فجر مجلس۲۷ مارچ ۳ ۲۰۲ء :نیک صحبت کا اثر ہوتا ہے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 04:21) روز انسان کو ترقی ہوتی رہتی ہے لیکن پتا نہیں چلتا۔۔۔ 04:22) بس گنا ہ نہ کرے تو آدمی اللہ والا ہےفرض واجب اور سنت مؤکدہ تو اپنی جگہ ہیں ہی لیکن ساتھ ساتھ گناہوں سے بچیں اور جو بھی ڈگری لیں منع نہیں۔۔۔ 04:42) نیک صحبت کا اثر ہوتا ہے۔۔۔ نیک مجالس کی فضیلت سے متعلق حدیث شریف۔۔۔ھم القوم لایشقی بہم جلیسہم۔ 08:59) مومن کی وردی کیا ہے؟۔۔۔ 11:23) بدنظری کا مرض بہت خطرناک ہے۔۔۔ 15:09) یہود ونصاری ٰکی نقل کرنا۔۔۔حدیث پا ک کہ جو جس قوم کی نقل کرے گا اس کے ساتھ اس کا معاملہ ہوگا۔۔۔ 16:54) والدین کی خدمت کرنا ۔۔۔ 17:46) رسول اللہ ﷺ کی نظر میں دنیا کی حقیقت:حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ البتہ ان لوگوں کی تقلید و پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں بالشت برابر بالشت اور ہاتھ برابر ہاتھ (یعنی ان کی پوری متابعت کرو گے) یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے سوراخ میں بیٹھے ہوں گے تو تم اس میں بھی ان کی اتباع کرو گے ۔حالانکہ وہ سوراخ بہت تنگ ہوتا ہے۔صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! (کیا آپ کی مراد ) یہودی و نصارٰی سے ہے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا (وہ نہیں تو پھر )اور کون۔ 19:58) حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت اس وقت تک نہ آئے گی جب تک کہ دنیا میں سب سے زیادہ نصیبہ ور (دولتمند اورجاہ و منصب والا ) وہ شخص نہ بن جائے گا جو لئیم اور احمق ہے اور احمق کا بیٹا (یعنی بد اصل اور بدسیرت اشخاص دنیاوی جاہ اور دولت کے مالک ہو جائیں گے) 21:31) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمھارے امراء تمھارے بہتر لوگ ہوں اور دولت مند تمہارے سخی ہوں اور تمہارے امور باہمی مشورہ سے طے پائیں اس وقت زمین کی پشت تمہارے لیے زمین کے پیٹ سے بہتر ہو گی (یعنی زندگی موت سے بہتر ہو گی اس لیے کہ تم کتاب و سنت کے مطابق عمل کرو گے اور نیک اعمال کے ساتھ درازی عمر نعمت ہے)اور جبکہ تمہارے امراء تمہارے شریر و بدکار لوگ ہوں اور تمہارے دولت مند تمہارے بخیل ہوں اور تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے ہاتھ میں ہوں اس وقت تمہارے لیے زمین کا پیٹ زمین کی پشت سے بہتر ہو گا (یعنی تمہاری موت تمہاری زندگی سے بہتر ہو گی) 22:24) حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کفر وضلالت کے گروہ قریب ہیں کہ ان کے بعض آدمی بعض کو تم سے لڑنے اور تمہاری شان و شوکت کو مٹانے کے لیے بلائیں گے جس طرح کہ ایک کھانا کھانے والی جماعت جمع ہوتی ہے اور اس کے بعض بعض کو کھانے کی طرف بلاتے ہیں ۔یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا کیا وہ لوگ اس لیے ہم پر غالبہ حاصل کر لیں گے کہ ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے ۔آپ ﷺ نے فرمایا تم اس زمانے میں بڑی تعداد میں ہو گے لیکن ایسے جیسے نالوں کے کنارے پانی کے جھاگ ہوتے ہیں یعنی تم میں قوت و شجاعت نہ ہو گی اس لیے نہایت ضعیف و کمزور ہو گے تمہارا رعب اور تمہاری ہیبت دشمنوں کے دل سے نکل جائے گی اور تمہارے دلوں میں ضعف و سستی پیدا ہو جائے گی ۔کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ ! دھن (ضعف و سستی پیدا ہو جائے گی؟(یعنی اس کے پیدا ہونے کا سبب کیا ہے؟)فرمایا دنیا کی محبت اورموت سے بےزاری اور نفرت ۔ 23:34) حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ جس قوم میں مال غنیمت کے اندر خیانت کرنے کا عیب پیدا ہو جائے اللہ تعالیٰ ان کے دلوں میں دشمنوں کا رعب اور خوف پیدا کردیتاہے اور جس قوم ناپنے تولنے میں کمی کرتی ہے (یعنی کم ناپتی اور کم تولتی ہے)اس کا رزق اٹھا لیا جاتا ہے ۔(یعنی حلال یا رزق کی برکت اٹھالی جاتی ہے )اور جو قوم ناحق حکم کرتی ہے (یعنی اس کے امراء احکام نافذ کرنے میں عدل و انصاف کو ملحوظ نہیں رکھتے اور ناحق احکام جاری کرتے ہیں )اس میں خونریزی پھیل جاتی ہے اور جو قوم اپنے عہد کو توڑتی ہے اس پر دشمن کو مسلط کر دیا جاتاہے۔ 26:06) داڑھی منڈانا حرام ہے۔۔۔ابھی رمضان المبارک میں دل نرم ہیں اس لیے آج سے ہی داڑھی کا ارادہ کرلیں ۔۔۔ 28:45) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی وانذرعشیرتک الاقربین اےنبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ! آپ ڈرائیے اپنے کنبہ کے لوگوں کو جو بہت قریب کے ہیں )تو نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا ۔جب وہ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطاب میں تعمیم کی اور تخصیص بھی (یعنی ان کے جد بعید کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ سب کو عام و شامل ہو جائے اور ان کےجد قریب کا نام لے کر بھی مخاطب کیا تاکہ بعض کے ساتھ مخصوص ہو جائے)چناچہ آپ نے فرمایا اے کعب بن لوی کی اولاد !اپنی جانوں کی دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد شمس کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبد مناف کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے ہاشم کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو ۔اے عبدالمطلب کی اولاد ! اپنی جانوں کو دوزخ کی آگ سے بچائو۔اے فاطمہ اپنی جان کو آگ سے بچا۔اس لیے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا مالک نہیں ہوں (یعنی میں کسی کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا )البتہ مجھ پر تمہارا قرابت کا حق ہے جس کو میں قرابت کی تری سے تر کرتا ہوں ۔ اور بخاری و مسلم کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا اے قریش کی جماعت ! اپنی جانوں کو خریدلو (یعنی ایمان لاکر اور طاعت و فرماں برداری کر کے دوزخ کی آگ سے اپنے آپ کو بچالو )میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب میں سے کچھ بھی دور نہیں کر سکتا اور اے عبد مناف کی اولاد! میں تم سے اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔اے عباس ابن عبدالمطلب ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دفع نہیں بچا سکتا ۔اور اے رسول اللہ کی پھوپھی صفیہ! میں تم کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔اور اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ! میرے مال میں سے جو کچھ تو چاہے مانگ لے لیکن میں تجھ کو اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچا سکتا ۔ 31:24) تشریح:اس حدیث سے امت کو یہ سبق ملتا ہے کہ جب سید الانبیاءصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور آپ کی پھوپھی حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو محنت کی طرف متوجہ کیا گیا تو آج کس احمق و نادان کا منہ کہ پیروں یا اولیاء کی سفارش پر یا خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شفاعت کے بھروسہ پر یا حق تعالیٰ شانہ کی رحمت کے بھروسے پر گناہوں اور سرکشی پرجری اور گستاخی ہو اور نیک اعمال سے بے پروا ہو ۔خود سید الانبیاء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم جو حق تعالیٰ شانہ کے لاڈلے اورمحبوب رسول ہیں اور ایسے محبوب ہیں جو آپ کے نقش قدم کی اتباع کرے وہ بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب ہو جاوے کس قدر عبادت فرماتے تھے کہ طولِ قیام سے پائوں مبارک میں ورم آجاتا تھا ،تعجب ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی شان رحمت پر بھروسہ کا پر فریب دعویٰ کرکے نیک اعمال سے کاہل اورگناہوں میں چست و چالاک بنے ہیں یہی لوگ حق تعالیٰ کی دوسری صفت رزّاقیت پر بھروسہ کرکے گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ روزی کے لیے مارے مارے سرگرداں و پر یشاں در بدر چکّر کاٹتے ہیں اور کس کس خاک آستاں کو بوسہ دیتے ہیں اور آخرت کے معاملہ میں اپنی غفلت اور کاہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے توکّل کا سہارالیتے ہیں یہ کیسا توکّل ہے کہ ایک صفت پر توکل ہو اور دوسری صفت پر توکل نہ ہو تو یہ توکل تو اپنے مطلب کاتوکل ہوا؎ مصطفٰے فرمودہ با واز بلند بر توکّل زانوئے اشتربہ بند حضرت مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ کو رسی سے باندھ دو پھر توکل اللہ تعالیٰ پر کرو رسی پر توکل نہ کرو۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تدبیر کو چھوڑ توکل نہیں بلکہ تدبیر کرکے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا اور تدبیر پر بھروسہ نہ کرنے کا نام اصل توکل اور صحیح توکل ہے۔پس آخرت کے لیے بھی اعمال صالحہ اختیار کرے اور گناہوں سے بچنے کی تکالیف کو برداشت کرے اور پھر مغفرت کے لیے اپنے ان اعمال پر بھروسہ نہ کرے بلکہ حق تعالیٰ کی رحمت پر بھروسہ کرے۔ حق تعالیٰ شانہ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اُوْلئِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللہِ ط (سورۃ البقرۃ پارہ ۲،آیت ۲۱۸)یہ وہ لوگ ہیں جواللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار ہیں اس کلام ربّانی سے بھی معلوم ہوتا ہےایمان اور اعمال صالحہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے امید پیدا ہوتی ہے اور نافرمانی پر اصرار اور توبہ نہ کرنے سے اس امیداور نورِ ایمان میں کمزوری پیداہوتی ہے۔ 37:08) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے سب سے پہلے اسلام میں جس چیز کو الٹایا جاوے گا جس طرح بھرے برتن کو الٹ دیا جاتا ہے وہ شراب ہو گی ۔پوچھا گیا یا رسول اللہ ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم! یہ کیونکہ ہو گا ؟ حالانکہ شراب کی حرمت اللہ تعالیٰ نے خوب واضح کر کے بیان فرمادی ہے ۔فرمایا اس طرح ہو کہ شراب کا دوسرا نام رکھ لیں گے اور اس طرح اس کو حلال قرار دیں گے۔ تشریح:جیسا کہ آج کل شراب کا نام جام صحت رکھا ہو اہے امت مسلمہ کو حق تعالیٰ شانہ اپنی رحمت سے ہدایت فرمائیں۔آمین! 39:48) دُعا کی پرچیاں۔۔۔بچوں کو نظر لگ جاتی ہے نظر اُتارنی چاہیے اور روزانہ صبح وشام تین تین مرتبہ تینوں قل پڑھ کر دَم کرنا چاہیے۔۔۔ 42:43) رمضان المبارک میں اللہ والا بننا صرف آسان نہیں بلکہ مزیدار ہو جاتاہے۔۔۔ 44:38) اپنی اِصلاح کی فکر کریں۔۔۔ 46:36) نیک بننے سے دُنیا چھوٹتی نہیں بلکہ کتے کی دُم کی طرح پیچھے پیچھے آتی ہے۔۔۔ |