مرکزی بیان   :۲۸ ستمبر۳ ۲۰۲ء     : اللہ کا رزق کھا کر اللہ کو ناراض کرنا عقلمندی نہیں                !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

09:27) بیان سے پہلے مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ دل تباہ میں فرماں روائے عالَم ہے

تباہ ہو کے جو دل تیرا محرمِ غم ہے

اُسے پھر اپنی تباہی کے غم کا کیا غم ہے

ہزار خونِ تمنّا ہزارہا غم سے

دلِ تباہ میں فرماں روائے عالَم ہے

مجھے اس عالَمِ رنگ و بو سے کیا مطلب

مری حیات تو بس آپ ہی کا اِک غم ہے

خرد کے سامنے گرچہ ہیں صد ہزار عالَم

نگاہِ عشق میں تیرا ہی ایک عالَم ہے

جو آپ خوش ہیں تو ہر سُو بہار کا عالَم

وگرنہ سارا یہ عالَم ہی عالَمِ غم ہے

جو خوش ہیں آپ تو عالَم ہمارا عالَم ہے

نہیں تو اپنا بھی عالَم تباہ و برہم ہے

یہ پوچھتا ہے مرے دل میں اب ترا جلوہ

کہاں ہے اور کدھر آرزو کا عالَم ہے

نظامِ ہوش کا اخترؔ ہے اب خدا حافظ

ہماری روح کہیں ماورائے عالَم ہے

09:28) فریبِ مجاز نہ وہ سوز ہے[ نہ وہ ساز ہے یہ عجب فریب مجاز ہے سرِ نازِ حسن بھی خم ہوا نہ اب عشق وقف نیاز ہے گیا حسن یوں بت ناز کا کہ نشاں بھی باقی نہیں رہا پڑھو دوستو مرے عشق پر کہ جنازہ کی یہ نماز ہے

13:37) مفتی انوارالحق صاحب کی ماشاء اللہ بیٹی پیدا ہوئی ہے اس سے پہلے ایک بیٹا ہے ابرارالحق جس کی عمر پانچ سال ہے جب اس سے پوچھا کہ بہن کا نام کیا رکھیں گے تو کہنے لگا کہ محمد ۔۔۔اس پر فرمایاکہ کے دیکھو ہنسنے کی بھی بات ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ اتنا چھوٹا بچہ اور محمد نام سے کتنی محبت ہے ماشاء اللہ۔۔۔

18:36) بیٹی کی پیدائش پر منہ نہیں بنانا چاہیے بیٹی تو جنت کی فیکٹری ہے۔۔۔آپﷺ نانا بنے ۔۔۔بیٹی کی پیدائش پر تو خوش ہونا چاہیے۔۔۔

26:07) مرد عورت برابر برابر کانعرہ لگانے والے پاگل ہیں ان کی نقل مت کریں اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں کیا فرمایا إن المسلمين والمسلمات والمؤمنين والمؤمنات والقانتين والقانتات والصادقين والصادقات والصابرين والصابرات والخاشعين والخاشعات۔۔۔الایہ۔

27:56) ایک نئی بات کہ جو کسی نے آج تک نہیں سنی ہوگی کہ ایک شخص آیا کہ میرے پھوپھا کا انتقال ہوا پھوپھی کو میں گھر لے آیااس وجہ سے کہ پھوپھی کے بیٹے اور پانچ بیٹیاں پھوپھی کو مارتے ہیں وجہ ؟موبائل۔۔۔اگر ماں باپ کے حقوق سکھائے ہوئے ہوتے تو یہ حالت نہ ہوتی۔۔۔

30:22) علماء اور اللہ والوں کو ستانے کا وبال۔۔۔حضرت والا رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آتا تھا جس نے حضرت والا رحمہ اللہ کو ستایا تھا پھر اللہ معاف کرے اس کا کیا حال ہوا اور جس بیٹے کی وجہ سے ستایا تھا اس نے مارمار کر ساری جائیداد اپنے نام کرا دی۔۔۔

39:36) اللہ تعالیٰ کانام ایسے لو کہ یہ چاند ستارے شجر وہجر سب میرے ساتھ مل کر اللہ اللہ کہے رہے ہیں۔۔۔

41:57) خزائنِ شریعت و طریقت: مومن کا ذکر اﷲ وکالۃً تما م کائنات کا ذکر ہے تمام کائنات کی خدمات انسان کی تربیت میں مصرو ف ہیں۔ پس جب مومن اﷲ کہتا ہے تو تمام کائنات کی طرف سے بھی وکالۃً اﷲ کہتا ہے اور جب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے تو گویاتمام کائنات کی طرف سے کہتا ہے کہ کیونکہ اس کی تربیت میں زمین و آ سمان چاند و سورج پانی اور ہوا سمندر اور پہاڑ غرض پوری کائنات کی خدمات شامل ہیں ؎ آب و باد و مہ و خورشید و فلک در کارند تا تو نانے بکف آری و بہ غفلت نخوری پانی اور ہوا خور شید و قمر زمین و آ سمان سب تیری خدمت میں مصروف ہیں تاکہ روٹی کا لقمہ جب تو ہاتھ میں لے تو اسے غفلت سے نہ کھائے۔

44:36) اللہ تعالیٰ کا رزق کھا کر اللہ تعالیٰ ہی کوناراض کرنا یہ کونسی عقل مندی ہے؟۔۔۔

48:12) پس جب مومن نے اﷲ کہا تو ارض و فلک نے، شمس و قمر نے، بر و بحر نے ، شجر و حجر نے، چرند و پرند صحرا و سمندر سیارہ و نجوم سب نے اﷲ کہا کیونکہ اس کی پرو ر ش میں من حیث نوع انسانی سب شریک ہیں۔ اس سے صو فیاء کے اس مراقبہ کی حقیقت بھی معلوم ہوتی ہے کہ جب اﷲ کہو تو تصور کر و کہ میرے ہر بُنِ مو سے اور کائنات کے ذرّہ ذرّہ سے اﷲ نکلا، انسان نے جب اﷲ کہا تو تمام کائنات نے اﷲ کہا کیونکہ اس کی طاقت میں تمام کائنات کی خدمات شامل ہیں ۔

49:51) نیز اس حدیث شریف کا مطلب بھی واضح ہو جا تا ہے کہ جب تک روئے زمین پر ایک بھی اﷲ اﷲ کہنے والا ہو گا قیامت نہ آئے گی کیونکہ اس کی وکالت سے تمام کائنات ذاکر ہے اور جب کوئی اﷲ کہنے والا نہ رہا تو اب تمام کائنات گو یا غیر ذاکر ہو گئی اور مقصد کائنات باقی نہ رہا ۔ جب ذکر جان حیات جان کائنات نہ رہا تو کائنات کی مو ت لا زمی ہوگئی اس لیے سب درہم برہم اور فنا کر دی جائے گی۔

50:54) معارفُ القرآن جدید حضرت مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کی تفسیر سے پوری کائنات کا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے متعلق مضمون پڑھ کر سنایا۔۔۔إنا سخرنا الجبال معه يسبحن بالعشي والإشراق۔

56:37) لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ میں شانِ کرم کا ظہور ہے آگے ہے لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ اﷲ تعالیٰ نے یہاں رحمت کی نسبت اپنے ذاتی نام کے ساتھ نازل کی، صفاتی نام کو نازل نہیں فرمایا،ننانوے ناموں میں سے اللہ تعالیٰ نے اپنا ذاتی نام کیوں استعمال کیا؟اس پر مفسرین خدائے تعالیٰ کی طرف سے لکھتے ہیں کہ اے میرے گنہگار بندو !نالائق بندو! تم میری رحمت سے نا امید نہ ہو،یہاں اسم جلالۃ نازل کر رہا ہوں تاکہ تمام صفات اس میں شامل ہو جائیں کہ اگر ضرورت پڑے تو میں اپنی رحمت بھی شامل کروں،کرم بھی شامل کروں،حلم بھی شامل کروں، ستاریت، غفاریت، جتنے بھی نام ہیں جو بھی ضرورت ہوگی سب اللہ میں شامل ہیں۔جیسے کسی کا ابّا جج بھی ہو،ڈاکٹر بھی ہو ،وکیل بھی ہو،مالدار بھی ہو،اس کا بیٹا بیمار ہو گیا، مقدمہ میں بھی پھنس گیا، تنگدست بھی ہوگیا تو وہ ہر دفعہ ابّا کی صفات نہیں بتاتا، یہ نہیں کہتا کہ میرے مالدار ابّا میرا قرضہ ادا کر دو،میرے ڈاکٹر ابّا مجھے دوا دے دو،میرے جج ابّا مجھے مقدمہ میں جتا دینا۔بس اتناکہتا ہےاے میرے ابّا ! آپ ہمیں دوا بھی دیجئے، عدالت میں بھی ہمارا خیال رکھنا اور ابّا !میرے اوپر ذرا قرضہ ہو گیا ہے، جانتا ہے کہ ابّا سیٹھ بھی ہے ۔تو جو شخص اللہ کا نام لیتا ہے گویا وہ اللہ کی تمام صفاتی نعمتیں اپنے اوپر مبذول کرا لیتا ہے۔ اسی لئے بزرگوں نے سکھایاکہ ایک تسبیح اللہ اللہ کی پڑھ لیا کریں۔ یا اللہ، یارحمن، یارحیم بھی پڑھاکریں، ان شاء اﷲ اس سے ساری مشکلات حل ہوجائیں گی اور اصلاح بھی ہوتی رہے گی۔مدینہ منورہ میں میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم کا ایک مرید جو گاڑی میںمیرے ساتھ بیٹھا تھا، وہ تھوڑی تھوڑی دیربعدکہتا تھا یا اللہ، یا رحمٰن، یا رحیم۔ سبحان اللہ! مزہ آجاتا تھا۔ میں نے کہا یہ تم کو کس نے سکھایا؟ اس نے بتایا کہ آپ کے اور میرے شیخ مولانا ابرار الحق صاحب دامت برکاتہم نے سکھایا ہے اور حضرت ہردوئی دامت برکاتہم نے مولانا محمد احمد صاحب دامت برکاتہم سے سیکھا ہے۔

01:02:02) ذکر کلمہ طیّبہ اور اسمِ ذات جلّ جلالہ۔۔۔

01:22:01) ذکر کے درد بھرے اشعار اور ذکر۔۔

01:22:42) اللہ تعالی جتنا بڑا آپ کا نام ہے اُس سے بڑھ کر مہربانی فرمادیں آپ کا نام بھی بہت بڑا نام ہے۔

01:25:24) اللہ تعالی کے نام لینے کی دلیل الخہ۔۔۔ ذکر اسمِ ذات کا ثبوت تو میں جس مضمون کو بیان کرنا چاہتا تھا وہ مضمون یہ ہے کہ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ﴿ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْہِ تَبْتِيْلًا۝۸ۭ﴾ (سورۃ المزمل، آیت: ۸) اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو۔ یہ نہیں ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جائو، رہبانیت تو اسلام میں حرام ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے سب کے حقوق ادا کرو لیکن اﷲ تعالیٰ کا حق سب پر غالب رہے، کسی کی محبت اﷲ تعالیٰ کی محبت پر غالب نہ آنے پائے پس یہی غیر اﷲ سے قلب کا انقطاع ہے اسی کو تَبتُّل کہتے ہیں۔

01:27:55) میری زندگی کا حاصل

01:29:20) تین قسم کے صحابہ

01:31:12) حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ میں رب کیوں فرمایا جبکہ وَاذْکُرِ اسْمَ اللہِبھی ہو سکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ پالنے والے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والے کو آدمی محبت سے یاد کرتا ہے۔ بتائیے ماں باپ کی یاد میں مزہ آتا ہے یا نہیں۔ تو یہاں رب اس لیے نازل فرمایا کہ میرا نام محبت سے لینا۔ خشک ملائوں کی طرح میرا ذکر مت کرنا، عاشقانہ ذکر کرنا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کا محبت سے نام لیتے ہو، ماں باپ کا نام لے کر تمہاری آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کیا تمہارا اصلی پالنے والا میں نہیں ہوں؟ ماں باپ تو متولی تھے، تمہارا اصلی پالنے والا تو میں ہوں، رب العالمین ہوں۔ اس تربیت کی نسبت سے میرا نام محبت سے لینا۔

01:31:32) آگے فرماتے ہیں وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا اور غیر اللہ سے کٹ کر اللہ سے جُڑ جائو یعنی اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ غیر اللہ سے کٹنے اور کنارہ کش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا مخلوق کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جائو؟ ہر گز نہیں! مطلب یہ ہے کہ قلب کے اعتبار سے مخلوق سے کٹ جائو، جسم بستی میں رہے مخلوقِ خدا کے ساتھ ہو لیکن دل اللہ کے ساتھ ہو، رہبانیت حرام ہے ایک تبتل شرعی ہے، ایک غیر شرعی ہے۔ تبتل غیر شرعی جوگیوں اور سادھوئوں کا ہے ہندوستان کے پنڈتوں اور ہندوئوں کا ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل گئے، بدن پر راکھ مل لی اور درخت کے نیچے آنکھ بند کر کے بیٹھ گئے اور تبتل شرعی مسلمانوں کا ہے، اولیاء اللہ کا ہے وہ کیا ہے کہ تعلقاتِ دنیویہ پر علاقۂ خداوندی غالب ہوجائے ، دنیاوی تعلقات پر اللہ تعالیٰ کا تعلق ،اللہ تعالیٰ کی محبت غالب ہو جائے اس حقیقت کو جگر مراد آبادی نے یوں تعبیر کیا ہے .میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگر ؔ وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا

01:34:07) ان آیات کی تقدیم و تاخیر سے حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تصوف کا ایک مسئلہ بیان فرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیٹی کی شادی ہو جائے، مکان بنا لوں، تھوڑا سا کاروبار جمالوں ، ذرا دنیوی فکروں سے چھوٹ جائوں پھر میں اللہ والوں کے پاس جائوں گا، اللہ کی یاد میں لگ جائوں گا اور بالکل صوفی بن جائوں گا، حضرت فرماتے ہیںکہ آیت کی ترتیب بتا رہی ہے کہ جس فکر میں ہو، جس حالت میں ہو فوراً اللہ تعالیٰ کا ذکر شروع کر دو۔ ذکر اللہ ہی کی برکت سے تم فکروں سے چھوٹو گے کیونکہ جب سورج نکلے گا جب ہی رات بھاگے گی۔ غیراللہ اور افکارِ دنیویہ جب ہی مغلوب ہوں گے جب اللہ تعالیٰ کو یاد کروگے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ پہلے قلب کو یکسو کرو، پھر میرا نام لو بلکہ یہ فرمایا کہ پہلے میرا نام لو، میرے نام ہی کی برکت سے تم کو افکار و غم اور پریشانیوں سے نجات ملے گی اور یکسوئی حاصل ہوگی۔ اگر تبتل ذکر پر موقوف نہ ہوتا تو آیت کی تقدیم دوسرے اسلوب پر نازل ہوتی اور وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا مقدم ہوتا وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ پر جس کے معنیٰ یہ ہوتے کہ پہلے غیر اللہ سے یکسو ہوجائو پھر ہمارا نام لو لیکن وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ کی تقدیم بتا رہی ہے کہ تبتل اور یکسوئی ہمارے ذکر ہی پر موقوف ہے پہلے تم ہمارا نام لینا شروع کر دو، ہمارے ذکر کی برکت سے تمہیں خود بخود یکسوئی حاصل ہوتی جائے گی۔ اور غیر اللہ دل سے نکلتا چلا جائے گا۔

01:37:25) اس آیت کی تفسیر مولانا رومی نے عجیب انداز سے فرمائی ہے۔ یہ عاشقوں کی تفسیر ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص واجب الغسل کھڑا تھا جس کے بدن پر نجاست لگی ہوئی تھی۔ دریا نے کہا کہ کیا بات ہے، تو بہت دیر سے باہر کھڑا ہے؟ کہا کہ مارے شرم کے تیرے اندرنہیں آ رہا ہوں کہ میں ناپاک ہوں اور تو پاک ہے، دریا نے کہا کہ تو قیامت تک نا پاک ہی کھڑا رہے گا، جس حالت میں ہے میرے اندر کو د پڑ، تیرے جیسے لاکھوں یہاں پاک ہوتے رہتے ہیں اور میرا پانی پاک رہتا ہے لہٰذا اللہ کی یاد میں دیر مت کرو، کیسی ہی گندی حالت میں ہواللہ کا نام لینا شروع کر دو۔ ذکر کی برکت سے غیر اللہ کی نجاست چھوٹے گی۔ تَبَتُّلکی تفسیر عرض کر رہا تھا کہ غیر اللہ سے یکسوئی جب ملے گی جب اللہ ملے گا، ستارے جب معدوم ہوں گے جب سورج نکلے گا، رات جب بھاگے گی جب آفتاب طلوع ہو گا۔ پہلے اللہ کو دل میں لائو، اللہ کا نام لینا شروع کر دو غیر اللہ خود ہی دل سے نکل جائے گا اور آپ کا دل اللہ سے چپکتا چلا جائے گا جو خالق مقناطیس ہے جس کی پیدا کردہ مقناطیس سے آج دنیا کا گولا فضائوں میں پڑا ہوا ہے، نیچے کوئی تھونی کھمبا نہیں ہے۔ جو اللہ اتنا مقناطیس پیدا کر سکتا ہے کہ دنیا کا اتنا بڑا گولا جس پر سمندر اور پہاڑ سب لدے ہوئے ہیں بغیر کسی سہارے کے فضائوں میں معلق پڑا ہوا ہے اس اللہ کے نام میں کتنی چپک، کتنا مقناطیس اور کتنی کشش ہو گی۔ آہ! اللہ کا نام لے کر تو دیکھو اپنی ذات پاک سے ایسا چپکا لیں گے کہ ساری دنیا آپ کو ایک بال کے برابر الگ نہیں کر سکتی۔

01:38:48) مولانا شاہ ابرار الحق صاحبؒ نے فرمایا کہ جس کا کسی بزرگ سے تعلق نہ ہو اور پیر بناتے ہوئے اس کے نفس کو شرم آ رہی ہو تو مشیر ہی بنا لے۔ مشیر کے معنی ہیں اللہ کے راستہ کا مشورہ دینے والا۔ مشورہ سے بھی راستہ معلوم ہو جائے گا۔

01:39:07) اس آیت سے تصوف کے دو مسئلے ثابت ہو گئے۔ ذکر اسم ذات کا اور یکسوئی کا، آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں رَبُّ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِتم کو یکسوئی اس لیے نہیں ہوتی کہ ذکر کے وقت تم کو دن کے کام یاد آتے ہیں کہ آج فلاں فلاں کام کرنا ہیں۔ جہاں تسبیح اٹھائی اور وسوسے شروع کہ ابھی دکان سے ڈبل روٹی اور انڈا لینا ہے۔ اس کے بعد رات کو جب اللہ کا نام لینے بیٹھے تو یاد آیا کہ یہ کام کرنا ہے، وہ کام کرنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارا نام لینے والو! میں مشرق کا رب ہوں تمہارا جو رب سورج کو نکال سکتا ہے اور دن پیدا کر سکتا ہے کیا وہ تمہارے دن کے کاموں کے لیے کافی نہیں ہو سکتا؟ کیااسلوبِ بیان ہے۔ دیکھئے اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت کہ میں رَبُّ الْمَشْرِقِ ہوں، میں آفتاب نکالتا ہوں اور دن پید اکرتا ہوں جو دن پیدا کر سکتا ہے وہ تمہارے دن کے کام نہیں بناسکتا۔ دن پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا پانچ کلو آٹا دینا مشکل ہے جس کی تمہیں فکر پڑی ہوئی ہے۔ان وساوس کی طرف خیال نہ کرو جو شیطان تمہارے دلوں میں ڈالتا ہے سوچ لو کہ ہمارا اللہ ہمارے دن بھر کے کاموں کے لیے کافی ہے اور جب رات میں وسوسہ آئے تو کہہ دو، وہ رب المغرب بھی ہے۔ جو اللہ رات کو پیدا کر سکتا ہے وہ رات کے کاموں کے لیے بھی کافی ہے۔

01:40:11) تصوف میں د و اذکار ہیں۔ اسم ذات اور نفی و اثبات ۔ فرمایا کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ جو ہے اس سے صوفیاء کے ذکر نفی و اثبات کا ثبوت ملتا ہے ۔ تفسیرِ مظہری دیکھ لیجئے آج میں تصوف کو تفسیروں کے حوالہ سے پیش کر رہا ہوں تاکہ علماء یہ نہ سمجھیں کہ تصوف یوں ہی صوفیوں کا بنایا ہوا ہے۔ کمال ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا جن کے لیے ان کے پیر نے کہا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو پیش کروں گا اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے وقت کا امام بیہقی ہے وہ اپنی تفسیر میں تصوف کو قرآن پاک سے ثابت کر رہے ہیں۔ ذکرِ اسمِ ذات ، تبتل یعنی غیر اللہ سے یکسوئی اور ذکر نفی و اثبات تصوف کے یہ تین مسئلے ثابت ہو گئے۔

01:43:02) آگے فرماتے ہیں فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا جب میں اتنا بڑا رب ہوں کہ دن پیدا کر سکتا ہوں اور رات پیدا کر سکتا ہوں تو پھر دن رات کے کاموں کے بارے میں وسوسے کیوں لاتے ہو، تم مجھ کو یعنی اللہ کو اپنا وکیل بنا لو۔ مجھ سے زیادہ کون تمہارا وکیل اور کارساز ہو سکتا ہے۔ اس آیت سے چوتھا مسئلہ تو کل کا ثابت ہوگیا جس کی صوفیاء تعلیم دیتے ہیں۔ اور اگلی آیت سے سلوک کا ایک بہت اہم مسئلہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ثابت کرتے ہیں اور وہ ہے دشمنوں کے مظالم پر صبر کرنا۔ دنیا دار صوفیوں کا مذاق اڑاتے ہیں کہ دیکھو تسبیح لیے مکار لوگ جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو۔ اسی طرح اللہ کے راستہ میں نفس و شیطان بھی ستاتے ہیں کبھی شیطان کہے گا کہ فلاں گناہ کر لواور کبھی نفس بھی ستائے گا اور بار بار تقاضا کرے گا کہ ارے یہ شکل بہت حسین ہے۔ اس کو دیکھ ہی لو بعد میں توبہ کرلینا۔ نفس و شیطان کے ورغلانے کے وقت بھی یہی آیت پڑھ دو وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ دشمن جو باتیں کر رہے ہیں ان پر صبر کرو۔ باطنی دشمن یعنی نفس و شیطان جو کہیں اس پر بھی صبر کرو اور ان کے کہنے پر عمل نہ کرو۔ اسی طرح تمہارے ظاہری دشمن اور حاسدین تم پر اعتراض کریں گے کہ بڑے صوفی بن گئے گول ٹوپی لگائے پھرتے ہیں تسبیح لے کر مخلوق کو دھوکہ دیتے ہیں۔ کسی کے اعتراض کا جواب نہ دو وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ ان کی باتوں پر صبر کرو۔

01:43:39) ور وَ اھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہو جائو۔ الگ ہونا یہ ہے کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ ہے کہ ان کی شکایت اور انتقام کی فکر میں نہ پڑو اور یہ آخری مسئلہ ہے تصوف کا ہجرانِ جمیل جس کو تفسیر مظہری میں اس آیت سے ثابت کیا گیا ہے۔ اور ہجرانِ جمیل کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے اَلْھِجْرَانُ الْجَمِیْلُ الَّذِیْ لَا شِکْوٰی فِیْہِ وَلَا انْتِقَامَ خوبصورتی کے ساتھ الگ ہونا یہ ہے جس میں شکایت نہ ہو اور انتقام کا ارادہ بھی نہ ہو کیونکہ جس نے اپنے دشمن سے انتقام لیا وہ مخلوق میں پھنس گیا اور جو مخلوق میں پھنس گیا ا س کو خالق کیسے ملے گا؟ اسی لیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ قشیر یہ میں فرماتے ہیں اِنَّ الْوَلِیَّ لَا یَکُوْنُ مُنْتَقِمًا وَ الْمُنْتَقِمُ لَا یَکُوْنُ وَلِیًّا کوئی ولی اللہ منتقم نہیں ہوتا اور کوئی منتقم ولی اللہ نہیں ہو سکتا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا فرمایا تھا؟ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ ارے! یہ تو شیطان نے ہمارے تمہارے درمیان فساد ڈلوا دیا تھا تم نے کوئی گڑ بڑ تھوڑی کی تھی۔ آہ! اپنے بھائیوں کی دلجوئی بھی کر رہے ہیں تاکہ ان کو ندامت بھی نہ رہے

01:45:00) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںکہ دین کے خدام کو یہی اخلاق رکھنے چاہئیںورنہ اگر بدلہ و انتقام کی فکر میں پڑے تو دل مخلوق میں پھنس جائے گا اور پھر دین کا کام نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان القرآن کے حاشیہ میں مسائل السلوک کے تحت یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مَنْ یَّنْظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَآئِ لَا یُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِجس شخص کی نظر مجاری قضا پر ہوتی ہے، مشیت الٰہیہ، اللہ تعالیٰ کے فیصلو ں پر ہوتی ہے، وہ اپنی زندگی کے دنوں کو مخلوق کے جھگڑوں میں ضائع نہیں کرتا اور وہی کہتا ہے جو حضرت یوسف علیہ اسلام نے فرمایا تھا کہ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ تم پر کوئی الزام نہیں کیونکہ جانتے تھے کہ بغیر مشیت الٰہی کے یہ بھائی مجھے کنویں میں نہیں ڈال سکتے تھے۔ دنیا میں جو تکلیف بھی پہنچتی ہے سب میں ہماری تربیت اور ہمارا نفع ہے یہ سب اللہ تعالیٰ کے تکوینی راز ہیں۔ لہٰذا جس کی نظر اللہ پر ہوتی ہے وہ کہتا ہے کہ جائو میاں معاف کیا، مجھے اپنے اللہ کو یاد کرنا ہے، تمہارے چکر میں کیوں رہوں اس کو معاف کیا اور دل کو اللہ کے ساتھ لگا دیا۔

01:48:39) حرمین شریفین میں ویڈیو تصویر بنانے سے متعلق دارالعلوم کراچی کا ایک فتویٰ۔۔۔

02:03:44) کچھ اعلانات۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries