مجلس    ۲۳جنوری۳ ۲۰۲ء عشاء :اللہ کی رحمت کسی سند اور استعداد کی پابند  نہیں               !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:12) حسبِ معمول مظاہر حق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:13) مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔

جو حسیں کل تھے رونقِ گلشن لگ رہے ہیں وہ آج لگ رہے ہیں دشت و دمن

میں فدا قلب و جان سے اُن پر ہوں جن کی صحبت سے دل ہوا روشن

رب ہے کافی میری حفاظت کو لاکھ چاہے بُرا اگر دُشمن

کر حفاظت نظر کی اے ظالم کر نہ ویراں قلب کا گلشن

حسن فانی ہے گر نہ مانے تو حسن کو جا کے دیکھ درِ مدفن

یاد ان کی ہے چشم بھی ہے نم لب دریا ہے کوہ کا دامن

مری قسمت کا میر کیا کہنا ہاتھ میں گر نبی کا ہو دامن

راہ حق کا ہر ایک خار اخترؔ رشک ریحان و سنبل و سوسن

09:13) مولانا محمد کریم صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ اگر اﷲ والوں سے نہیں دل کی دوا پاتا بہت مشکل تھا اپنے نفس سرکش کو دبا پاتا خدا کی سر کشی سے خود کشی ہے مال و دولت میں کبھی اﷲ والوں سے نہیں ایسا سنا جاتا سکون دل اترتا ہے فلک سے اہل تقویٰ پر بدوں حکم خدا سائنس داں پھر کیسے پا جاتا اگر پیٹرول کے مانند ہوتا یہ سکونِ دل زمیں میں کرکے بورنگ اس کو ہر کافر بھی پاجاتا بتوں کے عشق سے دنیا میں ہر عاشق ہوا پاگل گناہوں سے سکون پاتا تو کیوں پاگل کہا جاتا بچو گندے عمل سے اَمردوں سے دور ہوجائو اگر یہ فعل اچھا تھا خدا پتھر نہ برساتا نہیں ممکن تھا ان کی راہ میں میرا قدم رکھنا اگر جذبِ کرم کی دل نہیں کوئی صدا پاتا میں تھک جاتا ہوں اپنی داستانِ درد سے اخترؔ مگر میں کیا کروں چپ بھی نہیں مجھ سے رہا جاتا

17:35) آپ ﷺ کا مزاح مبارک۔۔۔

31:44) جو آدمی نیا آئے اُس کا اکرام کرناچاہیے۔۔۔

33:38) آپﷺ کہ چہرہ مبارک پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی۔۔۔

35:08) ہنسی سے متعلق آپﷺ کے دوواقعات۔۔۔

37:45) اخلاق کبھی بُرے نہیں کرنے چاہیے۔۔۔ایک شخص کا واقعہ جس کو اولاد ستاتی ہے۔۔۔

39:39) شوہر کے حقوق۔۔۔

40:45) حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک شخص کو جواب جو اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہتا تھا۔۔۔

41:36) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فقروفاقہ۔۔۔

42:54) عالم بننا،اللہ والا بننا یہ کیسی بزنس ہے؟۔۔۔

44:28) خزائن معرفت ومحبت:گناہ کا ایک تعلق تو بندے کی ذات سے ہے کہ واقعی ہم اپنے عمل کے اعتبار سے کسی قرب خاص کے مستحق نہیں لیکن دوسرا تعلق اﷲ کی ذات سے ہے کہ وہ ہمارے گناہوں سے بھی عظیم ہیں ایک منٹ میں گناہوں کو دھوکر تاج خلافت پہناسکتے ہیں اس لحاظ سے ان کی رحمت سے ہرگز ہرگز کسی حال میں نا امید نہ ہونا چاہیے؎ اے عظیم از ما گناہان عظیم تو توانی عفو کردن در حریم یہ ہے معرفت۔ اصل میں ہم دنیا کے اور جسم کے معاملات پر ان کی رحمت کو قیاس کرتے ہیں اس وجہ سے ناامیدی ہوجاتی ہے جیسے دنیا میں کسی مریض کے پھیپھڑوں میں سوراخ ہوتا ہے اور ناقابل علاج ہوجاتا ہے تو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ یہ ناقابل علاج ہوگیا، اب اسے کسی علاج سے فائدہ نہ ہوگا کیونکہ اس میں اب استعداد صحت ختم ہوچکی ہے لیکن روح کے معاملات کو کبھی اس مثال پر قیاس نہ کرنا کیونکہ روح کا معاملہ اﷲ کے ساتھ ہے اور اﷲ تعالیٰ کی اُلوہیت کیا ہماری استعداد سے چھوٹی ہے یا ہماری استعداد کی پابند ہے یا اﷲ تعالیٰ مجبور ہیں کہ فلاں بندے نے کیونکہ گناہ کرکے خود کو تباہ کرلیا اس لیے نعوذ باﷲ اب ہم اس کو اپنا بنانے پر قادر نہیں لہٰذا سند اعمال صالحہ یعنی سند استعداد ولایت دکھائو تو ہم اپنا بنائیں گے۔

49:35) ارے خوب یاد رکھو کہ اﷲ کی رحمت کسی سند و استعداد کی پابند نہیں، جب وہ فضل فرماتے ہیں تو ایک منٹ میں بغیر سند و استعداد کے اپنا بنالیتے ہیں، بندہ جس قابل نہیں ہوتا اس قابل بنادیتے ہیں۔ وہ قابلیت کے پابند نہیں ہیں، نجاست پر جب ان کے آفتاب کرم کی شعاعیں پڑتی ہیں تو آفتاب کی گرمی سے اس کا ایک حصہ تو زمین میں جذب ہوجاتا ہے اور ایک حصہ خشک ہوجاتا ہے۔ اسی نجاست کے ذرات برسات میں کھاد ہوجاتے ہیں اور وہ حصۂ زمین سبزہ زار ہوجاتا ہے۔ اور خشک حصہ تنور میں جل کر نور بن جاتا ہے۔ بولئے نجاست میں کیا خوبی و استعداد تھی؟ ان کی رحمت نجاست کو سبزہ زار بنادیتی ہے نور بنادیتی ہے۔ سبزۂ و نور بننے سے پہلے اگر نجاست یوں کہے کہ میں تو کسی قابل نہیں کیونکہ میرے اندر تو سبزہ زار بننے کی صلاحیت ہی نہیں تو یہ اس کی حماقت اور معرفت کی کمی ہے۔ ارے تونے اپنی استعداد کو دیکھا اﷲ کی رحمت کو نہ دیکھا جو خالق قابلیت و استعداد ہے۔ تہجد کے وقت حضرت بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اﷲ علیہ کو الہام ہوا کہ دو ہزار میل کی دوری پر ایک ابدال کا انتقال ہورہا ہے جائو اس کی نماز جنازہ پڑھانی ہے اور فلاں عیسائی کو جو صلیب ڈالے ہوئے گرجا میں پوجا کررہا ہے کلمہ پڑھا کر کرسی ابدالیت پر بیٹھانا ہے۔ بولئے اس عیسائی میں کیا استعداد تھی، کفرو طغیان میں مبتلا تھا ابھی تو کوئی عمل بھی نہ کیا تھا اور درجہ ابدال کا عطا ہورہا ہے، اتنے شواہد ہیں کہ تاریخ بھری ہوئی ہے۔ حضرت فضیل ابن عیاض ڈاکہ ڈالتے تھے جوانی ڈاکہ زنی قتل و غارت میں گذاری اپنے آپ کو تباہ کرلیا تھا، بڑھاپے میں توبہ کی اور ہمارے سلسلے کے اتنے بڑے ولی اﷲ ہوئے کہ آج سلسلہ ان سے جاری ہوا۔ بولیے کیا کسی استعداد کی وجہ سے انہیں یہ قرب عطا ہوا۔ اﷲ کی رحمت پر نظر رکھو ان کی رحمت سے بڑے سے بڑے درجہ ولایت کی امید رکھو ان کا فضل کسی قاعدہ قانون کا پابند نہیں روتے رہو اور مانگتے رہو ان کا فضل جس کو چاہتا ہے مقام عالیہ عطا کرتا ہے وہ کسی کی استعداد و قابلیت کا پابند نہیں ان کے فضل سے امید رکھو کہ کس وقت نہ جانے کیا سے کیا بنادیں۔

55:52) ناجائز باتوں میں نفس کی مخالفت کرو۔۔۔

57:04) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries