عشاء مجلس ۵ جولائی ۳ ۲۰۲ء : اپنی رائے پر چلنا تباہی کا راستہ ہے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 02:58) حسبِ معمول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب جزاء الاعمال سے تعلیم ہوئی۔۔۔ 02:59) پریشانیاں ،غم ،دُکھ تین قسم کے ہوتے ہیں۔۔۔ 05:41) جو اپنی رائے پر چلتے ہیں یہ تباہی کا راستہ ہے۔۔۔ 06:00) تین قسم کی قضاء۔۔۔یااﷲ! اپنی ناراضگی اور غضب سے ہم سب کوبچائیے، یااﷲ! دین کی صورت میں بھی دنیا سے بچائیے، یااﷲ! عجب، کبر اور تمام ناراضگی والے اعمال سے بچائیے، یااﷲ! اختر کو اور میرے سب احباب کو اپنی ناراضگی سے بچائیے، یااﷲ! اختر کو اپنی رضا پر استقامت عطا فرمائیے، یااﷲ! اختر کو ہر قسم کی دنیاوی پریشانی سے محفوظ فرما، یااﷲ! جتنے سوئے قضاء ہیں ذلت و خواری، معصیت، عذابِ قبر، محشر غرض جتنے سوء قضاء ہیں سب کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادے، یا اﷲ! اختر، میری اولاد اور گھر والوں، میرے احباب اور ان کے گھر والوں سب کے لیے سوء قضا کو حسنِ قضا سے تبدیل فرمادیجئے، یا اﷲ! ان مناظرِ قدرت کو ہم سب کے ایمان و یقین کی تقویت کا سبب بنادیجئے، یااﷲ! اس سمندر کو دیکھ کر ہمیں اپنی ذاتِ پاک کی عظمتیں نصیب فرما، یا اﷲ! سورج چاند، زمین و آسمان، پہاڑ و سمندر کو ہمارے ایمان ویقین کی ترقی کا ذریعہ بنا دے، یااﷲ! اپنی رحمت سے ہم سب سے راضی اور خوشی ہوجائیے، یا ربَّ العالمین! ہم سب کے گناہوں کو معاف فرمادے۔ 13:46) قضاءِ مبرم۔۔۔ 18:33) یہ کہنا کہ میں کتنا صبر کروں مجھ سے اب صبر نہیں ہوتا یہ کتنا خطرناک جملہ ہے ایسا کہنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا کیا؟۔۔۔حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی اس سے متعلق ایک مثال کہ قرضدار نے قرضے کی وجہ سے اپنا گھر گِرا دیا۔۔۔ 20:39) دعا نازل شدہ اور آنے والی بلاؤں کو دور کرتی ہے ارشاد فرمایا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دعا ہر حال میں مفید ہے: (( اِنَّ الدُّعَاۗءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ)) (مشکٰوۃ المصابیح: (قدیمی)؛کتاب الدعوات ؛ ص ۱۹۵) اس بلا کے لئے بھی مفید ہے جو نازل ہو چکی اور اس کے لئے بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئی مگر آنے والی ہے،نازل شدہ بلا کے لئے بھی مفید ہے اور قضائے معلق جو ابھی نازل نہیں ہوئی،آنے والی ہے،اگلے مہینہ آنے والی ہے یا اگلے سال آنے والی ہے، اس کے لئے بھی دعا کرو کہ اے خدا!آپ نے جو بلائیں میرے لئے آئند ہ لکھی ہیں، آپ اپنی رحمت سے اپنے نبی کے وعدہ کے مطابق اس دعا کی برکت سے ہم کو ان بلاؤں سے محفوظ رکھئے، تو دعا کی برکت سے اﷲ تعالیٰ ان بلائوں کو بھی دور کردیتے ہیں جو ابھی نازل نہیں ہوئی ہیں۔اب ایک تیسری قضا ہے مبرم، قطعی،وہ ضرور آئے گی،وہ مومن کے رفع درجات کے لئے ہوتی ہے۔ یہاںملاعلی قاری رحمہ اللہ نے ایک اشکال قائم کیا کہ قضائے مبرم یعنی جو قطعی فیصلے ہیں اگر وہ دعا سے بھی نہیں بدلتے تو پھر دعا کا کیا فائدہ ہے؟ کیونکہ دعا مانگنے پر بھی وہ تو آکر ہی رہے گی۔تو فرماتے ہیں کہ دعا وہاں بھی کرنی چاہیے کیونکہ آپ کو کیا خبر کہ یہ قطعی ہے؟ مبرم ہے یا غیر مبرم؟ ہوسکتا ہے یہ بھی بدلنے والی ہو،آپ کو کیا کوئی وحی آئی ہے؟ کیا حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے ہیں کہ یہ قضائے مبرم ہے؟ ہوسکتا ہے یہ معلق ہو، لہٰذا دعا کی سنت پھر بھی ادا کرو۔ 23:22) دعا کی ایک خاص برکت اور حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ اب ملاعلی قاری رحمہ اللہ محدث ِعظیم فرماتے ہیں کہ دعا کی برکت سے ان شاء اللہتعالیٰ یہ قضائے مبرم یعنی نہ ٹلنے والی قضا بھی جو ہمارے درجات کی ترقی کے لئے آرہی ہے لذیذ کردی جاتی ہے: (( بَلْ یَتَلَذَّ ذُ بِالْبَلَاۗءِ کَمَا یَتَلَذَّ ذُ اَھْلُ الدُّنْیَا بِالنَّعْمَاۗءِ)) ( مرقاۃ المفاتیح :(رشیدیہ)؛کتاب الدعوات؛ ج ۵ ص ۱۲۲) دعا کی برکت سے اس قضا کی تکلیف کو اﷲ تعالیٰ ایسا لذیذ کردیتے ہیں جیسا اہلِ دنیا نعمتوں کو کھاتے ہیں،اس طرح سے اللہ تعالیٰ اس تکلیف کو لذیذ کردیں گے یعنی اس کو پریشانی نہیں رہے گی، وہ بلابلا نہیں رہے گی،دعا کی برکت سے بلوہ کو اللہ میاں حلوہ بنادیں گے جیسا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کےجسم میں امتحان اور آزمائش کے لئے کیڑے پیدا کردئےتھے: ((اِنَّ الدُّوْدَۃَ لَتَقَعُ مِنْ جَسَدِ اَیُّوْبَ عَلَیْہِ السَّلَامُ فَیُعِیْدُھَا اِلٰی مَکَانِھَاوَکَانَتِ الدَّوَابُّ تَخْتَلِفُ فِیْ جَسَدِہٖ)) ( روح المعانی :(رشیدیہ)؛سورۃ الانبیاۗء ؛ ج ۱۷ ص ۱۰۶) اور پھر ان کے دل میں کیڑوں کی ایسی محبت ڈال دی کہ اگر کوئی کیڑا ان سے جدا ہوجاتا، نظر نہیں آتا تھا تو اس کے لئے پریشان ہو جاتے تھے،اسے اس طرح ڈھونڈتے تھے جیسے بیٹا گم ہوجانے پر باپ پریشان ہوکر اس کو تلاش کرتا ہے۔اسی کو مولانا رومی رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرماتے ہیں؎ دادہ ام ایوب را مہر پدر بہر مہمانی کرماں بے ضرر کہ میں نے ایوب علیہ السلام کو کیڑوں کی محبت ایسی دی تھی جیسے باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے،باپ جیسی شفقت دی تھی،یہ کیڑوں کی مہمانی میں نے رکھی تھی۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیںکہ کیڑوں کو اﷲ نے الہام فرمایا تھا کہ اے کیڑو! خبردار! تم میرے ایوب کو تکلیف مت دینا لہٰذا وہ کاٹتے نہیں تھے۔ اسی طرح جب پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی نے نگلا تھا اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے اس مچھلی کو حکم دیا تھا کہ اے مچھلی! یہ تیری غذا نہیں ہے، یہ میرا نبی ہے، خبردار!یہ تیرا پیٹ اس کے لئے میں نے قید خانہ بنایا ہے،اسے کھانانہیں: (( اِنَّ حُوْتَ ابْتَلَعَتْہُ فَاَوْحَی اللہُ تَعَالٰی اِلَیْھَا اَنْ لَّا تُؤْذِیْہِ بِشَعْرَۃٍ فَاِنِّیْ جَعَلْتُ بَطْنَکِ سِجْنًا لَّہٗ وَلَمْ اَجْعَلْہُ طَعَامًا)) ( روح المعانی :(رشیدیہ)؛سورۃ الانبیاۗء ؛ ج ۱۷ ص ۱۱۰) تیرے پیٹ میں مجھے اس کو معراج دینی ہے،یہ میری امانت ہے، اسے پیسنا مت۔اللہ نے معدے کی حرکت روک دی ورنہ معدہ تو خودبخود ہضم کرنا، آٹو میٹک پیسنا شروع کردیتا ہے لیکن اللہ کے حکم کے سامنے معدہ بھی تو مخلوق ہے، خدا ہی کا تو بنایا ہوا ہے ۔ جب اللہ کی بنائی ہوئی آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر پھول بن سکتی ہے تو کیا معدے کو اللہ نہیں روک سکتا؟خدا چاہے تو آفتاب کی شعاعوں کو روک سکتا ہے،دریا کی موجوں کو روک سکتا ہے،وہ بہت بڑی قدرت والا ہے۔ 28:11) حدیث ِ پاک کی دعا ہے:اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ جَھْدِ الْبَلَاۗءِ وَ دَرْکِ الشَّقاۗءِ وَسُوْءِ الْقَضَاۗءِ وَشَمَاتَۃِ الْاَعْدَاۗءِاس حدیث ِپاک میں سوءِ قضا سے پناہ مانگی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! اگر میری تقدیر میں کوئی شقاوت، بد بختی اور سوءِ قضا یعنی وہ فیصلے جو میرے حق میں بُرے ہیں لکھ دئیے گئے ہیں تو آپ ان کو اچھے فیصلوں سے تبدیل فرما دیجئے، شقاوت کو سعادت سے اور سوءِ قضا کو حسن ِقضا سے تبدیل فرما دیجئے۔ یہاں’’ سوء‘‘ کی نسبت قاضی کی طرف نہیں مقضی کی طرف ہے یعنی برائی کی نسبت حق تعالیٰ کی طرف نہیں ہے کیونکہ حق تعالیٰ کا کوئی فیصلہ بُرا نہیں ہو سکتا لیکن جس کے خلاف وہ فیصلہ ہے، اس کے حق میں بُرا ہے جیسے جج کسی مجرم کو پھانسی کی سزا دیتا ہے تو جج کا فیصلہ بُرا نہیں، یہاں برائی کی نسبت جج کی طرف نہیں کی جائے گی کیونکہ اس نے تو انصاف کیا ہے لیکن جس مجرم کے خلاف یہ فیصلہ ہوا ہے اس کے حق میں بُرا ہے۔ خدا جب چاہے اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے حدیث ِپاک میں سوءِ قضا سے پناہ کی درخواست سے معلوم ہوا کہ اگر سوءِ قضا کا حسن ِقضا سے تبدیل ہونا محال ہو تا یا منشاءِ الٰہی کے خلاف ہوتا تو حضورﷺ اُمت کو یہ دعا نہ سکھاتے۔ حضورﷺ نے اُمت کو سکھایا کہ اللہ تعالیٰ سے فیصلے بدلوالو، تقدیریں بدلوالو، تقدیر مخلوق نہیں بدل سکتی مگر خالق اپنے فیصلے کو بدل سکتا ہے۔۔۔ 33:08) صحبتِ شیخ کو ہلکا مت سمجھو۔۔۔وقت نکال کر مجالس میں آؤ۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ دین کی بات سننے کے لیے کتنے حریص ہوتے تھے۔۔۔ 37:55) قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اے نبی آپ کہہ دیجیے یعنی اللہ تعالیٰ نبی رحمت سے کہلارہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا کلام ہے مگر بواسطۂ نبوت ہے کہ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِھِمْ اے میرے بندو جنہوں نے اپنے اوپر ظلم کرلیا۔ دیکھیے گنہگار بندوں کو بھی میرا فرمارہے ہیں، اپنی نسبت قائم رکھی، اپنی بندگی سے نہیں نکالا۔ قُلْ یَاعِبَادِی اے نبی رحمت میں اپنی رحمت کا تو اعلان کررہا ہوں مگر کس کے واسطے سے جو خود سراپا رحمت ہیں، مجسم رحمۃ اللّعٰلمین سے اللہ تعالیٰ کہلارہے ہیں کہ اے نبی رحمت آپ میرے بندوں سے فرمادیجیے میں ارحم الراحمین ہوں اور آپ رحمۃ اللہ للعلمین میں اپنی رحمت کو نبی رحمت کے واسطے سے بیان کررہا ہوں تاکہ میرے بندوں کو دوگنا مزہ آئے اور رحمۃ للعلمین صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے سے وہ میری رحمت کے اور زیادہ امیدوار ہوجائیں، میری رحمت اور نبی کی رحمت دو رحمتوں سے مل کر شرابِ محبت، شراب رحمت اور تیز ہوجائے گی: 41:25) جو تقویٰ ہے اس کی فکر نہیں اور باقی کاموں کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔۔۔نمازوں کی فکر نہیں صرف لفاظی سے کام نہیں چلے گا۔۔۔تلاوت کتنی کرتے ہیں؟۔۔۔ 44:28) صحبتِ اہل اللہ کے فضائل بیان کرتے ہیں اور خود صحبت سے بھاگتے ہیں۔۔۔ 47:19) روزانہ کے معمولات کو پورا کرنے کی فکر نہیں۔۔۔یہ کیسی زندگی ہے؟۔۔۔کبھی اشراق بھی پڑھی؟۔۔۔ 49:07) نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں مئے مرشد کو مئے حق میں ملالینے دو اللہ تعالیٰ کی محبت کی شراب اور مرشد کی محبت کی شراب جب دونوں مل جاتی ہیں تو نشہ تیز ہوجاتا ہے۔ اصلی مرشد تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ 50:14) جس کو اللہ والا بننا ہے وہ شیخ کو لکھ کر دے کہ چھٹیاں کیسے گزاریں؟۔۔۔ 50:42) آپ تو سارے عالم کے لیے مرشد ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو سارے عالم کے لیے نبی بنایا ہے: وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِعٰلَمِیْنَ آپ تو سارے عالم کے لیے رحمت ہیں، سارے عالم کے لیے نبی ہیں۔ تو ارحم الراحمین بواسطہ رحمۃٌ للعلمین اپنی رحمت کا اعلان فرمارہے ہیں کیوں کہ میں تو غیبوبت میں ہوں، ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں، میرے آثار اور و نشانات سے بندے مجھے پہچانتے ہیں لیکن میرا نبی تو ان کی آنکھوں کے سامنے ہے، ان کی رحمت و شفقت کو تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں تو رحمۃ للعلمین کی رحمت کو دیکھ کر ان کو ارحم الراحمین کی رحمت کا یقین آئے گا اس لیے اے نبی آپ کہہ دیجیے یَاعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا اے میرے گنہگار بندو! آہ کیا رحمت ہے کہ گنہگار بھی فرمارہے ہیں اور میرے بھی فرمارہے ہیں۔ یاء نسبتی لگاکر اللہ تعالیٰ نے مزہ بڑھادیا کہ اگرچہ یہ نالائق ہیں مگر میرے ہیں۔ تو یاء کیوں لگایا یعنی میرے کیوں فرمایا؟ مارے مَی۔ا کے، مارے محبت کے۔ کیوں کہ جب باپ کہے میرے بیٹے تو سمجھ لو اس وقت محبت کا دریا جوش میں ہے۔ اگر صرف بیٹا کہے تو اس وقت محبت میں جوش نہیں ہے لیکن جب کہے میرے بیٹے میرے بیٹے تو یہ جوش محبت کی علامت ہے۔ 52:14) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی نصیحت کہ جو بیمارہو وہ خانقاہ میں وقت نہ لگائے۔۔۔ 53:25) دُعائیہ پرچیاں۔۔۔ |