عشاء  مجلس ۱۸ ۔اگست۳ ۲۰۲ء     : راہبر راہِ سلوک کی عظمت و آداب !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:00) حسب معمول تعلیم ہوئی۔۔

02:11) بدگمانی کا چمشہ۔۔

03:06) ابولہب فرعون کیوں نا مراد ہوئے بدگمانی کا چشمہ۔۔

07:53) اللہ کو ناراض نہ کرے تو اللہ کا ولی ہے ہر شخص ولی اللہ بن سکتا ہے۔۔

15:25) آداب حرمین اور گناہ سے بچنا کا مضمون یہاں سے بیان ہوا۔۔ تقویٰ سیکھنا نفلی عبادات سے زیادہ ضروری ہے آج کل بڑے بڑے لوگ نفلی حج اور عمرہ کرنے کے لیے ہر سال چلے جاتے ہیں، مگر تقویٰ سیکھنے کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ بتائو! نفل حج ضروری ہے یا تقویٰ اور اللہ کا خوف اور اللہ کا دوست بننا فرض ہے۔ حج نفلی، عمرہ نفلی کرنا یہ نفل ہے، لیکن تقویٰ سیکھنا، گناہ سے بچنا اور اللہ کو خوش رکھنا یہ فرضِ عین ہے لہٰذا ایک بزرگ فرماتے ہیں ؎ اے قوم بہ حج رفتہ کجائید کجائید معشوق ہم ایں جاست بیائید بیائید اے حاجیو! کہاں جارہے ہو، فرض حج کے لیے ضرور جائو، مگر نفل حج کا زمانہ کسی اللہ والے کے پاس لگائو۔

20:23) آج کل بڑے بڑے لوگ نفلی حج اور عمرہ کرنے کے لیے ہر سال چلے جاتے ہیں، مگر تقوی سیکھنے کے لیے ٹائم نہیں ہے۔ بتائو! نفل حج ضروری ہے یا تقوی اور اللہ کا خوف اور اللہ کا دوست بننا فرض ہے۔ حج نفلی، عمرہ نفلی کرنا یہ نفل ہے، لیکن تقوی سیکھنا، گناہ سے بچنا اور اللہ کو خوش رکھنا یہ فرض عین ہے

23:58) تقویٰ فرضِ عین ہے۔ ہاں! جب فرضِ عین حاصل ہوجائے، اللہ کے ولی ہوجائو اور اللہ سے محبت پیدا ہوجائے پھر اللہ کے گھر جائوگے تو کچھ اور مزہ پائوگے۔ جب تک گھر والے سے محبت نہ ہو گھر کا کیا مزہ ہے اور خاص کر وہ ظالم جو گھر کے اندر بھی نافرمانی کرتا ہے، کعبے کے اندر عورتوں کو دیکھ رہا ہے۔ ایک حاجی نے کہا کہ مولانا صاحب! انڈونیشیا کی جو حجن آئی ہیں بڑی کم عمر ہیں، ان کا کلر بھی وائٹ ہے اور سفید برقعہ میں تو مولانا کبوتری معلوم ہورہی ہیں کبوتری اور سنئے ان کے چہروں پر بڑا نور معلوم ہورہا ہے۔ میں نے کہا کہ او بے وقوف! تو کعبہ کا نور دیکھنے آیا ہے یا ان لڑکیوں کا نور دیکھنے آیا ہے۔ اللہ پاک نے قرآن پاک میں فرمایا کہ نظر کی حفاظت کرو اور تم اللہ کے گھر میں نظر کو خراب کررہے ہو۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ جن کو نظربازی کی بیمار وہ مطاف کے قریب نہ بیٹھیں۔

25:29) ذرا دور بیٹھو تاکہ دھندلا نظر آئے، حسن زیادہ صاف نظر نہ آئے۔ بتائو! مطاف کے نزدیک بیٹھنا کعبہ کی زیارت کے لیے زیادہ مستحب ہے لیکن حرام سے بچنا فرض ہے۔ اس لیے جس کو نظر کی بیماری ہو یا جس کے مزاج میں حسن پرستی ہو، رومانٹک مزاج ہو، وہ مطاف سے ذرا دور بیٹھے تاکہ اللہ ہی اللہ نظر آئے، کعبہ نظر آئے، کعبے والا نظر آئے اور مطاف کی لڑکیاں نظر نہ آئیں لیکن اگر کوئی بزرگ بیٹھا ہو، اللہ کی یاد میں مست تو اللہ تعالیٰ کے کسی دیوانے کو بدمست مت سمجھو کہ یہ بھی دیکھتا ہوگا۔ اللہ کے عاشقوں سے بدگمانی نہ کرو۔ جن کے دل اللہ کی تجلی سے متجلّی ہیں وہ بھلا ان مردہ چراغوں سے مرعوب ہوں گے؟

27:03) اللہ اللہ والوں سے ملتا ہے مجالس علم و حکمت سے بیان ہوا۔۔ رہبرِ راہ ِسلوک کی عظمت و آداب

31:26) رہبرِ راہ ِسلوک کی عظمت و آداب معلوم ہوا کہ اللہ،اللہ والوں سے ملتا ہے۔جب یہ معلوم ہوگیاکہ اللہ، اللہ والوں سے ملتا ہے،اور جتنا اللہ عظیم الشان ہے ،اتنے ہی اس کا راستہ بتانے والے عظیم الشان ہیں لہٰذا اللہ تعالیٰ نے ان کے کچھ آداب مقرر فرمادیئے: اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول(علیہ السلام)(کی اجازت) سے پہلے تم سبقت مت کیا کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔(بیان القرآن) اس آیت کے نزول کا واقعہ یوں ہے کہ ایک مرتبہ قبیلہ بنو تمیم کے لوگ آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بات زیر ِغور تھی کہ اس قبیلہ پر حاکم کس کو بنایا جائے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ نے ایک رائے دی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوسری رائے دی،اور دونوں بزرگوں میں کچھ بحث کا سا انداز پیدا ہوگیا اور دونوں کی آوازیں کچھ بلند ہوگئیں،اس پر یہ دوسری آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا ادب سکھایا: یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْآ اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَاتَشْعُرُوْنَ

33:29) اے ایمان والو!تم اپنی آواز یں نبی(علیہ السلام) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور نہ ان سے ایسے کھل کر بولا کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے کھل کر بولا کرتے ہو،کبھی تمہارے اعمال برباد ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔(بیان القرآن) اس آیت میں اس ادب کی تعلیم دی گئی ہے کہ نبی کی مجلس میں اپنی آواز کو آپ کی آواز سے بلند نہ کرو۔ پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کا یہ ادب سکھایا کہ جن معاملات کا فیصلہ نبیﷺکو کرنا ہو اور آپ نے اس کے بارے میں کوئی مشورہ بھی طلب نہ فرما یا ہو، ان معاملات میں پہلے ہی سے اپنی کوئی رائے قائم کرلینا اور اس پر اصرار کرنا ادب کے خلاف ہے ۔جبکہ اس آیت میں اس پر تنبیہ کی گئی ہے کہ آپ علیہ السلام کی مجلس میں بیٹھ کر آپس میں بے جھجک اور زور سے بات نہ کریں اور اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کریں۔اس بے ادبی کی اللہ تعالیٰ نے اتنی بڑی سزا بیان فرمائی کہ کہیں بے خبری میں تمہارے اعمال نہ برباد ہوجائیں۔ ان آیات کے نزول کے بعد حضرات ِصحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کی یہ حالت ہوگئی کہ اپنی آوازوں کو بالکل پست رکھتےتھے۔ حضرت صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اللہ کی قسم!اب میں مرتے دم تک آپ سے اس طرح بولوں گا جیسے کوئی کسی سے سرگوشی کرتا ہے اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ اس قدر آہستہ بولنے لگے کہ بعض اوقات دوبارہ پوچھنا پڑتا

34:35) صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین کے اس ادب کی تعریف میں یہ آیت نازل ہوئی : اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللہِ اُولئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی ط لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ (سورۃ الحجرٰت: آیۃ۳) بے شک جو لوگ اپنی آوازوں کو رسول اللہ کے سامنے پست رکھتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے قلوب کو اللہ تعالیٰ نےتقویٰ کے لئے خالص کردیا ہے، ان لوگوں کے لئے مغفرت اور اجر ِعظیم ہے۔(بیان القرآن)اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک اور ادب سکھایا اورآواز پست رکھنے کی ترغیب دی : ﴿ اِنَّ الَّذِيْنَ يُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَاءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ ؁ وَلَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُجَ اِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ط﴾ (سورۃ الحجرات : آیات ۴،۵) جو لوگ حجروں کے باہر سے آپ کو پکارتے ہیں،ان میں سے اکثروں کو عقل نہیں ہے، اور اگر یہ لوگ(ذرا) صبر(اور انتظار) کرتے،یہاں تک کہ آپ خود باہر ان کے پاس آجاتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا۔تمیم کے وفد کا ذکر اوپر کیا گیا وہ دوپہر کے وقت مدینہ منورہ پہنچا تھا جبکہ حضورﷺ آرام فرمارہے تھے۔یہ لوگ آداب سے ناواقف تھے،اس لئے کچھ لوگو ں نے باہر ہی سے آپ کو پکارنا شروع کردیا،جس پر ان آیات میں تنبیہ فرمائی گئی۔اس سلسلہ میں حضرت علامہ آلوسی رحمہا للہ نے تفسیر روح المعانی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما حضرت ابیّ ابن کعب رضی اللہ عنہ سے قرآن ِپاک پڑھنے جاتے تھے

36:00) اور اگر دروازہ بند ہوتا تو باہر بیٹھ کر انتظار کرتے،دروازہ نہ کھٹکھٹاتے تھے۔ایک دفعہ حضرت ابیّ ابن کعب رضی اللہ نے فرمایا کہ اے ابن عباس! آپ حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں، آپ مجھے آواز دے دیا کیجئے تاکہ میں باہر آجاؤں توحضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما نے عرض کیا آپ نائب ِرسول ہیں اور نائب ِرسول کے بھی وہی آداب ہیں جو رسول کے لئے اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ علماء متقین اور اولیاء کرام بھی نائبین ِرسول ہیں، ان کے بھی یہی آداب ہیں،اس ادب کو مانگو؎ اے خدا جوئیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب اے خدا ہم آپ سے توفیقِ ادب مانگتے ہیں کیونکہ بے ادب اللہ کے فضل سے محروم ہوتا ہے؎

38:33) بے ادب اپنی بدی سے سارے عالم میں آگ لگا دیتا ہے اور دوسروں کو بھی بے ادب بنادیتا ہے۔لہٰذا اپنے شیخ کی خدمت میں مسواک کر کے صاف کپڑے پہن کر، با وضو جائو، دورکعت تو بہ پڑھ کر جائو، اور شیخ پر نگاہ حرمت و محبت کی ڈالواوردعا کرو کہ اے اللہ!جو درد ِمحبت میرے شیخ کو آپ نے عطا فرمایاہے، اس کا ایک ذرہ میرے سینہ کو بھی عطا فرمادے۔

38:56) ایک دوسرا مضمون دور ِنبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشقانہ تذکرہ ۱۳ ؍رجب ؁۱۳۹۱ مطابق ۵؍ستمبر ۱۹۷۱؁ء بروز اتوار بوقت صبح ۱۱ بجے (نگینہ کے فرقان صاحب اور ان کےبھائی موجود تھے) ارشاد فرمایا کہ وہ بھی کیا زمانہ رہا ہوگا کہ جس میں سرور ِعالمﷺ کا جسمِ مبارک زمین کے اوپر موجود ہے، قرآن ِپاک نازل ہو رہا ہے، صحابہ رضوان اللہ علھم اجمعین فرشتوں کو دیکھ رہے ہیں، حضرت بلالt مسجد ِنبوی میں اذان میںاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ رہے ہیں اس حال میں کہ خود حضورﷺ بھی موجود ہیں، حضرت بلالtاذان میں جب آپﷺ کی رسالت کی شہادت دیتے ہیں توگوشۂ چشم سے آنحضرتﷺکو دیکھتے بھی جاتے ہیں،تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اُس جان ِپاک ِرسالتﷺ کو دیکھ رہے ہیں۔صحابہ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا جو بعض اوقات مجلسِ صحابہ میں انسانی شکل میں موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک بار ہم حضورﷺکی خدمت میں حاضر تھے کہ ایک شخص آیا، جس کے کپڑے بہت صاف اور اُجلے تھے اور جس کو ہم نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ مدینہ چھوٹی سی بستی تھی، یہ بھی نہیں کہ اتنا بڑا شہر ہو جہاں کثرتِ آبادی کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوں۔ چھوٹی بستیوں میں تو گنے چنے آدمی ہوتے ہیں،ہر شخص دوسرے کو جانتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمیں تعجب تھا کہ یہ کون شخص ہے؟جب وہ چلا گیا تو حضورﷺ نے پوچھا کہ اے عمر! جانتے ہو یہ کون شخص تھا؟عرض کیا کہ اللہ اور رسول بہتر جانتے ہیں،فرمایا کہ یہ تمہارے بھائی جبرئیل علیہ السلام تھے۔ایک صحابی فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور ﷺکا سرِ مبارک میری ران پر تھا کہ حضورﷺکے سینۂ مبارک پر وحی کا نزول شروع ہو گیا۔ وہ صحابی روایت کرتے ہیں کہ مجھے اپنی ران پر اتنا بوجھ محسوس ہورہا تھا کہ میری ران درد سے پھٹی جارہی تھی۔

42:36) پس جن آنکھوں نے خود نبی کو دیکھا، فرشتوں کو دیکھا، نزول ِقرآن کو دیکھا، ان کے یقین و ایمان کو کون پاسکتا ہے؟ اسی وجہ سے قیامت تک کوئی ولی کسی ادنیٰ صحابی کے بھی ایمان کی برابری و ہمسری نہیں کر سکتا۔صحابہ گویا اپنے دل کی آنکھوں سے اللہ کو دیکھتے تھے، یہ فیضان ِنبوت تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن جب میں جنت اور دوزخ کو دیکھوں گا تو میرے یقین میں ذرہ برابر اضافہ نہیں ہوگا، کیونکہ اتنا یقین تو مجھے دنیا ہی میں حاصل ہے۔

45:46) ایک دوسرا مضمون :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقتیں

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries