مجلس۱۶    دسمبر۲ ۲۰۲ء  فجر     :تعلق مع اللہ !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:54) روزانہ سو دفعہ کلمہ شریف پڑھنے کی فضیلت۔۔۔

00:55) ذکرکلمہ طیّبہ۔۔۔

05:33) ذکر اسمِ ذات جل جلالہ۔۔۔

10:16) ذکر کے فائدے کے بارے میں حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کا ایک شخص کو جواب۔۔۔

11:11) ذکر ذاکر کو مذکور سے ملا دیتا ہے۔۔۔

11:50) تعلق مع اللہ:ہاں! تو میں تین باتیں عرض کررہا تھا۔ ایک تو اہل اللہ کی صحبت ہے۔ مگر صرف صحبت ہی کافی نہیں مجاہدہ بھی ضروری ہے اور اس کی ایک عجیب مثال ہے۔ جون پور (ہندوستان) میں تلی کا تیل جب چنبیلی کا تیل بنایا جاتا ہے تو تِلّی پر ایک ہلکا غلاف رہ جاتا ہے جس میں سے تیل نظر آتا ہے کہ اگر سوئی چبھودیں تو تیل باہر آجائے۔ اتنا مجاہدہ تلی کو رگڑ رگڑ کر کرایا جاتا ہے۔ اب چنبیلی کے پھولوں کو پھیلاتے ہیں۔

پھر ان پھولوں پر وہ مجاہدہ کرائی ہوئی تلی رکھتے ہیں۔ اس کے اوپر پھر چنبیلی رکھتے ہیں اور کئی ہفتہ عشرہ اسی طرح رہنے دیتے ہیں تاکہ خوشبو تلی میں جذب ہوجائے۔ پھر اس کو کولہو یا مشین میں پیل دیتے ہیں اور چنبیلی کی ساڑی خوشبو اس تلِّی میں آجاتی ہے۔ اب وہ تلی کا تیل نہیں کہلاتا۔ روغنِ چنبیلی کہلاتا ہے۔ بس یہی طریقہ اللہ والا بننے کا ہے۔

14:49) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا الخـ پہلے مجاہدہ ہو جس سے نفس کی بھوسی چھوٹے اور جذب اخلاق اولیاء کی صلاحیت پیدا ہو جس ولی اللہ سے جس کو نسبت ہو۔ اس کے اخلاق کو جذب کرنے کی صلاحیت مجاہدہ سے پیدا ہوتی ہے اور مجاہدہ کیا چیز ہے؟ ذکر اللہ کا اہتمام اور بدنگاہی بدگمانی غیبت جتنے گناہ ہیں ان سے بچنے کی کوشش اور اگر مغلوب ہورہا ہو تو شیخ کو اس کی اطلاع۔

16:23) حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ کسی صاحبِ نسبت سے استفادہ کے لیے شرط یہ ہے کہ اس سے مناسبت بھی ہو۔ اگر مناسب نہ ہو گی تو نفع نہ ہوگا۔ نفع کا مدار مناسبت پر ہے اور اصلاح کے لیے اس کو شیخ بنانا یعنی بیعت ہونا بھی ضروری نہیں۔ صرف اصلاحی تعلق بھی کافی ہے کیونکہ بیعت ہونا تو فرض نہیں لیکن اصلاحِ نفس فرض ہے اور اس کے لیے اصلاحی مکاتبت اور زندگی میں ایک بار چالیس دن مسلسل اپنے مصلح کے پاس رہنے کی بزرگوں نے ہدایت فرمائی ہے اور اس میں جو کچھ بھی خرچ ہوگا وہ اللہ کے راستہ میں شمار ہوگا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اگر زمین و آسمان کے سارے خزانے دے کر اللہ مل جائیں تو بھی یہ سستا سودا ہے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ دونوں عالم دے چکا ہوں مے کشو یہ گراں مے تم سے کیا لی جائے گی

17:35) لوگ کہتے ہیں کہ بس بخاری شریف پڑھنے سے اصلاح ہوجائے گی۔ ارے میاں! اگر صرف تلاوتِ قرآن سے اصلاح ہوجاتی تو نبیوں کو اللہ تعالیٰ نے کیوں پیدا کیا اور تزکیہ کی نسبت نبی کی طرف کیوں کی گئی؟ وَیُزَکِّیْہِمْ کہ ہمارے نبی تمہاری اصلاح کریں گے۔ اصلاح کی نسبت نبی کی طرف ہے اور پھر نائبین انبیاء کی طرف ہے۔ آدمی آدمی بناتا ہے۔ کتاب خود سمجھ میں نہیں آسکتی۔ کتاب اللہ کے لئے رجال اللہ پیدا کئے جاتے ہیں۔ دیکھئے! سورۃ فاتحہ کی تفسیر معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب نے لکھا ہے کہ کتاب اللہ کو سمجھنے کے لیے رجال اللہ کی ضرورت ہے۔ اور کتاب پر عمل کرنے کے لیے ہمت کا پیٹرول بھی انہی مردانِ خدا کے سینوں سے عطا ہوتا ہے۔ اگر نبی وقت زندہ ہے تو نبی کے سینہ سے اور اگر نبی زندہ نہیں ہے دنیا سے تشریف لے گیا تو اس کے نائبین کے سینوں سے۔ اور جنہوں نے رجال اللہ کو چھوڑ کر کتاب اللہ کو سمجھنا چاہا وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔

19:18) صراط منعم علیہم کو چھوڑ کر دین نہیں مل سکتا۔ مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے یہی فرمایا کہ ہم حاجی امداد اللہ صاحب رحمہ اللہ سے جو مرید ہوئے ہیں تو ہم نے ان سے مسئلہ پوچھنے کے لیے مریدی نہیں کی۔ مسئلہ تو حاجی صاحب ہم سے پوچھیں گے لیکن ہم نے جو کچھ پڑھا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے توفیق اور ہمت کا پیٹرول حاجی صاحب سے ہم لینے گئے تھے۔ دیکھئے! اتنے بڑے بڑے علماء بھی اہل اللہ سے بے نیاز اور مستغنی نہیں ہوئے۔ بس سبق لینے کی بات ہے۔ تو میرے دوستو! اصلاح کے لیے کسی مصلح سے تعلق ضروری ہے لیکن اللہ والوں کی دوستی ان کے پاس اُٹھنا بیٹھنا اور ان کی صحبت میں رہنا ہی کافی نہیں۔ ان کو اپنے حالات بتانا پھر ان کے مشوروں کی اتباع بھی ضروری ہے۔ صحبت کے حقوق بھی تو ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ان کی مرغ کی دعوت کردی یا چائے پلادی اور اصلی مکھن کھلادیا سمجھے کہ ان کی صحبت کا حق ادا ہوگیا۔

20:13) صحبت اہل اللہ کے حقوق میں ہے کہ اپنے حالات ان سے بیان کئے جائیں۔ پھر ان کے مشوروں پر عمل کیا جائے۔ اطلاع اور اتبا ہو اخلاص کے ساتھ۔

20:47) حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہماری اور مولانا قاسم صاحب نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی عزت پہلے قوم میں ایسی نہیں تھی جیسی بعد میں حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت سے اور حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی غلامی کے صدقہ میں عطا ہوئی اور قوم میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو چمکایا مگر عزت کی نیت سے اہل اللہ سے تعلق نہیں جوڑنا چاہیے بلکہ اللہ کے لیے جوڑنا چاہیے۔ پھر جو کچھ اللہ تعالیٰ دے دیں ان کی مرضی چاہے اسمِ باطن کی تجلی ڈال دیں اور ہم کو گمنام کردیں اور چاہے اسم ظاہر کی تجلی ہم پر کرکے ہمیں مشہور کردیں۔

22:10) دُعا کی پرچیاں اور بیعت۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries