فجر مجلس۱۷   جون  ۳ ۲۰۲ء     :اللہ والوں کا طریقِ عبادت  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

04:09) حضرت تھانوی رحمہ اللہ سے متعلق حضرت والا رحمہ اللہ کے ملفوظات: اہلِ محبت کی شان: مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ اپنی جوانی میں ایک بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ حضرت اﷲ کی محبت کیسے ملتی ہے؟ فرمایا کہ مولوی اشرف علی! چونکہ وہ بزرگ عمر میں بڑے تھے اس لیے مولانا یا حضرت نہیں کہا، بھئی بابا کو القاب لگانے کی کیا ضرورت ہے۔ تو فرمایا کہ اپنے ہاتھ کو ملو، مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ہاتھ کو رگڑا گرمی پیدا ہوئی، عرض کیا کہ حضرت ہاتھ گرم ہوگئے، فرمایا ابھی اور رگڑو، ہاتھ اور گرم ہوگئے، پھر فرمایا کہ اور رگڑو، اور رگڑ کے کہا کہ حضرت اب تو ہتھیلی آگ ہوگئی ہے، ہتھیلی میں آگ لگ رہی ہے، اب برداشت نہیں ہے، فرمایا کہ ایسے ہی جب اﷲاﷲکہتے رہو گے تو یہ رگڑ دل پر لگتی ہے اور ان شاء اللہ اسی سے دل میں اﷲ کی محبت کی آگ لگ جائے گی۔

04:11) اُردو کو جاری کیجئے اب ایک اہم مشورہ دیتا ہوں کہ یہاں اردو کو جاری کیجئے۔ حضرت حکیم الامت مجددالملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے جن لوگوں کو عشق و محبت اور عقیدت ہے تو حکیم الامت نے ہندوستان کے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ چونکہ ہمارے دین کا سارا ذخیرہ اردو میں ہے لہٰذا اپنے بچوں کو اردو پڑھاؤ تاکہ وہ دین کی کتابیں پڑھ سکیں۔ اور اس سے ان میں اور ہندوؤں میں فرق بھی رہے گا، جب وہ اردو بولے گا تو سمجھے گا کہ ہاں ہم ہندو نہیں ہیں۔

08:08) اﷲ والوں کا طریقِ دعوت بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب آج کی مجلس میں آدمی کم آئے ہیں، بھئی اگر ایک آدمی بھی بن جائے تو سمجھ لو محنت وصول ہوگئی۔حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ خانقاہ تھانہ بھون میں ظہر سے عصر تک مجلس کرتے تھے اور روزانہ پچاس ساٹھ آدمی ہوتے تھے، ایک دن ایسا ہوا کہ ایک آدمی بھی نہیں آیا، حضرت ظہر سے عصر تک وہیں بیٹھے رہے او ر کہا کہ یا اﷲ! دوکان لگانا ہمارا کام ہے، گاہک بھیجنا آپ کا کام ہے، میں نے آپ کی محبت کی دوکان لگائی ہے، اب کوئی آئے نہ آئے ہم تو ڈیوٹی دے رہے ہیں، ہماری محنت تو وصول ہوجائے گی، اﷲ کا فضل مل جائے گا۔

09:13) حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار دوسیٹھ مدراس سے حاضرِ خدمت ہوئے عرض کیا کہ حضرت ایک لاکھ روپیہ نذر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ بھائی آپ لوگ پہلی بار تشریف لائے ہیں اور ہدیہ کے بارے میں میرا اصول یہ ہے کہ جب طرفین میں بے تکلفی ہو جائے اور باربار کی ملاقات سے حجاب اٹھ جائے اس وقت ہدیہ قبول کیا کرتا ہوں۔ اپنے اس اصول کی بناء پر آپ لوگ مجھے اس نذر کے قبول کرنے سے معذور خیال فرمائیں۔

11:07) مولانا تھانوی علیہ الرحمہ ایک بار سفر کررہے تھے کہ رات کو ایک چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹھہرنا ہوگیا وہاں کا اسٹیشن ماسٹر حضرت کا معتقد تھا لیکن تھا ہندو کیونکہ پلیٹ فارم پر اندھیرا تھا اس لیے وہ لالٹین لے آیا۔ حضرت کو خیال ہوا کہ یہ تو ریلوے کی ہوگی، فرمایا کہ بھائی یہ لالٹین ریلوے کی ملک ہے ریلوے کے کاموںہی میں استعمال ہوسکتی ہے ذاتی استعمال میں لانا ہمارے لیے جائز نہیں اسے واپس لے جائو۔ وہ ہندو رونے لگاکہا کہ یہ ہیں اﷲ والے۔ کافروں کے دلوں میں بھی اسلام کی حقانیت کا سکہ بیٹھ جاتا ہے اﷲ والوں کو دیکھ کر۔

12:04) ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی یہ خواجہ مجذوب صاحب رحمہ اللہ کا شعر ہے۔ حکیم الامت رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ شعر سن کر فرمایا تھا کہ خواجہ صاحب !اگر میرے پاس ایک لاکھ روپیہ ہوتا تو آپ کے اس شعر پر انعام میں دے دیتا ۔ سارے عالم کا خالق بتاؤ کون ہے؟ سارے عالم کی مرغیوں کا خالق ، سارے عالم کے سیب اور انگور کا خالق ، ارے !عالم کی نعمتوں اور لذتوں کا خالق کون ہے؟ سارے عالم کے حسینوں کا خالق کون ہے؟ اللہ ہے، جس دل میں وہ اللہ آتا ہے تو وہ دل سارے عالم سے مستغنی ہو جاتا ہے۔۔۔

13:59) ایک مرتبہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے سنت سمجھ کر پیوند لگا ہوا کرتہ پہن لیا اور سفر پر جارہے تھے۔ پیرانی صاحبہ نے عرض کیا کہ ایک بات کہوں۔ فرمایا کیا بات ہے؟ کہا کہ آپ کپڑے بدل لیجئے۔ دوسرے اچھے کپڑے پہن لیجئے کیوںکہ آپ جب اس لباس میں جائیں گے تو مرید سمجھیں گے کہ آج کل حضرت ضرورت مند ہیں۔ حضرت نے فرمایا جزاک اللہ واقعی اگر میں اس لباس میں جاتا تو میرے مریدوں کو غم ہوتا اور وہ میرے لیے کپڑے بنوانے کی فکر کرتے لہٰذا یہ لباس خود سوال بن جاتا چناںچہ حضرت نے دوسرا اچھا لباس پہن لیا۔

14:36) حضرت مجددرحمہ اللہ کےعمل سے بعض ہدایا قبول اور بعض رَد کرنے کا ثبوت ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ دس روپےکے مقروض ہوگئے۔اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ!میرے قرض کی ادائیگی کی کوئی صورت کر دیجئے۔شام کو مقروض ہوئے اور اگلے دن ایک رئیس جو کسی ریاست میں بڑے عہدے پر تھے،حضرت کی زیارت کے لئے حاضر ہوئے۔ انہوں نے ۲۵ روپے ہدیہ پیش کئے ،حضرت نے اس میں سے دس روپے قبول فرماکر باقی واپس کر دئے۔بعد میں فرمایا کہ میرا ارادہ دس سے بھی کم لینے کا تھا لیکن مجھے ڈر لگا کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دس روپے مانگے تھے،کم لینے میں کہیں اللہ تعالیٰ ناراض نہ ہو جائیں کہ مانگتا بھی ہے اور جب ہم دیتے ہیں تو لیتا بھی نہیں۔

16:28) حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا تھانویؒ کے استغناء کا ایک واقعہ ہمارے مرشدِ پاک حضرت والا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں ایک بار دوسیٹھ مدراس سے حاضرِ خدمت ہوئے عرض کیا کہ حضرت ایک لاکھ روپیہ نذر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ بھائی آپ لوگ پہلی بار تشریف لائے ہیں اور ہدیہ کے بارے میں میرا اصول یہ ہے کہ جب طرفین میں بے تکلفی ہو جائے اور باربار کی ملاقات سے حجاب اٹھ جائے اس وقت ہدیہ قبول کیا کرتا ہوں۔ اپنے اس اصول کی بناء پر آپ لوگ مجھے اس نذر کے قبول کرنے سے معذور خیال فرمائیں۔ یہ ہے اللہ والوں کی شان، حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی شان میں رمزی اٹاوی نے خوب لکھا ہے؎ نہ لالچ دے سکیں ہر گز تجھے سکوں کی جھنکاریں ترے دستِ توکل میں تھیں استغنا کی تلواریں سکھائے فقر کے آداب تو نے بادشاہی کو جلالِ قیصری بخشا جمالِ خانقاہی کو قدم راہِ نبیﷺ میں اور پنجہ نبضِ امت پر حکیمانہ نظر رہتی تھی بسط و قبضِ امت پر شرف تجھ کو ملا بزمِ دلا کی باریابی کا صحابی گو نہیں لیکن نمونہ تھا صحابی کا کہیں مدت میں ساقی بھیجتا ہے ایسا مستانہ بدل دیتا ہے جو بگڑا ہوا دستورِ میخانہ

20:00) ایک شخص نے حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو کوئی دنیاوی لالچ دیا۔ حضرت نے فرمایا کہ مجھے دنیا کا لالچ مت دو ، میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اللہ کے راستہ میں سلطنت بلخ دے دی تھی اور سلطنت چھوڑ کر فقیری اختیار کی تھی۔ حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، سلطان ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کے رشتہ داروں میں سے تھے، فاروقی خاندان سے تھے۔

20:49) سنتوں کی اتباع سے متعلق نصیحت۔۔۔حضرت والار حمہ اللہ نے کیسی کیسی سنتیں سکھائیں کہ جن کا علم بھی نہ تھا۔۔۔

28:43) حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کا قلبی مقام: ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں کہ بزرگوں کی جوتیوں کے صدقہ میں مجھے یہ بات حاصل ہے کہ اگر ساری دنیا مجھ سے نارا ض ہوجائے تو مجھے کچھ خوف نہیں۔ اللہ اکبر! کیا ایمان ہے! اللہ ہمیں بھی اس ایمان کا کچھ حصہ عطا فرمادیں کہ اگر ساری دنیا ناراض ہو جائے اور اللہ راضی رہے تو دنیا بھر کی ناراضی کچھ مضر نہیں، اور اگر اللہ ناراض ہے اور ساری دنیا راضی ہے اور ہاتھ پائوں چوم رہی ہے تو ساری دنیا کی یہ رضا کچھ مفید نہیں۔

30:27) دُعا کی پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries