عشاء مجلس ۲۶ ۔اگست۳ ۲۰۲ء :ولایت عامہ اور ولایت خاصہ ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں 03:05) حسب معمول تعلیم ۔۔ 04:36) تعلیم کے بعد بیان کا آغاز ہوا۔۔۔ 08:21) مونچھ اور ڈاڑھی سے متعلق نصیحت اور جو وقت لگارہے ہیں وہ یہاں رہیں تو اپنی مونچھ صحیح رکھیں۔۔ 14:01) وقت لگارہے ہیں تو یہاں کے اصولوں کے ساتھ رہنا ہوگا ارنہ پھر اجازت نہ ہوگی ہمیں تعداد بڑھانے کا کوئی شوق نہیں ۔۔ 17:22) بڑی مونچھوں سے متعلق تفصیل سے نصیحت بیان ہوئی۔۔ 18:55) ظاہر و باطن دونوں کا صحیح ہونا ضروری ہے۔۔ 25:27) دین پھیلانے کے لیے کن باتوں کو خیال رکھنا ہے ایک واقعہ ۔۔ 29:33) کھلم کھلا گناہ کرنے والا معافی کے قابل نہیں ہے۔۔ 29:58) باغی مسلمان۔۔ 37:40) لفظ تَوَّابِیْنَ کے نزول کی حکمت اصطلاح میں تَوَّابِیْنَ کی تین قسمیں ہیں۔ محدثین کی شرح سے پیش کررہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ توّابین کومحبوب رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تائبین کیوں نہیں فرمایا؟ جواب یہ ہے کہ جب تم کثیر الخطا ہو تو تم کو کثیر التوبہ ہونا چاہیے، جب تمہارا بخار تیز ہے تو جیسا مرض ویسی دوا۔ جب تم نے خطا ئیں زیادہ کی ہیں تو زیادہ توبہ کرنے میں تم کو کیا رکاوٹ ہے۔ اسی لیے فرمایا کہ میں محبوب رکھتا ہوں کثرت سے توبہ کرنے والوں کو کیونکہ جو کثیر الرجوع نہیں ہیں وہ ہماری جدائی کا احساس بھی زیادہ نہیں رکھتے، وہ ہم سے کچھ فاصلے بھی رکھتے ہیں۔ اسی لیے پریشانی میں ہیں اور اسی لیے جلدی توبہ بھی نہیں کرتے کہ دو چار گناہ اور کرلیں، ہر بس اسٹاپ پر گناہ کے مزے لوٹ کر جائیں، پھر شام کو گھر آکر توبہ کر لیں گے کیوں کہ اگر ایک اسٹاپ پر توبہ کر لیں گے تو اگلے اسٹاپ پر مزہ کیسے ملے گا۔ بتائو! یہ کس قدر کمینہ پن ہے اور تصوف کی روح ہی نہیں ہے اس ظالم کے اندر ۔ یہ حق تعالیٰ کی جدائی پر صبر کرنے والا، حرام لذت سے مزے اُڑانے والا، بہت ہی نا مناسب مزاج رکھنے والا غیر شریفانہ ذوق رکھتا ہے۔ 40:46) ولایتِ عامّہ اور ولایتِ خاصّہ اب رجوع الی اللہ کی تین قسمیں ہیں اور جب شانِ محبوبیت ہماری توبہ یعنی رجوع الی اللہ سے متعلق ہے تو محبوبیت کی بھی تین قسمیں ہو جائیں گی، اللہ کے پیاروں کی تین قسمیں ہو جائیں گی۔ ایک عوامی پیار، کہ اللہ ہر مومن کو پیار دیتا ہے۔ جیسے فرمایا: اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا 41:24) اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اللہ ہر ولی کو پیار کرتا ہے، ہرمومن کا ولی ہے۔ مگر یہ ولایتِ عامہ ہے۔ جو تقویٰ سے رہتے ہیں وہ خاص ولی ہیں، ان کی دوستی کا معیار بلند ہو جاتا ہے، مومن متقی ولی خاص ہوتا ہے لیکن ہر مومن کو ولی فرمایا، اگرچہ گنہگار ہو، مگر میرے دائرۂ دوستی سے خارج نہیں ہے بوجہ کلمہ اور ایمان کے، کچھ نہ کچھ دوستی یعنی ولایتِ عامہ تو حاصل ہے۔اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامیں تقویٰ شامل نہیں ہے۔ ولایتِ خاصہ تقویٰ پر موقوف ہے جس کی دلیل ہے : 46:38) چار شرطوں کے ساتھ توبہ کرلیں اور پھر سب ماضی کو بھلادیں اللہ تعالی بہت معاف فرمانے والے ہیں۔۔ 48:20) شقاوت کو سعادت میں بدلنے کی دعا۔۔ شاہی مراحم خسروانہ ۔۔۔۔۔ 53:46) دین میں ہسنا بولنا منع نہیں بس گناہ کرنا منع ہے۔۔ 55:08) اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا۰ۙ (سورۃ البقرۃ:اٰیۃ ۲۵۷) اللہ ہر ولی کو پیار کرتا ہے، ہرمومن کا ولی ہے۔ مگر یہ ولایتِ عامہ ہے۔ جو تقویٰ سے رہتے ہیں وہ خاص ولی ہیں، ان کی دوستی کا معیار بلند ہو جاتا ہے، مومن متقی ولی خاص ہوتا ہے لیکن ہر مومن کو ولی فرمایا، اگرچہ گنہگار ہو، مگر میرے دائرۂ دوستی سے خارج نہیں ہے بوجہ کلمہ اور ایمان کے، کچھ نہ کچھ دوستی یعنی ولایتِ عامہ تو حاصل ہے۔اَللہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْامیں تقویٰ شامل نہیں ہے۔ ولایتِ خاصہ تقویٰ پر موقوف ہے جس کی دلیل ہے : الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ 55:42) اور فرمایا: اَللہُ وَلِيُّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا.. يُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ رماتے ہیں میری ولایت اور دوستی کا معیار اور علامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اندھیروں سے نکالتا رہتا ہے فی الحال بھی اور مستقبل میں بھی۔’’ظلمات‘‘ جمع ہے اور’’ نور‘‘ واحد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اندھیرے کو جمع اور نور کو مفرد کیوں نازل فرمایا؟ اس کی وجہ علامہ آلوسی سید محمود بغدادی رحمۃ اللہ علیہ روح المعانی میں فرماتے ہیں جَمَعَ الظُّلُمَاتِ لِتَعَدُّدِ فُنُوْنِ الضَّلَالِظلمات کو جمع نازل فرمایا کیونکہ گمراہی کی بہت قسمیں ہیں۔ کفر کی گمراہی اور ہے، فسق کی گمراہی اور ہے، زِنا کی اور ہے، بد نظری کی اور ہے، تکبر کی اور ہے۔ پس چونکہ گمراہی کی بے شمار طرحیں اور اقسام ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے ظلمات کو جمع نازل فرمایا اور نور کو واحد نازل فرمایا لوحدۃ الحق کیونکہ حق ایک ہوتا ہے۔ جتنیتَوَّابُوْنَ کی قسمیں ہوں گی، توبہ کی بھی اتنی ہی قسمیں ہیں اور اتنی ہی محبوبیت کی قسمیں لازمی ہو جائیں گی۔ 57:06) تو اب سنئے توبہ کی تین قسمیں ہیں (۱)… تَوْبَۃُ الْعَوَآمِّ۔ (۲)… تَوْبَۃُ الْخَوَاصِّ۔ (۳)… تَوْبَۃُ اَخَصِّ الْخَوَاصِّ۔ 57:20) تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت کی بھی تین قسمیں ہو جائیں گی: (۱)… محبوبیت عامہ سے محبوب عام۔ (۲)… محبوب خاص۔ (۳)… محبوب اخص الخواص۔ یعنی اللہ کا پیار عوامی والا اور اللہ کا پیار علیٰ الخواص اور اللہ کا پیار اخص الخواص والا یعنی اللہ کے پیارے پھر خاص پیارے پھر خاص میں بھی اخص الخواص۔ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کا کون سا پیار چاہتے ہیں اخص الخواص والا، سب سے اعلیٰ والا یا یونہی معمولی؟ دیکھو ایک دن مرنا ہے۔ اگر اعلیٰ درجہ کے پیار کو نہیں پائو گے تو پچھتانا پڑے گا ۔ 58:12) توبہ کی پہلی قسم: توبہ کی پہلی قسم کا نام ہے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ توبہ عوام یہ ہے کہ گناہ چھوڑ دے اور اللہ کی فرماں برداری میں لگ جائے۔ تشکر اور تکبر میں تضاد ہے۔ تشکر کریں گے تو اللہ کا قرب ملے گا۔ تکبر سے بُعد ہوتا ہے اور تشکر سے قرب ہوتا ہے اور بُعد اور قرب میں تضاد ہے اور اجتماعِ ضدین محال ہے۔ تکبر ہمیشہ ظالم اور احمق کو ہوتا ہے جو اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا، اللہ سے نظر ہٹ کر اپنی صفت پر اس کی نظر آ جاتی ہے۔ 01:01:39) شکر سے اللہ کی صفت ِقرب اس کو عطا ہو تو نا ممکن ہے کہ اس میں تکبر بھی آجائے چونکہ تکبر نام ہے بندہ کا اپنے مولیٰ سے غافل ہو کر اپنی کسی صفت ِپر نظر کرنا کہ میں ایساہوں اس لیے دوسروں سے برتر ہوں۔ جیسے ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ آپ میرے محبوب ہیں اور میں آپ کے حسن و جمال پر فدا ہوں۔ اس کے بعد پھر آئینہ لے کر کہتا ہے کہ آپ کا تمام حسن و جمال اور شانِ کمال تسلیم مگر واہ رے میری ناک اور واہ رے میرا کتابی چہرہ اور واہ رے میری پتلی کمر 01:04:36) کہاں ہے کس طرف ہے اور کدھر ہے کا مصداق ہے۔ ایسے عاشق کو محبوب بھی ایک جوتا مارے گا،کہے گا کہ تم مجھ پر عاشق ہو تو میری خوبیوں سے نظر ہٹا کر اپنی خوبی کیوں دیکھتے ہو؟ تو مولیٰ سے نظر ہٹا کر اپنی خوبی دیکھنے والا احمق ہے اور احمق ہمیشہ متکبر ہوتا ہے۔ تو عوام کی توبہ کا نام ہے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْمَعْصِیَۃِ اِلَی الطَّاعَۃِ جو گناہوں کو چھوڑ کر فرماں بردار ہو گئے اور ان کی توبہ سے اللہ نے ان کو محبوب بنا لیا، یہ توبۃ العوام ہے، پس جوتوبۃ العوام تک رہے گا، اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عام لوگوں والا پیار اور محبت ملے گی۔ توبہ کی دوسری قسم:اس کے بعد توبۃ الخواص ہے۔ وہ ہے اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَفْلَۃِ اِلَی الذِّکْرِیعنی فرماں بردار تو پہلے ہی تھے مگر اپنے شیخ کا بتایا ہوا ذکر و تلاوت سب بھول گئے تھے لیکن پھر دوبارہ اللہ کو یاد کرنا شروع کر دیا۔ ذکر کی قضا نہیں ہے، ندامت کافی ہے۔ ذکر چھوٹ گیا تو اب پھر شروع کردو، اللہ کی یاد سے پھر جان میں جان آ جائے گی ؎ مدّت کے بعد پھر تری یادوں کا سلسلہ اک جسمِ ناتواں کو توانائی دے گیا اللہ کے ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ ہے۔ اس بات کو یاد رکھو۔ میں نے جن کو سو بار ذکر بتایا اگر کسی دن بہت تھک گئے ہو تو دس دفعہ ہی لا الٰہ الا اللہ پڑھ لو اور دس مرتبہ اللہ اللہ کر لو۔ آپ کہیں گے دس سے کیا ہو گا۔ ایک پر دس کا وعدہ ہے آپ کا سو پورا ہو جائے گا۔ 01:04:52) ایک صاحب نے لکھا کہ میں حسینوں کو دیکھ کر اللہ کی معرفت حاصل کرتا ہوں کہ واہ رے اللہ کیا شان ہے آپ کی! لہٰذا دنیا کے جتنے حسین ہیں یہ سب آئینۂ جمالِ خدا وندی ہیں، ان کے آئینہ میں اللہ کا جمال دیکھتا ہوں۔ حکیم الامتؒ نے کیا جواب لکھا کہ آئینہ ہونا تسلیم مگر یہ آتشی آئینے ہیں جل کر خاک ہو جائو گے، نہ تم رہو گے نہ تمہارا ایمان رہے گا۔ لہٰذا تقویٰ سے رہو۔ 01:05:21) آخر میں سب سے پیارا درجہ اخص الخواص کا ہے جن کو اولیائے صدیقین کہتے ہیں۔ تو اخص الخواص کی توبہ کیا ہے: توبہ کی تیسری قسم:اَلرُّجُوْعُ مِنَ الْغَیْبَۃِ اِلَی الْحُضُوْرِ جو ایک لمحہ اپنے دل کو اللہ سے غائب نہ ہونے دے، ہر وقت قلب کو اللہ کے سامنے رکھے۔ جب اِدھر اُدھر ہو فوراً ٹھیک کر لے۔ان کا رجوع گناہ سے نہیں ہوتا، گناہ سے تو وہ عموماً محفوظ کردئیے جاتے ہیں بس کبھی دل پر کچھ غبار سا، کچھ حجاب سا آ گیا، اس غبار کو ہٹا کر وہ دل کو اللہ تعالیٰ کے محاذات میں لے آتے ہیں۔ 01:06:15) توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا۔ ’’رجوع‘‘ کے لفظ کا اطلاق جب ہوتا ہے جب کوئی اپنے گھر سے باہر نکل جائے پھر لوٹ آئے تو اللہ کے قرب کی منزل سے دور ہونا لیکن پھر نادِم ہو کر منزلِ قرب پر واپس لوٹ آنا اس کا نام رجوع الی اللہ ہےاور توبہ ہے۔ معلوم ہوا کہ توبہ کی فرضیت اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ کبھی کبھی اللہ کے قرب سے ہمارا خروج ہو گا، شیطان ونفس کبھی ہم کو اللہ سے دور کردیں گے لہٰذا جلد لوٹ آئو۔ اب اس لوٹنے کی تین قسمیں ہیں جو ابھی بیان ہوگئیں۔ اللہ کی طرف سے جیسا جس پر یُحِبُّ کا ظہور ہوگا ویسی ہی اس کی توبہ ہوگی۔ عوام پر اللہ کی شانِ محبوبیت عام ہے، خاص پر خاص ہے اخص الخواص پر اعلیٰ درجہ کی محبوبیت اور پیار ہے 01:07:12) جس پر میں نے ایک شعر بھی کہا ہے ؎ از لبِ نادیدہ صد بوسہ رسید من چہ گویم روح چہ لذّت چشید |