مجلس ۲۱جنوری۳ ۲۰۲ءفجر :اللہ کے منع کی ہوئی حدود کے قریب بھی نہ جاؤ ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں * 02:20) حضرت مفتی سید مختیار الدین شاہ صاحب دامت برکاتہم کی محبت کا تذکرہ۔۔۔ 02:21) جعلی پیروں کا تذکرہ۔۔۔ 06:56) حسبِ معمول مظاہر حق سے تعلیم ہوئی۔۔۔ 09:36) مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ وہ جس کا نام کہ دنیا میں قلب مضطر تھا فلک پہ جا کے وہ ہم شکل ماہ و اختر تھا تمام عمر تڑپنے کی تھی جو خُو اس میں نہ جذب ہو سکا دنیا کا رنگ و بُو اس میں میں درد و غم سے بھرا اِک سفینہ لایا ہوں ترے حضور میں اِک آب گینہ لایا ہوں تری رضا کا ہے بس شوق و جستجو اس میں مری ہزار تمنّا کا ہے لہو اس میں 13:51) توبہ سے متعلق حضرت والا رحمہ اللہ کا مضمون بیان ہوا۔۔۔حضرت شیخ دامت برکاتہم نے یہ اشعار پڑھے جو گرے ادھر زمیں پر مرے اشک کے ستارے تو چمک اٹھا فلک پر مری بندگی کا تارا 19:24) دوستو! جب بندۂ گنہگار زمین پر روتا ہے تو آسمان اس زمین پر رشک کرتا ہے۔ دیکھو اِنَّا اَنْزَلْنَا کی تفسیر پارہ نمبر تیس،علامہ آلوسی h کی تفسیر روح المعانی میں، حدیث قدسی ہے کہ کسی گنہگاربندہ کے جب آنسو بہتے ہیں : ((لَاَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ)) (روح المعانی:(رشیدیہ)؛سورۃ القدر ؛ ج ۳۰ ص ۵۸۳) اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ گنہگار بندوں کے آہ و نالےمجھےتسبیح پڑھنے والوں کی سبحان اللہ سبحان اللہ سے زیادہ پیارے ہیں ،یہ وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقبول ہے۔ 21:47) اسراف اور تبذیر میں فرق تو خطبہ میں میں نے جو آیت تلاوت کی اس میںاللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے نبی!آپ میرے بندوں سے فرمادیجئے: ﴿ قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ط﴾ (سورۃ الزمر : آیۃ ۵۳) یہاںقُلْ تو اللہ تعالیٰ کا قول اپنےحبیب eکے لئے ہےکہ آپ فرما دیجئے اور يٰعِبَادِيَ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے فرما رہا ہے کہ اے میرے بندو!الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِمْ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کر لیا،گناہ کر لیا۔اسراف کے کیا معنی ہیں؟عام مشہور معنی تو یہ ہیں آمدنی سے زیادہ خرچ کرنا اور تبذیر کا مطلب ہے گناہ میںخرچ کرنا،کسی بھی نافرمانی میں خرچ کرنا جیسےجو سینما میں پیسہ خرچ ہوتا ہے وہ تبذیر ہےاور مبذّرین شیطان کے بھائی ہیں: ﴿ اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ ط ﴾ (سورۃ بنی اسراۗئيل : آیۃ ۲۷) اور اسراف کرنے والوں کے لیے اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ وَ لَا تُسْرِفُوْاط اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ ﴾ (سورۃ الانعام : آیۃ ۱۴۱) مسرف لوگوں کو اللہ محبوب نہیں رکھتا ۔امام راغب اصفہانیh نے مفردات القرآن میں لکھا ہے جو الفاظِ قرآن پاک کے معانی کی مشہور کتاب ہے اور اس کو علامہ آلوسیh نے روح المعانی میں نقل کیاکہ اسراف کے معنی: (( تَجَاوُزُ الْحَدِّ فِیْ کُلِّ فِعْلٍ یَّفْعَلُہُ الْاِنْسَانُ )) (روح المعانی: (رشیدیہ) ؛ ج ۲۴ ص ۳۶۷ ) یہ ہیں کہ اللہ نےجوحد مقرر کی ہیں،انسان اپنےکسی فعل میںان سے تجاوز کر جائے، آگے بڑھ جائے،اللہ کی حدود کو توڑ دے۔ حالانکہ اﷲکی حدود توڑنا تو دور کی بات ہے اللہ نے تو ان کے قریب بھی جانے سے منع فرما دیا ہے:﴿ تِلْکَ حُدُوْدُ اللہِ فَلَا تَقْرَبُوْہَا ط ﴾ (سورۃ البقرۃ :آیۃ: ۱۸۷) اللہ فرماتاہے کہ جو حدود میں نے مقرر کی ہیں ان کے قریب بھی نہ جاناکیونکہ ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے،ہم تمہارے مزاج کو جانتے ہیں، ہم نے تمہارے اندر یہ بات رکھی ہے کہ تم اگر منع کی ہوئی چیزوں کے قریب بھی گئے تو تمہارے اندرگناہوں کی طرف کھنچ جانے کامادّہ ہے لہٰذا جن چیزوں کو دیکھنے سے منع کر رہا ہوں ان سے فاصلہ پہ رہنا۔ ان سے کچھ فاصلے مفید رہے میرے ایامِ غم بھی عید رہے 25:38) اللہ کی منع کی ہوئی حدود کے قریب بھی نہ جائو ٍ اوراگر ان حسینوں سے نگاہ بچالوگے تو یہ مجاہدہ آسان ہوجائے گا، مجاہدے کے یہ دن آسانی سے کٹ جائیں گے،تجربہ یہی ہے کہ جو لوگ دور دور رہتے ہیں،نگاہ کو بچاتے ہیں،جسم کو بچاتے ہیں،ان کے یہ دن عید کی طرح مزیدار گذر جاتے ہیں۔ کتنی ہی عریانی وفحاشی ہو، دور رہنے سے مجاہدہ میں شدت نہیں ہوگی،ہلکا مجاہدہ ہوگا جس سے ایمان میں تقویت اور قوت آئے گی۔ ایسا مجاہدہ نہیں ہوگا کہ آپ مغلوب ہوجائیں،پاگل ہو جائیں،پریشان ہوجائیں۔ پریشانی تو جب ہوتی ہے جب پری بھی آجائے،پری آئی اور شانی ساتھ لائی۔ ایسے بھی ڈاکٹرہیں جو عورتوں کے علاج کے وقت پردہ کھینچ دیتے ہیں۔ میرے الٰہ آباد کے حکیم عثمانی صاحب جنہیں شفاء المُلک کا خطاب ملا تھا، وہ خواتین سے پردے کے پیچھے سے اپنا ہاتھ دے کر کہتے تھے کہ بی بی ! میرا ہاتھ تم خود اپنی نبض پر رکھ لو، اس کا ہاتھ بھی نہیں دیکھتے تھے، کیا تقویٰ تھا اور کیسی شفاء تھی۔ آج کل تو عورتوں کوپی اے رکھنے لگے ہیں،بے پئےہی پئے رہتے ہیں،یہ بالکل حرام ہے۔ نرسوں کو بھی دور رکھو، تھوڑی دنیا کافی ہے، اتنا ہی کمائو جس سے اللہ راضی رہے، اتنا کمانا جائز نہیں کہ نرسیںرکھ رکھ کر ان سے آنکھیں خراب کرو، مرد مَردوں کو دیکھیں اورعورتوں کو عورتیں دیکھیں۔ لہٰذا اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں لَاتَقْرَبُوْا گناہوں کے قریب بھی نہ جاؤ، جو لَاتَقْرَبُوْا رہتے ہیں،بھابھی سے،چچا زاد،ماموں زاد سے شرعی پردہ کے اہتمام کی وجہ سے دور رہتے ہیں،گناہوں کے اسباب سے قریب نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ہمیشہ متقی رہتے ہیں اور جنہوں نےاس لَاتَقْرَبُوْا کے لَا کو ہٹایااورتَقْرَبُوْا ہو گئے،میل جول شروع کر دیا،پھر ان کی آنکھیں،ان کا دل اور سب اعضاء خراب ہونا شروع ہو جاتےہیں۔ 27:45) بے ریش لڑکوں سے احتیاط کریں۔۔۔ 32:43) قُلْ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْاکی عاشقانہ تفسیر تو اللہ تعالیٰ نے اپنے مجرمین بندوں کو يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا سے خطاب فرمایا،جس کا ترجمہ علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے تفسیرروح المعانی میں اس طرح کیا ہے کہ: (( اَیُّھَا الْمُؤْمِنُوْنَ الْمُذْنِبُوْنَ )) (روح المعانی: (رشیدیہ) ؛ سورۃ الزمر آیۃ۵۳ ؛ ج ۲۴ ص ۳۶۷ ) اےمومنو جو گناہ کر چکے ہو!مومن بھی ہے گنہگار بھی ہے لیکن یہاں بھی یائے نسبتی لگادیا یعنی اےمیرے گنہگار بندو! جیسے اگر نالائق بیٹا ہے اور باپ کہہ دے کہ اے میرے نالائق بیٹے۔نالائق ہے مگر ہے تو میرا بیٹا۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ نے یہاں بھی اپنی نسبت لگا کر فرمایا اے میرے نالائق بندو۔اللہ اللہ! اس ادا پر کون نہ فدا ہوجائے کہ اُدھر اَسْرَفُوْا بھی فرمارہے ہیں، مجرم اور مذنِب بھی فرما رہے ہیںکہ تم نالائق ہولیکن اپنی نسبت سے ہمیں محروم نہیں فرمایا۔ يٰعِبَادِیْ میرے بندے، جیسے کہتے ہیں کِتَابِیْمیری کتاب، بَیْتِیْ میر اگھرتو عِبَادِيْ یعنی صرف نالائق بندو نہیں فرمایا بلکہ اےمیرے نالائق بندو فرمایا۔ 34:35) علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے تفسیر روح المعانی میں بیان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے یہ یائے نسبتی اپنے بندوں کے شرف اور عزت کے لئے لگائی ہے، اس یا کا نام رکھا ہے یائے تشریفیہ ۔ان سے اپنی نسبت ختم نہیں کی جیسے بادشاہ کہے کہ میرے نالائق بیٹے کو تلاش کرو تو عوام پر ہبیت طاری ہوجاتی ہے کہ نالائقی کے باوجود بادشاہ نے اپنے بیٹے کے ساتھ لفظ میرا لگایا ہوا ہے۔ تو اللہ نے بھی یائے نسبتی لگا کر اپنے گنہگار بندوں کی لاج رکھ لی۔ 36:04) علامہ آلوسیرحمہ اللہ فرماتے ہیإ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہونا،یہاں اللہ تعالیٰ نےیہ کیوں نہیں نازل کیا کہ اللہ کی مغفرت سےنا امید نہ ہونا؟رحمت کا لفظ کیوں نازل کیا؟ فرمایا کہ اگر رحمت کا لفظ نازل نہ ہوتا تو مغفرت کا حق نہ بنتا، اس لیے کہ قانون کی رو سے ہم لوگ مغفرت کے مستحق نہیں ہیں، اللہ کی شانِ رحمت سے اس قابل ہوں گے کہ وہ بخش دیں گےکیونکہ رحمت کے لئے مغفرت لازم ہے ، مغفرت جب ہی ہوگی جب اللہ کی رحمت ہوگی : (( لَا یُدْ خِلُ اَحَدًامِّنْکُمْ عَمَلُہُ الْجَنَّۃَ وَلَا یُجِیْرُہٗ مِنَ النَّارِ اِلَّا بِرَحْمَۃٍ مِّنَ اللہِ )) (صحیح مسلم : (قدیمی) ؛ باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ بل برحمۃ اللہ تعالٰی ؛ج ۲ ص ۳۷۷) مغفرت کا تصور بغیر اللہ کی رحمت کے ممکن ہی نہیں۔ ایک آدمی کی بخشش نہ ہو، دوزخ میں جل رہا ہے،کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس کے اوپرخدا کی رحمت ہے؟ لہٰذا رحمت نازل کر کےاس کے لئے مغفرت لازم کر دی یعنی یہ بھی ساتھ ساتھ بتا دیا کہ قانون سے مغفرت نہیں کر رہا ہوں ،قانون کی رو سے تو تم مجرم ہو،سزا کے لائق ہو مگر رحمت سے بخشش ہو رہی ہے۔ پہلے زمانہ میں معتزلہ نام کا ایک فرقہ گذرا ہے جو یہ کہتا تھا کہ بندوں کے معافی مانگنے کے بعد اﷲ پر ان کو معاف کردینا واجب ہوجاتاہے لیکن اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ایک آیت نازل فرمائی جس سے اس فرقہ کا رد ہوتا ہے،اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ ﴾ (سورۃ البقرۃ : آیۃ ۳۷) اﷲ نے اَلتَّوَّابُ کے بعد اَلرَّحِيْمُ نازل فرما کر فرقۂ معتزلہ کا رد کردیا کہ اللہ تمہاری توبہ کو جو قبول فرماتا ہے تو قانون کی رُو سے نہیں بلکہ اپنی شانِ رحمت کی وجہ سے تمہاری توبہ قبول فرماتا ہے۔ 38:40) لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِمیں شانِ کرم کا ظہور ہے آگے ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اﷲ تعالیٰ نے یہاں رحمت کی نسبت اپنے ذاتی نام کے ساتھ نازل کی، صفاتی نام کو نازل نہیں فرمایا،ننانوے ناموں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذاتی نام کیوں استعمال کیا؟اس پر مفسرین خدائے تعالیٰ کی طرف سے لکھتے ہیں کہ اے میرے گنہگار بندو !نالائق بندو! تم میری رحمت سے نا امید نہ ہو،یہاں اسم جلالۃ نازل کر رہا ہوں تاکہ تمام صفات اس میں شامل ہو جائیں کہ اگر ضرورت پڑے تو میں اپنی رحمت بھی شامل کروں،کرم بھی شامل کروں،حلم بھی شامل کروں، ستاریت، غفاریت، جتنے بھی نام ہیں جو بھی ضرورت ہوگی سب اللہ میں شامل ہیں۔جیسے کسی کا ابّا جج بھی ہو،ڈاکٹر بھی ہو ،وکیل بھی ہو،مالدار بھی ہو،اس کا بیٹا بیمار ہو گیا، مقدمہ میں بھی پھنس گیا، تنگدست بھی ہوگیا تو وہ ہر دفعہ ابّا کی صفات نہیں بتاتا، یہ نہیں کہتا کہ میرے مالدار ابّا میرا قرضہ ادا کر دو،میرے ڈاکٹر ابّا مجھے دوا دے دو،میرے جج ابّا مجھے مقدمہ میں جتا دینا۔بس اتناکہتا ہےاے میرے ابّا ! آپ ہمیں دوا بھی دیجئے، عدالت میں بھی ہمارا خیال رکھنا اور ابّا !میرے اوپر ذرا قرضہ ہو گیا ہے، جانتا ہے کہ ابّا سیٹھ بھی ہے ۔تو جو شخص اللہ کا نام لیتا ہے گویا وہ اللہ کی تمام صفاتی نعمتیں اپنے اوپر مبذول کرا لیتا ہے۔ سی لئے بزرگوں نے سکھایاکہ ایک تسبیح اللہ اللہ کی پڑھ لیا کریں۔ یا اللہ، یارحمن، یارحیم بھی پڑھاکریں، ان شاء اﷲ اس سے ساری مشکلات حل ہوجائیں گی اور اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔مدینہ منورہ میں میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کا ایک مرید جو گاڑی میںمیرے ساتھ بیٹھا تھا، وہ تھوڑی تھوڑی دیربعدکہتا تھا یا اللہ، یا رحمٰن، یا رحیم۔ سبحان اللہ! مزہ آجاتا تھا۔ میں نے کہا یہ تم کو کس نے سکھایا؟ اس نے بتایا کہ آپ کے اور میرے شیخ مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے سکھایا ہے اور حضرت ہردوئی دامت برکاتہم نے مولانا محمد احمد صاحب دامت برکاتہم سے سیکھا ہے۔ (سلسلہ مواعظ اختر نمبر: ۷۴ رحمت ِ ربّ العالمین) 45:06) یا اللہ، یا رحمٰن، یا رحیم ! پڑھنا چاہیے۔ 45:35) لطیفہ : جعلی پیر کا ذکر۔ 47:22) مرشد ثانی حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ! محبت بھرے واقعات۔ 55:01:23) حضرت نے اپنے گاؤں کے دلچسپ اور پرمزاح حالات بیان فرمائے۔ 01:07:27) اللہ تعالیٰ کی اپنے گنہگار بندوں کو تسلی آگےاﷲ تعالیٰ فرماتےہیں اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا بےشک اللہ تعالیٰ تمہارے تمام گناہوں کو معاف کر دے گا۔یہاں اِنَّ ہماری تسلی کے لئےلگایا،مالک ہو کراپنے کلام کے لئے اِنَّ لگا رہے ہیں جیسےابّاکہے بیٹا!یقین رکھو،شک نہ کرنا،ضرور دوں گا۔تواللہ جب بےشک لگائے تو اللہ کا بے شک کیسا ہوگا؟ ہمارے آپ کے بے شک میں تو شک بھی ہوسکتا ہے لیکن یہ تواللہ کا بے شک ہے۔ يَغْفِرُ الذُّ نُوْبَ فعل مضارع ہےجسمیں حال اور استقبا ل دونوں شامل ہیںیعنی اس وقت بھی معاف کر وں گا آئندہ بھی معاف کرتا رہوں گا،گھبرانا مت ،نا امید نہ ہونا اور اَلذُّنُوْبَ پر الف لام استغراق کا داخل کیا یعنی گناہوں کی تمام اقسام کو شامل کر دیا کہ کیسا ہی گناہ ہو معاف کر دوں گا، پھر اسی پر بس نہیں فرمایا بلکہ جَمِیْعًا بھی مزید تاکید کے لئے نازل فرمایا یعنی سب کے سب گناہ بخش دوں گا۔ (سلسلہ مواعظ اختر نمبر: ۷۴ رحمت ِ ربّ العالمین) 01:09:07) رحمۃ للعالمینﷺکی شانِ رحمت پر علمِ عظیم یہ آیت جب نازل ہوئی تو سرورِ عالم ﷺ نے ایک بات ارشاد فرمائی جس سے آپ کی شانِ رحمۃللعالمینیت ظاہر ہوتی ہے۔اس کے راوی حضرت ثوبان ؓ ہیں،مشہورصحا بی ہیں اور یہ وہ مبارک صحابی ہیں جن کونبیﷺ نے اپنے مال سے خریدا،یہ غلام تھے: پھر آپ ﷺنے آزاد فرمایا اور یہ سفر حضر میں ہمیشہ آپﷺکے ساتھ رہتے تھے، حضورﷺکے انتقال کے بعد شام چلے گئے ،پھر حمص میں رہے اور وہیں ان کی قبر ہے۔یہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی توسرور عالم ﷺ نے اعلان فرمایا کہ: (( مَآ اُحِبُّ اَنَّ لِیَ الدُّنْیَا بِھٰذِہِ الْاٰیَۃِ يٰعِبَادِيَ الَّذِيْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا۔الاٰیۃ )) (مشکٰوۃ المصابیح:(قدیمی)؛باب الاستغفار و التوبۃ ؛ ص ۲۰۶) اے لوگو مجھے یہ آیت اتنی پسندہے،اتنی پیاری ہےکہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پوری کائنات دے دیں،اس سے زیادہ مجھے یہ آیت محبوب ہے۔اگر اللہ تعالیٰ مجھے پوری کائنات دے دیں اور میں اس کو خدا کی راہ میں خرچ کردوں، اس سےمجھے کتنا ثواب ملے گا،اور دوسری شرح یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے ساری کائنات دے دیںاور میں اس کی تمام نعمتوں سے لذت اٹھالوں، اس سے بڑھ کر یہ آیت مجھے محبوب ہے۔ کیوں؟اس لئے کہ اس میں امت کی مغفرت کے سہارے ہیں۔واہ رے میرے رحمۃللعالمینﷺ ۔یہ ہے آپ کی شانِ رحمۃللعالمینیت ۔یہ بات میرے دل میں اللہ نے عطا فرمائی کہ یہ حضورﷺ کی شانِ رحمت کی کتنی بڑی دلیل ہے۔ 01:10:26) دعا کی پرچیاں پڑھ کر سنائی! اور دعا فرمائی۔ |