عشاء مجلس۲۷    جون  ۳ ۲۰۲ء     :گناہوں کے حرام ہونے میں بھی رحمت پوشیدہ ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:41) حسب معمول تعلیم ۔۔

04:30) آیت يا أيها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين کو دین کی بنیاد اور عطاء نسبت، بقاء نسبت اور ارتقاء نسبت کا خدائی منشور سمجھتا ہوں۔

05:26) مثال اور نصیحت حضرت شاہ ابرارالحق صاحب نے فرمایا کہ پیٹرول پمپ پر اتنا بڑا ٹینکر کیا کررہا ہے؟؟ اپنے انجن میں پیٹرول نہ ہونے کی وجہ سے خود بھی محروم ہے اور دوسرے بھی محروم ہے۔

07:25) شیخ العرب والعجم حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ حضرت شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ نے گرمی کا زمانہ تھا موٹر میں بیٹھےانجنئیر انوار الحق صاحب میرے پیر بھائی اور میرے شیخ کے خلیفہ چلا رہے تھے حضرت نے فرمایا کہ بھئی ٹھنڈک نہیں ہورہی ہے یہ کیا بات ہے اے سی چالو نہیں ہوا انہوںنے کہا حضرت اے سی تو چالو ہو گیا ایسا معلوم ہوتا ہے کسی کا شیشہ کھلا ہوا ہے بیرونی ہوا آرہی ہے گرم اس لیے اندرونی ائیر کنڈیشن کیا کرے گا ایک انچ کوئی شیشہ کھلا ہوا تھا جب اس کا پورا بند کیا گیا تو موٹر ٹھنڈی ہوگئی یہ مثال دے کر فرمایا کہ کار کے کتنے شیشے ہوتے ہیں فرمایا چار تو اسی طرح ہمارے جسم کے پانچ شیشے ہیں کہیں کوئی شیشہ کھلا ہوا تو نہیں۔۔

11:12) حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کا مضمون قربانی کے بارے میں

16:10) حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ کا مضمون قربانی کے بارے میں 17:46) غم پر کہ غم پر کتنے بیان اور اشعار ہیں ۔۔

19:39) گناہوں کے حرام ہونے میں بھی رحمت پوشیدہ ہے تو اللہ تعالیٰ وعدہ فرماتے ہیں کہ اگر تم دو قسم کی ادائے بندگی بجا لائو، زیادہ ادائوں کا ہم تم کو پابند نہیں کرتے کہ تم ڈر جائوگے۔اللہ تعالیٰ نے ہماری زندگی کی صرف دو ادائوں میں ہمیں یاد فرمایا ہے کہ تم میری مالکیت اور اپنے بندے ہونے کی حیثیت سے صرف دو ادائیں دِکھادو کہ میرے حکم کو مان لو اور جس بات سے میں منع کروں اس سے رُک جائو۔ادائے احکام یعنی میرے حکم کو ادا کرلو اور جس کام سے میں منع کردوں،اس پر ایمان لائو کہ وہ ضرور مضر ہے۔ اللہ تعالیٰ ارحم الراحمین ہوکر مفید چیز سے منع نہیں کرے گا۔تم کو جوتوں سے، ذلتوں سے،بے چینیوں سے،اور حسینوں کے عشق میں تڑپنے سے بچانا چاہتا ہے کیونکہ حق تعالیٰ کے سامنے رومانٹک دنیا کی پوری تاریخ ہے۔جتنے دنیا میں مجنوں و لیلیٰ پیدا ہوئے ہیں،اللہ کے سامنے سب کا ماضی حال مستقبل ہے کہ کتنے لوگ اس میں تباہ ہوگئے،کتنے لوگ خودکشی کرچکے،کتنے لوگوں کی صحت خراب ہوگئی، کتنے لوگوں کی نیند حرام ہے،کتنے لوگ اپنے ماں باپ سے دور ہوگئے،کتنے لوگ اسی رومانٹک اور عشق بازی میں اپنے بال بچوں اور بیوی سے دور ہوگئے۔

21:10) سنت پر عمل کے چار انعام

22:53) مختصر نصیحت

28:03) بعض سالکین کی راہ ِمولیٰ میں مجاہدہ کرنے میں پست ہمتی تو اللہ نے اپنے بندوں کو اس عذاب اور لعنت سے بچانے کے لئے نظر کی حفاظت کو فرض کردیا۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کوئی تعویذ دے دو کہ کسی عورت کو دیکھنے کا،کسی حسین لڑکے کو دیکھنے کا،حسینوں کی طرف نظر اٹھانے کا خیال ہی نہ آئے۔

28:45) اگر ایسا تعویذ ہوتا تو حضورﷺ صحابہ کو دے دیتے لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نہیں! تعویذوں سے کام نہیں چلے گا وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا(سورۃ العنکبوت:آیۃ ۶۹) میرے راستہ میں تکلیف اور غم اٹھائو۔سارا کام تعویذوں سے چلتا تو تلوار اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟سرور ِعالمﷺ سب صحابہ کو تعویذ دے دیتے،جنگ فتح ہوجاتی لیکن اُحد کے دامن میں ستّر شہید جو بزبان ِحال یہ شعر پڑھ رہے تھے جس وقت حضورﷺ ان کے جنازے کی امامت فرمارہے تھے ان کے کوچہ سے لے چل جنازہ مرا جان دی میں نے جن کی خوشی کے لئے بے خودی چاہیے بندگی کے لئے صحابہ نے جانیں دے دیں،آج ہم ایک نظر کی حفاظت کی ہمت نہیں کرتے۔ پیر رو رو کے دعائیں مانگ رہا ہے،شیخ رات دن غم میں مبتلا ہے کہ کب میرے دوست احباب تقویٰ پر استقامت حاصل کریں گے لیکن مرید اپنی خواہشات کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں۔

30:31) صحابہ نے جانیں دے دیں،آج ہم ایک نظر کی حفاظت کی ہمت نہیں کرتے۔ پیر رو رو کے دعائیں مانگ رہا ہے،شیخ رات دن غم میں مبتلا ہے کہ کب میرے دوست احباب تقویٰ پر استقامت حاصل کریں گے لیکن مرید اپنی خواہشات کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں۔

32:22) س لئے قربانی کے زمانے میں ہم آپ اپنے نفس کی بُری خواہشات کی قربانی کا بھی سبق حاصل کریں۔یہ قربانی کا زمانہ ہمیں سبق دیتا ہے

32:58) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تاریخ بھی ہمیں سبق دیتی ہے کہ اپنی پیاری سے پیاری حرام خواہش کو قربان کرنا سیکھیں۔دیکھو!جب قربانی کرتے ہیں تو آپ کو معلوم ہے کہ جانور فربہ، موٹا ہو تو ثواب زیادہ ملتا ہے: (رسول اللہﷺ سینگوں والے اور فربہ دنبے کی قربانی کرتے تھے۔) آپ لوگ ہنس رہے ہیں،میر صاحب کی طرف خیال مت لے جانا،ان کا تصور مت کرنا۔یہ منفی وہ ہے جو مثبت کا مزہ دیتی ہے۔ہے نا! کوئی کہے کہ میر صاحب کو مت دیکھو تو ضرور دیکھے گا۔خیر!تو جس طرح فربہ قربانی کا ثواب زیادہ ملتا ہے تو جس کے دل میں تقاضے زیادہ شدید ہیں تو وہ مایوس مت ہو،اس کا موٹا نفس ہے تو موٹی قربانی پیش کرے۔موٹے جانور کی قربانی جیسے اللہ کے یہاں زیادہ محبوب ہے،ایسے ہی جس کا نفس بہت موٹا ہو،ہر وقت گناہ کا تقاضا کرتا ہو تو وہ سمجھے کہ میرے نفس کا جانور بڑا تگڑا ہے،خوب سینگ مارتا ہے۔اس کو دبائو اور اس کا غم اٹھائو،ان شاء اللہ! دیکھو کتنا نور پیدا ہوتا ہے۔

34:42) نفس ِسرکش کی قربانی سے نور زیادہ پیدا ہونے کی مثال اس پر ایک مثال دیتا ہوں کہ ایک شخص کو نظر بچانے میں دس کلو غم ہوتا ہے، ایک کو پانچ کلو غم ہوتاہے،ایک کا تقاضا بالکل کمزور ہے،اس کو صرف آدھا کلو غم ہوتا ہے،آپ بتائو کہ اجر کس کو زیادہ ملےگا؟ دس کلو والے کو۔بس اس لئے دوستو! مایوس نہ ہو کہ کیا بتائوں صاحب! میرا نفس بہت ہی مجھے تنگ کررہا ہے۔اگر نفس تنگ کررہا ہے تو آپ بھی جنگ کیجئے،تنگ کا علاج جنگ ہے۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔دشمن تنگ کرتا ہے تو آپ اس سے جنگ کرتے ہو یا نہیں؟ لہٰذا نفس سے بھی جنگ کیجئےتاکہ نفس زیادہ پریشان ہو کہ تم نے تو مجھے تڑپا دیا، بہت غم دے دیا۔نفس سے کہو تم دشمن ہو، ہم تم کو ایسے ہی تڑپا تڑپا کر زندہ رکھیں گے، اور اس تڑپنے پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور انعام ملے گا۔

40:47) تو دوستو! اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ ولی اللہ بن جائے،اللہ والا بن جائے اور مجاہدہ نہ کرنا پڑے،تعویذوں سے کام چل جائے،وظیفوں سے کام چل جائے تومیں واللہ کہتا ہوں!اگر وظیفوں سے کام چلتا تو پیغمبرﷺصحابہ کو وظیفے بتا دیتے،وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا کی آیت نازل نہ ہوتی،اللہ پاک فرماتے ہیں میرے راستے میں تکلیف اٹھائو،نفس کے بُرے بُرے خیالات،نفس کے خبیث خبیث تقاضوں پر عمل مت کرو،اور عمل نہ کرنے سے،اپنی بُری خواہش کو چھوڑ دینے سے،نفس ظالم اور دشمن کو جو غم پیدا ہو،تم اسے اپنا غم مت سمجھو،اسے دشمن کا غم سمجھو۔دشمن کے غم سے انسان خوش ہوا کرتا ہے،دشمن کے غم سے کوئی عقلمند انسان غمگین نہیں ہوتا سوائے پاگل کے،لہٰذا گناہ چھوڑنے سے جب نفس میں غم پیدا ہو تو سمجھو کہ یہ غم ہمارا نہیں ہے،یہ غم نفس دشمن کا ہے۔

41:41) گناہ نہ کرنے کے غم سے دل میں نور پیدا ہوتا ہے حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں،آہ!یہ جملہ غور سے سنئے،گناہ نہ کرنے سے،نظر بچانے سےنفس میں جو غم پیدا ہوتا ہے تو اسی وقت روح میں نور پیدا ہوتا ہے جو اس کو اللہ والا بنا دیتا ہے۔ایک ہزار تہجد کا نور ترازو میں رکھ لو اور ایک پلڑے پر نظر بچانے کا غم رکھ لو تو اس کا نور بڑھ جائے گا کیونکہ یہ وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا کی تفسیر ادا کر رہا ہےکہ وہ بندے جو میری راہ میں تکلیف اٹھاتے ہیں، ان کو خدا ملتا ہے۔جو شخص نفس کو تکلیف نہیں دینا چاہتا،یہ عیش کر کے،حلوہ کھا کر مجنوں بننا چاہتا ہے۔دودھ پینے والا مجنوں مت بنو،یہ نفس کو دھوکہ دینا ہے،خود اپنے پیر پر کلہاڑی مارنا ہے۔یہ ظالم اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے،زندگی کو ضائع کر رہا ہے۔ کسی دن ویزا ختم ہوگا اورجنازہ نامراد دفن ہوجائے گا،اس نامراد کا جنازہ گنہگار زندگی کے ساتھ دفن ہو جائے گا۔جلدی کرو،دیر نہ کرو دوستو!

ہو رہی ہے عمر مثلِ برف کم رفتہ رفتہ چپکے چپکے دم بدم

44:29) ایک شخص برف بیچ رہاتھا،لوگ قیلولہ کر رہے تھے،گھروں میں آرام کر رہے تھے، اس کا برف کم ہوتا جارہا تھا،اس نے زور سے اذان کی طرح چلّا کر کہا کہ ارے محلے والو!جلدی سے میری برف خرید لو،میری پونجی گھل رہی ہے،ختم ہو رہی ہے، مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

44:59) جب برف کو سورج کا پتا چلا تو برف نہ رہا،گرم ہوگیا،نرم ہوگیا اور تیزی سے پگھلنے لگا،یعنی تمہاری زندگی کی پونجی گھل رہی ہے،برف کی طرح ختم ہو رہی ہے، ایک دن پتا چلے گا کہ اب ایک منٹ بھی باقی نہیں ہے،جنازہ قبرستان جا رہا ہے۔ اگر جیتے جی ولی اللہ نہ بنے تو کیا قبر میں جا کر جنازہ ولی اللہ بنے گا؟کیا مردہ ولی اللہ بنے گا؟کس بات کا انتظار کر رہے ہو دوستو!اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہمت سے کام لو

46:08) دوستو!اس لئے عرض کرتا ہوں کہ ہمت سے کام لو؎ چوں علی وار ایں در خیبر شکن ہیں تبر بردار و مردانہ بزن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس طرح قلعہ فتح کیا تھا،تم بھی اپنے نفس دشمن کے قلعہ کو فتح کرلو

47:12) مولانا رومی فرماتے ہیں کہ نفس دشمن مردانہ حملے سے چِت ہوگا، زنانہ حملے سے چِت نہیں ہوگا کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ بھی پڑھ رہے ہیں،اللہ میاں سے دعا بھی کر رہے ہیں کہ اے اللہ!حسینوں سے بچانا اور اس حسین کو دیکھ بھی رہے ہیں، اس کو مرنڈا بھی پلا رہے ہیں،اس سے باتیں بھی کر رہے ہیں۔بتائو بھئی!یہ دعا کیسی ہے؟پیغمبر حضرت یوسف علیہ السلام بھی اگر عزیز ِمصر کی بیوی سے نہ بھاگتے، رات بھر سجدہ میںروتے رہتے تو اللہ کی مدد نہ آتی۔سب سے پہلا کام فرار ہے، فَفِرُّوْٓا اِلَى اللّٰهِ(سورۃ الذّٰریٰت : آیۃ ۵۰)قرآن ِپاک کی آیت ہے،گناہ کے مواقع سے اللہ کی طرف بھاگو۔

49:02) مگر یہاں تو بھاگنے کی بجائے اس کو پان، چائے، مرنڈا،ٹافی،حلوہ کھلایا جاتا ہے،اس سے گپ شپ کی جاتی ہے،اللہ کا حکم تو ہے غیر اللہ سے بھاگو۔تمہارا فرار جب نہ ہوگا،قرار ہوگا تو خدا کی نافرمانی کے بدلہ میں تمہارا منہ کالا ہو جائے گا،کھوپڑی پر جوتے پڑیں گے۔کتنے ہی ثقہ صورت، بڑی بڑی داڑھی اورلمبے کرتے والے،جنہوں نے اپنے نفس کی اصلاح نہیں کی، ایسے بُرے کاموں میں پکڑے گئے کہ اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگنی چاہیے۔کبھی اللہ انتقام لیتا ہے،کچھ دن موقع دیتا ہے،ستاری کا پردہ ڈالتا ہے

49:24) جب کوئی حد سے گذر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے۔

50:41) دو ادائے بندگی پر دنیاوی زندگی میں پہلا انعام تو دوستو! اللہ تعالیٰ نے دونوں ادائوں پر انعامات کی بھی دو قسمیں بیان کردیں۔جس طرح سے اپنے بندوں کو دو ادائوں کا پابند کیا تو دو قسم کی نعمتوں کی خوشخبری بھی دے دی۔نمبر ایک عطا یہ ہے کہ اگر تم عمل صالح کرتے رہو گے،ہمارے احکام کو بجالاتے رہو گے،گناہ نہیں کرو گے،نیک رہوگے تو ہم تمہاری زندگی ہی میں تم کو بالطف اور مزیدار زندگی دیں گے

52:30) گناہوں سے سچی توبہ کرنے والا بھی اللہ کا دوست ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنی دو ادائے بندگی پر جن دو عطائے خواجگی کا اعلان فرمایا،ان میں سے ایک یہ ہے کہ دنیا میں ہم تم کو بالطف حیات دیں گے اور میدان ِمحشر میں سایۂ عرش عطا کریں گے اور جنت میں اپنا دیدار نصیب فرمائیں گے۔اس پر ملا علی قاریh عظیم محدث فرماتے ہیں کہ حق تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندوں کی دو ادائے بندگی پر دو نعمتوں کا جو اعلان ہے،ایک دنیا میں اور ایک آخرت میں،وہ اہلِ تقویٰ کو،اللہ سے ڈرنے والوں کو، گناہوںسے بچنے والوں کو ملتا ہے،اور جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کرلیتے ہیں وہ بھی تقویٰ والوں میں شامل ہیں بشرطیکہ ندامتِ قلب ہو،بشرطیکہ عزمِ مصمم رکھتا ہو: ((فَاِنَّ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ نُزِّلُوْا بِمَنْزِلَۃِ الْمُتَّقِیْنَ )) ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو گناہوں سے دل سے توبہ کرلےتو اللہ تعالیٰ اسے متقیوں ہی کے درجے میں رکھیں گے۔پھر اور کیا چاہیے؟لیکن توبہ کے سہارے پر گناہ کرنے والا یہ انتہائی گدھا،انٹرنیشنل بیوقوف ہےکیونکہ حکیم الامت تھانویh فرماتے ہیں کہ توبہ کا سہارا ایمرجنسی کے لئے ہے۔ اگر مرہم کی کوئی ڈبیہ ہو اور دواخانے والا کہہ دے کہ اگر یہ جلنے پر کامیاب نہ ہو اور چھالے پڑجائیں تو دواخانہ ایک ہزار روپیہ ادا کرے گا تو کیا اس اعلان سے اس مرہم کی ڈبیہ کے سہارے آپ آگ میں ہاتھ ڈالیں گے؟ بیوی سے بھی کہہ کر دیکھ لینا کہ ذرا ہاتھ ڈال کر دیکھ،پھر جو جواب وہ دے تو آکر مجھے کان میں بتا دینا۔

52:52) سلب ِتوبہ کا ایک عبرت انگیز واقعہ تو اللہ تعالیٰ نے توبہ کو ایمرجنسی کے لئے رکھا ہے،اور توبہ کی توفیق بھی اپنے اختیار میں رکھی ہے،جن لوگوں نے جرأت اور گستاخی کی اور توبہ کے سہارے پر حرام اور خبیث لذتوں سے اپنے نفس کو مسٹنڈا کیا تو اللہ نے اس کے عذاب میں ان سے توفیق ِتوبہ چھین لی،اختر یہ مشاہدہ کرچکا ہے۔ناظم آباد چار نمبر میں ۱۹۶۰؁ء سے ۱۹۸۰؁ء تک میں بیس سال رہا۔وہاں ایک خانساماں تھا،اس کا کام نظر بازی کرنا،فلم دیکھنا،گانے سننا اور حسینوں کو چھیڑنا تھا۔وہ ایک اور خانسامے کا دوست تھا،جو میرا دوست تھا۔یہ نظر باز جب بیمار ہوا تو میرے دوست نے جاکر اس سے کہا کہ اب ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ تم بچوگے نہیں،اسی مرض میں مرجائوگے لہٰذا تم توبہ کرلو۔تو اس نے کہا کہ میرے منہ سے یہ لفظ نہیں نکل رہا ہے،سب الفاظ نکل رہے ہیں،ڈبل روٹی،چائے،ہسپتال،ڈاکٹر کے پاس لے چلو، دنیا کی جتنی لغت ہے،سب میں ادا کرسکتا ہوں لیکن جو تم کہہ رہے ہو،یہ لفظ میرے منہ سے نہیں نکل رہا ہے۔وہ کون سا لفظ تھا؟ توبہ۔دیکھا آپ نے۔ یہ زمانۂ حاضر کی مثال ہے،آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب پرانی باتیں ہیں۔

56:19) س لئے اللہ کے لئے کہتا ہوں کہ خدا پر جرأت مت کرو،معلوم نہیں کس وقت غضب نازل ہوجائے،گردے بیکار کردئیے جائیں،کینسر ہو جائے، پتھری پڑ جائے،کہیں ہسپتال میں پیر رگڑ رگڑ کر نہ مرنا پڑے۔یہ جرأت کرنا، اللہ پر جری ہونا کافرانہ حرکت ہے،اللہ تعالیٰ قرآن ِپاک میں فرماتے ہیں کہ کافر ہی میرے عذاب سے بے خوف رہتا ہے:

56:35) ﴿ اَفَاَمِنُوْا مَكْرَ اللهِ ج فَلَا يَاْمَنُ مَكْرَ اللهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْخٰسِرُوْنَ (کیا اللہ کی اس (ناگہانی) پکڑ سے بےفکر ہوگئے ہیں؟(سمجھ رکھو) خدا تعالیٰ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بےفکر نہیں ہوتا) (بیان القرآن)اس لئے جو اللہ کی پکڑ اور عذاب سے بے خوف رہتا ہے وہ کافر جیسی زندگی گذارتا ہے،کافر تو نہیں ہو جاتا مگر کافر جس طرح بے خوف ہوتا ہے، اسی طرح یہ ظالم بھی اللہ سے بے خوف ہے۔

57:17) کثرت ِتقاضائے گناہ سے پریشان نہ ہونا چاہیے دوستو! اللہ کے نام پر کہتا ہوں کہ اللہ پر مرنا سیکھ لو،اپنی خواہشات کا خون کرنا سیکھ لو۔جس طرح آسمان سرخ ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آفتاب پیدا کرتا ہے، اگر ہماری تمنائے حرام کے خون سے ہمارے دل کا آسمان سرخ ہوجائے تو واللہ! سارے دل پر بے شمار آفتاب اللہ کے قرب کے طلوع ہو جائیں گے،یہ تمنائوں کا خون تو ایک وقت خود بخود ہوجائے گا،کیا موت کے بعد کوئی تمنا رہے گی؟ یہ خون ِتمنا ہر شخص کے مرنے کے بعد خودبخود ہوجائے گا مگر اس وقت کوئی انعام نہیں ملے گا،اس لئے جیتے جی مالک پر مرجائو۔

59:02) ایک صاحب نے اختر سے پوچھا کہ آپ کا مزاج کیسا ہے؟ میں نے کہا کہ مر مر کے جی رہا ہوں اور جی جی کے مررہا ہوں،مجاہدے میں یہی تو ہوتا ہے، سکون تو جنت میں پائیں گے،ان شاء اللہ۔تو بتائو!یہ کیسا جملہ ہے! مر مر کے جی رہا ہوں اور جی جی کے مررہا ہوں۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries