیں ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لَو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی

50:42) بعض لوگ اولا د کو بیان میں لاتے ہیں اور جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے تو ان کو کہتے ہیں کہ سنوسنو۔۔۔آپ کو یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے کیا یہ دوبارہ آئے گا؟خدا کے لیے اس بات کو سمجھو کہ اولا د کے سامنے اُس کی برائی مت بیان کرو۔۔۔

52:52) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries