عشاء  مجلس۳۰۔ اپریل ۳ ۲۰۲ء     :اللہ تعالیٰ کی رحمت کا غیر محدود سمندر     !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:38) حسب معمول تعلیم۔۔

03:29) اسباب اختیار کرنا لیکن شکایت نہ کرنا

06:43) علم ایسے نہیں آتا اکڑ سے نہیں آتا ..علم کے لیے یکسوئی چاہیے۔۔

12:05) طلباء کرام کے لیے نصیحت۔۔

13:12) طلباء کو بڑے بالوں پر نصیحت۔۔

19:27) توبہ پر مضمون۔اللہ کی رحمت کے سامنےہمارے گناہوں کی کوئی حیثیت نہیں خیر تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے خوب مانگو،یہ کبھی نہ سوچو کہ میرے توبرےاعمال ہیں،میں شیطان اور نالائق ہو کر کیا مانگ رہا ہوں؟ اپنی طرف دیکھو ہی مت،عقلمندبندہ وہ ہے جو کریم کی شانِ کرم کو دیکھے۔

27:52) اللہ والا طالبعلم کی کیا بات ہے۔۔

33:41) مجدد الملت، مجدد جو سو برس میں ایسا عالم اللہ بھیجتا ہے، مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگ تواضع دکھاتے ہیںکہ صاحب!ہم تو بڑے گنہگار ہیں، ہمارا کیا ہوگا؟خدا ہمیں کیسے بخشے گا؟ہماری ساری زندگی، ہماری تاریخ تو بڑی سیاہ ہے، ہمارا ماضی بڑا بھیانک ماضی ہے اور نامۂ اعمال میں سیاہ ہی سیاہ اعمال ہیں۔ حضرت فرماتے ہیں کہ بظاہر تویہ شخص متواضع معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً انتہائی متکبر ہے،یہ اپنی خطائوں کو اللہ تعالیٰ کے کرم اور رحمت کے مقابلے میں عظیم الشان سمجھ رہا ہے اور حق تعالیٰ کی رحمتوں کو گرا رہا ہے۔لا حول ولا قوۃ۔تمہاری خطائیں اتنی اہم ہو گئیں کہ تم اس کے مقابلے میں اللہ کی شان ِکرم کو بالکل ہی درجہ نہیں دے رہے ہو۔حضرت نے اس موقع پر ایک قصہ بیان فرمایا کہ ایک مچھر بیل پر بیٹھ گیا اور پھر اُڑ کر کہا کہ معاف کرنا،آپ کو تکلیف دی،میں آپ کی اجازت کے بغیر بیٹھ گیا اور آپ کی کمر کو کرسی بنالیا،میں آپ سے معافی چاہتا ہوں۔بیل نے ہنس کرکہا کہ بے وقوف اگر تو مجھے نہ بتاتا تو مجھے خبر بھی نہ ہوتی کہ تو کب میرے اوپر بیٹھا اور کب اُڑ گیا،تیرے جیسے لاکھوں بھی بیٹھے ہوں تو مجھے تو محسوس بھی نہیں ہوگا۔

37:31) اللہ تعالیٰ کی غیر محدود رحمت کو بیان کرنے کے لئے مثال ڈاکٹر عبدالحئ صاحبh حضرت حکیم الامتhکے خلیفہ تھے، علیگڑھ سے ایل ایل بی تھے اور جونپور میں ان کا مطب تھا۔ پھولپور میرے شیخ سے ملنے آیا کرتے تھے تو ہم حضرت حکیم الامت کے دونوں خلفاء کا سنگم یعنی ملاقات دیکھتے تھے، عجیب مزہ آتا تھا۔حضرت ڈاکٹر صاحب مسٹر تھے، انگریزی داں، کسی عربی مدرسے میں نہیں پڑھا تھا لیکن حکیم الامت کی صحبت کی برکت سے کیا سے کیا ہوئے کہ بڑے بڑے علماء مولانا رفیع عثمانی، مولانا تقی عثمانی وغیرہ کو میں نے آنکھوں سے دیکھا کہ وہ حضرت کی جوتیاں اٹھاتے تھے تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوقِ فراواں کردیا پہلے جاں پھر جانِ جاں پھر جانِ جاناں کردیا

43:26) جو اللہ کے لئے اپنے نفس کو مٹاتے ہیںمخلوق میں بھی اللہ ان کو چمکا دیتا ہے، خدائے تعالیٰ اپنی مخلوق میں بھی ان کو عزت عطا فرماتے ہیں۔چنانچہ حضرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ فیصل آباد کے محدث،لاہور کے محدث،کراچی کے محدثین علماء ان کی جوتیاں اٹھاتے تھے۔ تو حضرت ڈاکٹرصاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ کراچی اتنا بڑا شہر اور نوے لاکھ سے زیادہ اس کی آبادی ہے۔ ان لاکھوں لوگوں کا پیشاب پاخانہ سمندر میں جس جگہ گرتا ہے وہاں سمندر کی ایک موج آتی ہے اورتمام کراچی کے پیشاب پاخانے کو لے کر واپس چلی جاتی ہےلیکن سمندر کا پانی ناپاک نہیں ہوتا،اسی سمندر کے پانی سے وضو کرکے ایک امام ِمسجد نماز پڑھاتا ہے تو نمازہوجائے گی یا نہیں؟تو اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق موج کا یہ حال ہے تو اللہ کی رحمت کا سمندر جو غیر محدود ہے اور اس کی موجیں بھی غیر محدود ہیں،ہماری خطائیں ان کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتی ہیں؟اسی طرح بارود بھی اللہ کی مخلوق ہے، ذرا سی بارود پہاڑوں میں رکھ دو تو پہاڑوں کے ٹکڑے اُڑ جاتے ہیں تو کیا اللہ کی رحمت ہمارے تو بہ اور استغفار کی برکت سے ہمارےگناہوں کے پہاڑوں کو نہیں اُڑاسکتی؟اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کے بعد یقین رکھو کہ سب معاف کر دیتے ہیں ،اور اگر معاف نہ کرنا ہوتا تو معافی سکھاتے بھی نہیں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries