عصر مجلس ۲۳  ۔اگست۳ ۲۰۲ء     :حسد اور کینہ کا علاج   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:35) حضرت والا رحمہ اللہ فرمایاکرتے تھے کہ جتنی نیکی آئے گی اُتنے حملے ہوں گے۔۔۔

02:36) حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ صدیقین کے سروں سے سب سے آخر میں تکبّر اور جاہ نکلتا ہے۔۔۔صدیق کی تین تعریفیں۔۔۔

06:13) خزائن الحدیث:حدیث نمبر ۳۳ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍ قَالَ رَجُلٌ اِنَّ الرَّجُلَ یُحِبُّ اَنْ یَّکُوْنَ ثَوْبُہٗ حَسَنًا وَّنَعْلُہٗ حَسَنًا قَالَ اِنَّ اللہَ جَمِیْلٌ یُّحِبُّ الْجَمَالَ اَلْکِبْرُ بَطَرُ الْحَقِّ وَ غَمْطُ النَّاسِ۱ ترجمہ:و ہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بڑائی ہو گی، ایک صحابی نے عرض کیا کہ ایک شخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اور اس کے جوتے اچھے ہوں(کیا یہ بھی کبر ہے؟) تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اﷲ تعالیٰ جمیل ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ کبر (کی حقیقت) حق بات کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

08:10) گناہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔۔۔

09:45) زیادہ تر اللہ والے تکبّر پر بیان کرتے ہیں۔۔۔تکبّر اور کینہ کسے کہتے ہیں؟۔۔۔

12:05) حسد کیا ہے؟۔۔۔حسد یہ اللہ تعالیٰ پر اعتراض ہے۔۔۔

13:13) حسد اور کینہ کا علاج۔۔۔

15:44) کبر (کی حقیقت) حق بات کو قبول نہ کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔

18:51) دین پر استقامت اور اعمال کی بقاء کے لیے اہل اللہ کی صحبت اتنی ضروری ہے کہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی تبلیغی جماعت فرماتے ہیں کہ میں جب دین کی محنت کے لیے جاتا ہوں تو مخلوق میں اختلاط اور زیادہ میل جول سے نفس میں کچھ کثافت اور گندگی سی آ جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے میں اہل اللہ کی خانقاہوں میں جاتا ہوں تو دل مُجلّٰی ہو جاتا ہے جیسے موٹر کار طویل سفر پر جاتی ہے تو پرزوں میں کچھ میل کچیل لگ جاتا ہے لہٰذا اس کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور صفائی کے لیے کار کو کار خانے میں جس کو ورکشاپ کہتے ہیں بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح دل کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی ورکشاپ ،خانقاہیں ہیں کیونکہ نفس چور ہے اس میں خفیہ طریقہ سے کچھ بڑائی، کچھ دِکھاوا آ جاتا ہے۔ جن کا مشایخ اور علماء سے تعلق نہیں ہوتا، ان کی گفتگو سے پتہ چل جاتا ہے اور ان کی زبان سے بڑائی کی باتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ میرے دل میں کیا مرض پیدا ہو گیا۔ اس لیے چاہے کوئی مدرس ہو، معلم ہو، مبلغ ہو، مصنف ہو، تزکیہ نفس بغیر اہل اللہ کی صحبت اور تعلق کے نہیں ہوتا۔

21:13) ایمان پر خاتمے کے لیے حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ایک عمل کہ روزانہ موجودہ ایمان پر شکر ادا کریں۔۔۔

21:44) ایک صاحب نے خود بتایا کہ میں اللہ کے فضل سے دین کے لیے کچھ وقت لگا کر جب کراچی واپس آیا تو مجھے تمام لوگ نہایت حقیر معلوم ہوئے کہ یہ سب غافل ہیں، انہیں دین کی فکر نہیں، علماء پنکھوں میں بیٹھ کر بخاری شریف پڑھا رہے ہیں، اور ہم لوگ دریائے سندھ کے کنارے جنگلوں میں جا کر دین پھیلا رہے ہیں، لیکن وہ ایک اللہ والے سے بیعت تھے انہوں نے اپنے شیخ کو اپنا یہ حال بتایا کہ مجھے تو بڑے بڑے علماء تک شیطان نظر آرہے ہیں۔ ان بزرگ نے کہا کہ سب سے بڑے شیطان تو تم ہو کیونکہ تمہارے دل میں تکبر پیدا ہو گیا۔ تم نے اپنے نفس کو مٹانا نہیں سیکھا۔

اسلام تو یہ کہتا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اپنے سے بہتر سمجھو اور اپنے کو سب سے کمتر سمجھو بلکہ جب تک خاتمہ ایمان پر نہیں ہو جاتا خود کو کافروں سے اور جانوروں سے بھی کمتر سمجھو اور تمہارا حال اتنا خراب ہو گیا کہ عام مسلمان تو کجا تم علماء کو جو وارثین انبیاء ہیں، حقیر سمجھ رہے ہو۔ ان بزرگ نے فرمایا کہ حدیث شریف میں ہے لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ کِبْرٍو ہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کے دل میں ایک ذرہ برابر بڑائی ہو گی اور ایک روایت میں ہے کہ وَلَا یَجِدُ رِیْحَھَا داخلہ تو درکنار جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔ اس سے پتہ چلا کہ اہل اللہ سے تعلق کتنا ضروری ہے۔ اگر اس شخص کا کوئی شیخ نہ ہوتا تو یہ تو ہلاک ہو گیا تھا کیونکہ شیطان نے دل میں تکبر ڈال دیا تھا لیکن شیخ کی ڈانٹ سے سارا تکبر نکل گیا۔ یہ تکبر اتنا بڑا ایٹم بم ہے کہ حج اور عمرے، تہجد و تلاوت، ذکر و نوافل سب کو اُڑا دیتا ہے۔ اسی طرح چاہے

کتنا ہی بڑا عالم ہو، محدث ہو ، شیخ الحدیث ہو، بخاری شریف پڑھا رہا ہو اگر اللہ والوں سے اصلاحی تعلق نہ ہو گا تو آپ اس کے علم و عمل میں فاصلے دیکھیں گے۔ چاہے علم کا سمندر ہو اگر اصلاح نہ کرائی ہو گی تو آپ دیکھیں گے کہ ہوائی جہاز میں ائیرہوسٹس سے مسکرا مسکرا کر اور اس کی طرف دیکھ کر باتیں کر رہا ہو گا اور زِنَا الْعَیْنِ النَّظَرُ۱ کا اور حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی لعنت لَعَنَ اللہُ النَّاظِرَ وَالْمَنْظُوْرَ اِلَیْہِ کا علم اس کی طاق نسیان میں ہو گا۔

30:14) جتنا نیکیاں کمانا ضروری ہے ان کی حفاظت کا اہتمام بھی اتنا ہی ضروری ہے جو نفس کی اصلاح کے بغیر نہیں ہوتا اور نفس کی اصلاح موقوف ہے صحبت اہل اللہ پر۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries