عشاء  مجلس  ۲۹ مئی ۳ ۲۰۲ء     :اہل غضب والوں کی چار قسمیں !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:02) حسبِ معمول حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب اِصلاح اخلاق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

03:03) اہل علم حضرات کے لیے حضرت والا رحمہ اللہ کی نصیحت کہ اے علماءِ کرام اے طلباءِ کرام کم از کم ہم کھلم کھلا گناہ تو نہ کریں مونچھیں بڑی نہ رکھیں ٹخنہ نہ چھپائیں۔۔۔

05:49) جب گناہ کر لیا تو مایو س مت ہوں۔۔۔

08:55) ایک صاحب کا تذکرہ جن کو غصہ بہت آتا تھا اور اب ماشاء اللہ کم ہوگیاہے۔۔۔اس پر فرمایاکہ غصہ ختم نہیں ہوگا دب جائے گا احتیاط نہ کرنے سے دوبارہ اُبھر آئے گا۔۔۔

10:48) شیطان باربار مایوس کرے گا۔۔۔ نہ چت کرسکے نفس کے پہلواں کو تو یوں ہاتھ پائوں بھی ڈھیلے نہ ڈالے

12:27) نفس کا ڈینٹ ڈانٹ سے نکلتا ہے جس کو اپنی اصلاح کی فکر ہوگی وہ شیخ کی ڈانٹ کی پرواہ نہیں کرے گا۔۔۔

15:50) حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ایک طویل حدیث کے ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ تم میں سے جو جلد غصہ ہوتا ہے اور جلد رجوع کرتا ہے۔ یعنی سریع الغضب اور سریع الفیٔ ہوتا ہے ’’فَإِحْدٰہُمَا بِالْأُخْرٰی‘‘ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ شخص نہ مدح کا مستحق ہے نہ ذم کا۔ اور وہ شخص جس کو دیر سے غصہ آتا ہے اور دیر سے زائل ہوتا ہے یہ شخص بھی مدح و ذم کا مستحق نہیں۔ اور وہ شخص جس کو دیر سے غصہ آتا ہے اور جلد زائل ہوجاتا ہے تو ایسے لوگ تم میں سب سے بہتر ہیں ’’وَخِیَارُکُمْ مَنْ یَّکُوْنُ بَطِیْئَ الْغَضَبِ سَرِیْعَ الْفَیْئِ‘‘ اور تم میں سب سے بُرے وہ لوگ ہیں جن کو غصہ جلد آتا ہے لیکن دیر سے زائل ہوتا ہے۔ ’’وَشِرَارُکُمْ مَنْ یَّکُوْنُ سَرِیْعَ الْغَضَبِ بَطِیْئَ الْفَیْئِ‘‘

20:36) کسی صاحب سے متعلق جو غصہ کررہے تھے۔۔۔فرمایاکہ اِستقامت کا پتہ اسی وقت چلتا ہے۔۔۔

23:58) کسی صاحب کو کوئی کام بتایا تھا لیکن اُنہوں نے اطلاع نہیں دی اس پر فرمایا کہ ویسے تو جان دینے کے لیے تیارہیں لیکن اس معاملے میں کیا حالت ہے احساس نہیں۔۔۔جو شیخ حلیم الطبع ہو اس کے غصے سے بچنا چاہیے۔۔۔

26:24) گناہ ہونا تعجب کی بات نہیں توبہ نہ کرنا تعجب کی بات ہے۔۔۔

29:46) نہ مٹنے کی وجہ سے انسان اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھنے لگتا ہے۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کی مثال۔۔۔

31:50) شیخ کی ناراضگی پر خانقاہ تھانہ بھون میں ایک عالم کی کیفیت: ارشاد فرمایا کہ ایک عالم تگڑے تھے،عالم بھی بہت اچھے تھے،مقرر بھی تھے اور مناظر بھی تھے۔تھانہ بھون میں بھنگیوں کی اسٹرائک(ہڑتال) ہوگئی تو خانقاہ کے بیت الخلاء صاف کرنے بھی کوئی بھنگی نہیں آیا، تو اُن عالم صاحب نے آدھی رات کو اُٹھ کر خانقاہ کے تمام بیت الخلاء خود صاف کئے،کمر پر رسی باندھی اور فجر نماز سے پہلے پہلے رات بھر جاگ کر سب صاف کردیا،صبح لوگوں نے دیکھا کہ بیت الخلاء بالکل صاف ہوگئے۔یہ تھے اللہ والے، انہوں نے اپنے کو کتنا مٹایا۔ لیکن ایک غلطی ان سے ہوگئی کہ اپنی ہی باتوں کو لکھتے تھے ’’فرمایا کہ‘‘،اپنے ملفوظات کو اس طرح لکھتے تھے’’ فرمایا کہ‘‘۔انسان ہی سے غلطی ہوتی ہے،وہ کتاب کہیں کسی نے دیکھی تو حضرت کو دِکھائی گئی،حضرت نے بہت ڈانٹ لگائی،فرمایا کہ اس کو تلف کردو اور ان سے بات چیت بند کردی۔ان کو اپنی اس خطا پر شدید غم ہوا۔

جب حضرت نے ان سے بول چال بند کردی تو انہوں نے کھانا پینا بند کردیا،مارے غم کے کچھ نہیں کھاتے تھے،صرف پان،تمباکو والا کھالیتے تھے،اس میں آدمی مجبور ہوتا ہے۔ لوگوں نے حضرت سے سفارش کی کہ انہوں نے کھانا کھانا چھوڑ دیا ہے،پھر کئی دن کے بعد حضرت نے ان کو معاف کیا۔معاف کرتے ہوئے حضرت نے ان کو امامت کے لئے آگے فرمایا اور اپنا عمامہ ان کے سر پر رکھا۔اللہ والے مہربان بھی بہت ہوتے ہیں، ہماری اصلاح کے لئے وہ نظر سے دور کرتے ہیں، دل سے پاس رکھتے ہیں۔

35:59) مرید کا شیخ کے ساتھ تملق(خوشامد) بھی جائز ہے: ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیخ کی محبت میں تملق ( تَمَلُّقْ،چاپلوسی) بھی جائز ہے۔اس کی ایک مثال دیتا ہوں کہ کبھی شیخ موڈ میں ہو اور کسی مرید سے کہے آج تم سے کشتی لڑنی ہے۔ اگر لائق مرید ہے تو اِدھر اُدھر کر کے خود گرجائے گا کہ میرا شیخ مجھے ہرا دے اور یہ بھی کہے گا کہ حضرت! ہمیں کیا خبر تھی کہ آپ اتنے طاقتور ہیں حالانکہ دل میں سمجھ رہا ہے کہ بابا(شیخ) ہم سے کمزور ہیں لیکن شیخ کو خوش بھی کررہا ہے کہ آپ کی روحانیت بہت زبردست ہے، تو شیخ بھی سمجھ جاتا ہے کہ یہ سراپا ادب کر رہا ہے،(لہٰذا شیخ کی محبت کو ظاہر کرنے کا جب موقع ملے تو کرنا چاہیے)۔

حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شیخ سے ناز و نخرہ حرام ہے؎ میل معشوقاں نہان ست و ستیر میل عاشق با دو صد طبل و نفیر معشوقوں کی محبت مخفی اور مستور ہوتی ہے اور عاشق کی فطرت سیکڑوں طبل و نفیر بجاتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ مرشد کی شان ِمحبوبیت اگر اظہار ِمحبت طالب پر نہ کرے تویہ اس کی شان کو زیباہے مگرطالب کے لئے اظہار ِمحبت ہی میں نفع ہے۔اسی لئے حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے شیخ کے ساتھ تملق کوجائز فرمایاہے کیونکہ تملق(خوشامد) وہ مذموم ہے جو دنیا کے لئے ہو، اوریہ دین کے لئے ہے، اس لئے محمود ہے۔

42:23) شیخ کی محبت کو خدا سے مانگنا چاہیے: ارشاد فرمایا کہ حدیث ِپاک کی دعا ’’اَللّٰہُمَّ اِنِّیْٓ اَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ‘‘میں نیت کرو کہ اے اللہ!مجھے شیخ کی محبت نصیب فرما۔

دورانیہ 44:14

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries