تراویح مجلس ۱۷۔ اپریل ۳ ۲۰۲ء :شبِ قدر کی رات کی فضیلت اور انعامات ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں مومن گناہ کرے یہ ہونہیں سکتا۔۔ 00:00:45 مومن گناہ کرے یہ ہونہیں سکتا۔۔ 00:01:09 بچوں کو صفوں سے تین نکالنا ہمارے تین گناہ میں سے ایک ہے۔۔ 00:06:44 مجنوں پاگل اور ایسے بچوں کو مسجد میں نہ لائیں جن کو سمجھ نہ ہو۔۔ بچوں کو مارنا۔۔۔بچوں کی بھی عزتِ نفس ہوتی ہے۔۔ 00:08:01 لطیفہ :شوہر کا نام لینے پر گاؤں میں یہ مشہور ہے کہ نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔۔۔ ایک خاتون کے شوہر کا نام مکھن تھا۔۔۔ 00:09:55 اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ استغفرو ربکم مجھ سے معافی مانگو اللہ تعالی نے معاف کرنا ہے تب ہی تو فرمارہےہیں ۔ 00:12:08 ایک صحابی نے زنا کی اجازت مانگی یہ تربیت کے انداز تھے تاکہ قیامت تک کے لیے لوگوں کے لیے نصیحت ہوجائے اور آپ ﷺ کی محبت دیکھیں کہ ناراض نہیں ہوئے ڈانٹا نہیں بلکہ بٹھایا واقعہ۔ 00:13:55 اب واقعہ سن کر کہ دین کی سمجھ ہے لیکن واقعہ سن کر شیخ سے کہہ رہے ہیں کہ دل پر ہاتھ رکھ کر یہ دعا دیں۔۔نعوذ باللہ کہاں حضور ﷺ کا ہاتھ مبارک اور کہاں ہم...فرمایا اپنا عقیدہ صحیح کرو۔۔۔کرنا کرانا کچھ نہیں بس یہ کردو یہ وظیفہ دے اور گھر سے کیبل وغیرہ نہیں نکالیں گے۔۔ .00:14:28 آج تراویح ختم کے بعد مسجد میں بریانی کا سلسلہ بھی شروع ہوتا جارہا ہے جو کہ منع ہے اللہ کے گھر میں بریانی کتنی بے ادبی کی بات ہے مفتی صاحبان تو مٹھائی کا منع کررہے ہیں ۔۔ 00:17:34 اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ استغفرو ربکم مجھ سے معافی مانگو اللہ تعالی کی رحمت دیکھیں کہ حکم فرما رہے ہیں معافی مانگو اور اللہ تعالی نے احسانا فضلا فرمایا نعوذ باللہ اللہ تعالی پر کوئی قرضہ نہیں ہے اور اتنے اللہ تعالی کے نام ہیں لیکن رب کیوں فرمایا کیونکہ رب کا مطلب ہے پالنے والا اور پالنے والے کو اپنی پلی ہوئی چیز سے محبت ہوتی ہے 00:19:57 غلام ایاز اور بادشاہ محمود کا واقعہ۔ 00:22:57 اپنے ماضی کو نہیں بھولنا چاہیے۔۔ 00:25:43 اماں عاشہ رضی اللہ عنھا نے پوچھا کے اے محبوب ﷺ اگر ہم شب قدر پاوے تو کیا دعا پڑھیں۔۔۔ حدیث ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ‘‘ کی عاشقانہ شرح ’’اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ‘‘ ’’اے اللہ! آپ بہت معافی دینے والے ہیں اور بہت کریم ہیں‘‘ یعنی نالائقوں کو بھی معاف کرنے والے ہیں 00:30:39 حضرت آدم علیہ السلام دعا پڑھ کر چالیس سال تک روتے رہے..قالا ربنا ظلمنا أنفسنا وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين ہم اپنی جانوں پر ظلم کر گذرے ہیں ، اور اگر آپ نے ہمیں معاف نہ فرما یا، اور ہم خسارے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ 00:31:13 کسی کو بھی حقیر نہیں سمجھنا ہے۔۔ 00:33:31 مولانا سید احمد شہید نے بدکار عورتوں سے کیا بابا سدا لگانے آیا ہے۔۔ تقریر کی۔۔ إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ پر بیان شروع کردیاکہ جب آسمان پھٹ جائے گا اور جب ستارے گرنے لگیں گے یعنی قیامت کا جو نقشہ کھینچا تو ان عورتوں کی چیخیں نکل گئیں۔آہ جب مولانا اسی آیت پر تقریر کررہے تھے اور جب کہتے تھے إِذَا السَّمَاءُ انفَطَرَتْ تو ایسا لگتا تھا جیسے آسمان پھٹ کر گر رہا ہے۔ 00:36:42 بس اس عورت نے مولانا اسماعیل شہید رحمہ اللہ سے کہا کہ توبہ کرا دیجئے، میں بدکاری کا پیشہ چھوڑ تی ہوں، آپ نے توبہ کرادی، ساری کی ساری عورتوں نے توبہ کرلی، ساری خواتین ولی اللہ ہوگئیں ،ان کو ذکر بتا دیا، سید احمد شہید رحمہ اللہ بھی پہنچ گئے، ان کے ہاتھ پر بھی ایک ایسی خاتون نے توبہ کی جس کی زندگی تاریک اور گنہگار تھی، ان دونوں بزرگوں نے ان دونوں عورتوں کا نکاح بھی کرا دیا۔ جب سید احمد شہید نے جہاد کا اعلان کیا، دہلی کے لوگ تیار ہوگئے، بالاکوٹ آنا تھا، اب جہاد کی تیاری شروع ہوگئی۔ 00:41:56 ان دونوں عورتوں نے کہا کہ ہم کو چھوڑ کر کہاں جارہے ہیں؟ یہ ہوتا ہے شیخ سے تعلق! جس سے دین ملتا ہے اس کی محبت ہوتی ہے لہٰذا انہوں نے پوچھا کہ ہمیں کیوں چھوڑ رہے ہیں؟ کہا کہ ہم جہاد کے لیے جارہے ہیں تم وہاں کیا کرو گی؟ ان خواتین نے کہا کہ ہم مجاہدین کے گھوڑوں کا چنا دَلیں گی، دہلی سے ایک چکی خرید لیں گے اور وہ بالاکوٹ لے چلیں گے اور چنے کو پیسیں گے، وہ چنا ہم مجاہدین کے گھوڑوں کو دیں گے اور گھوڑے اس کو کھا کر جہاد کریں گے اور اگر آپ ہمیں ساتھ نہ لے گئے تو ہمیں اپنی ماضی کی گنہگار زندگی کی طرف لوٹنے کا اندیشہ ہے ۔ چنانچہ اس وقت کے علماء اور مفتیانِ کرام نے اجازت دےدی۔ رات بھر یہ چکی پیستی تھیں اور دن بھر گھوڑے اس کو کھا کر جہاد میں مشغول رہتے تھے۔ 00:43:40 یک شخص نے ان خواتین سے ان کےشوہروںکے ذریعہ معلوم کروایا کہ دہلی میں مخمل کے گدے پر پھول بچھائے جاتے تھے، آپ ان پر سوتی تھیں اور اب یہ جو ہاتھ میں چکی چلا چلا کر چھالے پڑگئے ہیں کیونکہ ایسا کام کبھی کیا نہیں تھا تو وہ زندگی تمہیں عزیز تھی یا اب یہ زندگی عزیز ہے کہ تم بالاکوٹ کے پہاڑ کے دامن میں چکی پیس رہی ہو، تمہارے دہلی کے گدے اور پھولوں کی سیج چھوٹ گئی، تم بالا کوٹ پہاڑ کی کنکریوں پر سورہی ہو اور تمہارے ہاتھ میں مجاہدین کے گھوڑوں کے لئے چنا پیستے پیستے چھالے پڑگئے تو تمہیں کون سی زندگی عزیز ہے؟ تم پچھتا تو نہیں رہی ہو؟تو ان دونوں کا جواب سنئے! ان دونوں نے کہا کہ خدا کی قسم ہمیں سید احمد شہید اور مولانااسماعیل شہید کے صدقہ میں بالاکوٹ کے پہاڑ کے دامن میں کنکریوں پر سونے اور خدا کی راہ میں ہاتھوں میں چھالے پڑنے کے صدقہ میں جو ایمان عطا ہوا ہے اگر اس ایمان کو بالاکوٹ کے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تویہ پہاڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں، ہمارے ایمان کو بالاکوٹ کے پہاڑ بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ 00:44:12 حضرت شیخ نے نصوح کے جذب کا واقعہ بیان فرمایا۔۔ ایک شخص تھا،نصوح نام تھا اس کا حضرت نصوح کا واقعہ سنئے جو ایک گنہگار زندگی گذار رہے تھے۔ بڑے خوبصورت تھے، اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی۔حضرت نصوح کا واقعہ سنئے جو ایک گنہگار زندگی گذار رہے تھے۔ بڑے خوبصورت تھے، اور آواز بالکل عورتوں کی سی تھی۔ بس اس نے شہزادیوں اور بادشاہ کی بیویوں کو نہلانے دھلانے اور مالش کرنے کی نوکری کرلی۔ برقع اوڑھا کرتا تھا۔اس میں ذرا بھی ضعف اور کمزوری نہیں تھی۔ لہٰذا تمام عورتیں جتنی بیگمات کو نہلاتی دھلاتی تھی سب سے نمبر ون پاس ہوگیا کیونکہ یہ مرد تھا لہٰذایہ زیادہ طاقت اور زیادہ قوت اور ساتھ ساتھ اندر کی شہوت کے سبب ایسی مالش کرتا تھا کہ بیگمات نے سب خواتین نوکرانیوں سے کہہ دیا تھا کہ بیبیو تم مالش مت کرو۔ یہ جو بڑی بی بی آئی ہے بس ہم اسی سے مالش کروائیں گے۔ جنگل وہیں قریب تھا بیگمات کی مالش کرنے کے بعد اس جنگل میں جا کر رویا کرتا تھا کہ اے خدا ایک دن موت آئے گی پھر آپ کو کیا منہ دکھائوں گا؟ ادھر توبہ بھی کرتا اور ادھر مالش کا کام کر کے اپنے نفس کو خوب مزہ لینے کا موقع دیتا۔ توبہ کر کے آتا اور ادھر پھر وہی کام شروع کر دیتا، ہزاروں بار اس نے توبہ توڑدی لیکن ایک دن اﷲ تعالیٰ کے جذب کا وقت آگیا۔ دیکھئے جب جذب کا وقت آتا ہے تو اس کے راستے خود بخود کھلنے لگتے ہیں اب جذب کا وقت آگیا، اسی جنگل سے ایک عارف با ﷲ گذر رہے تھے اسی وقت نصوح کو تقاضا ہوا کہ جنگل چل کر آہ و فغاں کریں اور روئیں اﷲ سے۔ دیکھا کہ ایک عارف جا رہے ہیں... جذب کا وقت آگیا اور اسی وقت اﷲ تعالیٰ کا فیصلہ ہوگیاکہ اسے ولی اﷲ بنانا ہے۔ اﷲ نے اس کو جذب کرلیا اور غیب سے اس کے لیے ایک راستہ نکالا۔۔ 00:49:50 اے خدا آج اگر میری تلاشی لے لی گئی تومیں مرد ثابت ہوجائوں گا اور مجھے گردن تک زمین میں گاڑھ کر بادشاہ کتوں سے نچوادے گا اور مجھے ہلاک کروادے گا، اتنی سخت سزا دے گا جو میری برداشت سے باہر ہے لہٰذا اس کا مضمون سُنئے جو یہ خدا سے دُعا میں کہہ رہا ہے ؎ اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن اے خدا اس بندہ کو رسوا نہ کیجئے آج ننگی تلاشی ہورہی ہے آج اگر میں پکڑا جائوںگا تو بادشاہ مجھے موت سے کم سزا نہیں دے گا اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن گر بدم من سر من پیدا مکن اگرچہ میں نالائق و بدکار ہوں لیکن آج میرا راز آپ چھپا دیجئے، پردئہ ستّاریت میں مجھ کو پناہ دے دیجئے اگرآپ نے دامن ستاریت مجھ پر وا نہیں کیا تو آج میری وہ سزا ہوگی کہ تاریخ اس کو یاد رکھے گی۔ دوسرے شعر میں اس نے کہا کہ اب میں وعدہ کرتا ہوں اے خدا کہ جان دے دوں گا لیکن آپ کو ناراض نہیں گروں گا اگر آج آپ نے میری پردہ پوشی کرلی، ستاری کی اور میرا عیب چھپا دیا اے عظیم از ما گناہان عظیم اے اﷲ تیری عظمت بہت بڑی ہے اگر حرمِ کعبہ میں بھی ہم سے گناہ ہوجاتا تو بھی آپ معاف کرنے پر قادر ہیں اور اس جنگل میں مجھ سے جو گناہ ہوئے تو یہ کوئی چیز نہیں، لہٰذا اپنی عظمت کے صدقے میں آپ میرے گناہوں کو معاف کر دیجئے ؎ اے عظیم از ما گناہانِ عظیم تو توانی عفو کردن در حریم۔۔ 00:52:50 شب قدر میں اللہ پاک کے انعامات! .شب قدر کی رات کی فضیلت۔۔۔ شبِ قدر کے معنی تو دوستو۱! آج ستائیسویں رات ہے، مبارک رات ہے، ویسے تو پورا رمضان مبارک ہے کیونکہ اس ماہ میں قرآن نازل ہوا، اِنَّآ اَنْزَلْنَاہُ میں ہُ کی جو ضمیر ہے اَلْمُرَادُ بِھٰذِہِ الضَّمِیْرِ الْقُرْاٰنُ عِنْدَ الْجَمْہُوْرِ علامہ آلوسی رحمہ اللہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ امت کا اجماع ہے کہ قرآن اسی شب میں نازل ہوا ۔۔ 00:58:35 لیلۃ القدر کی تحقیق علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ جو پانچویں مسلمان ہیں، اپنے بارے میں خود فرماتے ہیں کُنْتُ خَامِسَ الْاِسْلَامِ میں پانچواں شخص تھا جو اسلام لایا ہوں۔ تو حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ شب قدر کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟یعنی شب قدر کس رات میں ہوتی ہے؟اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں یا انتیسویں؟ فرمایا کہ میںاپنی رائے کیا پیش کروں، دوبہت بڑی شخصیات کی رائے پیش کرتا ہوں یعنی حضرت عمرt اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی ۔ حضرت حذیفہ صاحبِ سِر تھے یعنی حضور ﷺنے ان کو کچھ راز کی باتیں بتائی تھیں، مثلاً ان کو منافقین کے نام بتادئیے تھے۔ تو ان دو اصحاب کی اور حضور ﷺ کے بہت سے صحابہ کی رائے پیش کرتا ہوں کہ۔۔ 01:00:26 ان کو شک بھی نہیں ہوتا تھا کہ ستائیسویں رات ہی شبِ قدر ہے، جب میں نے تفسیر روح المعانی میں حضر ت عمر t کی رائے دیکھی تو میرے قلب کو بے حد خوشی ہوئی کہ ستائیسویں رات کو ہم بہت زیادہ یقین اور بہت زیاد ہ امید رکھتے ہیں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ یہ رات لیلۃ القدر ہی ہوگی۔ اب آپ کہیں گے ،اچھا مان لیجئے کہ آج ہی لیلۃ القدر ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے نوّ ے فیصد مان لیجئے کہ آج ہی لیلۃ القدر ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ ہمیں امید بھی یہی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے بہت ہی معتبر ہوتی ہے، ان کی رائے اور ان کے فیصلے پر اکثر قرآن نازل ہوا، تو آج کی رات لیلۃ القدر کے بارے میں بہت زیادہ امیدوار ہوں لیکن اور راتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے، یہ نہیں کہ آپ لوگ ستائیسویں کے علاوہ اور راتوں کو عبادت کا اہتمام چھوڑدیں۔ 01:03:22 لیلۃ القدر کی فضیلت تو اب آپ لوگ کہیں گے کہ اس رات کی آخر فضیلت کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ رات ایک ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے: ﴿ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ﴾ اسی لیے اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ بیان القرآن میں، تفسیر خازن کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ اگر کوئی ایک ہزار مہینوں تک عبادت کرے اورکوئی صرف آج کی رات عبادت کرلے تو آج کی رات کی عبادت ایک ہزار مہینے کی عبادت سے افضل ہوجائے گی، اور کتنی افضل ہوگی اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ دیکھا آپ نے آج کی رات میں کتنی خیر ہے۔ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍکا شانِ نزول۔۔ 01:04:27 لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍکا شانِ نزول اس آیت کاشانِ نزول کیا ہے؟ علامہ آلوسی نے اس کے شانِ نزول کے حوالہ سے دو واقعات بیان کئے ہیں، ایک مرتبہ حضور ﷺ نے صحابہ کرام سے ارشاد فرمایا (تفسیر روح المعانی کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا، اس نے ایک ہزار مہینے تک ہتھیار باندھ کر اللہ کے راستہ میں جہاد کیا، سوتے وقت بھی تلوار لٹکی ہوئی رہتی تھی، سوتے وقت بھی جہاد کے لئے مسلح رہتا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے دل میں سوچا کہ ایک ہزار مہینے تراسی سال چار ماہ ہوئے، تو ہم اتنی عبادت کیسے کرسکتے ہیں؟ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کی تسلی کے لئے اور آپﷺ کے صحابہ کی تسلی کے لئے یہ آیت نازل فرمادی کہ اگر یہ لوگ لیلۃ القدر میں عبادت کر لیں تو آپ کے امتی پچھلی امتوں کی تراسی سال چار ماہ والی عبادت سے زیادہ پاجائیں گے۔ 01:06:49 دوسری روایت نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺنے پچھلی امتوں میں چار آدمیوں کانام لے کر فرمایا کہ وہ اسّی سال تک عبادت کرتے رہے تھے۔ تو صحابہ کرام نے تعجب کیا کہ ہماری تو عمریں ہی اتنی نہیں ہیں، اسی وقت حضرت جبرئیلu تشریف لائے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کو اور آپ کی امت کو غم ہے کہ ہم اتنی عبادت کیسے کریں جیسے پچھلی امت کے لوگ کرتے تھے لہٰذا اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک رات ایسی دے دی ہے جوپچھلی امتوں کی اسّی سال کی عبادتوں سے بہتر ہے لہٰذا آپ خوش ہوجائیں اور آپ کی امت بھی خوش ہوجائے۔۔ 01:07:37 یہ تو ہوگئی لیلۃ القدر کی تعریف، اس کے بعد ہے اس رات حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ نازل ہوتے ہیں، حضرت جبرئیل علیہ السلام فرشتوں میں داخل ہیں مگر اَلرُّوْحُ نازل کرکے ان کی عظمت ِشان کے لحاظ سے ان کو الگ بیان کیا گیا، خاص آدمی کا بعد میں تذکرہ کیا جاتا ہے، جیسے ہم کہہ دیں کہ بھئی! تمام لوگ جمع ہیں اور فلاں صاحب بھی ہیں، اگر کوئی خاص عالم، بڑے بزرگ بھی ہوں تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہی اس رات میں فرشتے آتے ہیں اور حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی آتے ہیں۔ توجبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ آخر کیا لے کر آتے ہیں؟ ﴿بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ﴾ یعنی ((اَیْ اَمْرٌ مِّنَ الْخَیْرِوَ الْبَرَکَۃِ)) 01:12:55 خیر اور برکت کی چیزیں لے کر آتے ہیں۔ آیت سَلَامٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِکی تفسیر آگے ہے: ﴿سَلَامٌ هِيَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ﴾ یعنی یہ رات سلامتی کی ہے۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ اس رات کی بابت فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ رات سلامتی کی رات ہے، اس رات میں کوئی جادو گر اپنا جادو نہیں چلا سکتا، اس رات میں شیطان قید ہوجاتا ہے: 01:14:14 لیلۃ القدر میں نزولِ ملائکہ کے خاص مقامات علامہ آلوسی رحمہ اللہ تفسیر روح المعانی میں بڑے پیر صاحب شیخ عبدالقادر جیلانی کا قول نقل کررہے ہیں کہ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے تَنَزَّلُ الْمَلَاۗئِكَةُ کی تفسیر پیش کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شبِ قدر میں جبرئیل علیہ السلام کو حکم دیتے ہیں کہ زمین پر جاؤ، ان کے ساتھ ستّر ہزار خاص فرشتے ہوتے ہیں جو سدرۃ المنتہٰی پر رہتے ہیں، وہ ان کو ساتھ لے کر آتے ہیں اور ہر ایک کے ہاتھ میں نو ر کا جھنڈا ہوتا ہے وَمَعَہُمْ اَلْوِیَۃُ مِنْ نُّوْرٍ۔ لِوَاءٌ کے معنی جھنڈے کے ہیں، اور وہ چار مقامات پر اترتے ہیں اور جھنڈا گاڑتے ہیں۔ خانۂ کعبہ، روضۂ رسولﷺ، بیت المقدس اور طورِ سینا، ان چار مقامات پر حضرت جبرئیل علیہ السلام ستّر ہزار فرشتوں کے ساتھ اتر کر نور کے جھنڈے گاڑ دیتے ہیں۔۔۔ 01:17:14 اس کے بعد فرماتے ہیں تَفَرَّ قُوْا ساری دنیا میں پھیل جاؤ، پھر فرشتے ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں، جو لوگ عبادت کرتے ہیں خواہ نفل پڑھ رہے ہوں، تلاوت کررہے ہوں، اللہ تعالیٰ کا ذکر کررہے ہوں یا وعظ سن رہے ہوں،ہر ایک کو سلام کرتے ہیں اور مصافحہ بھی کرتے ہیں ۔لوگ سمجھتے ہیں کہ وعظ کرنا یا سننا ذکر نہیں حالانکہ یہ بھی ذکر ہے، بلکہ یہ تو بہت بڑا ذکر ہے۔ 01:19:50 دین کا ایک مسئلہ سیکھنا سو رکعات سے افضل ہے حدیث میں ہے کہ دین کا ایک مسئلہ سیکھ لینا سو رکعات سے افضل ہےاور دین کا ایک مضمون سیکھ لینا ایک ہزار رکعات سے افضل ہے اب یہاں کتنے مسئلے بیان ہورہے ہیں، اس وقت تو آپ اتنی رکعات کا ثواب پاجائیں گے کہ آپ ایک رات میں اتنی رکعات پڑھ بھی نہیں سکتے، یہ وعظ کا انتظام بہت ہی بہترین انتظام ہے، اس میں آپ بہت سے مسئلے، دین کی بہت سی باتیں سیکھ لیتے ہیں، اگر آپ نے دس باتیں سیکھ لیں تو سو رکعات کو دس سے ضرب کرلو کتنی رکعات ہوگئیں؟ ہزار رکعات ہوگئیں۔ اتنی رکعات آپ ایک رات میں پڑھ بھی نہیں سکتے۔ 01:20:14 حضرت جبرئیل علیہ السلام سے مصافحہ ہونے کی علامات تو میرے دوستو! حضرت جبرئیل علیہ السلام اور تمام فرشتے ہر اس شخص سے مصافحہ اور سلام کرتے ہیں جو عبادت کررہے ہوتے ہیں اور علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں فرمایا کہ ان کے مصافحہ کی علامت کیا ہوتی ہے؟ کیسے معلوم ہو کہ ہمارا مصافحہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہوگیا، تو فرماتے ہیں کہ تین علامات ظاہر ہوتی ہیں۔۔ 01:20:51 بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، دل نرم ہوجاتا ہےاور آنکھیں بہہ پڑتی ہیں یعنی آنسو نکل پڑتے ہیں، مطلب یہ کہ دعاؤں میںرونا آجاتا ہے، بس سمجھ لو کہ ان کا مصافحہ حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہوگیا۔ 01:21:58 (( اِبْکُوْ فَاِنْ لَّمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا)) رونا نہ آئے تو رونے والی شکل بنالو ۔۔ 01:25:05 اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ... اللہ تعالیٰ سےمعافی و مغفرت دلانے والی دعا اللھم انک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی کہ اے اللہ آپ بہت زیادہ معاف فرمانے والے کریم ہیں،معاف فرمانے کو پسند فرماتے ہیں ۔پس مجھ کو معاف فرمادیجئے ۔ 01:26:08 عرفات کے میدان کی دعا۔۔ 01:30:25 لیلۃ القدر کی دعا:۔ شبِ قدر میں کیا کرنا چاہیے؟ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ rنے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر ہم لیلۃ القد ر پاجائیں تو اللہ سے کیا مانگیں؟ اللہ اللہ! ہمیں مانگنا بھی ہماری ماں نےسکھایا، یہ ان کا ہم پر احسان ہے کہ انہوں نے حضورﷺ سے یہ سوال کرکے قیامت تک کے مسلمانوں کو لیلۃ القدر میں مانگنا سکھا دیا۔ واہ رے ہماری ماں! لاکھوں رحمتیں آپ پر نازل ہوں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھاکا شکریہ ادا کرو۔ تو انہوں نے پوچھا کہ یارسو ل اللہﷺ! اگر ہم لیلۃ القدر پاجائیں تو اللہ سے کیا مانگیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ اے عائشہ! یہ دعا پڑھو، اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، معاف کرنے کو محبوب رکھتے ہیں، بس ہماری خطاؤں کو معاف کردیجئے، اس وقت بھی پڑھ لو کیونکہ فرشتے تو اس وقت بھی ہیں۔ 01:32:20 تئیس ۲۳سالہ بارگاہِ نبوت کی جامع دعا ابھی ایک اہم دعا اور ہے، ہر انسان کی صحت اتنی اچھی نہیں ہے کہ وہ مناجات مقبول کی ساتوں منزلیں پڑھ لے، لہٰذا آج ایک ایسی دعا بتاتا ہوں جس میں حضور ﷺ کی تئیس برس کی دعا ئیں شامل ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی دوحصوں میں تقسیم ہے، تیرہ برس مکہ مکرمہ میں رہے اور دس سال مدینہ منورہ میں رہے۔ ان شاء اللہ اختر آپ کو ترمذی شریف کی روایت سے اسی منبر سے ایک ایسی دعا بھی کرا دے گا کہ آپﷺ کی تئیس برس کی تمام دعائیں آپ کوایک منٹ میں مل جائیں گی۔ اب ترمذی شریف کی روایت پیش کرتا ہوں پھر یہ دعا بھی تین دفعہ مانگ لوں گا، وعظ کے ساتھ ساتھ دعا بھی ہوتی رہے، خالی وعظ ہی تھوڑی کہنا ہے، مانگنا بھی ہے،لگے ہاتھوںاللہ تعالیٰ سےمانگتے بھی جاؤ۔۔ 01:35:10 دل کو تھاما ان کا دامن تھام کے ہاتھ میرے دونوں نکلے کام کے تو یہاں سے جاؤ تو دعا بھی مانگتے ہوئے جاؤ تاکہ یہ کام بھی ہوتا رہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہملک ِ شام کے آخری صحابی ہیں، انہوں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللہِ دَعَوْتَ بِدُ عَاۗءٍ كَثِيْرٍ لَّمْ نَحْفَظْ مِنْهُ شَيْئًا آپ نے تو تئیس برسوں میں بہت سی دعائیں مانگی ہیں، ہمیں ان میں سے کوئی دعا یاد نہیں ہے، ہم کیا کریں؟ حضرت ابو امامہt کا غم دیکھ کر رحمۃللعالمینﷺ کی رحمت کو جوش آیا، ان کے سوال پر خدا رحمت نازل کرے، قیامت تک کے مسلمانوں کو تئیس برسوں کی دعائیں ایک منٹ میں مل گئیں، تو آپﷺ نے ارشا دفرمایا اے ابو امامہ! کیوں غم کرتے ہو، أَ لَٓا أَدُلُّكُمْ عَلٰى مَا يَجْمَعُ ذٰ لِكَ كُلَّهٗ کیا میں تجھے ایسی دعا نہ سکھا دوں جو میری زندگی کی تمام دعاؤں کو اپنے اندر شامل کر لے،جو تمام دعاؤں کو جامع ہو، كُلَّهٗ سے تاکید کردی کہ میری کوئی دعا اس سے الگ نہیں ہوگی، عربی گرامر کے لحاظ سے كُلَّهٗ اس کی تاکید ہے لہٰذا اس دعا کو بھی مانگ لو۔۔ 01:36:25 درد بھری دعا آخر میں |