عصر   مجلس ۵۔ اپریل ۳ ۲۰۲ء     :تین صحابۂ کرام کی توبہ کا مفصل واقعہ !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:33) جہاں آپﷺ کے تذکرے مبارک ہوں ،آپ ﷺ کی نعت شریف ہو وہاں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں برستی ہیں۔۔۔

02:34) اشعار کی کچھ شرائط ہیں۔۔۔

04:08) جہاں اللہ والوں کے تذکرے ہوتے ہیں وہاں اللہ کی رحمت برستی ہے۔۔۔

05:33) الہامات ربّانی:تین صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی قبولیت ِتوبہ کا مفصّل واقعہ: ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ سورۂ توبہ کی آیت ۱۱۸ تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو غزوۂ تبوک میں شریک ہونے سے پیچھے رہے تھے۔ ان تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس واقعہ میں عاشقوں کے لئے بڑے سبق کی بات ہے: ﴿وَعَلَى الثَّلٰثَةِ الَّذِيْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰٓى اِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ اَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللهِ اِلَّٓا اِلَيْهِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوْبُوْاط اِنَّ اللہَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ؁﴾ ترجمہ: اور ان تین شخصوں پر جن کو پیچھے رکھا تھا، یہاں تک کہ جب تنگ ہوگئی ان پر زمین باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہوگئیں ان پر ان کی جانیں اور سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف، پھر مہربان ہوا ان پر تاکہ وہ پھر آئیں، بےشک اللہ ہی ہے مہربان رحم والا۔(معارف القرآن از حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ )

جب ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلوم ہوگیا کہ اللہ و رسول ان سے ناراض ہیں اور حضورﷺ نے اور دوسرے صحابہ نے پچاس دن تک ان سے بولنا چھوڑ دیا تو ان پر کیا گزری؟ ان کے غم کو اللہ تعالیٰ قرآن ِپاک میں نازل فرما رہے ہیں۔ اگر یہ خود بیان کرتے تو اہلِ دنیا یقین نہ کرتے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عاشقوں کی بلندیٔ شان دِکھانے کے لئے قرآن ِپاک میں ان کے غم کی گواہی دی،اور ان کے اس غم کو قرآن کا جزو بنا دیا کہ زمین باجود اپنی وسعت کے ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے بے زار ہوگئے۔ مومن کی یہی شان ہونی چاہیے کہ جب کوئی گناہ ہوجائے، کوئی بد نظری ہوجائے تو پوری دنیا اس کو تنگ معلوم ہو اور اپنی جان سے بے زار ہوجائے۔جس کو یہ بات حاصل نہیں تو سمجھ لو کہ اس کی نسبت مع اللہ کا چراغ انتہائی ضعیف ہے، اس کو بہت اللہ سے رونا چاہیے اور اللہ سے تعلق کو قوی کرنے والے اسباب اختیار کرنا چاہیے، جو کوشش کرتا ہے پاجاتا ہے،اللہ کے راستے میں ناکامی نہیں ہے۔(آگے کا تفصیلی واقعہ تفسیر معارف القرآن سےلکھا گیا ہے۔جامع)

یہ تین حضرات حضرت کعب بن مالک،مرارہ بن ربیع اور ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہم ہیں، تینوں انصاری تھے، جو اس سے پہلے بیعت ِعقبہ اور حضورﷺ کے ساتھ دوسرے غزوات میں شریک رہ چکے تھے، مگر اس وقت اتفاقی طور سے اس لغزش میں مبتلا ہوگئے، اور منافقین جو اس جہاد میں اپنے نفاق کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے تھے، انہوں نے بھی ان کو ایسے ہی مشورے دیئے جس سے ان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ جب رسول اللہﷺ اس جہاد سے واپس آئے تو منافقین نے حاضر ہو کر جھوٹے عذر پیش کرکے اور جھوٹی قسمیں کھا کر رسول اللہﷺ کو راضی کرنا چاہا، آنحضرتﷺ نے ان کی باطنی حالت کو اللہ کے سپرد کیا اور ظاہری قسموں کو قبول کرلیا،یہ لوگ آرام سے رہنے لگے۔کچھ لوگوں نے ان تینوں انصاری بزرگوں کو بھی یہی مشورہ دیا کہ تم بھی جھوٹے عذر کر کے اپنی صفائی پیش کردو، مگر ان کے دلوں نے ملامت کی کہ ایک گناہ تو جہاد سے پیچھے رہنے کا کر چکے ہیں، اب دوسرا گناہ حضورﷺ کے سامنے جھوٹ بولنے کا کریں؟ اس لئے صاف صاف اپنے قصور کا اعتراف کرلیا، جس کی سزا میں ان سے سلام و کلام بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ انجام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ان سب کی حقیقت کھول دی، جھوٹی قسمیں کھا کر عذر کرنے والوں کا پردہ فاش کردیا، اور ان تین بزرگوں نے جو سچ بولا اور اعتراف ِقصور کیا،ان کی توبہ اس آیت میں نازل ہوئی،اور پچاس دن حضور ﷺ کے اعراض اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مقاطعہ سلام و کلام کی انتہائی سخت مصیبت جھیلنے کے بعد بڑی سرخروئی اور مبارکبادوں کے ساتھ رسول اللہﷺ اور سب مسلمانوں میں مقبول ہوئے۔ ان تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے واقعہ کی تفصیل احایث ِصحیحہ سے یہ ہے:

11:16) ان تین بزرگوں میں سے ایک کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے، انہوں نے اپنے واقعہ کی تفصیل اس طرح بتلائی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جتنے غزوات میں شرکت کی، میں ان سب میں بجز غزوۂ تبوک کے آپﷺ کے ساتھ شریک رہا، البتہ غزوۂ بدر کا واقعہ چونکہ اچانک پیش آیا اور رسول اللہﷺ نے سب کو اس میں شریک ہونے کا حکم بھی نہیں دیا تھا، اور شریک نہ ہونے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں فرمایا تھا، اس میں بھی شریک نہ ہوسکا تھا۔اور میں لیلۃ العقبہ کی بیعت میں بھی حاضر تھا، جس میں ہم نے اسلام کی حمایت و حفاظت کا معاہدہ کیا تھا، اور مجھے یہ بیعت ِعقبہ کی حاضری غزوۂ بدر کی حاضری سے بھی زیادہ محبوب ہے، اگرچہ غزوۂ بدر لوگوں میں زیادہ مشہور ہے۔ میرا واقعہ غزوۂ تبوک میں غیر حاضری کا یہ ہے کہ میں کسی وقت بھی اس وقت سے زیادہ خوش حال اور مالدار نہ تھا۔بخدا!میرے پاس کبھی اس سے پہلے دو سواریاں جمع نہیں ہوئی تھیں جو اس وقت موجود تھیں۔آپﷺ نے سخت گرمی اور تنگدستی کی حالت میں اس جہاد کا قصد فرمایا، اور سفر بھی بڑی دور کا تھا، مقابلہ پر دشمن کی قوت اور تعداد بہت زیادہ تھی، اس لئے رسول اللہﷺ نے اس جہاد کا کھل کر اعلان کردیا تاکہ مسلمان اس کے لئے پوری تیاری کرسکیں۔

اس غزوہ میں شریک ہونے والوں کی تعداد مسلم شریف کی روایت کے مطابق دس ہزار سے زائد اور ایک روایت کے مطابق تیس ہزار سے زائد تھی۔ اس جہاد میں نکلنے والوں کی کوئی فہرست نہیں لکھی گئی تھی۔اس لئے جو لوگ جہاد میں نہیں جانا چاہتے تھے ان کو یہ موقع مل گیا کہ نہ گئے تو کسی کو خبر بھی نہ ہوگی۔ جس وقت حضورﷺ اس جہاد کے لئے نکلے تو وہ وقت تھا کہ کھجوریں پک رہی تھیں، باغات والے ان میں مشغول تھے۔اسی حالت میں حضورﷺ اور عام مسلمانوں نے سفر کی تیاری شروع کردی اور جمعرات کے دن سفر کا آغاز فرمایا۔میرا حال یہ تھا کہ میں روز صبح کو ارادہ کرتا کہ جہاد کی تیاری کروں مگر بغیر کسی تیاری کے واپس آجاتا۔ میں دل میں کہتا تھا کہ میں جہاد پر قادر ہوں مجھے نکلنا چاہیے، مگر یونہی آج کل میں میرا ارادہ ٹلتا رہا، یہاں تک کہ حضورﷺ اور عام مسلمان جہاد کے لئے روانہ ہوگئے۔ پھر بھی میرے دل میں یہ آتا رہا کہ میں بھی روانہ ہوجاؤں اور کہیں راستہ میں مل جاؤں اور کاش ! کہ میں ایسا کرلیتا، مگر یہ کام ( افسوس ہے کہ) نہ ہوسکا۔

حضورﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد جب میں مدینہ میں کہیں جاتا تو یہ بات مجھے غمگین کرتی تھی کہ اس وقت پورے مدینہ میں یا تو وہ لوگ نظر پڑتے تھے جو نفاق میں ڈوبے ہوئے تھے، یا پھر ایسے بیمار معذور جو قطعاً سفر کے قابل نہ تھے۔ دوسری طرف پورے راستہ میں رسول اللہﷺ کو میرا خیال کہیں نہیں آیا، یہاں تک کہ آپ تبوک پہنچ گئے، اس وقت آپ نے ایک مجلس میں ذکر کیا کہ کعب بن مالک کو کیا ہوا ؟وہ کہاں ہے؟بنو سلمہ کے لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! ان کو جہاد سے ان کے عمدہ لباس اور اس پر نظر کرتے رہنے نے روکا ہے۔ حضرت معاذ بن جبلt نے عرض کیا کہ تم نے یہ بُری بات کہی ہے، یا رسول اللہ! بخدا! میں نے ان میں خیر کے سوا کچھ نہیں پایا۔یہ سن کر حضورﷺ خاموش ہوگئے۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب مجھے یہ خبر ملی کہ حضورﷺ واپس تشریف لا رہے ہیں تو مجھے بڑی فکر ہوئی،اور قریب تھا کہ میں اپنی غیر حاضری کا کوئی عذر گھبرا کر تیار کرلیتا اور ایسی باتیں پیش کردیتا جس کے ذریعہ میں رسول اللہﷺ کی ناراضی سے نکل جاتا( میرے دل میں یہ خیالات و وساوس گھومتے رہے) یہاں تک کہ جب یہ خبر ملی کہ حضورﷺ تشریف لے آئے ہیں تو خیالات ِ فاسدہ میرے دل سے مٹ گئے اور میں نے سمجھ لیا کہ میں آپﷺ کی ناراضی سے کسی ایسی بنیاد پر نہیں نکل سکتا جس میں جھوٹ ہو، اس لئے میں نے بالکل سچ بولنے کا عزم کرلیا، مجھے صرف سچ ہی نجات دلا سکتا ہے۔ رسول اللہﷺ واپس تشریف لائے تو ( حسب ِعادت) چاشت کے وقت یعنی صبح کو آفتاب کچھ بلند ہونے کے وقت مدینہ میں داخل ہوئے اور عادت ِشریفہ یہی تھی کہ سفر سے واپسی کا عموماً یہی وقت ہوا کرتا تھا، اور عادت یہ تھی کہ پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، دو رکعتیں پڑھتے، پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس جاتے، اس کے بعد ازواج ِمطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن سے ملتے تھے۔اسی عادت کے مطابق آپ اول مسجد میں تشریف لے گئے، دو رکعت ادا کی، پھر مسجد میں بیٹھ گئے۔جب لوگوں نے یہ دیکھا تو غزوۂ تبوک میں نہ جانے والے منافقین جن کی تعداد اسی (۸۰) سے کچھ اوپر تھی خدمت میں حاضر ہو کر جھوٹے عذر پیش کرکے اس پر جھوٹی قسمیں کھانے لگے۔ رسول اللہﷺ نے ان کے ظاہری قول و قرار اور قسموں کو قبول کرلیا،اور ان کے باطنی حالات کو اللہ کے سپرد کیا۔

16:07) اسی حال میں مَیں بھی حاضر ِخدمت ہوا اور چلتے چلتے سامنے جا کر بیٹھ گیا۔ جب میں نے سلام کیا تو رسول اللہﷺ نے ایسا تبسم فرمایا جیسے ناراض آدمی کیا کرتا ہے، (بعض روایات میں ہے کہ آپﷺ نے اپنا رُخ پھیرلیا )تو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ!آپ مجھ سے چہرۂ مبارک کیوں پھیر تے ہیں؟خدا کی قسم! میں نے نفاق نہیں کیا، نہ دین کے معاملہ میں کسی شبہ وشک میں مبتلا ہوا، نہ اس میں کوئی تبدیلی کی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر جہاد میں کیوں نہیں گئے ؟ کیا تم نے سواری نہیں خرید لی تھی ؟ میں نے عرض کیا بےشک یا رسول اللہ! اگر میں آپ کے سوا دنیا کے کسی دوسرے آدمی کے سامنے بیٹھتا تو مجھے یقین ہے کہ میں کوئی عذر گھڑ کر اس کی ناراضی سے بچ جاتا، کیونکہ مجھے بات بنانے میں مہا رت حاصل ہے لیکن قسم ہے اللہ کی کہ میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر میں نے آپ سے کوئی جھوٹی بات کہی،جس سے آپ وقتی طور پر راضی ہوجائیں تو کچھ دور نہیں کہ اللہ تعالیٰ حقیقت ِحال آپ پر کھول کر مجھ سے ناراض کردیں گے، اور اگر میں نے سچی بات بتلا دی جس سے بالفعل آپ مجھ پر ناراض ہوں تو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دیں گے۔ صحیح بات یہ ہے کہ جہاد سے غائب رہنے میں میرا کوئی عذر نہیں تھا، میں کسی وقت بھی مالی اور جسمانی طور پر اتنا قوی اور پیسے والا نہیں ہوا تھا جتنا اس وقت تھا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس شخص نے سچ بولا ہے، پھر فرمایا کہ اچھا جاؤ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے متعلق کوئی فیصلہ فرما دیں۔ میں یہاں سے اٹھ کر چلا تو بنی سلمہ کے چند آدمی میرے پیچھے لگے،اور کہنے لگے کہ اس سے پہلے تو ہمارے علم میں تم نے کوئی گناہ نہیں کیا،یہ تم نے کیا بیوقوفی کی؟اس وقت کوئی عذر پیش کردیتے جیسا دوسرے رہ جانے والوں نے پیش کیا، تمہارے گناہ کی معافی کے لئے رسول اللہﷺ کا استغفار کرنا کافی ہوجاتا۔ بخدا! یہ لوگ مجھے بار بار ملامت کرتے رہے یہاں تک کہ میرے دل میں یہ خیال آگیا کہ میں لوٹ جاؤں، اور پھر جا کر عرض کروں کہ میں نے جو بات پہلے کہی تھی وہ غلط تھی، میرا عذر صحیح موجود تھا،مگر پھر میں نے دل میں کہا کہ میں ایک گناہ کے دو گناہ نہ بناؤں، ایک گناہ تو تخلف کا سرزد ہوچکا ہے، دوسرا گناہ جھوٹ بولنے کا کر گذروں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ پیچھے رہنے والوں میں کوئی اور بھی میرے ساتھ ہے جس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہو؟انہوں نے بتلایا کہ دو آدمی اور ہیں جنہوں نے تمہاری طرح اقرار ِجرم کرلیا، اور ان کو بھی وہی جواب دیا گیا جو تمہیں کہا گیا ہے ( کہ اللہ کے فیصلہ کا انتظار کرو) میں نے پوچھا کہ وہ دو کون ہیں ؟ انہوں نے بتلایا کہ ایک مُرارہ بن ربیع ،دوسرے ہلال بن امیہ ہیں۔(ان میں سے مُرارہ کے تخلف کا تو سبب یہ ہوا کہ ان کا ایک باغ تھا، جس کا پھل اس وقت پک رہا تھا، تو انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ تم نے اس سے پہلے کئی غزوات میں حصہ لیا ہے، اگر اس سال جہاد میں نہ جاؤ تو کیا جرم ہے؟ اس کے بعد جب انہیں اپنے گناہ پر تنبہ ہوا تو انہوں نے اللہ سے عہد کرلیا کہ یہ باغ میں نے اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔اور دوسرے بزرگ حضرت ہلال بن امیہ کا یہ واقعہ ہوا کہ ان کے اہل و عیال عرصہ سے متفرق تھے، اس موقع پر سب جمع ہوگئے تو یہ خیال کیا کہ اس سال میں جہاد میں نہ جاؤں، اپنے اہل و عیال میں بسر کروں۔ان کو بھی جب اپنے گناہ کا خیال آیا تو انہوں نے یہ عہد کیا کہ اب میں اپنے اہل و عیال سے علیحدگی اختیار کرلوں گا۔)

19:41) کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے ایسے دو بزرگوں کا ذکر کیا جو غزوۂ بدر کے مجاہدین میں سے ہیں، تو میں نے کہا کہ بس میرے لئے انہی دونوں بزرگوں کا عمل قابل ِتقلید ہے، یہ کہہ کر میں اپنے گھر چلا گیا۔اُدھر رسول اللہﷺ نے صحابۂ کرامy کو ہم تینوں کے ساتھ سلام و کلام کرنے سے منع فرمادیا۔اب ہمارا حال یہ ہوگیا کہ ہم لوگوں کے پاس جاتے تو کوئی ہم سے کلام نہ کرتا نہ سلام کرتا نہ سلام کا جواب دیتا۔اس وقت ہماری دنیا بالکل بدل گئی،ایسا معلوم ہونے لگا کہ نہ وہ لوگ ہیں جو پہلے تھے،نہ ہمارے باغ اور مکان ہیں جو ان سے پہلے تھے، سب اجنبی نظر آنے لگے۔مجھے سب سے بڑی فکر یہ تھی کہ اگر میں اس حال میں مرگیا تو رسول اللہﷺ میرے جنازہ کی نماز نہ پڑھیں گے، یا خدانخواستہ اس عرصہ میں حضورﷺ کی وفات ہوگئی تو میں عمر بھر اسی طرح سب لوگوں میں ذلیل و خوار پھرتا رہوں گا۔اس کی وجہ سے میرے لئے ساری زمین بیگانہ و ویرانہ نظر آنے لگی، اسی حال میں ہم پر پچاس راتیں گذر گئیں۔اس زمانہ میں میرے دونوں ساتھی ( مُرارہ اور ہلال) تو شکستہ دل ہو کر گھر میں بیٹھ رہے اور رات دن روتے تھے، لیکن میں جوان آدمی تھا، باہر نکلتا اور چلتا پھرتا تھا اور نماز میں سب مسلمانوں کے ساتھ شریک ہوتا تھا،اور بازاروں میں پھرتا تھا مگر نہ کوئی مجھ سے کلام کرتا نہ میرے سلام کا جواب دیتا۔رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں نماز کے بعد حاضر ہوتا اور سلام کرتا تو یہ دیکھا کرتا تھا کہ رسول اللہﷺ کے لب ِمبارک کو جواب ِسلام کےلئے حرکت ہوئی یا نہیں؟ پھر میں آپ کے قریب ہی نماز پڑھتا تو نظر چُرا کر آپ کی طرف دیکھتا تو معلوم ہوتا کہ جب میں نماز میں مشغول ہوجاتا ہوں تو آپ میری طرف دیکھتے ہیں اور جب میں آپ کی طرف دیکھتا ہوں تو رُخ پھیر لیتے ہیں۔

21:48) جب لوگوں کی یہ بےرُخی دراز ہوئی تو ایک روز میں اپنے چچا زاد بھائی قتادہt کے پاس گیا جو میرے سب سے زیادہ دوست تھے۔میں نے ان کو سلام کیا، خدا کی قسم ! انہوں نے بھی میرے سلام کا جواب نہ دیا۔ میں نے پو چھا کہ اے قتادہ! کیا تم نہیں جانتے کہ میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ اس پر بھی قتادہ نے سکوت کیا، کوئی جواب نہیں دیا، جب میں نے بار بار یہ سوال دہرایا تو تیسری یا چوتھی مرتبہ میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ اللہ جانتا ہے اور اس کا رسول، میں رو پڑا۔اسی زمانہ میں ایک روز مَیں مدینہ کے بازار میں چل رہا تھا کہ اچانک ملک ِشام کا ایک نبطی شخص جو غلہ فروخت کرنے کے لئے شام سے مدینہ میں آیا تھا، اس کو دیکھا کہ لوگوں سے پوچھ رہا ہے کہ کیا کوئی مجھے کعب بن مالک کا پتہ بتاسکتا ہے ؟ لوگوں نے مجھے دیکھ کر میری طرف اشارہ کیا، وہ آدمی میرے پاس آگیا اور مجھے شاہِ غسان کا ایک خط دیا جو ریشمی رومال پر لکھا ہوا تھا،جس کا مضمون یہ تھا’’اما بعد ! مجھے یہ خبر ملی ہے کہ آپ کے نبی نے آپ سے بےوفائی کی اور آپ کو دور کر رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت اور ہلاکت کی جگہ میں نہیں رکھا ہے، تم اگر ہمارے یہاں آنا پسند کرو تو آجاؤ، ہم تمہاری مدد کریں گے ۔‘‘میں نے جب یہ خط پڑھا تو کہا کہ یہ ایک اور میرا امتحان اور آزمائش ہے کہ اہلِ کفر کو مجھ سے اس کی طمع اور توقع ہوگئی ( کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں)،میں یہ خط لے کر آگے بڑھا اور ایک دکان پر تنور لگا ہوا تھا اس میں جھونک دیا۔ حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب پچاس میں سے چالیس راتیں گذر چکی تھیں تو اچانک دیکھا کہ رسول اللہﷺ کے ایک قاصد خزیمہ بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے پاس آرہے ہیں، آکر یہ کہا کہ رسول اللہﷺ نے یہ حکم دیا ہے کہ تم اپنی بیوی سے بھی علیحدگی اختیار کرلو۔میں نے پوچھا کہ کیا طلاق دے دوں یا کیا کروں ؟ انہوں نے بتلایا کہ نہیں!عملاً اس سے الگ رہو، قریب نہ جاؤ ۔اسی طرح کا حکم میرے دونوں ساتھیوں کے پاس بھی پہنچا ۔میں نے بیوی سے کہہ دیا کہ تم اپنے میکے میں چلی جاؤ اور وہیں رہو جب تک اللہ تعالیٰ کوئی فیصلہ فرما دیں۔ہلال بن امیہ کی اہلیہ خولہ بنت عاصم یہ حکم سن کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ ہلال بن امیہ بوڑھے ضعیف آدمی ہیں،کوئی ان کا خادم نہیں،وہ ضعیف البصر بھی ہیں، کیا آپ یہ پسند نہیں فرمائیں گے کہ میں ان کی خدمت کرتی رہوں؟ حضورﷺنے فرمایا کہ خدمت کرنے کی ممانعت نہیں البتہ وہ تمہارے پاس نہ جائیں،انہوں نے عرض کیا کہ وہ تو بڑھاپے کی وجہ سے ایسے ہوگئے ہیں کہ ان میں کوئی حرکت ہی نہیں، اور واللہ!ان پر تو مسلسل گریہ طاری ہے،رات دن روتے رہتے ہیں۔ کعب بن مالک فرماتے ہیں مجھے بھی میرے بعض متعلقین نے مشورہ دیا کہ تم بھی آنحضرتﷺ سے بیوی کو ساتھ رکھنے کی اجازت لے لو جیسا کہ آپ نے ہلال کو اجازت دے دی ہے۔ میں نے کہا کہ میں ایسا نہیں کروں گا، معلوم نہیں رسول اللہﷺ کیا جواب دیں، اس کے علاوہ میں جوان آدمی ہوں ( بیوی کو ساتھ رکھنا احتیاط کے خلاف ہے)چناچہ اسی حال پر میں نے دس راتیں اَور گذاریں، یہاں تک کہ پچاس راتیں مکمل ہوگئیں۔اس وقت ہماری توبہ رسول اللہ ﷺ پر ایک تہائی رات گزرنے کے وقت نازل ہوئی، ام المو منین حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو اس وقت حاضر تھیں،انہوں نے عرض کیا کہ اجازت ہو تو کعب بن مالک کو اسی وقت اس کی خبر کردی جائے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایسا ہوا تو ابھی لوگوں کا ہجوم ہوجائے گا، رات کی نیند مشکل ہوجائےگی۔ کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ پچاسویں رات کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر میں اپنے گھر کی چھت پر بیٹھا تھا اور میری حالت وہ تھی جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا ہے کہ مجھ پر میری جان اور زمین باوجود وسعت کے تنگ ہوچکی تھی، اچانک میں نے سلع پہاڑ کے اوپر سے کسی چلّانے والے آدمی کی آواز سنی، جو بلند آواز سے کہہ رہا تھا کہ اے کعب بن مالک! بشارت ہو۔ ایک روایت میں ہے کہ یہ بلند آواز سے کہنے والے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جنہوں نے جبلِ سلع پر چڑھ کر یہ آواز دی کہ اللہ نے کعب کی توبہ قبول فرمالی، بشارت ہو، اور ایک روایت میں یہ ہے کہ یہ خوشخبری حضرت کعب کو سنانے کے لئے دو آدمی دوڑے، ان میں سے ایک آگے بڑھ گیا، تو جو پیچھے رہ گیا تھا اس نے یہ کیا کہ سلع پہاڑ پر چڑھ کر آواز دے دی اور کہا جاتا ہے کہ یہ دوڑنے والے دو بزرگ حضرت صدیق ِاکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فاروق ِاعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔کعب بن مالک فرماتے ہیں کہ یہ آواز سن کر میں سجدے میں گرگیا اور انتہائی فرحت سے رونے لگا، اور مجھے معلوم ہوگیا کہ اب کشادگی آگئی۔رسول اللہﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ہماری توبہ قبول ہونے کی خبر دی تھی،اب سب طرف سے لوگ ہم تینوں کو مبارکباد دینے کے لئے دوڑ پڑے، بعض لوگ گھوڑے پر سوار ہو کر میرے پاس پہنچے مگر پہاڑ سے آواز دینے والے کی آواز سب سے پہلے پہنچ گئی۔

28:43) حضرت کعب کہتے ہیں کہ میں حضورﷺ کی خدمت میں حاضری کے لئے نکلا تو لوگ جوق در جوق مجھے مبارکباد دینے کے لئے آرہے تھے،میں مسجد ِنبوی میں داخل ہوا تو دیکھا کہ حضورﷺ تشریف فرما ہیں، آپ کے گرد صحابۂ کرام کا مجمع ہے، مجھے دیکھ کر سب سے پہلے طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر میری طرف لپکے اور مجھ سے مصافحہ کرکے قبول ِتوبہ پر مبارک باد دی، طلحہ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھولتا۔ جب میں نے رسول اللہﷺ کو سلام کیا تو آپ کا چہرۂ مبارک خوشی کی وجہ سے چمک رہا تھا، آپ نے فرمایا کہ اے کعب! بشارت ہو تمہیں ایسے مبارک دن کی جو تمہاری عمر میں پیدائش سے لے کر آج تک سب سے زیادہ بہتر دن ہے۔

34:01) داڑھی اور مونچھوں سے متعلق نصیحت کے آج ہم کس کی نقل کررہے ہیں۔۔۔

37:29) میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ حکم آپ کی طرف سے ہے یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں، یہ حکم اللہ تعالیٰ کا ہے، تم نے سچ بولا تھا،اللہ تعالیٰ نے تمہاری سچائی کو ظاہر فرما دیا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میری توبہ یہ ہے کہ میں اپنے سب مال و متاع سے نکل جاؤں کہ سب کو اللہ کی راہ میں صدقہ کردوں، آپ نے فرمایا نہیں! کچھ مال اپنی ضرورت کے لئے رہنے دو،یہ بہتر ہے۔میں نے عرض کیا کہ اچھا! آدھا مال صدقہ کردوں؟ آپ نے اس سے بھی انکار فرمایا، میں نے پھر ایک تہائی مال کی اجازت مانگی تو آپ نے اس کو قبول فرما لیا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے اللہ نے سچ بولنے کی وجہ سے نجات دی ہے، اس لئے میں عہد کرتا ہوں کہ جب تک میں زندہ ہوں کبھی سچ کے سوا کوئی کلمہ نہیں بولوں گا۔

38:40) جب ظاہر ہی صحیح نہیں تو باطن کیسے صحیح ہوگا۔۔۔

40:04) جب سے میں نے رسول اللہ ﷺسے یہ سچ بولنے کا عہد کیا تھا،الحمدللہ! آج تک کوئی کلمہ جھوٹ کا میری زبان پر نہیں آیا، اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ باقی زندگی میں بھی مجھے اس سے محفوظ رکھیں گے۔خدا کی قسم ! اسلام کے بعد اس سے بڑی نعمت مجھے نہیں ملی کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سامنے سچ بولا، جھوٹ سے پرہیز کیا کیونکہ اگر میں جھوٹ بولتا تو اسی طرح ہلاکت میں پڑجاتا جس طرح دوسرے جھوٹی قسمیں کھانے والے ہلاک ہوئے جن کے بارے میں قرآن میں یہ نازل ہوا: سَيَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ اِذَا انْقَلَبْتُمْ اِلَيْهِمْ سے لے کر فَاِنَّ اللّٰهَ لَا يَرْضٰى عَنِ الْقَوْمِ الْفٰسِقِيْنَ تک۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ان تینوں حضرات سے مقاطعہ کا پچاس دن تک جاری رہنا شاید اس حکمت پر مبنی تھا کہ رسول اللہﷺ کے غزوۂ تبوک میں پچاس دن ہی صرف ہوئے تھے۔از معارف القرآن(ج۴ ص ۴۷۷)

41:01) داڑھی اورمونچھوں سے متعلق نصیحت۔۔۔داڑھی سے اللہ تعالیٰ کی دوستی گھاڑی ہوجاتی ہے۔۔۔

45:41) سسرال میں دل نہ لگنا۔۔۔وجہ۔۔۔نصیحت۔۔۔

47:09) بغیر داڑھی والے یا جس کی مونچھ بڑی ہو اس کو بھی حقیر مت سمجھیں ۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries