مجلس۲ فروری۳ ۲۰۲ءفجر :تذکرۂ مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں میرے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ نے جن کو بارہ مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی تھی مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر! مجھے ایک مرتبہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس طرح زیارت نصیب ہوئی کہ میں نے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک آنکھوں کے لال لال ڈورے بھی دیکھے اور میں نے خواب میں پوچھا کہ یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کیا عبدالغنی نے آپ کو خوب دیکھ لیا؟ تو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں عبدالغنی آج تم نے اﷲ کے رسول کو خوب دیکھ لیا۔ میرے شیخ کو حکیم الامت حضرت تھانوی محبی و محبوبی شاہ عبدالغنی جیسے القاب لکھتے تھے یعنی جیسے القاب مرید اپنے پیر کو لکھتا ہے۔ تو اﷲتعالیٰ کا کرم ہے کہ ایسے پیر کے ساتھ اختر نے جنگل میں دس سال زندگی گذاری، لیکن قصبہ قریب تھا تقریباً دس منٹ کا راستہ تھا لیکن وہاں قصبہ کی کوئی آواز نہیں آتی تھی، بس میں تھا اور میرے شیخ کی آہ و فغاں تھی اور حضرت جب اﷲ کہتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ دونوں جہان کی نعمتیں برس رہی ہیں۔ اﷲ والوں کے پاس رہنے کا مزہ، اﷲ کے نام کا مزہ عام انسان کیا جانے۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ انسان کو یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے نام کا مزہ لو کیونکہ اﷲ والا بننے میں تو وقت لگتا ہے، لہٰذا اﷲ نے ہم پر احسان فرمایا کہ ولی اﷲ بننے میں تو وقت لگے گا لیکن اگر تم کسی ولی اﷲ کے پاس بیٹھو گے تو ان کے دل میں مولیٰ پاؤگے، میرے نام کی لذت پاؤگے، میگنٹ کا خالق ان کے دل میں ہے تو ان کے دل میں بھی میگنٹ ہوتی ہے، اسی وجہ سے اﷲ والوں کے پاس بیٹھنے والے آہستہ آہستہ اﷲوالے بن جاتے ہیں۔ کیا کہوں میرے شیخ ایک جملہ فرماتے تھے۔ آہ! اپنے پیر کی بات نقل کرتا ہوں تو دل رونے لگتا ہے، آج تو وہ زمین کے نیچے ہیں لیکن جب زندہ تھے تو میں یہی سمجھتا تھا کہ جب میرے شیخ کا انتقال ہوگا تو شدّتِ غم سے میں بھی مرجاؤں گا لیکن ا ﷲ کی شان ہے کہ میں زندہ ہوں۔ تو حضرت فرماتے تھے کہ اختر اﷲ کا راستہ مشکل ہے، نفس کا مقابلہ کرنا یعنی گناہ چھوڑنا مشکل ہے لیکن اگر کسی اﷲ والے کا ساتھ ہے تو اﷲ تعالیٰ کا راستہ صرف آسان ہی نہیں مزے دار بھی ہوجاتا ہے۔ 08:35) ہر بات میں فی نکالنا اس سے پھر انسان آہستہ آہستہ دور ہوتا چلا جاتا ہے۔۔ 13:09) تذکرۂ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ میرے مرشد اوّل حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ کے درمیان بڑے اچھے تعلقات تھے، جب ملاقات ہوتی تھی تو حضرت معانقے کے وقت یہ فرماتے تھے کہ میرا محبوب آیا ہے۔ ایک دفعہ جلسے میں مفتی صاحب نے تقریر شروع کی اور حضرت مفتی صاحب نے کتابوں کے ایک بہت بڑے بنڈل سے جس میں کم سے کم دو سو کتابیں اور رسالے تھے پڑھ پڑھ کے سنایا یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی، کیا بلا کی طاقت تھی، عام آدمی تو گھنٹہ دو گھنٹے میں تھک جاتا ہے، اﷲ نے ان حضرات کو بڑی ہمت دی تھی مگر پھر پورے اعظم گڑھ سے مودودیت ختم ہوگئی۔ 14:15) حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی خوش طبعی اور حاضر جوابی ایک شخص نے مفتی صاحب سے فتویٰ طلب کیا کہ کیا عورت صدارت کی اہلیت رکھتی ہے کہ اس کو ملک کا صدر بنایا جائے؟ تو حضرت مفتی محمود حسن رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ عورت میں صدارت کی تو اہلیت نہیں ہے مگر کسی کی اہلیہ بننے کی صلاحیت ہے۔ 15:04) ایک اور واقعہ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کی خوش طبعی اور حاضر جوابی:۔ مفتی صاحب نے اس سے پوچھا آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے؟ اس نے کہا کہ میرا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، پھر اس نے مفتی صاحب سے پوچھا کہ آپ کا تعلق کس جماعت سے ہے؟ مفتی صاحب نے فرمایا کہ میرا تعلق اسلامی جماعت سے ہے، اس نے پوچھا کہ دونوں میں کیا فرق ہے؟ فرمایا جماعتِ اسلامی میں جماعت غالب ہے اور اسلامی جماعت میں اسلام غالب ہے۔ حضرت مفتی صاحب نے ایک مرتبہ مکہ شریف میں ایک شعر سنایا ؎ وارفتۂ اُلفت کو اُلٹا نظر آتا ہے مجنوں نظر آتی ہے لیلیٰ نظر آتا ہے آپ لوگوں کو تو کتابیں پڑھ کر یہ واقعہ معلوم ہوا ہوگا مگر میرا تو سب براہِ راست سنا ہوا ہے، ایک روایت موقوف ہوتی ہے اور ایک مرفوع ہوتی ہے، میری مرفوع روایات کا تعلق براہ ِراست حضرت مفتی صاحب سے ہے۔ ایک شعر اور سنایا تھا ؎ پہلے اس نے مُس کہا پھر تَق کہا پھر بِل کہا اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کردئیے 16:22) تو حضرت مفتی صاحب ایسے خوش طبع تھے۔ 16:34) ایک شخص نے کہا کہ کیا آپ دیوبندی ہیں؟ مفتی صاحب نے کہا کہ کیا آپ رضائی ہیں یعنی احمد رضا والے ہیں؟ اس نے کہا کہ رضائی کے کیا معنیٰ ہیں؟ میں احمد رضا کا ماننے والا ہوں، رضائی سے میرا کیا نقصان ہے؟ مفتی صاحب نے کہا کہ بہت نقصان ہے، جب بچے رضائی اوڑھتے ہیں تو اس میں پیشاب کرتے ہیں اور جب بالغ اوڑھتے ہیں تو ا س میں احتلام کرتے ہیں تو فرمایا کہ وہ شخص اگلے اسٹیشن پر اتر کر بھاگ گیا۔ روایت در روایت کا مزہ اور ہے اور روایت بالروایت کا مزہ اور ہے۔ 17:01) ایک دفعہ فرمایا کہ ایک ہندو نے مجھ سے پوچھا کہ سور میں اور بکری میں کیا فرق ہے؟ شکل تو دونوں کی ایک جیسی ہے پھر کیوں سور حرام ہے اور بکری کیوں حلال ہے؟ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے یہ جواب دیا کہ اگر تمہاری ماں کی شکل میر ی بیوی کی شکل سے مشابہ ہو تو کیا تمہاری ماں میرے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ وہ میرے پاس سے رام رام کہتا ہوا بھاگا۔ 17:42) جب میں حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں کانپور جایا کرتا تھا تو وہ مجھے جلیبی کا ناشتہ کراتے تھے، اتنی شفقت و محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب جامع العلوم سے بیت العلوم تشریف لائے تو مزاحًا فرمایا کہ آپ کے شیخ شاہ عبدالغنی رحمۃ اﷲ علیہ پہلے میرے مدرسے کے طالب علم تھے۔ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کا کانپور کے جس محلے میں قیام ہوتا تھا حضرت مفتی محمود حسن صاحب رحمۃ اﷲ علیہ تقریباً روزانہ وہاں تشریف لاتے، یہی ان کی بزرگی کی علامت ہے کہ اﷲ والوں کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ سے بڑی محبت کرتے تھے۔ 19:11) ایک دن مفتی صاحب نے حضرت پھولپوری کو دیکھاکہ غمگین ہیں تو حضرت کو ایک مضمون سناکر ہنسا دیا کہ حضرت! یہاں کانپور میں اگر کوئی کسی کو کہے کہ اومرغی کا یا اے مرغی والے تو یہ گالی سمجھی جاتی ہے۔ تو ایک آدمی مرغی لے جارہا تھا کسی نے کہا او مرغی والے مرغی بیچے گا؟ وہ سمجھ گیا کہ اس نے مجھے مرغی والا کہہ کر گالی دی ہے، اس نے جواب دیا کہ میں مالک سے پوچھوں گا کہ ایک مرغی کا …اور خریدار ہے، کس قیمت سے اس کو دوں، اس نے مرغی کاکہہ کر وقف کیا، سارا مجمع ہنس پڑا۔ یہ وہ باتیں ہیں جو میں نے پڑھی نہیں ہیں، مفتی صاحب کی زبان تھی اورمیرے کان تھے، یہ روایات بہت اہم ہوتی ہیں۔ ایک شخص نے حضرت مفتی صاحب سے کہا کہ علامہ شامی نے لکھا ہے کہ لَا بَأْسَ اَنْ یَّأْکُلَ مَکْشُوْفَ الرَّأْسِ اگر کوئی ننگے سر کھانا کھا ئے تو کوئی حرج نہیں ہے تو حضرت نے فرمایا کہ جب علامہ شامی نے لَا بَأْسَ لکھا ہے تو تو کیوں اس میں بانس ڈالتا ہے؟ مفتی صاحب کی طبیعت میں مزاح بہت تھا۔ ہمارے یہاں عرف میں بلاوجہ ننگے سرکھانے کو معیوب سمجھا جاتا ہے، علامہ شامی کا زمانہ دوڈھائی سو سال پہلے کا تھا اور عرف ہی قاضی بنتا ہے۔ 21:32) اور ایک بات تو سنائی نہیں۔ ایک شخص نے حضرت مفتی صاحب سے کہا کہ شیطان ہر جگہ پہنچ کر وسوسہ ڈالتا ہے تو ہمارے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہر جگہ حاضر ناظر کیوں نہیں ہوسکتے تو مفتی صاحب نے فرمایا کہ دیکھو چھچھوندر ایک انچ کے قطر میں گھس جاتی ہے اور تمہارے ابا اس میں نہیں گھس سکتے تو کیا چھچھوندر تمہارے باپ سے افضل ہوجائے گی؟ شیطان کمبخت کے ہر جگہ پہنچنے سے وہ افضل تھوڑی ہوجاتا ہے۔ عجیب وغریب ذہانت کی بات ہے۔ ایک جلسے میں حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃاﷲ علیہ کا بدعتیوں سے مناظرہ ہورہا تھا، ایک بدعتی نے کہا کہ تم میں او رسور میں کیا فرق ہے؟ وہ اسٹیج سے اُترے اور اپنے ہاتھ سے بدعتیوں اور دیوبندیوں کے اسٹیج کا فاصلہ ناپا پھر جاکر واپس کھڑے ہوئے اور کہا کہ مجھ میں اور سور میں پندرہ ہاتھ کا فرق ہے۔ یہ باتیں ممکن ہے کتابوں میں آجائیں مگر ہم نے براہِ راست شیخ سے یہ بات سنی ہے۔ حضرت کی زبانِ مبارک سے میرے کانوں نے سنا ہے اور روایتِ مرفوع کا درجہ اہم ہوتا ہے، کتاب میں وہ بات نہیں ہوتی۔ حضرت مفتی صاحب کو بخاری شریف کے ورق کے ورق زبانی یاد تھے۔ تقریر میں ایک جوش وخروش تھا، تیز رفتاری سے تقریر کرتے تھے مگر علوم بڑے تھے، حضرت مفتی صاحب میرے شیخ کے پاس جامع العلوم محلہ پٹکاپور سے تشریف لاتے تھے۔ 23:44) حضرت والا کے لئے حضرت مفتی محمود حسن گنگوہیؒ کے ارشاداتِ مبارکہ جب میں سولہ سال کے بعد ہردوئی گیا تو جو سولہ سال کے لڑکے تھے وہ بتیس سال کے ہوگئے اور جن سے امرد ہونے کی وجہ سے میں اپنی نظر بچاتا تھا ان لوگوں نے میرے کان میں کہا کہ میری بیٹیاں جوان ہیں ان کے لیے دعا کیجئے کہ ان کو اچھا رشتہ مل جائے۔ تو اس وقت میں نے ایک شعر کہا کہ ؎ سولہ برس کے بعد جو آیا میں ہند میں کچھ حسن کے آثارِ قدیمہ نظر آئے 24:59) میرے وہاں پہنچنے کی اطلاع جب حضرت مفتی صاحب کو ہوئی تو حالانکہ حضرت مفتی صاحب کی آنکھوں کا کلکتے میں آپریشن ہوا تھا اور ڈاکٹروں نے سفر سے منع کیا تھا مگر حضرت پھر بھی تشریف لے آئے اور میرے لئے فرمایا کہ یہ میرا خاص دوست ہے۔ یہ بھی بزرگوں کا کرم ہے کہ غلاموں اور خادموں کو دوست فرمایا کہ سولہ سال کے بعد آیا ہے چاہے کچھ بھی ہو میں ضرور ملنے جاؤں گا تو کلکتے سے حضرت تشریف لائے حالانکہ آنکھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی ۔ میں نے کہا کہ حضرت نے اختر پر شفقت فرمائی تو فرمایا کہ تم اختر نہیں ہو، اختر تو ستارہ ہوتا ہے، تم تو شمس ہو۔ میں حضرت مفتی صاحب کی اس بات کو نیک فال سمجھتا ہوں کہ اتنے بڑے عالم بزرگ نے فرمایا کہ تم ستارے نہیں ہو آفتاب ہوچکے ہو، تم اختر نہیں ہو شمس ہو۔ 25:56) اس وقت مشایخ علماء کا اجتماع تھا۔ حضرت والا ہردوئی نے فرمایا کہ آج بیان اختر کا ہوگا، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ بھی تھے اور حضرت مفتی صاحب رحمۃا ﷲ علیہ بھی تھے۔ میں نے حضرت مفتی صاحب سے عرض کیا کہ حضرت آپ کے سامنے میری ہمت بیان کی نہیں ہے، میں ڈر رہا ہوں، آپ اپنے کمرے میں آرام فرمائیے تاکہ میں بیان کر سکوں، مفتی صاحب نے فرمایا کہ اچھا تم اپنے بیان سے مجھے محروم کرنا چاہتے ہو، میں نہیں جاؤں گا تم کو بیان کرنا پڑے گا۔ 26:03) حضرت والا کےلئے مولانا شاہ محمد احمد صاحبؒ کا ارشادِ مبارک اﷲ کا کرم ہے، مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے بعد میں فرمایا کہ اﷲ کسی کو دل دیتا ہے تو اس کے پاس زبانِ ترجمانِ دل نہیں ہوتی، کسی کو زبان دیتا ہے تو ا س کے پاس دل نہیں ہوتا اختر تجھ کو مبارک ہو کہ اﷲ نے تجھے دل بھی دیا اور زبانِ ترجمانِ دردِ دل بھی دی، اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں۔ |