تراویح مجلس۲۷       مارچ ۳ ۲۰۲ء     :غیر اللہ سے دل لگانے کا خوف ناک انجام             !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

04:02) بدعت کیا ہے دین میں نئی باتوں کو ایجاد کردیا۔۔

06:43) زانی کے ایسے ایسے عذاب ہیں ہوش ہی نہیں۔۔

13:38) عطر کی خوشبو کیسی ہوتی ہے اور دوسروں کو بھی مست کرتی ہے تو اللہ تعالی کے نام کی خوشبو کیسے مست نہیں کرے گی اللہ اللہ کیسا پیارا نام ہے عاشقوں کا مینا اور جام ہے

16:51) برصیصا کا انجام کیا ہوا کتنا عبادت گذار تھا بس ایک نظرنے کام خراب کردیا۔۔

17:17) رمضان المبارک مجالس مارچ 2023 بعد تروایح مجلس تاریخ:27.03.23 عنوان:غیراللہ سے دل لگانے کا خوف ناک انجام بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم مقام:مسجدِاختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک12کراچی وستو! بڑا درد ناک واقعہ سناتا ہوں۔ علامہ ابن قیم جوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک عاشق تھا، چھپ چھپ کر اپنے معشوق سے ملا کرتا تھا۔

19:51) {اِذَا صَلُحَتْ صَلُحَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ کُلُّہٗ} جب دل صحیح ہوتا ہے تو پورا جسم صحیح ہوتا ہے اور اس سے نیک اعمال صادر ہوتے ہیں اور جب دل خراب ہوت اہے پورا جسم خراب ہوجاتا ہے اور اس سے گناہ صادر ہونے لگتے ہیں لہٰذا اگر قلب کو پاکی نصیب ہو اور قالب کو اللہ تعالیٰ کی حفاظت نصیب ہو تو کام بن گیا اور ہم تقویٰ پاجائیں گے مگر قلب کو حفاظت صرف دعا سے نصیب نہیں ہوگی۔

21:05) آخر جب اس کو موت آنے لگی تو اس کے دوستوں نے کہا کہ اب کلمہ پڑھ لو تو کلمہ کے بجائے وہ یہ شعر پڑھتا ہے رضاک اشھٰی الیٰ فوا دی من رحمۃ الخالق الجلیل اے معشوق تیرا خوش ہوجانا مجھے خالق جلیل کی رحمت سے زیادہ محبوب ہے۔ نعوذ باللہ۔ کفر پر خاتمہ ہوا۔ تو دوستو! ایسا نہ ہو کہ چھپ چھپ کر یہ حرکت موت کے وقت ظاہر ہوجائے نعوذ باللہ اور سوء خاتمہ کے ساتھ جہنم میں ہمیشہ کے لیے داخلہ ہو، اللہ پناہ میں رکھے۔ اس لیے ہم سب جلدازجلد دل سے غیراللہ کو نکال دیں۔

21:27) بچوں کو کارٹون اور ویڈٰیو گیم دیا ہوا ہے اور پھر کیا بربادی ہوتی ہے۔۔

22:56) حضرت عبداللہ اندلسی رحمہ اللہ کا کیا بنا۔۔۔؟کسی عیسائی کو حقیر سمجھا اور ایک بدنظری کرلی۔۔۔

24:54) حضرت جنید بغداد ی رحمہ اللہ کا جذب محبت کی بازی وہ بازی ہے دانش کہ خود ہار جانے کا جی چاہتا ہے

27:03) انتہائی عبرت انگیز واقعہ حضرت شبلی قدس سرہ نے بیان فرمایا۔ ان کے شیخ اندلسی رحمہ اللہ اپنے زمانے کے بڑے عارف ، زاہد و عابد اور امام حدیث تھے ،مگر دوسروں کے لیے حقارت کے جذبہ اور اپنی بڑائی پر ان کو کیسی سخت تنبیہ ہوئی۔ حضرت شبلیؒ کے مرشد حضرت عبد اللہ اندلسیؒ، حافظ قرآن و الحدیث تھے۔ لاکھوں سالکین (تصوف میں وہ شخص جو خدا کا قرب بھی چاہے اور عقل معاش بھی رکھتا ہو) ان سے وابستہ تھے اور سینکڑوں خانقاہیں ان کے دم قدم سے آباد تھیں۔ ہر طرف ذکر الٰہی کی رونقیں تھیں۔ آپ ایک دفعہ جماعت کے ہمراہ عیسائیوں کی بستی سے گزر رہے تھے کہ کسی لڑکی پر نظر پڑی تو باطنی نعمت چھپ گئی۔ شیخ نے سالکین کو واپس رخصت کیا اور اس لڑکی کے والد سے نکاح کا مطالبہ کیا، اس نے کہا کہ آپ ناواقف ہیں۔ ہاں ایک صورت یہ ہے کہ آپ سال دو سال یہاں رہ کر ہمارے سور چرائیں (عیسائی سور پالتے اور ان کے پاس ریوڑ ہوتے ہیں) تو بات آگے بڑھے گی۔ شیخ تیار ہوگئے۔ صبح سویرے سوروں (خنزیر) کا ریوڑ چرانے کا نکل جاتے اور رات گئے واپس لوٹتے، ایک سال اس طرح گزر گیا۔

27:47) اچانک نظر کا مطلب۔۔ رَس بھری آنکھ تھی زلف کالی ملی ہاں بلا بھی مگر اس سے کالی ملی ہاں مگر اہلِ دل ایسے خوش بخت ہیں جن سے اخترؔ مجھے راہِ مولیٰ ملی

33:01) آج ہر وقت کا نعرہ کہ مرد اور عورت برابر برابر ۔۔

38:49) حضرت شیخ شبلیؒ کے دل میں اپنے شیخ و مرشد کی سچی محبت جاگزین تھی۔ وہ جانتے تھے کہ شیخ کامل ہیں، مگر کسی سخت آزمائش سے گزر رہے ہیں۔ ایک سال کے بعد حضرت شبلیؒ اپنے شیخ و مرشد کے ملنے اسی بستی پہنچے۔ دیکھا شیخ وہی خطبہ جمعہ پڑھانے والا جبہ پہنے ہوئے، عمامہ باندھے، وہی عصا ہاتھ میں لئے کھڑے ہیں اور سوروں کے ریوڑ کی نگرانی کر رہے ہیں۔ حضرت شبلیؒ قریب آئے۔ خیریت دریافت کی۔ بعد میں پوچھا حضرت آپ کو قرآن پاک اب بھی یاد ہے؟ شیخ نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بتایا، بس فقط ایک آیت یاد ہے۔ وہ آیت یہ ہے۔ ترجمہ: اور جس کو اللہ ذلیل کرے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں پھر پوچھا کہ حضرت احادیث مبارکہ یاد ہیں۔ (چونکہ آپ حافظ قرآن کے ساتھ حافظ حدیث بھی تھے) فرمایا بس ایک حدیث یاد ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔ من بدل دینہ فاقتلوہ۔ ترجمہ: جو اپنا دین بدلے اس کو قتل کرو۔ یہ کہنے کے بعد شیخ زار و قطار رونے لگے اور آسمان کے طرف دیکھ کر کہا، یا اللہ! میں آپ سے ایسا گمان تو نہیں رکھتا تھا۔ ضرت شیخ شبلیؒ بھی اپنے شیخ و مرشد کی یہ حالت دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر روئے۔ کافی دیر کے بعد حضرت شبلیؒ واپس وطن چل پڑے۔ راستے میں ایک دریا کے کنارے پر پہنچے تو کیا دیکھا کہ حضرت عبد اللہ اندلسیؒ تر و تازہ، مسکراتے چہرہ، طبیعت میں بشاشت خوش بخوش سامنے ظاہر ہوئے۔ حضرت شبلیؒ نے جب آپ کو دیکھا تو خوشی کی انتہا نہ رہی۔ حق تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ پھر بڑے ادب سے فرمایا کہ جس وقت ان سالکین اور بزرگ لوگوں کی جماعت کے ہمراہ عیسائیوں کی بستی سے گزر رہا تھا۔ تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ، یہ عیسائی کیسے بیوقوف ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ کو خدا کا بیٹا بنا لیا۔ فوراً گرفت ہوئی۔ ایک آواز آئی، اگر تم اسلام پر ہو تو یہ تمہارا کمال نہیں ہے، یہ ہمارا کمال ہے۔ بس اس کے ساتھ ہی باطنی نعمت چھن گئی۔ پھر حق تعالیٰ نے مجھے بہت بڑی آزمائش میں ڈال دیا۔ یہ نکتہ قابل غور ہے کہ وہ بات جو عامۃ الناس کے نزدیک کوئی وزن نہیں رکھتی، اس کے کرنے پر بھی خاصان خدا اور مقربین بزرگوں کی پکڑ ہو جاتی ہے۔ حضرت شبلیؒ اپنے پیر و مرشد کے ہمراہ واپس تشریف لائے تو رب تعالیٰ کے فضل و کرم سے وہی دینی مجالس، ذکر و اذکار اور خانقاہوں کی رونقیں دوبارہ لوٹ آئیں۔ یہ واقعہ اُن لوگوں کے لیے بہت سبق آموز ہے جو کہتے ہیں کہ ایک نظر سے کیا ہوتا ہے۔۔ جیسا کہ ہر واقعہ و حکایت میں کوئی سبق اور عبرت ضرور ہوتی ہے۔ اس واقعہ میں بھی سالکین اور مسلمانوں کیلئے کئی طرح کی نصیحتیں اور سبق ہیں۔ ایک سبق تو یہ ہے کہ کمالات و فیوضات و انعامات خداوندی کی کبھی اپنی طرف سے منسوب نہ کریں۔ بلکہ عطیہ خداوندی سمجھیں۔

44:47) آج جگہ جگہ قرآن پاک کی کتنی بے حرمتی کی جارہی ہے۔۔

53:41) ایک ہندو خاتون حرا کے مسلمان ہونے کا درد بھرا تذکرہ!۔۔۔

01:05:23) درد بھری دعا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries