عشاء مجلس۱۴   جون  ۳ ۲۰۲ء     :تکبر کا علاج ملفوظات  حضرت تھانوی ؒ   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:47) حسب معمول تعلیم ہوئی۔۔

07:58) دو رکعت پڑھ کر دعا کہ جو مشکلات میں ہیں جو حج پر جانے والے تھے پیسے لے کر بھاگ گئے اُن کے لیے آسانی فرما اور ان ظالموں کو ہدایت عطاء فرما کہ بدعا لینا اور مظلوم کی بدعا بیچاروں کی جمع پونجی لے کر بھاگ گئے۔۔

11:17) تکبر کے دو جز۔۔

11:36) تکبرکی شاخیں۔۔

15:47) اصلاح کرائیں گے تو پتا چلے گا کہ تکبر ہے یا نہیں۔۔

17:26) تکبر کیسا خطرناک معاملہ ہے؟

20:15) قربانی ملفوظ حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کہ بعض لوگ پوچھتے ہیں کہ میت کی طرف سے قربانی کریں یا نہیں اور اگر کریں تو کیوں اور کیسے؟ تو سنو؛ قربانی مُردوں کی طرف سے بھی جائز ہے ۔ ماں ، باپ، پیر، استادحتیٰ کہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے بھی قربانی کرسکتے ہیں (اور کرنا چاہئے) مگر ایک حصہ کئی مُردوں کی طرف سے درست نہیں۔ اور شاید کسی کو اس حدیث سے شبہ ہو کہ حضرت محمد ﷺ کی عادتِ شریفہ تھی کہ قربانی میں ساری امت کو یاد فرماتے تھے۔ اس حدیث سے کوئی یہ نہ سمجھ جائے کہ آپ ﷺ نے ایک حصہ میں ساری امت کو شریک کیا لہٰذا ہمارے لئے بھی جائز ہے کہ ایک حصہ میں کئی آدمی شریک ہوجایا کریں۔ تو سنو؛ کچھ خبر بھی ہے کہ وہ کس کا حصہ تھا؟ وہ ایک حصہ لاکھوں کے برابر تھا۔ یہ تو عاشقانہ جواب ہے مگر اصل یہ ہے کہ آپ ﷺ نے قربانی سب کی طرف سے نہیں کی تھی بلکہ اپنی طرف سے کرکے اس کا ثواب ساری امت کو بخش دیا ۔ جیسے تم نفل قربانی صرف اپنی طرف سے کرو اور پھر اس کا ثواب کئی آدمیوں کو بخش دو ، یہ جائز ہے ۔ باقی یہ شبہ نہ کیا جائے کہ آپ ﷺ نے امت کو ثواب بخشا تو (پوری) امت اس وقت موجود کہاں تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ لوگوں کا یہ خیال کہ ثواب صرف مُردوں ہی کو پہنچتا ہے ، غلط ہے بلکہ زندوں اور آئندہ آنے والوں سب کو ثواب پہنچتا ہے۔

22:15) گائے کی قربانی ترک کرنے کا شرعی حکم گائے کی قربانی کا روکنا شرعاََ جائز ہے یا نہیں؟ بعض بھولے لوگوں کو اس میں لغزش ہوگئی۔ وہ کہتے ہیں کہ قربانی واجب ہے خواہ بکری کی ہو یا گائے کی۔ پھر کیا ضرورت کہ گائے کی قربانی کرکے باہم اختلاف کیا جائے لہٰذا گائے کی قربانی چھوڑ دینا چاہئے۔ بکری کی قربانی کرلیا کریں۔ بظاہر تو یہ رائے بہت مناسب ہے لیکن غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ یہ بالکل لچر اور کمزور بات ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ گائے کی قربانی ترک کرنا دوسری قوم کے نزدیک مذہبی امر کی وجہ سے ہے یا ملکی مصلحت کی وجہ سے؟ تو واقع میں ان کے یہاں (یعنی گائے کی قربانی نہ کرنا) مذہب کا جزء ہے۔ پس اس وقت ہمارا ترک کرنا کفر کی رعایت کرنا ہے اس لئے ہرگز جائز نہیں ہے۔ ۔۔

24:15)ہندوؤں کو خوش کرنے یا اتحاد کی وجہ سے گائے کی قربانی ترک کرنا فرمایا کہ محض ہندوؤں سے اتفاق پیدا کرنے اور ان کو خوش کرنے کے لئے گائے کی قربانی کو موقوف کردینا اور ہمیشہ کے لئے گائے کی قربانی کا گوشت چھوڑ دینا درست نہیں۔اس لئے کہ گائے کا ذبح کرنا شعائر اسلام سے ہے، اورگائے کا ذبح نہ کرنا اور اس کے گوشت سے مذہبی حیثیت سے نفرت کرنا شعائر کفر سے ہے ۔ اسلامی شعائر کو چھوڑ کر کفر کے شعائر کو اختیار کرنا اور اس خیال سے خود ذبح کو چھوڑ دینا اور کسی کو ترغیب نہ دینا بلکہ ترک کی رغبت دلانا کہ مخالفین اسلام خوش رہیں ۔ یہ مدارات ناجائز اور مداہنت فی الدین ہے ۔ہماری شریعت ِ مطہرہ نے ہرگز اس کی اجازت نہیں دی ہے۔ یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِیُرْضُوْكُمْ میں تصریح ہے کہ اﷲ و رسول کو ناراض کرکے جب مسلمانوں کو راضی کرنا بھی موجب ِ عقاب و عتاب ہے تو اﷲ و رسول کو ناراض کرکے کافروں کو راضی کرنا تو کس طرح موجب ِ عتاب نہ ہوگا، اس امر کو معمولی نہ سمجھیں۔

25:41) قربانی کا جانو ر کیسا ہونا چاہیے۔۔ فرمایا کہ جب قربانی کا جانور آپ کی جان کا عوض ہے تو اس کو کچھ تو ایسا ہونا چاہئے کہ محبوب اور پیارا ہو۔ اب جو لوگ سڑیل سے سڑیل اور گھٹیا سے گھٹیا جانور خریدنے کی فکر کرتے ہیں، یہ زیبا نہیں لیکن اگر عمدہ مال ہو اور سستا مل جائے تو اس کا مضائقہ نہیں۔ یہ تو ازروئے حدیث مومن کے لئے نقد انعام ہے۔ ہم خرما ہم ثواب ، لیکن بعض لوگ تو چھانٹ کر خراب جانور خریدتے ہیں سو اس کی ممانعت ہے۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں (( وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ )) یعنی اس میں قصد کی ممانعت ہے کہ اﷲ کے واسطے چھانٹ کر بری چیز کا قصد نہ کرو۔ اور قصد کی قید میں بھی رحمت ہے کیونکہ حق تعالیٰ جانتے ہیں کہ بعض لوگ غریب بھی ہوں گے جن کے پاس گھٹیا ہی مال ہوگا تو اگر وہ گھٹیا دیں تو مضائقہ نہیں کیونکہ وہ گھٹیا کا انتخاب اور قصد نہیں کرتے بلکہ اس لئے گھٹیا دیتے ہیں کہ ان کے پاس اور ہے ہی نہیں ۔ پھر آگے اس کا معیار بتاتے ہیں جس سے معلوم ہوجائے گا کہ ہر شخص کے اعتبار سے گھٹیا کا درجہ کیا ہے۔چنانچہ فرماتے ہیں ولستم بآخذیہ یعنی بس یہ دیکھ لو کہ اگر ایسی چیز تم کو کوئی دے تو تم بھی خوشی سے اس کو لے سکتے ہو یا نہیں۔ لحاظ کا لینا معتبر نہیں اس لئے آگے اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ (ہاں مگر چشم پوشی کر جاؤ) بھی بڑھا دیا۔ پس جو چیز تم دوسرے سے خوشی کے ساتھ لے سکتے ہو ، اس کو اﷲ کے نام پر بھی دے سکتے ہو ۔ اور ظاہر ہے کہ جس غریب کے پاس گھٹیا ہی مال ہے وہ دوسرے سے بھی اس جیسی چیز کو لے سکتا ہے لہٰذا ان کو گھٹیا جانور کی قربانی جائز ہے ۔ اور جو لوگ ایسے نازک ہیں کہ بیمار اور دبلے جانور کا گوشت کبھی نہیں لیتے ، ہمیشہ عمدہ جانوروں کا گوشت کھاتے ہیں ، اگر یہ دبلے جانور کی قربانی کریں گے تو اس کی ممانعت ہوگی۔ کیا رحمت ہے کہ حق تعالی نے معیار بھی خود ہی بتلا دیا ، تمہاری رائے پر نہیں چھوڑا۔

33:46) چار سدہ کے سفر کا ذکر۔۔

34:11) سستی قربانی کی تلاش فرمایا کہ بعض وسعت والے قربانی تو کرتے ہیں مگر بڑی کوشش اس کی ہوتی ہے کہ کوئی حصہ سستا مل جائے گو اس میں کچھ عیب بھی ہو مگر ایسا نہ ہو جو مانع جوازِ قربانی ہو اور وجہ اس کی دو ہیں۔ ایک بخل اور دوسرے یہ خیال غیر واقعی کہ قیمت بڑھنے سے یا مال کے عمدہ ہونے سے ثواب میں زیادتی نہ ہوگی بلکہ ایک حصہ میں جس قدر ثواب ہوتا ہے وہ قانون میں برابر ہوگا ۔ اگر زیادہ بھی ہوئی تو ہم زیادتی کو کیا کریں گے؟ پس اتنا ہی کافی ہے کہ برأت ذمہ حاصل ہوجائے۔ اس کی اصلاح یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے بلکہ جس قدر مال عمدہ ہوگا یا قیمت زیادہ ہوگی ثواب زائد ہوتا جائے گا۔ لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (تم اس وقت تک نیکی حاصل نہیں کرسکتے جب تک اپنے محبوب اموال میں سے خرچ نہ کرو) اور وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِ ( یعنی اﷲکی راہ میں خرچ کرتے وقت خراب مال دینے کا قصد نہ کرو کہ اس سے خرچ کرو اور جب کبھی لینے کاموقع ہو تو تم اسے لینے والے نہیں ہو الایہ کہ چشم پوشی سے کام لو) اور حدیث سمنوا ضحایاکم (اپنے قربانی کے جانوروں کو فربہ کرو) اور حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کا قصہ ہے کہ ایک اونٹنی ذبح کی تھی جس کے تین سو دینار ان کو ملتے تھے۔ (رواہ فی التفسیر المظہری) یہ سب دلائل واضح ہیں اس دعویٰ کے لئے۔ اور یہ خیال کہ ہم زیادہ کو کیا کریں گے ؟ صرف برأت ذمہ کافی ہے ، اس کا محل وہاں ہوسکتا ہے جہاں صرف مواخذہ سے بچنا ہو اور اس حاکم سے کوئی خاص تعلق نہ ہو اور نہ خاص تعلق پیدا کرنا مقصود ہو ۔ کیا حق تعالیٰ شانہْ کے تعلقات کے وجود یا مطلوبیت حصول کا کسی کو انکار ہوسکتا ہے ۔ اگر نہیں ہوسکتا تو اس خیال کی گنجائش کہاں رہی؟+

39:05) اﷲ کے نام کی برکت سے جانور کا گوشت حلال ہوتا ہے فرمایا کہ اﷲ کا نام لینے سے (یعنی اﷲ کے نام سے ذبح کرنے سے ) جانور کے اندر حلت آ جاتی ہے اور وہ کھانے کے لائق ہوجاتا ہے ۔ اور اس سے ایک اشکال کا جواب بھی معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ اہلِ جاہلیت (کفارِ مکہ) کہا کرتے تھے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تمہارا مارا ہوا جانور تو حلال ہو اور اﷲ کا مارا ہوا حرام یعنی ذبیحہ حلال ہو اور مردار حرام؟ اس کا جواب یہاں سے نکل آیا کہ ذبیحہ جو کھانے کے قابل ہوتا ہے وہ بھی اﷲ ہی کے نام کی برکت ہے۔ پس دونوں اﷲ تعالیٰ ہی کے مارے ہوئے ہیں ، ہمارے مارے ہوئے نہیں کیونکہ جان تو وہی نکالتا ہے ۔ باقی یہ فرق کہ ایک حلال اور ایک حرام (ایسا کیوں؟) تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں اﷲ تعالیٰ کا نام لیا گیا ہے ، اس کی برکت سے یہاں حلت آئی اور وہاں نہیں لیا گیا اس لئے حرمت رہی اور دوسرے فرق کی وجہ یہ ہے کہ ذبیحہ میں دم مسفوح( بہنے والا خون) جو نجس(ناپاک) ہے نکل جاتا ہے اور مردار میں وہ خون تمام بدن میں سما جاتا ہے ۔ پس حلت دونوں باتوں کے مجموعہ کا یعنی ذکر اسم اﷲ (اﷲ کے نام سے ذبح کرنا) اور خروج دم مسفوح( یعنی بہنے والا خون نکل جانا) کا اثر ہے۔

41:45) قربانی کے گوشت کے متعلق ضروری ہدایت فرمایا کہ قربانی کے گوشت میں آپ کو اختیار ہے کہ آپ جس کو چاہیں دیں ، خواہ مالدارکو خواہ فقیر کو سب جائز ہے۔ مگر قصائی کو گوشت کاٹنے کی اجرت میں ہرگز نہ دیا جائے کہ یہ اجرت میں داخل ہوکر قربانی کے ثواب کو باطل کردے گا۔ گوشت بانٹنے میں اچھا طریقہ یہ ہے کہ اپنے خرچ کے موافق نکال کر باقی فقراء اور عزیز و اقارب کو تقسیم کردیا جائے اور ان لوگوں کا لحاظ خصوصیت کے ساتھ زیادہ رکھنا چاہئے جو وسعت ( اور استطاعت) نہ ہونے کی وجہ سے قربانی نہیں کرسکتے۔ اور یہ جو آج کل ادلا بدلی ہوتی ہے ( کہ جہاں سے گوشت ہمارے یہاں آیا اس کے یہاں ہم بھی پہنچا دیں گے ورنہ نہیں، غریبوں کی ضرورت اور حاجت پر نظر نہیں ہوتی)یہ تو بالکل ہی خلافِ عقل ہے ۔ جب اہلِ مبادلہ ( یعنی ادلا بدلی کرنے والوں) میں ہر شخص کے یہاں قربانی ہوتی ہے تو پھر ایک دوسرے کے یہاں خواہ مخواہ ہی بھیجنا ہے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries