فجر مجلس ۳۰  ۔اگست۳ ۲۰۲ء     :حقیقی ذکر کیا ہے؟

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

02:53) ذکر میں ناغہ نہیں کرنا چاہیے۔۔۔

02:55) ذکر سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ} [سورۃ البقرۃ، آیت:۱۵۲] حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فَاذْکُرُوْنِیْ کی تفسیر بِالْاِطَاعَۃِ سے فرمائی اور اَذْکُرْکُمْ کی تفسیر بِالْعِنَایَۃِ سے فرمائی یعنی تم ہم کو یاد کرو اطاعت سے ہم تمہیں یاد رکھیں گے عنایت سے۔ (بیان القرآن، پارہ: ۲) اس تفسیر سے یہ اشکال حل ہوجاتا ہے کہ کیا نعوذ باللہ حق تعالیٰ مخلوق کو بھول جاتے ہیں جبکہ ان کے لیے نسیان محال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مجرمین کو بھی یاد رکھتے ہیں مگر عتاب کے ساتھ اور مقبولین کو یاد رکھتے ہیں عنایت کے ساتھ۔

04:50) حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: تم لوگ مجھ کو یاد کرو طاعت سے یعنی قلب سے اور قالب سے بھی پس ذکر عام ہے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے ہو یا جوارح سے ہو۔(فالاوّل) پس اوّل ذکر لسانی ہے جو شامل ہے تسبیح و تحمید و قرأت کلام اللہ وغیرہ پر۔(والثانی) اور ثانی اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور ان کی ربوبیت کے اسرار منکشف ہوں (والثالث) اور تیسرا یہ کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان کو نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ پس اللہ کا ذکر ان تینوں قسموں پر شامل ہے۔ اہلِ حقیقت نے بیان فرمایا ہے کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی محبت غالب ہوجائے اور ماسوی اللہ کی محبت مغلوب ہوکر کالعدم ہوجائے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے اسی حقیقت کا نام تبتُّل شرعی ہے۔ جیسا کہ بیان القرآن میں تحریر ہے کہ تبتُّل نام ہے تعلق مع اللہ کا تعلق ماسوی اللہ پر غالب ہوجانا نہ کہ ترکِ تعلقات ضروریہ کا۔ جیسا کہ جو گیانِ ہند اور جہلائے صوفیہ نے سمجھا ہے۔ (سورۃ مزمل، پارہ: ۲۹، بیان القرآن)

07:43) اذکار و وظائف کا مقصد دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اﷲ اﷲ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گناہگار جانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔

08:42) حقیقی ذکر کیا ہے؟ ہم لوگ یاد تو کرتے ہیں لیکن صرف زبان سے۔ اصل یاد یہ ہے کہ زبان اور دل دونوں ساتھ دیں۔ جب اﷲ کہو تو زبان بھی ہل جائے اور دل بھی ہل جائے اور یہ جب ہی ممکن ہے کہ اﷲکی عبادت کے ساتھ گناہوں سے بھی حفاظت ہو۔ اصل ذکر یہ ہے کہ ان کو ناراض نہ کرو۔ پھردیکھو ان شاء اﷲایسا مزہ پائوگے، ایسا مزہ پائوگے کہ اخترکویاد کروگے۔ دنیا میں کچھ نہیں ہے، دنیا بالکل مردہ ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے: {اَلدُّنْیَا مَلْعُوْنَۃٌ مَّلْعُوْنٌ مَا فِیْھَا اِلاَّ ذِکْرَ اﷲِ وَ مَا وَالاَ ہٗ اَوْ عَالِماً اَوْ مُتَعَلِّماً} (سنن ابن ماجہ، باب مثل الدنیا) دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ بھی ملعون ہے لیکن اِلاَّسے استثنیٰ ہے کہ جو چیزیں اﷲکی یاد میں معین ہیں وہ دنیا نہیں ہیں جیسے یہ مجلسِ احباب ہے۔ اب یہ درخت، یہ پانی، یہ فضا، یہ ماحول قابلِ قدر ہے کیونکہ اس ماحول میں اﷲکی محبت سیکھی جارہی ہے، یہ ماحول ہماری آخرت کے لیے مفید ہے اس لیے یہ دنیا نہیں ہے۔

09:25) کثرتِ ذکر سے کیا مراد ہے؟ اِرشاد فرمایا کہ کثرتِ ذکر سے مراد یہ ہے کہ پورا جسم یعنی قالب و قلب ہر وقت خدا کی یاد میں رہے۔ کوئی عضو کسی وقت نافرمانی میں مبتلا نہ ہو، کان سے کسی وقت نافرمانی نہ ہو ، غیبت نہ سنے، ساز و موسیقی نہ سنے ، آنکھوں سے کسی نامحرم عورت کو نہ دیکھے ، اگر نظر پڑجائے فوراً ہٹالے اور اگر ذرا دیر ٹھہرا لے تو فوراً اﷲ سے معافی مانگ لے، دل میں گندے خبیث خیالات نہ لائے یعنی ہمہ وقت اس کی ہر سانس خدا پر فدا ہو اور ایک سانس بھی وہ اﷲ کو ناراض نہ کرے اور اگر کبھی خطا ہوجائے تو رو رو کر اﷲ کو راضی کرے اس کا نام ہے کثرتِ ذکر۔ یہ نہیں کہ تسبیح ہاتھ میں ہے اور عورتوں کو دیکھ رہے ہیں۔ کوئی کرسچین گاہک آگئی ٹانگ کھولے ہوئے تو زبان پر سبحان اﷲ ہے اور نظر اس کی ٹانگ پر ہے۔ یہ ذکر نہیں ہے کہ زبان پر اﷲ اﷲ اور جسم کے دوسرے اعضا نافرمانی میں مشغول۔ اگر جسم کا ایک عضو بھی نافرمانی میں مبتلا ہے تو یہ شخص ذاکر نہیں ہے۔ ذکر اﷲ کی اطاعت و فرماں برداری کا نام ہے۔

12:39) ہنسی سے متعلق کچھ باتیں کہ ہمارے اکابرین ہنسنے ہنسانے والے تھے۔۔۔

15:27) شیخ کی ڈانٹ۔۔۔یہ ڈانٹ ہر ایک کو نہیں پڑتی۔۔۔نہ لو نام اُلفت کا جو خود داریاں ہیں۔۔۔بڑی ذلتیں ہیں، بڑی خواریاں ہیں۔

20:51) کثرتِ ذکر سے مراد صرف ذکرِ لسانی نہیں ہے بلکہ ذکر سے مراد یہ ہے کہ قلب و قالب، اعضاء و جوارح، ظاہر و باطن سب تابع فرمانِ الٰہی ہوں۔ اسی پر اطمینانِ قلب موعود ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ار شاد ہے: ﴿ اَ لَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد، آیت:۲۸) خوب کان کھول کر سن لو کہ دلوں کا اطمینان صرف اﷲ کی یاد میں ہے۔ صاحبِ تفسیرِ مظہری نے بِذِکْرِ اللّٰہِ کی تفسیر فِیْ ذِکْرِ اللّٰہِ کی ہے یعنی اتنا کثرت سے اﷲ کو یا د کرے کہ ذکر کے نور میں غر ق ہو جائے کَمَا تَطْمَئِنُّ السَّمَکَۃُ فِی الْمَاۗءِ لَابِالْمَاۗءِ جیسا کہ مچھلیاں بالماء نہیں فی الماء سکون پا تی ہیں یعنی پانی کے ساتھ نہیں بلکہ پانی میں غرق ہو کر سکون پاتی ہیں مثلا ً اگر کسی مچھلی کا پورا جسم پانی میں ڈوبا ہو لیکن سر یا جسم کا کوئی تھو ڑا سا حصہ پانی سے باہر ہو تو وہ بے چین ہو گی اور اس کی حیات خطرہ میں ہوگی۔ اسی طرح مو من جب سر سے پیر تک نورِ ذکر میں غرق ہو تا ہے تو اطمینانِ کامل پا تا ہے اور اگر کوئی عضو بھی ذکر سے غافل یا اﷲ کی نا فرمانی میں مبتلا ہے تو اس کا قلب بے چین اور حیاتِ ایمانی خطرہ میں ہوگی۔ پس بِذِکْرِاللّٰہِ سے مراد فِیْ ذِکْرِ اللّٰہِ ہے جس کا حاصل غر ق فی النور ہو تا ہے یعنی اﷲ کو اتنا کثرت سے یاد کر ے کہ ذکر میں غر ق ہو جائے ؎ ہم ذکر میں ڈوبے جاتے ہیں وہ دل میں سمائے جاتے ہیں ذکر سے غرق فی النور ہونا مطلوب ہے جس کی تائید مندرجہ ذیل حدیث سے بھی ہو تی ہے جس میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہے:

((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَّمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ شِمَالِیْ نُوْرًا وَّمِنْ خَلْفِیْ نُوْرًا وَّ مِنْ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا وَّ فِیْ عَصَبِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ لَحْمِیْ نُوْرًا وَّفِیْ دَمِیْ نُوْرًا وَّفِیْ شَعْرِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَشَرِیْ نُوْرًا وَفِیْ لِسَانِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ فِیْ نَفْسِیْ نُوْرًا وَاَعْظِمْ لِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْنِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ مِنْ فَوْقِیْ نُوْرًا وَّمِنْ تَحْتِیْ نُوْرًا اَللّٰھُمَّاَعْطِنِیْ نُوْرًا)) (صحیحُ البخاری، کتابُ الدعوات) اے اﷲ! عطا فرما میرے دل میں نو ر اور میری بینائی میں نور اور میری شنوائی میں نور اور میری داہنی طرف نور اور میرے بائیں طرف نور اور میرے پیچھے نور اور میرے سامنے نور اور عطا فرما میرے لیے ایک خاص نور اور میرے اعصاب میں نور اور میرے گو شت میں نور اور میرے خون میں نور اور میرے بالوں میں نور اور میرے پو ست میں نور اور میری زبان میں نور اور مجھے نور عظیم عطا فرما اور مجھے سراپا نور بنا دے اور کر دے میرے اوپر نور اور میرے نیچے نور ۔

یااﷲ! مجھے نور عطا فرما۔اسی کو مولانا رومی فرما تے ہیں ؎ نورِ او در یمن و یسر و تحت و فوق بر سرم بر گردنم مانندِ طوق اﷲ کا نورمیرے دائیں بائیں نیچے اوپر ہے اور میرے سر اور گردن میں مانند طوق ہے۔ حدیث اِذَا رُأُوْذُکِرَ اللّٰہُ کی عجیب تشریح حدیثِ پاک میں اہل اﷲ کی تعریف میں آتا ہے: (( اِذَا رُأُوْ ذُکِرَ اللّٰہُ)) (مسند احمد) یعنی جب ان کو دیکھا جا تا ہے تو اﷲ یا د آ جا تا ہے۔ اس کا کیا را ز ہے؟ کیونکہ کثرتِ ذکر کی برکت سے ان کے چہرہ میں آنکھوں میں رگوں میں اور رگوں کے دوران خون میں اور ان کے بال بال میں اﷲ کا نور داخل ہو جا تا ہے اور وہ اس نور کے حامل ہو تے ہیں جو اس دعا میں مذکور ہے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّفِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا الٰخ۔ پس اﷲ والوں کو دیکھنا گویا انوارِ الٰہیہ کا مشاہدہ کرنا ہے تو پھر ان کو دیکھ کر کیوں اﷲ نہ یاد آئے گا۔

دورانیہ 27:42

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries