عشاء مجلس ۷ جولائی ۳ ۲۰۲ء :اللہ تعالیٰ کی معافی کا مضمون ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 05:35) حسبِ معمول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب جزاء الاعمال سے تعلیم ہوئی۔۔۔ 05:37) اصلاح کی فکر رکھنی چاہیے۔۔۔ 06:22) قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِن رَّحْمَۃِ اﷲِ اِ نَّ اﷲَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ: عبادی فرما کراپنی آغوشِ رحمت میں لے رہے ہیں تاکہ میری رحمت کا ان کو آسرا، سہارا اور اطمینا ن ہو جائے۔ آہ! یَاعِبَادِیْمیں کیا کرم ہے، کیا شفقت ہے، کیا رحمت ہے۔ ہمارے گناہوں کی وجہ سے یہ نہیں فرمایا کہ تم میرے بندے نہیں ہو، ماں باپ بھی اپنی نالائق اولاد کو کہہ دیتے ہیں کہ یہ ہمارے نہیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ اَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ ہیں ان کی محبت کے آگے ماں باپ کی محبت کیا حقیقت رکھتی ہے؟ وہ فرما رہے ہیں کہ چاہے تم کتنے ہی گنہگار ہو چاہے تم ایک ہزار، ایک لاکھ، ایک کروڑ ،دس کروڑ ،ایک ارب گناہ کرلو یعنی بے شمار گناہ کر لو مگر میرے ہی رہو گے، میرے دائرۂ عبدیت سے خارج نہیں ہوسکتے، جب تم گناہ کرتے ہو ا س وقت بھی میرے رہتے ہو، میری محبت و رحمت سے اس وقت بھی خارج نہیں ہوتے، پس اے میرے بندو جنہوں نے گناہ کر لیے چاہے بڑے گناہ ہو ں یا چھوٹے گناہ سب اسراف میں داخل ہیں کیونکہ اسراف کے معنی ہیں وَضْعُ الشَّیْ ءِ فِیْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ کسی شئی کو غیر محل میں رکھ دو تو یہ اسراف ہے تو جو بھی حرام کام ہو گئے گنا ہ کبیرہ یا صغیرہ ہو گئے، جو بھی نالائقیاں ہوگئیں تو اے میرے بندو جب تم میرے ہو تو کیوں نا امید ہوتے ہو؟ میں ارحم الراحمین بواسطہ رحمۃ اللعالمین اعلان کر رہا ہو ںکہ لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ میری رحمت سے نا امید مت ہونا تاکہ مایوسی میرے گنہگار بندوں کو کہیں مجھ سے دور نہ کر دے اور مایوسی کو کس جملہ سے دور فرمایا؟ جملہ اسمیہ سے اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، اِنَّبھی تاکید کے لیے، اَلذُّنُوْبَ کا الف لام بھی استغراق کا جس میں کفر و شرک کبائر صغائر تمام گناہ آگئے اور جملہ بھی اسمیہ جو ثبوت و دوام کو متقاضی ہے یعنی ماضی، حال و مستقبل کسی زمانے میں بھی تم سے گناہ ہوجائے ہماری یہ صفت عَلٰی سَبِیْلِ الْاِسْتِمْرَارِ تم پر کرم فرما ہے۔ اس کے بعد جمیعاً سے مزید تاکید فرما دی۔ اگرچہ الف لام استغراق کا سب گناہوں کو سمیٹے ہوئے تھا مگر اللہ تعالیٰ نے ہماری تسلی کے لیے جمیعًا نازل فرمایا یعنی گناہ کے جتنے انواع وافراد و اقسام ہیں سب کے سب معاف کر دوں گا کوئی گناہ نہیں بچے گا جسے میں معاف نہ کردوں۔ اتنی تاکیدوں سے گنہگاروں کو اپنے قریب فرمارہے ہیں، مایوسی سے بچا رہے ہیں، رحمت سے امیدوار فرما رہے ہیں۔ آہ! کیا شانِ رحمت ہے ؎ میں اُن کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتادے لا مجھ کو دِکھا اُن کی طرح کوئی اگر ہے 11:09) آگے فرمایا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ یہ بخشش کون کررہا ہے؟ تمہاری مغفرت کیوں کررہا ہے؟ میری رحمت ہی کافی تھی لیکن تمہاری مغفرت کا نبی رحمت سے اعلان کیوں کرارہاہوں؟ تمہارے اطمینان کے لیے! کیونکہ میں تو ابھی عالمِ غیب میں ہوں پوشیدہ ہوں، تمہارے سامنے نہیں ہوں مگر میرا نبی تو تمہارے درمیان موجود ہے، تمہاری آنکھوں کے سامنے عالمِ شہادت میں ہے، عالمِ حضوری میں تم میرے نبی رحمت کو دیکھ رہے ہو کہ وہ سراپا رحمت ہیں اور تم پر کتنے مہربان اور شفیق ہیں اس لیے ان کے واسطے سے کہلارہا ہوں تاکہ رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَکی رحمت سے تم کو ارحم الراحمین کی بے پایاں اور غیر محدود رحمت کی معرفت ہوگی اور میری رحمت کو تم چشمِ بصیرت سے دیکھو گے اور قلب وجاں میں محسوس کروگے۔ اگرچہ میں پردۂ غیب میں ہوں لیکن تمہارے ساتھ ہوں وَھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَماَ کُنْتُمْ اﷲتمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو۔ تم اکیلے نہیں رہتے ہو ہم بھی تمہارے ساتھ ساتھ ہیں چاہے جہاں بھی تم رہتے ہو اﷲ تمہارے ساتھ ہے۔ 15:18) ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَ مَثْوٰکُمْ﴾ (سورۂ محمد، آیت:۱۹) اے صحابہ! تمہارا بازاروں میں چلنا پھرنا اور اپنے گھروں میں سونا سب ہمارے علم میں ہے اور اپنے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم سے فرمایا فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَااے نبی! آپ تو میری نگاہوں میں ہیں اﷲ تعالیٰ نے صحابہ سے نہیں فرمایا کہ تم لوگ میری نگاہوں میںہو مگر اپنے پیارے نبی صلی اﷲعلیہ وسلم کی شانِ محبوبیت بیان کی کہ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا جملہ اسمیہ سے فرمایا جو ثبوت اور دوام پر دلالت کرتا ہے اور اِنَّبھی تحقیق کے لیے ہے۔ پس تحقیق کہ آپ میری نگاہوں میں ہیں اور اَعْیُنِ جمع کا صیغہ ہے اور جمع عربی میں تین سے اوپر ہوتا ہے اور اﷲ تعالیٰ کی ذات غیر محدود ہے تو اس کی صفات بھی غیر محدود ہیں تو اس کا ترجمہ ہوا کہ پس اے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم آپ میری غیر محدود نگاہوں میں ہیں اس آیت میں کیا محبت کیا پیار کیا رحمت ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنی خوشی ہوئی ہوگی، کتنی کیفیت طاری ہوئی ہوگی، کتنا وجد آیا ہوگا کہ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں کہ آپ میری نگاہوں میں ہیں۔ تو اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے اپنی صفات بیان فرمارہے ہیں اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ جانتے ہو کہ میں تمہاری مغفرت کیوں کررہا ہوں؟ میری مغفرت کا غیر محدود سمندر کیوں ٹھاٹھیں ماررہاہے کہ کفر و شرک، کبائرو صغائر تمہارے سب گناہ معاف کردیتا ہوں؟ معلوم ہے تمہیں کیوں بخش دیتا ہوں؟ بوجہ رحمت کے تمہیں بخش دیتا ہوں۔ میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ سورۂ بروج میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا وَھُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ یعنی معلوم ہے کہ اﷲ تعالیٰ تم کو کیوں معاف کردیتے ہیں؟ مارے میا کے، بوجہ محبت کے اور یہاں فرمایا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ، اِنَّہٗ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ بھی کافی تھا پھر ھُوَ کیوں لگایا؟جبکہ اِنَّہٗ میں ھُوَ موجود ہے تو تاکید کے لیے لگادیا۔ ارے وہ اﷲ تم اس کو نہیںجانتے؟ وہی اﷲ جو بڑا غفورو رحیم ہے، تم اس سے ناامید ہوتے ہو؟ وہ تو بہت بخشنے والا ہے اور بخشنے کی وجہ کیا ہے مارے رحمت کے، مارے محبت کے معاف کردیتا ہے غفور کے بعد رحیم نازل ہونے کی یہ حکمت ہے۔ جب رحمت کا غلبہ ہوجاتا ہے تو انسان بڑے بڑے جرائم، بڑی بڑی خطاؤں کو معاف کردیتا ہے۔ اسی لیے ماں باپ جلد معاف کردیتے ہیں۔ اولاد بھی سمجھتی ہے کہ یہ میری اماں ہیں ، یہ میرے ابا ہیں۔ اگر وہ کہہ دے اماں معاف کردیجئے، ابا معاف کردیجئے تو وہ جلدی سے معاف کردیتے ہیں ۔ پس اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے بھی فرمادیا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ اﷲ تعالیٰ بہت زیادہ معاف کرنے والا، بے انتہا بخشنے والا ہے ، مغفرت کرنے والا ہے اور رحمت کی فراوانی کیوں ہے؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ اِنَّہٗ ھُوَالْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ تحقیق وہ اﷲ بڑا غفور رحیم ہے۔ اس کی رحمت سے کبھی ناامید نہ ہونا۔ اسی لیے فرمایا کہ اگر میری رحمت سے ناامید ہوئے تو جہنم میں ڈال دوں گا۔ مجھ سے ناامید ہوئے تو کافر ہوجاؤ گے ، خبردار! ناامید نہ ہونا۔ کیا رحمت ہے کہ جہنم کا ڈنڈا دکھاکر اپنی رحمت کا امید وار بنارہے ہیں جیسے باپ کہتا ہے کہ اگر دودھ نہیں پیو گے تو ڈنڈ ے لگاؤںگا ۔ ڈنڈے لگانا باپ کا مقصود نہیں ہوتا بلکہ باپ دودھ پلانا چاہتا ہے۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ بھی جہنم سے ڈرا کر ناامیدی سے بچا رہے ہیں کہ میری رحمت کو کیا سمجھتے ہو؟ ناامید نہ ہو، اگر تمہارے گناہ بڑے بڑے ہیں تواﷲان سب سے بڑے ہیں۔ اس کے بعد حضرت والا نے نہایت شکستگی سے فرمایا کہ پیشی کے دن عرض کروں گا کہ رحمت کی امید لے کر حاضرہوا ہوں۔ اگر سوال ہو کہ تم تو نالائق تھے تو عرض کروں گا کہ آپ نے مُسْرِفِیْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ کے لیے فرمایا تھا لَاتَقْنَطُوْا الٰخ آ پ کے حکم کی تعمیل کی ہے ؎ فَاِنْ کَانَ لَایَرْجُوْکَ اِلَّا مُحْسِنٗ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَدْعُوْ وَ یَرْجُو الْمُجْرِمٗ اگر صرف نیک بندے ہی آپ سے امید رکھ سکتے ہیں تو کون ہے وہ ذات جس کو گنہگارپکاریں ؎ نہ پوچھے سوا نیک کاروں کے گر تو کدھر جائے بندہ گنہگار تیرا 20:53) ولایت کے اعلیٰ ترین مقام سے روکنے کا شیطانی حربہ: احقر راقم الحروف پر حالت قبض طاری تھی اور مایوسی کی کیفیت تھی کہ میرے اعمال تو بڑے خراب ہیں میں اللہ سے قرب اور ولایت خاصہ کیسے مانگوں؟ فرمایا کہ اﷲ سے ولایت کا اعلیٰ ترین مقام صدیقیت مانگو کہ اے اﷲ حضرت صدیق اکبر کی صدیقیت سے ایک ذرہ مجھے بھی عطا فرمادیجئے۔اپنی صلاحیت پر نظر نہ کرو اﷲ کے فضل و رحمت پر نظر رکھو کہ وہ فضل فرماتے ہیں تو خود صلاحیت پیدا فرما دیتے ہیں، وہ صلاحیت کے محتاج نہیں۔شیطان ایسے وقت میں جب یہ دیکھتا ہے کہ اس مانگنے کی بدولت کہیں یہ کسی اعلیٰ مقام ولایت پر فائز نہ ہو جائے تو وہ دعاکے وقت عمل کو سامنے کر دیتا ہے کہ تیرے اعمال تو ایسے ایسے ہیں تو نے گناہوں سے اپنے قلب کی صلاحیت ہی تباہ کر دی اب تو کسی مقام ولایت پر فائز نہیں ہو سکتا تو سمجھ لو کہ یہ وسوسہ شیطانی ہے وہ جب دیکھتا ہے کہ اس بندہ کو حق تعالیٰ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اور اس کی ولایت کو میں روک نہیں سکتاتو چاہتا ہے کہ ولایت مل جائے لیکن گھٹیا درجہ کی ملے اعلیٰ درجہ کی ولایت سے یہ محروم رہے جیسے کسی کو نوکری مل رہی ہو تو حاسد چاہتا ہے کہ چلو اگر نوکری مل ہی رہی ہے ۵۰۰؍ روپے کی ملے ۱۰۰۰؍ روپے ماہانہ کی نہ ملے ،اس کی تدبیر کرتا ہے۔ ایسے ہی شیطان اعلیٰ درجہ کی ولایت سے محروم کرنے کے لیے یہ تدبیر کرتا ہے کہ بوقت دعا اس کے اعمال سامنے کر دیتا ہے کہ تو نے ایسے برے کام کئے ہیں کس منہ سے اتنی اعلیٰ بات مانگ رہا ہے تیرا دل تو تباہ ہو چکا ہے اب اس مقام صدیقیت کے قابل ہی نہیں رہا اس لیے ایسی دعا مانگنے سے کیا فائدہ ۔ چھوٹا منہ بڑی بات۔ تو سمجھنا چاہیے کہ یہ مثال دنیا کی ہے۔ دنیا کے معاملات میں ہمارا منہ چھوٹا اور بات بڑی ہو سکتی ہے لیکن اﷲ کے لیے بڑی سے بڑی بات بھی چھوٹی سے چھوٹی ہے اور یہ خیال کہ گناہوں سے ہماری صلاحیت ختم ہو گئی اور دل تباہ ہو چکا ہے یہ و سوسہ بھی غلط ہے کیونکہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ نعوذبا ﷲ اﷲ تعالیٰ ہمارے تباہ شدہ دل کی تشکیل و تعمیر پر قادر نہیں ہیں۔ بے شک گناہوں سے دل بالکل تباہ ہو گیا ہے لیکن حق تعالیٰ اس کی از سر نو تشکیل پر قادر ہیں کہ وہ اس کو اپنے اعلیٰ ترین قرب کے قابل بنانے پر پوری قدرت رکھتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کی ایک صفت جباریت ہے جس کے معنی ہیں ٹوٹے ہوئے کو جوڑنا۔ ہم لوگ ٹوٹی ہوئی چیز کو جوڑتے ہیں تو گرہ رہ جاتی ہے وہ ایسا جوڑتے ہیں کہ گرہ بھی نہیں رہتی ،ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کبھی شکستہ ہی نہ تھا اس لئے گناہوں سے ختم شدہ صلاحیت اور تباہ شدہ دل کو وہ ایسا جوڑ سکتے ہیں کہ جیسے یہ کبھی تباہ ہی نہ ہوا تھا اور کبھی گناہ ہی نہ کیا تھا۔ اگر نجاست یہ کہنے لگے کہ میرے اندر تو کوئی صلاحیت ہی نہیں میں کیا مانگوں تو یہ اس کی حماقت ہے، حق تعالیٰ کا آفتاب کرم اپنی شعاعوں کو اس نجاست سے نہیں ہٹاتا اس کی شعاعیں نجاست سے پلید نہیں ہوتیں، وہ نجاست سے اعراض نہیں کرتا۔ کہ میری شعاعیں پاک چیزوں پر پڑیں ناپاک پر نہ پڑیں۔ آفتاب کی شعاعیں اسی نجاست کو سبزہ اورنور بنادیتی ہیں( اپلا تنور میں نور ہو جاتا ہے اور کھاد سے سبزہ اگ جاتا ہے) اب کوئی اس سبزہ و گلزار کو یہ کہہ سکتا ہے کہ تو پہلے پاخانہ تھا یا اس نجاست میں کوئی صلاحیت تھی۔ بس حق تعالیٰ سے مایوسی کی کوئی صورت نہیں ہے ،ان کا کرم عام ہے۔ بس مانگتا رہے کہ اے آفتاب کرم! اپنی کرم کی ایک شعاع اس عبد عاصی پر بھی ڈال دیجئے، اے بحر کرم اپنے کرم کا ایک قطرہ اس گنہگار کو بھی عطا فرمادیجئے اے خالق بہار کائنات ہمارے خزاں رسیدہ دل یعنی گناہوں سے خزاں رسیدہ دل کو اپنی نسیمِ بہارِ قرب سے زندہ فرمادیجئے اور اپنی صفت جباریت کا ایک پرتو میرے قلب کی تباہ شدہ صلاحیت پر بھی ڈال دیجئے اے اﷲ اس دل کو اپنی محبت کے قابل بنا دیجئے یعنی تمام اخلاق رذیلہ سے پاک فرمادیجئے ،وہی دل اﷲ کے پیار کے قابل ہوتا ہے جس میں کوئی خلق رذیلہ نہیں رہتا۔ تو ہم ایک ایک خلق کا نام کہاں تک لیں اس ایک جملہ میں تمام اخلاق رذیلہ سے نجات کی دعا ہو گئی۔ اور یوں بھی مانگے کہ اے اﷲ آپ نے فرمایا ہے کہ: ﴿اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَاۗءُ﴾ (سورۃُ الشورٰی، آیت:۱۳) کہ آپ جس کو چاہتے ہیں اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اے اﷲ آپ کی اس آیت پاک کا صدقہ کہ مجھے اس مَنْ میں شامل فرما لیجئے آپ کا یہ من تو دونوں عالم اور جو کچھ ان میں ہے سب کے لیے کافی ہے 31:18) عربی سیکھنے سے متعلق کچھ نصیحت کہ روزانہ کچھ نہ کچھ سیکھ لیں اور آپس میں بولنا شروع کر دیں انشاء اللہ کچھ دنوں میں سیکھ جائیں گے۔۔۔ 34:12) اے اﷲ اپنے کرم سے مجھے بھی اپنی طرف جذب فرمالیجئے اور جس کو آپ جذب فرماتے ہیں وہ کبھی مردود نہیں ہو سکتا اور آپ کے دست و بازو جس کو اپنی طرف کھینچیں گے پھر شیطان و نفس اور ساری دنیا بھی اس کو اپنی طرف کھینچنا چاہے تو آپ کے دست و بازو کے مقابلہ میں کوئی اپنی طرف نہیں کھینچ سکتا ۔ 37:05) عالِم اگر تقویٰ والا ہوتو اللہ کی محبت کی آگ لگادے گا۔۔۔ 38:49) آج میڈیا نے مدرسےکے طلبہ اور کالج کےنوجوانوں کو الگ الگ کر دیا اور آپس میں نفرت پھیلا دی کہ ان کا راستہ الگ ہے اور تمھارا الگ ہے خدا کی قسم ہر مومن کا راستہ ایک ہی ہے جو جنت کی طرف جاتا ہے۔۔۔ 41:08) کتا اور چڈی کلچر۔۔۔ 42:46) مولانا تھانوی نے لکھا ہے کہ مجذوب مردود نہیں ہوتا شیطان صرف سالکِ محض تھا ،اﷲ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف جذب نہ فرمایا تھا اس وجہ سے مردود ہو گیا اس لیے سلوک کے ساتھ جذب ہونا ضروری ہے ۔ بعد تقریر کے احقر سے فرمایا کہ حوصلہ پیدا ہوا مایوسی دور ہوئی ؟فرمایا کہ اس تقریر کے بعد جس کو حق تعالیٰ اپنا بنانا چاہیں گے تو اسے اپنے قرب کا اعلیٰ ترین مقام مانگنے کی توفیق عطا فرما دیں گے اور جس کو یہ توفیق نہیں ہو گی تو میں سمجھوں گا کہ اس کو میاں اپنا بنانا نہیں چاہتے اور مقام صدیقیت نہیں دینا چاہتے۔شیطان اعمال دکھا کر دعا مانگنے سے روکتا ہے اور مایوس کر تا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ باد شاہ کی طرف سے تخت و تاج تقسیم ہو رہا ہو کہ جس کا جی چاہے لے لے تو کوئی چمار اس وقت شاہ کی خدمت میں اپنی چماریت پیش کردے کہ کیونکہ میں چمار ہوں اس وجہ سے تخت و تاج نہیں لے سکتا، میں تخت و تاج کے قابل نہیں ہوں تو شاہ یہی کہے گا کہ اچھا جا چمار ہی بنا رہ ،ہم نے تو ہر خاص و عام کے لیے اعلان کر دیا تھا کہ جس کا جی جاہے لوٹ لے ہماری نعمت عام ہو رہی ہے تو ایسے وقت اپنی صلاحیت پر نظر کرنا نعمت کی نا قدری ہے اور بادشاہ کی قدرت کاملہ پر خفیف ہونے کا گمان لازم آتا ہے کہ وہ اس پر قادر نہیں کہ بروں کو بھی اپنا بنا لے۔ پس حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کسی کی صلاحیت کی محتاج نہیں ہے مانگنے والا چاہیے، انہوں نے اپنی نعمت کو ہر خاص و عام کے لیے عام کر دیا؎ بہ لطف آں کہ وقفِ عام کردی جہاں را دعوت اسلام کردی اس تقریر کے بعد نعمت کے عام ہونے کا یقین آجانا چاہیے ورنہ محروم رہو گے اور فورا دعا مانگنی شروع کر دینی چاہیے کیونکہ جب نعمت تقسیم ہو رہی ہو اس وقت اس کے حصول میں سستی کرنا نعمت کی بے قدری ہے بلکہ نعمت کی جھلک دیکھتے ہی دوڑ کر لے لینا چا ہیے جس سے حق تعالیٰ خوش ہوں کہ بندہ ہماری نعمتوں کا حریص ہے جیسے بھوکے کو کوئی ٹکڑا دکھاوے تو کیسادوڑ کر جائے گا اﷲ کی نعمتوں کو سن کر بندہ کا یہی حال ہونا چاہیے ورنہ لازم آئے گا کہ وہ نعمت کا حریص نہیں ہے ۔ اس لیے خوب گڑ گڑا کر یہ دعا مانگا کرو کہ اے اﷲ حضرت صدیق اکبر کی صدیقیت سے ایک ذرّہ ہمیں بھی عطا فرما دیجئے۔ معلوم ہے وہ ذرہ کیا ہوگا؟ اس کی وسعت کی تھاہ نہیں وہ ایسا ذرّہ ہے ۔ اس دعا کا معمول بنا لینا چاہیے ۔ 49:29) دُعا کی پرچیاں۔۔۔ |