فجر  مجلس۱۹   جون  ۳ ۲۰۲ء     :علم نبوت تو ہے مگر نور نبوت نہیں      !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:39) حضرت حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اشرف علی تمام مسلمانوں سے ارذل ہے، سارے مسلمانوں سے کمتر ہے فی الحال۔ یعنی اس حالت میں بھی سب مسلمان مجھ سے اچھے ہیں کیونکہ کیا معلوم کہ کس کی خوبی اللہ کے یہاں پسند ہے۔ اللہ ہی جانتا ہے اور فرمایا کہ تمام کافروں سے اور جانوروں سے میں بد تر ہوں فی المال یعنی انجام کے اعتبار سے یہ دو جملے خو ب یاد کرلیجیے کہ میں تمام مسلمانوں سے بدتر فی الحال۔ اس موجودہ حالت میں میں تمام مسلمانوں سے برا ہوں ۔ دلیل یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مسلمان کے کسی ادنیٰ فعل سے خوش ہوجائے اور اس کے تمام بڑے بڑے گناہوں کو معاف کردے اور دوسری دلیل کیا ہے کہ ہوسکتا ہے میری کسی بات سے اللہ ناراض ہو اور میری تمام نیکیوں پر پانی پھیر دے۔ یہ دو جملے بہت عجیب ہیں۔ ان میں تکبر کا علاج بھی ہے جو اپنے آپ کو اتنا حقیر سمجھے گا اس میں تکبر نہیں آسکتا کہ تمام مسمانوں سے بدتر ہوں فی الحال اور تمام کافروں سے اور جانوروں سے بدتر ہوں فی المآل۔ یعنی انجام کے اعتبار سے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی کا خاتمہ خراب ہوجائے اور جس کا خاتمہ خراب ہوگیا کفر پر مرگیا تو جانور بھی توا س سے اچھا ہوا کیونکہ جانور سے کوئی حساب کتاب نہیں اور موت سے اپنے کو کافر سے بدترکیسے سمجھیں؟ اس کا طریقہ کیا ہے؟ اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ کافر جس کو ہم حقیر سمجھتے ہیں اس کا ایمان پر خاتمہ ہوجائے۔

01:40) جتنے اللہ کے پیارے بنتے جائیں گے اتنی عاجزی اورا نکساری بڑھتی جائے گی۔۔۔

04:54) حضرت تھانوی ؒ کا ۷۱ سال کی عمرمیں اپنے ایک معمول سے رجوع: حضرت والا ؒ بڑے محقق عارف تھے ،اور حد درجہ حق پر ست تھے ،حضرت کے یہاں پہلے ضابطہ تھا کہ جب کوئی نو وارد آئے تو بدون سوال کئے ہو ئے خود بتادے کہ میں فلاں ہوں ،فلاں جگہ سے آیا ہوں ،اورفلاں مقصد کے لئے حاضر ہوا ہوں ،لیکن جب حضرت والا کی نظر مبارک سے یہ حدیث گذری کہ بالداخل دھشۃ فتلقونہ بمرحبا (للدیلمی)نئے آنے والے کو اجنبیت کے سبب ایک قسم کی حیرت زدگی یعنی بدحواسی ہوتی ہے سو اس کو آئو بھگت کر لیا کرو۔تاکہ اس کی طبیعت کھل کر مانوس ہو جائے ،اورحواس بجا ہو جاویں اورہر قول و فعل کاموقع سمجھ کر نہ خود پریشان ہو نہ دوسرے کو پریشان کرے۔ حضرت والا نے تحریر فرمایا ہے کہ یہ حدیث میری نظر سے اس وقت گذری جبکہ میری عمر ۷۱ سال کو پہنچ چکی ،اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی برکت سے مجھے توفیق عطا فرمائی کہ اب آنے والے سے میں خود اس کا مقام اورغرض آمد اور اس مقام میں جو مشغلہ تھا اس کو پوچھ لیا کرتاہوں ،اس سے ضروری حالت معلوم ہو جاتی ہے ۔اوروہ مانوس ہو جاتا ہے ۔ کیسی حق پرستی تھی کہ اپنا کچا چٹھا سب بیان فرما دیا ،اہل حق یہی شان ہوتی ہے کہ خلق سےنظر اٹھ جاتی ہے صرف رضا حق مقصود ہوتی ہے ۔

07:57) حکیم الامت کے بھتیجے مولانا شبیر علی نے ایک طالبِ علم کو حضرت کے پاس کسی کام سے بھیجا، حضرت اس وقت تنہا بیٹھے باوضو بیا نُ القرآن لکھ رہے تھے، فوراً نیچے اُتر آئے، اس لڑکے کے ساتھ ایک لمحہ بھی خلوت نہیں کی اور مولوی شبیر علی صاحب سے فرمایا کہ میری تنہائیوں میں بے ڈاڑھی مونچھ کے لڑکوں کو مت بھیجا کرو اور پھر فرمایا کہ جو مجھ کو حکیم الامت سمجھتے ہیں اس واقعہ سے سبق لیں۔

09:27) جو تواضع اختیا ر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُسے بلندیاں عطا فرماتے ہیں۔۔۔

13:34) کسی خط کا ذکر جس میں بُری بُری باتیں لکھی تھیں۔۔۔

21:25) ادب اور مناظرے سے متعلق کچھ باتیں۔۔۔

25:12) نہ لالچ دے سکیں ہر گز تجھے سکوں کی جھنکاریں فرمایا : ایک شخص حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کی خدمت میں آیا وہ چاہتا تھا کہ حضرت کو بہت کچھ مال دے کر ایک سلسلہ میں بے اصولی کرالے ۔حضرت تھانویؒ اس کو بھانپ گئے ۔برجستہ اس کو ایسا جواب دیاکہ اس کے ہوش ٹھکانے لگ گئے ،حضرت نے فرمایا :’’مجھے مت آزمائو،میں سلطان ابراہیم ابن ادھم کی اولاد ہوںجنھوں نےسلطنت چھوڑ دی اور خدا کی محبت کے پھولوں میں تخت و تاج اس کے لئے کانٹے بن گئے ۔کیا میں ایسے سلطان کی اولاد ہوتے ہوئے مال پر رال ٹپکا سکتاہوں

،میرے نزدیک مال و دولت کی حقیقت مچھرکے پر کے برابر بھی نہیں ،تم نے مجھ سے ایسی توقع کیوں اورکس طرح باندھی ،تمہیں شرم نہیں آئی ۔ یہ ہیں اللہ والے کہ مال و دولت اورعہد و منصب کے کسی دبائو کو برداشت نہیں کیا اور ان چیزوں کو پائے حقارت سے ٹھکرادیا ۔اور ہر حال میں وہی کیا جو اصول چاہتا تھا اور شریعت چاہتی تھی ۔کسی حقیقت میں شاعر نے اپنے اس شعر میںکسی حقیقت بیان کی ہے ؎ نہ لالچ دے سکیں ہرگز تجھے سکوں کی جھنکاریں ترے دستِ توکل میں تھی استغناء کی تلواریں

28:43) علمِ نبوت تو ہے، مگر نورِ نبوت نہیں فرمایاکہ علامہ سید سلمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ کا شمار علم وفضل کے اعتبار سے اونچے لوگوں میں ہوتا ہے، جب یہ زندہ تھے ہر طرف ان کے علم کا شہرہ اور غلغلہ تھا۔ مرنے کے بعد بھی ان کا علمی احترام کم نہ ہوا۔ شروع میں ان کے دل میں اہل اللہ کی کوئی وقعت وعظمت نہیں تھی یہ سمجھتے تھے کہ انہیں دنیا میں کوئی کام نہیں رہ گیا ہے اس لئے چہار دیواری میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں مگر جب ایک نادیدہ قوت انہیں کشاں کشاں مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس لے گئی اور ان سے اصلاحی تعلق قائم ہوگیا تو ان کے فکرونظر کا پیمانہ بدل گیا، اس کے بعد تو انہیں اس وقت تک کی اپنی تصانیف اور علمی تحقیقات جسدِبے روح کی طرح نظر آنے لگیں، وہ فرمایا کرتے تھی ـ علم کا مزہ تو اب ہم نے پایا ہے جب ان کی یہ نظر کھلی تو صاحبِ دل اہلِ نظر کی باتیں کرنے لگے۔ چنانچہ ایک دفعہ فرمایاکہ آج کل ہمارے علماء کے اندر مدرسوں میں رہنے کی وجہ سے علمِ نبوت تو آجاتا ہے لیکن نورِ نبوت نہیں آتا جس طرح یہ علمِ نبوت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح انہیں نورِ نبوت کی تحصیل میں بھی سعی کرنی چاہئے۔ جس کے لئے اہلِ دل کی صحبت وخدمت ضروری ہے۔ واقعہ ہے، سید صاحب رحمۃ اﷲ علیہ ایک گہری حقیقت کی طرف توجہ دلائی ہے، علماء کو نبوت کا علم اور نور دونوں اپنے اندر جمع کرنا چاہئے اسی وقت ان کا کام، اخلاص وللّہیت کی وجہ سے شکل دوام اختیار کرے گا اور اللہ کے بندوں کو ان سے بھرپور فائدہ پہنچے گا۔ حضرت سیدسلیمان ندوی رحمۃاﷲ علیہ نے حضرت شیخ تھانوی رحمۃاﷲ علیہ کی مجلس اور تاثیر صحبت پر چند اشعار فرمائے ہیں ؎ جانے کس انداز سے تقریر کی پھر نہ پیدا شبۂ باطل ہوا آج ہی پایا مزہ ایماں میں جیسے قرآں آج ہی نازل ہوا

32:14) حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی ؒ اونچے درجے کے عالم ،عارف ،محقق، مصنف اورمصلح تھے ،خانقاہ اور کتابوں کے ذریعہ ان کاعلمی اوراحسانی فیضان خوب جاری ہوا ۔آج بھی ان کے مواعظدلوں کو گرماتتے ہیں ،ذہن و دماغ کو آسودگی بخشے اور قوت عمل میںتحریک پیدا کرتے ہیں ۔اس لحاظ سے یقینا ً وہ غزالی وقت تھے

33:03) اب ایک ضروری اعلان سنئے!حکیم الامت مجدد الملت مولانا شاہ اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اس زمانہ کے مجدد تھے، تمام علماء کا اس پر اجماع ہے اور مجدد ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ان کی خدمات کی، تصنیف کے لحاظ سے، تربیت کے لحاظ سے، اصلاح ِاُمت کے لحاظ سےکوئی مثال نہیں ملتی ۔ کئی سو برس تک اتنے علماء کسی سے بیعت نہیں ہوئے جتنے حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ سے بیعت ہوئے ، ابھی بیان میں مَیں نے ان کے نام بھی لئےتھے ، یہ سب بڑے بڑے علماء تھے، اور مجدد جو ہوتا ہےاللہ کی طرف سے اس کی بعثت ہوتی ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries