فجرمجلس ۴   جولائی   ۳ ۲۰۲ء     : مذاق اڑنا، برے القابات سے پکارنا اور طعنہ دینے کا گناہ  

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:27) حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب اصلاح اخلاق سے متعلق فرمایا کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ اصلاح کیسے ہو؟بس وہ یہ کتاب پڑھ لیں ۔۔۔

02:28) بدنظری سے سب سے پہلے عقل پر عذاب آتا ہے۔۔۔

05:43) جب شیخ سے مناسبت نہیں ہوتی تو پھر بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔۔۔

08:06) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب جزاء الاعمال سے تعلیم ہوئی۔۔۔

11:16) جس گناہ کو ہم ہلکا سمجھتے ہیں قتل کا سبب بن جاتے ہیں۔۔۔

12:13) کسی کو بُرے القابات سے پکارنا کتنا بڑا گناہ ہے انہی چیزوں کی تو اصلاح کرانی ہوتی ہے۔۔۔

13:36) ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت عافیت ہے۔۔۔حدیث شریف۔۔۔

16:30) حدیث اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَسْاَلُکَ الْعَفْو… الخ کی تشریح سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ میں تین نعمتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے: ((اَللّٰہُمَّ إِنِّیْ أَسْاَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ وَالْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ)) (المعجم الکبیر للطبرانی) اے اﷲ! ہم کو معافی دیجئے اور عافیت دیجئے اور دنیا وآخرت میں معافات دیجئے تو میں آج کے سبق میں ان تین نعمتوں کی شرح کروں گا۔ عفو کی، عافیت کی اور معافات کی۔ (۱)… عفو کی تشریح عفو کے معنیٰ ہیں کہ ہمارے گناہ کو نہ صرف بخش دیجئے بلکہ ان کے نشانات بھی مٹا دیجئے جیسے ایک شخص نے غلط لکھا اور اس کو کاٹ دیا تو دیکھنے والا سمجھ جاتا ہے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے تو اے اﷲ! ہمارے نامۂ اعمال سے ہمارے گناہوں کو صرف کاٹئے ہی نہیں بالکل مٹا دیجئے، کر دیجئے، کراسنگ میں تو نظر آجائے گا کہ بھئی اس نے کوئی گناہ کیا تھا ،یہ دیکھو اﷲ نے اسے کراس کردیا، نہیں کراسنگ کے بجائے نتھنگ کر دیجئے، اس کا نشان بھی مٹادیجئے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ بندے کے گناہوں کے تقاضوں کی شدت کو نیکیوں کے تقاضے کی شدت سے بدل دیتے ہیں یعنی ملکۂ تقاضائے معصیت کو ملکۂ تقاضائے حسنہ سے تبدیل کردیتے ہیں، ملکۂ تقاضائے سیئہ کو ملکۂ تقاضائے حسنہ سے بدل دیتے ہیں یعنی جس شدت سے ہر وقت گناہوں کے لیے پاگل ہوتا تھا، ہر وقت دل چاہتا تھا کہ گناہ کرو، عورتوں کو دیکھو، حسینوں کو دیکھو، نظر لڑاؤ اب اُس کو اﷲ تعالیٰ اسی شدت سے نیکیوں کا ملکہ عطا کرتے ہیں۔ تیسرا طریقہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرشتوں کو حکم دیں گے کہ اس بندے کے تمام صغائر کو مٹا دو اور وہاں ہماری طرف سے حسنات لکھ دو، پہلے بندے کی اپنی کمائی تھی، اس نے جو کمایا تھا اس کے مکسوبات تھے اور یہاں میرے موہوبات ہوں گے لہٰذا اس کی برائیوں کو کاٹ کر وہاں نیکیاں لکھ دو تو اوّل میں او رثانی میں کیا فرق ہوا؟ اوّل میں اسی کی کمائی تھی، اسی کے مکسوبات تھے اور یہاں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے موہوبات اور بخشش ہوگی، اس کی کمائی نہیں ہوگی، اﷲ کی طرف سے فرشتے برائیوں کی جگہ نیکیاں لکھ دیں گے۔ جب وہ دیکھے گا کہ گناہ پر ہم کو انعام مل رہا ہے تو کہے گا کہ اﷲ میاں یہ تو میرے چھوٹے گناہ ہیں مَا لِیْ لَآ اَرٰی ذُنُوْبًا کَبِیْرًا کیا ہوگیا مجھ کو کہ میں اپنے بڑے بڑے گناہ اس میں نہیں پارہا، ذرا اس کی جرأت کو دیکھئے! یہ بات بیان کرتے وقت حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو ہنسی آگئی، کیا کریم مالک ہے۔ آہ! اﷲ کی کیا رحمت ہے۔

20:26) (( اِذَا تَابَ الْعَبْدُ اَنْسَی اللّٰہُ الْحَفَظَۃَ ذُنُوْبَہٗ وَاَنْسٰی ذَالِکَ جَوَارِحَہٗ وَمَعَالِمَہٗ مِنَ الْاَرْضِ…الخ)) (مرقاۃُ المَفاتیْح،کتابُ الدعوات،ج :۵، ص :۹) جب بندہ توبہ کرلیتا ہے تو اﷲ تعالیٰ فرشتوں کو بھی اس کے گناہ بھلا دیتا ہے تاکہ معافی ملنے کے بعد فرشتے یہ نہ کہیں کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے، چناں ہے چنیں ہے، اور اﷲ تعالیٰ اس کے اعضاء کو بھی تمام گناہ بھلا دیں گے، جن اعضاء سے گناہ کیا تھا اور وہ اعضا ء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیتے، اُن اعضاء سے بھی توبہ کی برکت سے اﷲ تعالیٰ اس کے تمام گناہ بھلا دیں گے اور زمین پر جہاں جہاں اس نے گناہ کیا تھا تو زمین پر ان کے نشانات کو بھی مٹا دیں گے تو یہ ہے عفو کہ ایسی معافی دے دیجئے کہ نشانات اور گواہی اور کہیں بھی کسی قسم کا وجود ہی نہ رہے۔ (۲)… عافیت کی تشریح اور عافیت کے دو معنی ہیں، نمبر ایک کہ ہمارا دین کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہو،دین مفتون نہ ہو، فتنہ نہ پیدا ہو، کیا مطلب کہ ہم سر سے پیر تک آپ کے رہیں اور سر سے پیر تک ہمارے اعضاء کسی نافرمانی میں مبتلا نہ ہوں، اگر مخلوق ناراض بھی ہوتو فکر نہ کرو۔ تو عافیت کا پہلاترجمہ ہےکہ دین میں فتنہ نہ ہو یعنی سر سے، پیر سے کسی عضو سے ہم گناہ میں مبتلا نہ رہیں، اگر خطا ہوجائے تو فوراً توبہ واستغفار سے اﷲ کو راضی کرلیں، دیر نہ کریں تاکہ توبہ واستغفار کی برکت سے ہمارے گناہ کراس نہ ہوں بلکہ مٹ کر ختم ہی ہوجائیں اور اس سے بھی بڑھ کر ہمارے گناہوں کی جگہ نیکیاں لکھ دی جائیں۔۔۔ تو عافیت کے دوسرےمعنٰی یہ ہیں۔ اَلسَّلَامَۃُ فِی الْبَدَ نِ مِنْ سَیِّئِ الْاَسْقَامِ وَ الْمِحْنَۃِ کہ جسم سخت بیماری میں مبتلا نہ ہو،جیسے گردے خراب ہوجائیں، فالج ہوجائے، ایکسڈنٹ میںہاتھ پیر ٹوٹ جائیں، کینسر وغیرہ ہوجائے تو یہ سخت بیماریاں ہیں ان سے بدن سلامت رہے اور نزلہ زکام حرارت وغیرہ یہ سخت بیماریاں نہیں ہیں اور وَ الْمِحْنَۃِ سے مراد ہے کہ ہر وقت سخت محنت میں مبتلا ہیں یا روزی مصیبت سے مل رہی ہے۔

27:00) معارف القرآن جدید پارہ نمبر ۲۶ سورہ حجرات:مذاق اُڑانا ،بُرے القابات لگانا اور طعنہ دینے سے متعلق حضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر سے مضمون پڑھ کر سنایا۔۔۔

43:39) اگر کسی کے اندر کوئی عیب نظر آئے توا س کو چھپانا چاہیے۔۔۔

44:58) اللہ معاف کرے آج عیبوں کو ظاہر کرنے کا مشغلہ بنایا ہوا ہے ۔۔۔

46:57) اکڑ انسان کو جھکنے نہیں دیتی اسی وجہ سے دوسروں کے عیب دیکھاتے پھرتے ہیں۔۔۔

50:28) معارف القرآن جدید پارہ نمبر ۲۶ سورہ حجرات:مذاق اُڑانا ،بُرے القابات لگانا اور طعنہ دینے سے متعلق حضرت مفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر سے باقی مضمون پڑھ کر سنایا۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries