عشاء مجلس ۱۰ ۔اگست۳ ۲۰۲ء :حفاظت نظر کا انعام خالق نظر کی طرف سے ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 03:17) نامحرم کو دیکھنا اللہ تعالی سے تعلق کو توڑنا ہے اور پھر ساری عبادت کا نور ضائع ہوجاتا ہے لیکن توبہ کی برکت سے نور واپس آجا تا ہے۔۔ 04:20) جو مایوس ہوا وہ مارا گیا۔ 06:59) اللہ تعالی نے حکم دیا قرآن پاک میں نامحرم سے نظر کی حفاظت کا 11:55) آج حس مجازی میں اپنی جوانی کو برباد کررہے ہیں۔۔ 19:51) حفاظتِ نظر کا انعام خالقِ نظر کی طرف سے (۱)……پہلا انعام حدیث شریف میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص آنکھوں کی حفاظت کرے گا (یعنی کسی ا جنبیہ عورت یا حسین لڑکے سے نگاہ کو محفوظ کرے اور نہ دیکھنے سے جو تکلیف ہو اُس کو برداشت کرے حق تعالیٰ کی رحمت سے) وہ قلب میں ایمان کی حلاوت پائے گا۔ سبحان اﷲ کتنا عظیم انعام ہے۔ حق تعالیٰ کے تعلق کی مٹھاس و شیرینی کس قدر عظیم نعمت اور دولت ہے دراصل یہ نعمت تو دونوں جہاں سے بڑھ کر ہے جو تھوڑی سی تکلیف کے بدلہ میں عطا ہوتی ہے جمادے چند دادم جاں خریدم بحمد اﷲ عجب ارزاں خریدم چند پتھر دئیے اور جان خرید لیا شکر ہے خدا کا کہ کیا ہی ارزاں خریدا۔ 21:45) نیم جاں بستاند و صد جاں دہد اُنچہ دروہمت نیائید آں دہد آدھی جان مجاہدہ میں وہ محبوبِ حقیقی لیتا ہے اور اس کے بدلے میں سو جانیں عطا فرماتا ہے(کیا ہی اچھا داتا ہے ہماری لاکھوں جانیں اس کریم مطلق پر فدا ہوں) وہ وہ نعمتیں عطا فرماتے ہیں جو ہمارے وہم و گمان میں ہی نہیں آسکتی ہیں ؎ 22:03) حکایت حضرت مالک بن دینار رحمۃ اﷲ علیہ گذر رہے تھے، دیکھا کہ ایک حسین کنیز مع اپنی خادمات کے گذر رہی ہے آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں اِس حسین لڑکی کو صرف چار درہم میں خرید سکتا ہوں۔ حالانکہ اُس کنیز کو اُس کے مالک نے ایک لاکھ درہم میں خریدا تھا ۔ وہ کنیز سمجھی کہ یہ کوئی دیوانہ ہے اس کو اپنے مالک کے پاس لے چلیں تاکہ کچھ دیر ہنسی کی باتیں ہوں ۔ اُس نے کہا کیا آپ ہمارے مالک کے پاس چل سکتے ہیں؟ فرمایا ہاں! اس کے مالک نے جب یہ بات سُنی تو بہت ہنسا اور اُس نے بھی سمجھا کہ یہ کوئی دیوانہ ہے اور خوش ہوا کہ ذرا دیر ہنسی مذاق کرکے اس سے دل بہلائیں گے اُس نادان کو کیا خبر کہ یہ عارف باﷲ بزرگ ہیں۔ 24:32) کنیز کے مالک نے کہا کہ بھائی آپ نے صرف چار درہم دام لگایا اور میں نے اس کو کس قدر گراں خریدا ہے۔حضرت نے جواب دیاکہ عیب دار سودے کا دام کم ہی لگتا ہے۔ دریافت کیا کہ ہماری اِس کنیز میں کیا عیب ہے؟ فرمایا اِس کے بدن سے پیشاب پاخانہ نکلتا ہے اور اگر یہ ایک ماہ تک اپنے دانتوں کو نہ صاف کرے تو منہ سے ایسی بدبو آوے گی کہ تم اپنا منہ اِس کے قریب نہ کرسکو گے، اور اگر ایک ماہ تک غسل نہ کرے تو اس کے پاس بدبو کے سبب لیٹ نہ سکو گے اور جب یہ بوڑھی ہوجاوے گی اس کی جوانی کا لطف ختم ہوجاوے گا پھر قبر میں جاکر تو سڑ، گل جاوے گی بس مالک چپ ہورہا اور لاجواب ہورہا پھر کچھ دیر میں دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس کوئی عورت ایسی ہے جو اِن عیوب سے پاک ہو۔ فرمایا ، ہاں! جنت میں ہماری حوروں میں اِس قسم کا کوئی عیب نہیں ہے نہ پیشاب نہ پائخانہ، نہ منہ سے بدبو ، اُن کے پسینوں میںمُشک کی خوشبو ہوگی، نہ اُن کو موت آوے گی، نہ بڑھاپا آوے گا، ہمیشہ باکرہ رہیں گی اور ہمارا انتظار کر رہی ہیں۔ کسی غیر مرد پر نظر نہ ڈالیں گی۔ اِس حکایت میں کیا ہی عبرت کا سبق ہے۔ یعنی چند دن دُنیا میں آنکھوں کو بچانا ہے اور پھر حوروں سے ملاقات کا انعام کیا ہی اعلیٰ جزا ہے دُنیا کے حسینوں کا نقشہ قبر میں کیا ہوگا۔ نذیر اکبر آبادی کی زبان سے سُنئے؎ کئی بار ہم نے یہ دیکھا کہ جن کا مشین بدن تھا مبیض کفن تھا جو قبر کہن ان کی اُکھڑی تو دیکھا نہ عضو بدن تھا نہ تارِ کفن تھا 24:41) حضرت رومی رحمۃ اﷲ علیہ ارشاد فرماتے ہیں اے لوگو! جن حسینوں کے گھونگھر والے اور مشکبار اور عقل اُڑانے والے بالوں سے آج تم دیوانے ہورہے ہو آخری انجام اس کا یہ ہوگا کہ جب یہ بوڑھی ہوگی تو پھر یہی زلف بڈھے گدھے کی بُری دُم معلوم ہوگی۔ 25:09) (۲)……دوسرا انعام حفاظت نظر کا یہ ہے کہ حدیث قدسی میں ہے کہ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں ٹوٹے ہوئے دل سے قریب تر ہوں اور آنکھوں کو بدنگاہی سے بچانے میں دل کی آرزو ٹوٹنے سے دل ٹوٹ جاتا ہے۔ اور پھر اِس عمل سے اس حدیث کے مطابق حق تعالیٰ کا قربِ عظیم حاصل ہوتا ہے جو ہزاروں نوافل اور اذکار سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ کسی نے خوب کہا ہے میکدہ میں نہ خانقاہ میں ہے جو تجلّی دلِ تباہ میں ہے 27:46) (۳)……تیسرا انعام مومن کو اس مجاہدہ کی برکت سے شہادت معنوی باطنی عطا ہونے کا ہے جیسا کہ تفسیر بیان القرآن میں شہداء کے متعلق تفسیر میں حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اولیاء صالحین بھی اس فضیلت میں شہدا ء کے شریک ہیں۔ سو مجاہدہ نفس میں مرنے کو بھی معنیً شہادت میں داخل سمجھیں گے اس طور پر وہ بھی شہدا ہوے احقر کا شعر اسی نعمت کو بیان کرتا ہے؎ ترے حکم کی تیغ سے ہوں میں بسمل شہادت نہیں میری ممنونِ خنجر 28:53) (۴)……چوتھاانعام یہ ہے کہ صاحب حزن حق تعالیٰ کا راستہ اس طرح تیز طے کرتا ہے جو غیر صاحب حزن نہیں کرسکتا جیسا کہ حضرت اقدس تھانوی رحمۃاﷲ علیہ نے حضرت بو علی دقاق رحمۃاﷲ علیہ کا قول نقل فرمایا ہے اور جب سالک اپنی نظر کوبار بار بچاتا ہے تو نفس کو بہت غم ہوتا ہے۔ پس اس مجاہدہ کی برکت سے یہ بہت تیز سلوک طے کرتا ہے۔ 32:38) (۵)……پانچواںانعام یہ ہے کہ جب کوہِ طور پر حق تعالیٰ نے تجلّی فرمائی تو کوہِ طور ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا حضرت عارف رومی رحمۃاﷲ علیہ فرماتے ہیں جب حق تعالیٰ کی تجلّی کوہِ طور کی سطح ظاہر پر ہوئی تو غلبۂ شوق سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا تاکہ نورِ حق اُس کے باطن میں بھی داخل ہوجاوے گویا اس پہاڑ نے پھٹ کر اور ٹکڑے ہوکر بزبان حال بارگاہِ کبریا میں یہ عرض کیا ؎ آجا مری آنکھوں میں، سما جا مرے دل میں پس جب مومن اپنی آنکھوں کو بار بار ا جنبیہ عورتوں سے اور حسین لڑکوں سے بچانے کی مشقت کو برداشت کرتا ہے اور قلب کو بھی اُن کے تصور و خیال سے لذت لینے سے روکتا ہے یعنی قصداً اُن کے تصورات اور خیالات سے اپنے قلب کو محفوظ رکھتا ہے تو نفس پر یہ امر سخت ناگوار ہوتا ہے اور دل ان مجاہدات کے صدمات سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا ہے جس سے حق تعالیٰ کا نور اُس کے قلب کے اندر گہرائی میں داخل ہوجاتا ہے اور ایسے شخص کے قرب کا مقام نہ پوچھئے۔ 33:03) (۶)……چھٹا انعام یہ ہے کہ کافر کی تلوار سے تو ایک مرتبہ شہادت ہوتی ہے اور مجاہدہ ختم ہوجاتا ہے اور نفس کے ان مجاہدات میں ایک عمر بسر کرنی ہوتی ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کافروں سے جہاد اصغر اور نفس سے جہاد کو جہادِ اکبر ارشاد فرمایاہے۔ جہادِ اصغر میں جب کافروں کی تلوار سے مومن شہید ہوتا ہے تو اس کا خون دُنیا کے لوگوں کو بھی نظر آجاتا ہے لیکن خواہشاتِ نفس کی گردن پر امرِالٰہی کی تلوار سے جو عمر بھر معنوی باطنی شہادت ہوتی رہتی ہے اس خون کو سوائے خدائے پاک کے کوئی نہیں دیکھتا۔ مثال کے طور پر جب کسی حسین کا سامنا ہو اور عاشق حق نے اپنی آنکھیں باوجود تقاضائے شدید کے اُس سے ہٹالیں اور آگے بڑھ گیا اور بزبانِ حال آسمان کی طرف دیکھ کر بارگاہِ کبریا میں یہ عرض کیا ؎ بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں حاصل یہ کہ تمام عمر یہ اندرونی زخم اگرچہ مخلوق سے پوشیدہ ہیں مگر حق تعالیٰ کے علم میں ہے کہ ہمارا بندہ ہماری رضا میں کس طرح لہو پی رہا ہے اور زخم پر زخم دل پر کھا رہا ہے۔ سینے کے یہ زخم میدانِ محشر میں ان شاء اﷲ تعالیٰ آفتاب سے زیادہ روشن ہوں گے داغِ دل چمکے گا بن کر آفتاب لاکھ اُس پر خاک ڈالی جائے گی (مجذوبؔ رحمۃاﷲ علیہ) اشعار ازمؤلف جس زندگی میں غم کی کوئی داستاں نہ تھی وہ زندگی حرم کی کبھی پاسباں نہ تھی ………………… اے دوست مبارک ہوں تجھے دل کی حسرتیں تجھ پر برس رہی ہیں تیرے رب کی رحمتیں 36:33) (۷)……ساتواں انعام نظر کی حفاظت میں یہ ہے کہ تمام عمر کے اس مجاہدہ سے ایسے آدمی کا دل ٹوٹا ہوا رہتا ہے اور غمزدہ ٹوٹے ہوئے دل سے مناجات اور دُعا میں خاص لذت عطا ہوتی ہے اور خاص اثر عطا ہوتا ہے ؎ اے ٹوٹے ہوئے دل تری فریاد کا عالم اے ٹوٹے ہوئے دل پہ نگاہ کرم انداز (اخترؔ) بارگاہِ حق میں قرب اعلیٰ کے ساتھ ان کی دُعا نہایت درد سے نکلتی ہے جس سے حجاباتِ عالم باقی نہیں رہتے؎ نگاہِ عشق تو بے پردہ دیکھتی ہے اُنہیں خرد کے سامنے اب تک حجابِ عالم ہے (اصغرؔ) اشعار ِمؤلف ؎ گذرتا ہے کبھی دل پر وہ غم جس کی کرامت سے مجھے تو یہ جہاں بے آسماں معلوم ہوتا ہے اُنھیں ہر لحظہ جانِ نو عطا ہوتی ہے دُنیا میں جو پیشِ خنجرِ تسلیم گردن ڈال دیتے ہیں …………………… ہائے کیا جانے وہ آہوں کی نزاکت کی لچک جس نشیمن پہ نہ ہو برقِ حوادث کی چمک 39:37) (۸)……آٹھواں انعام مجاہدات کے غم سے دل نرم ہوجاتا ہے اور ایسے دل کی زمین میں نورِ ہدایت اور ولایت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ؎ وربعقل ادراک زیں ممکن بُدے قہر نفس از بہر چہ واجب شدے اگر عقل سے معیت خاصہ اور ایمان کامل کی دولت ملتی تو حق تعالیٰ نفس پر مجاہدہ کی تکلیف کیوں واجب فرماتے: ﴿وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾ (سورۃُ العنکبوت، آیت:۶۹) حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے راستے میں مجاہدہ اور تکلیفیں اُٹھاتے ہیں ہم اُن کے لئے اپنی راہیں کھول دیتے ہیں۔ 40:05) (۹)……نواں انعام یہ ملتا ہے کہ حضرت سلطان بلخی رحمۃ اﷲ علیہ جنہوں نے سلطنت بلخ راہِ حق میں لٹا کر فقیری اختیار کی تھی اور دیگر ایسے اولیاء اﷲ جنہوں نے تخت و تاجِ شاہی کو خدائے پاک کی محبت میں خیرباد کہہ کر حق تعالیٰ کی راہ میں بلند مقام حاصل کیا تھا۔ حکایت حضرت سلطان ابراہیم ابن ادھم نے جب سلطنت بلخ چھوڑ کر غارِ نیشاپور میں عبادت و مجاہدات شروع کئے تو جنگل میں جنت سے کھانا آنے لگا جس سے سارا جنگل خوشبو سے مہک جاتا تھا۔ اُسی جنگل میں ایک گھاس کھودنے والے نے اپنا پیشہ ترک کرکے فقیری لے رکھی تھی اُس کو بارہ سال سے دو روٹی اور چٹنی خدائے پاک کی طرف سے آیا کرتی تھی اُس فقیر کو بڑا رنج ہوا اور شیطان نے اُس کو بہکایا کہ دیکھ تیری کیا قدر ہے اور اِس نئے فقیر کی کیا قدر ۔ اﷲ میاں نے ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا۔یہ دل میں ایسی نامناسب باتیں سوچ ہی رہا تھا کہ آسمان سے آواز آئی کہ او بے ادب او ناشکرے! جا اپنی کھرپی اُٹھا جس سے گھاس کھودا کرتا تھا اور اپنی جھولی سنبھال جس میں گھاس رکھتا تھا اور اُسی طرح کھا کما جس طرح کھاتا کماتا تھا۔ تو نے میری راہ میں اپنی جھولی اور کھرپی قربان کی تھی اور اِس نے سلطنت بلخ کا تخت و تاج شاہی اور مخمل کے گدے اور عزتِ سلطانی کو میری راہ میں قربا ن کیا ہے 42:10) پس نواں انعام جو غض بصر یعنی آنکھوں کی حفاظت اور حسینوں کی محبت سے سچی توبہ کی بدولت ملتا ہے پس جب مومن ایسے حسین کے عشق سے سچی توبہ کرتا ہے جس پر وہ سلطنت فدا کردیتا اگر اُس کے پاس ہوتی لیکن خدا کے خوف سے اور رضائے حق کی خاطر وہ ایسے چاند و سورج جیسے حسینوں سے نگاہوں کو بچاتا ہے اور اُن کے عشق سے دست بردار ہوتا ہے تو ایک سلطنت نہیں نہ جانے کتنی سلطنتیں راہِ حق میں اُس نے گویا قربان کردیں بس مفت میں عشاق طبع حضرات کو اس مجاہدہ کی برکت سے اتنا رفیع مقام میدانِ محشر میں ان شاء اﷲ تعالیٰ ہاتھ لگے گا 43:19) حکایت احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ میرے ایک پیر بھائی نے جو عالم نہیں ہیں ایک دن مجھ سے کہا کہ جب نامحرم عورتوں سے آنکھیں نیچی کرلیتا ہوں تو دل میں عجیب خوشی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے کہا صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو بشارت اس عمل پر دی ہے کہ ایسے شخص کو اس وقت ایمان کی حلاوت عطا ہوتی ہے آپ کو یہ خوشی اس حلاوت سے محسوس ہوئی لیکن آپ چونکہ عالم نہیں تھے اِس لئے اِس حلاوت کی تعبیر آپ نے خوشی سے کی ہے۔ احقر کو اُن کی اِس بات سے بہت لطف آیا۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ نے ارشاد فرمایا ؎ اے دل ایں شکر خوشتر یا آنکہ شکر سازد اے دل ایں قمر خوشتر یا آنکہ قمر سازد اے دل یہ شکر زیادہ شیریں ہے یا وہ جو شکر کو پیدا کرنے والا ہے جو کھیتوں میں گنے کے اندر رس پیدا کرے اُس کے نام میں بھلا رس نہ ہو اﷲ اکبر؎ اﷲ اﷲ ایں چہ شیریں ست نام شیر و شکر می شود جانم تمام نام او چو بر زبانم می رود ہر بُنِ مو از عسل جوئے شود اﷲ اﷲ یہ نامِ پاک کس قدر شیریں ہے کہ اس نامِ پاک کو زبان سے لیتے ہی دودھ شکر کی طرح ہماری جان شیریں ہوجاتی ہے یعنی جس طرح دودھ میں شکر گھل کر تمام دودھ کو میٹھا کردیتی ہے اِسی طرح ذکر اسم ذات اﷲ اﷲ کی شیرینی نے ہماری جان کو شیریں کردیا۔ جب اﷲ پاک کا نام میری زبان سے نکلتا ہے تو میرے ہر بُن مو (بال بال) شہد کے دریا ہوجاتے ہیں۔ مولانا روم رحمۃ اﷲ علیہ دوسرے مصرعہ میں فرماتے ہیں کہ اے دل یہ چاند زیادہ حسین ہے یا کہ وہ جو قمر ساز یعنی چاند کا بنانے والا ہے۔ وہ سرچشمہ حُسن اور مرکز حُسن اور وہ آفتابِ حُسن و جمال اپنے فضل سے کسی چہرہ پر اور اس کی آنکھوں پر ایک شعاع ڈال دیتا ہے تو انسان اُسے دیکھ کر پاگل ہونے لگتا ہے اور اُس کی آنکھوں میں سیکڑوں تیر و کمان نظر آنے لگتے ہیں۔ احقر کا شعر ہے ؎ چوں بہ عکس حُسن تو از ہوش رفتہ می شوم پس چہ باشد چوں ترا بے پردہ بینم روزِ حشر اور جب وہ شعاع ہٹا لیتے ہیں تو پھر وہی چہرہ اور اُسی آنکھ کو دیکھ کر (زوالِ حُسن کے بعد) دل متنفر ہوجاتا ہے پس عکس سے عشق کرنا خسارہ اور دھوکہ ہے کہ عکس بھی بعد زوالِ حُسن یا بعد موت چھن گیا اور اصل سے بھی محروم رہے جس طرح چاند کا عکس دریا میں نظر آوے اور کوئی نادانی سے دریا میں چاند تلاش کرنے کے لئے دریا میں گھس جاوے تو نہ عکس ملے گا اور نہ اصل۔پس عکس سے رخ کا پھیرنا اصل کو حاصل کرنے کے لئے عقلاً بھی واجب اور ضروری ہے۔ پس اس مثال سے دُنیا کے حسینوں کے حُسن و جمال کو قیاس کرلیجئے کہ اُن سے نگاہ کی حفاظت کا حکم ہماری ہی مصلحت سے اور اپنے قرب کو اور اپنے دیدار کے لئے فرمایا ہے۔ ورنہ ہم ان مرنے والوں پر فدا ہوکر بے قیمت ہوجاتے ہیں؎ ارے یہ کیا ظلم کررہا ہے کہ مرنے والوں پہ مر رہا ہے جو دَم حسینوں کا بھر رہا ہے بلند ذوقِ نظر نہیں ہے 44:53) ایک مقام پر حضرت خواجہ صاحب رحمۃ اﷲ علیہ نے اس طرح متنبہ فرمایا؎ حُسن اوروں کے لئے حُسنِ آفریں میرے لئے جو خاک خاک ہی پر فدا ہوجاوے تو دونوں خاک ہوجاویں گے زندگی مٹی میں مل جاوے گی اور جو خاک اس ذاتِ پاک سے رابطہ قائم کرتی ہے تو وہ زندہ حقیقی اس خاک کو بھی زندہ کردیتا ہے۔ 45:20) (۱۰)……دسواں انعام یہ ہے کہ تقویٰ کا حمام اِنھیں خواہشات سے روشن ہے یعنی جب بندہ بُرے تقاضوں پر اپنے مالک حقیقی کے خوف سے صبر کرتا ہے تو اُس کے دل میں تقویٰ کا نور روشن ہوجاتاہے: ﴿وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی﴾ (سورۃُ النّٰزِعٰت، آیات:۴۱-۴۰، پارہ:۳۰) حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ پس جو شخص اپنے نفس کو بُری خواہش سے باز رکھتا ہے اِس خوف سے کہ ہم کو ایک دن حق تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہوکر جوابدہ اور مسئول ہونا ہے تو ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت میں ہوگا۔ حضرت عارف رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں دُنیا کی خواہشات کی مثال آگ کی بھٹی کی طرح ہے کہ تقویٰ کا حمام اسی سے روشن ہوتا ہے یعنی بُرے بُرے تقاضے گناہوں کے تقویٰ کی بھٹی کے لئے ایندھن ہیں ان کو اگر خدا کے خوف کے چولہے میں ڈال کر جلا دو گے تو اس سے تقویٰ کی روشنی پیدا ہوگی اور اگر اس بُری خواہش پر عمل کرلیا تو گویا ایندھن کو کھا لیا، ایندھن کھانے کے لئے نہیں جلانے کے لئے ہے۔ ایندھن کھانے کا انجام بُراہے۔ گلخن دراصل خانۂ گل تھا۔ اضافت مقلوبی ہے گل کے معنٰی یہاں اخگر آتش کے ہیں۔ 46:13) (۱۱)……گیارہواں انعام یہ ہے کہ متقی بندوں کی آنکھوں میں ایک خاص چمک ہوتی ہے اور اُن کے چہروں پر خاص نور ہوتا ہے۔ اوربدنگاہی سے آنکھوں کے اندر بے رونقی اور ظلمت پیدا ہوتی ہے جس سے چہرہ بے رونق اور بے نور معلوم ہوتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اﷲ عنہٗ کی مجلس میں ایک شخص بدنگاہی کرکے آیا آپ نے اُس کی آنکھوں سے ظلمت محسوس کرکے ارشاد فرمایا کہ کیا حال ہے ایسے لوگوں کا جن کی آنکھوں سے زِنا ٹپکتا ہے۔ 46:42) (۱۲)……بارہواں انعام یہ ہے کہ متقی بندوں کو آنکھوں کی حفاظت کرتے کرتے ایسا ملکہ اور ایسی روحانی قوت عطا ہوجاتی ہے کہ حضرت اقدس تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر متقی کامل ہو اور کوئی بے حیا شوخ اس کی آنکھیں زبردستی پھاڑ کر اپنے کو دکھائے تو وہ اپنی شعاع بصر پر حکومت کرے گا اور اُس کو دیکھنے نہ دے گا مگر صرف دھندلا سا عکس جو اختیا سے باہر ہے یعنی حُسن کے نکات سے شعاع بصر کو محفوظ رکھے گا آنکھیں کھلی ہوںگی مگر پوری طرح بینا نہ ہوںگی۔ جس طرح کسی پر پھانسی کا مقدمہ ہو تو دُنیا اُسے دھندلی اور بے رونق نظر آتی ہے۔ اﷲ والوں کو بھی قیامت کے فیصلہ کا خوف پھانسی سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ 47:52) (۱۳)……تیرہواں انعام یہ ہے کہحضرت شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ شہوت اور بدنگاہی کے تقاضوں پر صبر سے ولایت خاصہ عطا ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہجڑہ ولایت عامہ سے آگے نہیں ترقی کرسکتا کیونکہ اُس کو مجاہدہ کا وہ غم نہیں جو مردِ کامل کو پیش آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ سلم نے حضراتِ صحابہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کو خصی ہونے سے منع فرمایاہے یعنی نامرد ہونا گناہوں کے خوف سے جائز نہیں نفس و شیطان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہی مردانگی ہے 48:21) (۱۴)……چودھواں انعام یہ ہے کہبدنگاہی سے اہتمام کرکے بار بار بچنے میں نفس کو بار بار تکلیف ہوتی ہے اس سے روح میں بار بار نور پیدا ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ خدا کی راہ میں جب جسم کو تکلیف ہوتی ہے تو دل میں نور بنتا ہے۔ احقر مؤلف عرض کرتا ہے کہ گیند کو جتنے زور سے پٹکو زمین پر اُسی قدر اوپر بلند ہوتا ہے اِسی طرح نفس کو اُس کے بُرے تقاضے کے وقت جس قدر زور سے دباؤ گے اُسی قدرحق تعالیٰ کی طرف اُسے بلندی و قرب عطا ہوگا۔ |