مجلس    ۳۰       دسمبر۲ ۲۰۲ء             عشاء :سب سے بڑا ذاکر وہ ہے جو گناہ نہیں کرتا    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:10) مظاہر حق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

01:11) مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ سوائے تیرے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے یارب جدھر بھی جائوں کسے غم و جان و دل سنائوں کسے میں زخم جگر دکھائوں یہ دنیا والے تو بے وفا ہیں وفا کی قیمت سے بے خبر ہیں پھر ان کو دل دے کے زندگی کو جفا سے آہنگ کیوں بنائوں یہ بُت جو محتاج ہیں سراپا غلام ان کا بنوں تو کیوں کر غلام کا بھی غلام بن کر میں اپنی قیمت کو کیوں گھٹائوں یہ مانا ہم نے چمن میں خوشرنگ گل سے بلبل ہے مست و شیدا مگر نشیمن جو عارضی ہو تو اس کو مسکن میں کیوں بنائوں مجھے تو اخترؔ سکونِ دل گر ملا تو بس اہلِ دل کے در پر تو ان کے در کو میں اپنامسکن صمیمِ دل سے نہ کیوں بنائوں

09:15) اللہ تعالیٰ نے جس کام کے لیے ہمیں بھیجا ہے اللہ تعالیٰ وہ کام پورا کرنے کی توفیق عطافرما دے۔۔۔

11:36) اللہ والوں کی غلامی اور خدمت کا حق کس سے ادا ہوسکتا ہے؟۔۔۔

13:48) ہم اپنے گھروں میں شرعی پردہ کیوں نہیں کراتے۔۔۔

16:28) اللہ والوں کی توجہ کا مطلب کیا ہے؟۔۔۔

18:47) گناہ چھوڑنا ناممکن نہیں ہے یہ شیطان کا دُھوکہ ہے۔۔۔

21:19) آج ہر کوئی عامل بابا بنا ہوا ہے۔۔۔

22:55) چَین ،سکون اوراطمینان کہاں سے ملے گا؟۔۔۔صرف اللہ ہی کی یاد سے چَین ملتا ہے۔۔۔

26:41) سب سے بڑاذاکر وہ ہے جو گناہ نہیں کرتا۔۔۔

28:52) اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَىٕنُّ الْقُلُوْبُ کی تفسیر کیا ہے؟۔۔۔

30:01) غیبت کرنے سے تکلیف کیوں نہیں ہوتی؟اس لیے کہ اس کی عادت بن گئی۔۔۔

35:55) اللہ تعالیٰ کو ایک سانس ناراض نہیں کرنا ہے۔۔۔

40:47) تفسیر فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ۔۔

44:09) شیخ چلی کی حکایت۔۔۔

49:21) تفسیر فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ۔۔۔تو ذکر کے کیا معنی ہیں۔ حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ بیان القرآن میں لکھتے ہیں کے ’’فَاذْکُرُوْنِیْ‘‘یعنی تم مجھ کو یاد کرو اور یاد کیسے کرو گے ’’بِالْاِطَاعَۃِ‘‘ میری اطاعت کرو۔

54:38) تم لوگ مجھ کو یاد کرو طاعت سے یعنی قلب سے اور قالب سے بھی پس ذکر عام ہے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے ہو یا جوارح سے ہو۔

55:53) عقل مند وہ ہے جو کھڑے بیٹھے لیٹے اللہ کو یاد کرے ۔۔

59:08) گناہ کو گناہ سمجھنے والا ایک نہ ایک دن اس گناہ سے بچ جائے گا۔۔۔

59:53) عقل مند لوگ کون ہیں؟۔۔۔

01:02:47) (فالاوّل) پس اوّل ذکر لسانی ہے جو شامل ہے تسبیح و تحمید و قرأت کلام اللہ وغیرہ پر۔(والثانی) اور ثانی اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور ان کی ربوبیت کے اسرار منکشف ہوں (والثالث) اور تیسرا یہ کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان کو نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ پس اللہ کا ذکر ان تینوں قسموں پر شامل ہے۔ اہلِ حقیقت نے بیان فرمایا ہے کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی محبت غالب ہوجائے اور ماسوی اللہ کی محبت مغلوب ہوکر کالعدم ہوجائے۔

01:08:20) شدید اوراشدّمحبت ۔۔۔

01:09:29) خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے اسی حقیقت کا نام تبتُّل شرعی ہے۔ جیسا کہ بیان القرآن میں تحریر ہے کہ تبتُّل نام ہے تعلق مع اللہ کا تعلق ماسوی اللہ پر غالب ہوجانا نہ کہ ترکِ تعلقات ضروریہ کا۔ جیسا کہ جو گیانِ ہند اور جہلائے صوفیہ نے سمجھا ہے۔ (سورۃ مزمل، پارہ: ۲۹، بیان القرآن)

01:10:18) خزائن معرفت ومحبت: دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اﷲ اﷲ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں

01:13:43) کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گناہگار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔

01:15:42) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries