عشاء  مجلس  ۵  جون  ۳ ۲۰۲ء     :پریشانی ،ڈیپریشن کا ایک ہی علاج  اللہ کو راضی کر لیں        !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:56) حسبِ معمول حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب اِصلاح اخلاق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

توّکل کی حقیقت۔۔۔

01:57) حضرت والا رحمہ اللہ کی نصیحت کہ اللہ تعالیٰ جس سے دین کے کام لے اس کو اللہ تعالیٰ سے اخلاص مانگنا چاہیے۔۔۔

05:32) غصہ حرام ہے۔۔۔غصے کا علاج۔۔۔

06:50) وسوسے کس کو آتے ہیں؟۔۔۔وسوسے اس کو آتے ہیں جس کا ایمان مضبوط ہوتا ہے۔۔۔

08:39) پریشانی ڈیپریشن کا ایک ہی علاج ہے کہ بس اللہ تعالیٰ کو راضی کر لیں۔۔۔

11:03) اللہ کے پیارے نفس کا خون پی جاتےہیں۔۔۔شیر کی مثال۔۔۔

12:08) مولا کا دوست کسی چیز سے پریشان نہیں ہوتا۔۔۔

13:06) اِستغفار کی برکات۔۔۔

14:34) تقویٰ کے انعامات۔۔۔

17:40) منحوس کوئی چیز نہیں۔۔۔منحوس گناہ ہیں۔۔۔

22:27) اللہ تعالیٰ اور آپﷺ کی نافرمانی کر کہ کوئی خوش نہیں رہ سکتا۔۔۔

25:00) مختلف قسم کے وسوسے۔۔۔

28:01) اللہ تعالیٰ کی معافی کامضمون۔۔۔وَاغْفِرْلَنَاکی تفسیر ہے بِاِظْھَارِالْجَمِیْلِ وَسِتْرِ الْقَبِیْحِ یعنی آپ میری برائیوںکو چھپادیجئے اور میری نیکوں کو ظاہر کردیجئے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَ اے اللہ !ہم لوگوں سے ایسے بڑے بڑے کام ہوجائیں کہ قیامت تک ان کو چرچا ہوتا رہے۔ وَاغْفِرْلَنَا کی یہ تفسیر روح المعانی میں ہے۔ کون سی جاہ محمود ہے؟ اب اگر کوئی کہے کہ نیکیوں کو ظاہر کرنے کی طلب تو حب جاہ ہے، تو یہ حب جاہ نہیں ہے۔ حب جاہ وہ ہے جو اپنے نفس کے لئے جاہ چاہے اور جو اللہ تعالیٰ کے لئے چاہے کہ اللہ مخلوق میں ایسی عزت دے کہ جب میں بیان کروں تو سب لوگ سرآنکھوںپر رکھ لیں تو یہ طلب عزت برائے ربّ العزت ہے۔ جاہ وہ مذموم ہے جو اپنے نفس کی بڑائی کے لئے ہو۔ جو بڑائی اللہ کے لئے ہو وہ مذموم نہیں۔مثلاً ہم اچھا لباس اس لئے پہنیں کہ لوگ مولیوں کو حقیر نہ سمجھیں، چندہ مانگنے والا بھک منگانہ سمجھیں تو یہ بڑائی اللہ کے لئے ہے اور مطلوب ہے۔

39:17) علماء کو ستانے والے کے لیے وبال۔۔۔

41:41) لوگ سمجھیں گے کہ کچھ مال دینے کے لئے آیا ہے، لینے کے لئے نہیں آیا۔ نیت پر معاملہ ہے۔ یہی دکھا وا اور بڑائی نفس کے لئے ہو تو وہ مذموم ہے۔ جب وَاغْفِرْلَنَاکہے تو دل میں نیت کرلیجئے کہ یا اللہ! میری برائیوں کو مخلوق سے چھپادیجئے اور نیکیوں کو ظاہر کردیجئے۔ اسی طرح جب وَاعْفُ عَنَّا کہئے تو دل میں اللہ سے کہیں کہ اے اللہ! مجھے معاف کردیجئے اور میرے گناہوں کے چاروں گواہوں کو مٹا دیجئے اور آپ کا یہ وعدہ مذکورہ حدیث میں بزبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ہورہا ہے۔ سفیر جو ہوتا ہے سلطان مملکت کا ترجمان ہوتا ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سفیر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمادینا کہ اللہ تعالیٰ گناہوں کے تمام نشانات کو مٹا دیں گے اور خود مٹائیں گے، اپنے بندوں پر فرشتوں کا بھی احسان نہیں رکھیں گے یہ گویا اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ترجمانی ہے۔ رحمۃ للعالمین کی زبان مبارک ارحم الراحمین کی رحمتوں کی ترجمان ہے۔ اس کے بعد وَارْحَمْنَا بس آج اسی مضمون کے لئے اتنی تمہید میں نے بیان کی کہ یا اللہ ! ہم پر رحم فرمادیجئے۔ معافی اور مغفرت کے بعد رحم کے کیا معنی ہیں؟ رحمت کی چار تفسیریں حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے بیان کی ہیں جو شاید ہی آپ کسی کتاب میں پائیں گے، لہٰذا جب وَارْحَمْنَا کہئے تو چار نعمتوں کی نیت کرلیجئے: (۱) توفیق طاعت: گناہوں سے طاقت کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ گناہ کی نحوست سے عبادت میں جی نہیں لگتا او ر گناہوں کے کاموں میں خوب دل لگتا ہے ، اس لئے گناہوں میں مبتلا ہوجاتا ہے اور پھر عبادت وفرماں برداری کی توفیق نہیں ہوتی۔ (۲) فراخی معیشت: روزی میں برکت ڈال دیجئے کیوں کہ گناہوں سے روزی میں برکت ختم ہوجاتی ہے، کماتا بہت ہے لیکن پورا نہیں پڑتا۔ (۳) بے حساب مغفرت : قیامت کے دل ہمارا حساب نہ لیجئے کیوں کہ جس سے مواخذہ ہوگا اس کو عذاب دیا جائے گا۔ (۴) دخولِ جنت: اب علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سنئے!فرماتے ہیں رحم کی درخواست میں اپنے کسی نیک عمل کا استحقاق نہ لانا۔

45:33) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries