فجر مجلس ۵ جولائی   ۳ ۲۰۲ء     : حضرت حاجی صاحب ؒکی شان رحمت اور فیض عام و تام

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

03:12) وقت لگانے والے حضرات موبائل فون کا استعمال نہ کریں جنہوں نے مجبوری کی بناء پر اجازت لی ہوئی ہے وہ دوبارہ اجازت لے لیں۔۔۔ہم نے گناہوں کو معبود بنایا ہوا ہے۔۔۔

03:13) اگر اللہ والا بننا ہے تو جو راہبر ہے اس کی اطاعت کرنی ہوگی۔۔۔

05:47) حضرت والا رحمہ اللہ نے حضرت پھولپوری رحمہ اللہ کے پاس کس طرح وقت لگایا۔۔۔

06:55) سب اللہ والے اپنے نفس سے ڈرتے ہیں۔۔۔

09:07) اللہ والوں کو ستانا معمولی بات نہیں۔۔۔

11:30) منزل ایک ہی ہے اور راستے الگ الگ ہیں۔۔۔

13:40) ایک دفعہ فرمایا کہ ایک ہندو نے مجھ سے پوچھا کہ سور میں اور بکری میں کیا فرق ہے؟ شکل تو دونوں کی ایک جیسی ہے پھر کیوں سور حرام ہے اور بکری کیوں حلال ہے؟ تو حضرت نے مجھ سے فرمایا کہ میں نے یہ جواب دیا کہ اگر تمہاری ماں کی شکل میر ی بیوی کی شکل سے مشابہ ہو تو کیا تمہاری ماں میرے لیے حلال ہوجائے گی؟ تو حضرت نے فرمایا کہ وہ میرے پاس سے رام رام کہتا ہوا بھاگا۔

19:30) حاجی صاحبؒ کی شانِ رحمت اور فیض عام و تام: میں نے خود پڑھا ہے کہ حضرت حکیم الامت فرماتے ہیں کہ میرے شیخ حضرت حاجی امدا د اﷲ صاحب سراپا رحمت تھے اور 6حضر ت کے انتقال پر مولانا گنگوہی کے منہ سے نکل گیا ہائے سراپا رحمت! تو یہ حکیم الامت کا جملہ ہے کہ ہمارے شیخ حاجی امداد اﷲ صاحب سراپا رحمت تھے، ڈانٹنا ڈپٹنا تو جانتے ہی نہ تھے پھر بھی ان کا فیض اتنا قوی تھا کہ ان کا کوئی بھی عاشق محروم نہیں رہا، مجدد ین کا مربی بننا معمولی بات ہے؟ یہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے حاجی صاحب کی قسمت میں تھا کہ مولانا قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲ علیہم جیسے اکابر اور علم کے آفتاب ان کی گود میں آگئے اور حاجی صاحب نے اﷲ تعالیٰ کے اس احسان کو خود فرمایا کہ اتنے بڑے بڑے علماء مجھ سے بیعت ہوگئے حالانکہ میںنے جال تو چھوٹی مچھلیوں کے لیے لگایا تھا، مجھے کیا خبر تھی کہ میرے جال میں بڑے بڑے مفتی آجائیں گے۔ اور ایک شخص نے حاجی صاحب سے پوچھا کہ حضرت مجھے تعجب ہے کہ آپ سے اتنے بڑے بڑے علماء کیوں بیعت ہوگئے؟ مجھے تو آپ کے اندر کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ اب ہم لوگ ہوتے تو اس سے لڑنے لگتے کہ اندھا کہیں کا نالائق تو مجھے کیا جانے مگر حاجی صاحب کا جواب سنئے کہ جتنا تجھ کو تعجب ہے ا س سے زیادہ مجھے تعجب ہے کہ بڑے بڑے علماء مجھ سے کیوں بیعت ہوگئے اور فرمایا کرتے تھے کہ جو اﷲ کی محبت سیکھنے آتاہے میں اس کے قدموں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں، یہ حاجی صاحب کا قول ہے کہ جو لوگ اﷲ کی محبت سیکھنے میرے پاس آتے ہیں میں ان کے قدموں کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔

25:53) حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کہ کس قدر لوگوں سے محبت کرتے تھے۔۔۔

27:20) شیخ عبدالقادر جیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ میری تربیت سے اور ذکر بتانے سے جو اﷲ والا ہوجاتا ہے تو بجائے اس کے وہ ظالم مجھ پر فدا ہو میرا دل چاہتا ہے میں ہی اس پر قربان ہوجاؤں کیونکہ وہ اﷲ والا میری صحبت سے بنا تو وہ گویا میری فیکٹری ہے، میری سلطنت ہے، قیامت کے دن وہ میرے کام آئے گا۔

27:55) حضرت پرتاب گڈھیؒ کا عشق ِحق اور درد بھرے اشعار بہت بد نصیب ہے وہ آدمی جو عشقِ فانی اور حسنِ فانی پر زندگی کو ضائع کرتاہے اور مبارک ہے وہ جوان جو جوانی ہی میں کسی اﷲ کے ولی کے ہاتھ آجائے، اس کے قدموں میں اس کی زندگی داخل ہوجائے۔ جب میں پندرہ سال کا ہوا اور جوانی کا آغاز ہوا اسی وقت مجھ کو مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃا ﷲ علیہ کی صحبت مل گئی، وہ شاعر تھے اور میں اشعار کا عادی تھااور ان کی آواز اتنی عمدہ تھی کہ میں نے ایسی عمدہ آواز نہیں سنی، بہت پیاری آواز میں اشعار پڑھتے تھے اور تہجد کے وقت اتنا درد سے اﷲ کہتے تھے کہ آدمی کا سینے سے دل نکل جاتا تھا، ایسے ہی ذکر کرتے تھے اور اشعار بھی ان کے غضب کے ہوتے تھے ؎ لطف جنت کا تڑپنے میں جسے ملتا نہ ہو وہ کسی کا ہو تو ہو لیکن ترا بسمل نہیں جب آپ کے نشانات کا، چاند و سورج اور ستاروں کا یہ حال ہے کہ رات کیسی پیاری معلوم ہوتی ہے تو آپ کے دیدار میں کیا مزہ آئے گا۔ اگر میرا مزاج نہ ملتا تو گذارہ بھی نہیں ہوتا کیونکہ نقشبندیہ میں سنجیدگی غالب ہوتی ہے تو پھر وہاں مزہ نہیں آتا بھاگ جاتا، اﷲ کا شکر ہے کہ حضرت شاہ عبد الغنی صاحب شاعر تونہیں تھے مگر عاشقانہ ذکر اور عبادت کرتے تھے، اﷲ کانام لیا اور آنسو نکل کے رخسار پر آکے ٹھہر جاتا تھا اور وہ آنسو آخر تک قائم رہتا تھا گرتا بھی نہیں تھا، اس نے اپنی سیٹ ریزور کرالی تھی۔حضرت یہ اشعار بہت پڑھتے تھے ؎ یہ کون آیاکہ دھیمی پڑگئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی بس اِک بجلی سی پہلے کوندی پھر اس کے آگے خبر نہیں ہے مگر جو پہلو کو دیکھتا ہوں تو دل نہیں ہے جگر نہیں ہے عاصی! اسی حسرت میں مرے اور جئے ہم بے پردہ نظارہ ہو کبھی دیدۂ تر سے پھر حسرتِ پیکانِ نگہ اے دلِ ناداں! اب تک تو ٹپکتا ہے لہو دیدۂ سر سے اپنے یوسف کو مرے یوسف پہ مت ترجیح دے اے زلیخا! اِس پہ سرکٹتے ہیں اُس پہ انگلیاں یہ زلیخا کو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی طرف سے جواب ہے۔ تو حضرت پھولپوری میرے اشعار بھی پڑھتے تھے اور حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب سے بھی فرمائش کرتے تھے کہ اشعار سنائیے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب نام کے نقشبندی تھے ورنہ بڑے بڑے چشتی بھی ان کے سامنے کچھ نہیں تھے، سر سے پیر تک عاشق تھے، ایسے اشعار کہتے تھے کہ کچھ مت پوچھو اور ان کے اشعار علم کی روشنی میں تھے ؎

محسوس لگا ہونے کہ دل عرشِ بریں ہے اﷲ رے! یہ ان کی ملاقات کا عالم

35:08) حضرت والا کی شرحِ مثنوی پر علامہ بنوریؒ کا ارشادِ مبارک اور مولانا یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ نے میرا صرف ایک شعر دیکھا وہ کیا شعر تھا کہ ؎ اہلِ دل آنکس کہ حق را دل دہد دل دہد او را کہ دل را می دہد اہلِ دل وہ ہیں جو اﷲ کو اپنا دل دیتے ہیں اور مرنے والی لاشوں پر نہیں مرتے، جس نے ماں کے پیٹ میں دل بخشا اسی کو دل دیتے ہیں تو حضرت مولانا بنوری رحمۃاﷲ علیہ نے جو اتنے بڑے عالم اور علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ کے شاگردِ رشید تھے میری فارسی کی مثنوی دیکھ کر فوراً فرمایا کہ: ( لَا فَرْقَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَ مَوْلَا نَا رُوْم) یعنی مجھے اختر میں اور مولانا روم میں کوئی فرق نہیں معلوم ہوتا یعنی کلام کے اعتبار سے، مقام کے اعتبار سے نہیں۔ لیکن مثنوی کی جو میںنے شرح لکھی ہے آج سارے عالم میں غلغلہ مچ رہا ہے۔ مولانا منظور احمد نعمانی لکھنوی کا ارشادِ مبارک لکھنؤ کے مولانا منظور نعمانی نے مجھ سے خود فرمایا کہ اب میں کوئی کتاب نہیں پڑھتا تیری ہی مثنوی مولانا روم میرے سرہانے رکھی ہے اور میں اسی کو پڑھ رہا ہوں۔ اﷲ کا شکر ہے بڑے بڑے علماء میری مثنوی پڑھ رہے ہیں۔

37:46) حضرت والا سے اکابر کا تعلق و محبت مولانا حبیب الرحمن اعظمی عربی زبان میں مصنف عبدا لرزاق کا حاشیہ لکھنے والے جس نے عربوں میں غلغلہ مچایا اور حضرت مولانا علی میاں ندوی ان دونوں نے حضرت مولانا محمد احمد صاحب سے درخواست کی کہ حضرت آج اختر سے مثنوی کا درس سنوا دیجئے تو میں نے مثنوی کا درس سنایا۔

میں نے اپنے شیخ شاہ عبدا لغنی صاحب کو بھی پانچ گھنٹے مثنوی کا درس سنایا کہ حضرت میرے قلب میں اﷲ تعالیٰ نے اس اس شعر کے بارے میں یہ یہ مضامین عطا فرمائے ہیں توحضرت پانچ گھنٹہ سنتے رہے اور روتے رہے پھر میںنے یہ شعر پڑھا ؎ وہ چشمِ ناز بھی نظر آتی ہے آج نم اب تیرا کیا خیال ہے اے انتہائے غم آؤ دیارِ دار سے ہو کر گذر چلیں سنتے ہیں اس طرف سے مسافت رہے گی کم

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries