عشاء مجلس  ۱۴۔ اکتوبر۳ ۲۰۲ء     :مرید کی رائے کو فنا کرنا بھی شیخ کی ذمہ داری ہے    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:حضرت مفتی فرحان فیروز میمن صاحب دامت برکاتہم

مقام:مسجدِ اختر نزدسندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک12کراچی

ایک غلط مقولہ کی اصلاح (۱)ارشاد فرمایا کہ حضراتِ صوفیاء کے یہاں یہ بات مشہور ہے کہـ ولی را ولی می شناسد کہ ولی کو ولی ہی پہچانتا ہے لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ قول صحیح نہیں ہے کیونکہ بعض اولیاء بعض دوسرے اولیاء کے مقام سے واقف نہ تھے یا تو وہ کم نسبت والے تھے اور دوسرے ان سے بلند نسبت والے تھے یا پھر ان کے اختلافِ ذوق کی وجہ سے ایک دوسرے کے مقام سے واقف نہ ہوسکے تھے مثلاً ایک میں عشق ومستیاں اور شورش اور چشتیت غالب تھی

اور دوسرا سنجیدہ، خاموش طبع اور سسکیاں بھرنے والا تھا کہ آواز بھی نہ نکلے تو وہ ایک دوسرے کامقام نہیں پہچان سکے یہاں تک کہ زیادہ ملنا بھی نہیں رکھا جیسے یوپی میں حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲ علیہ کے دو خلیفہ تھے، دونوں ایک دوسرے سے بات چیت بھی نہیں کرتے تھے، حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ سے کسی نے کہاکہ یہ دونوں آپ کے خلیفہ ہیں آپ ان دونوں کو ملا کیوں نہیں دیتے کیونکہ اس سے بدگمانی ہوتی ہے کہ کیسے شیخ ہیں کہ ان کے دو خلیفہ کا آپس میں ملنا جلنا نہیں ہے تو حضرت نے فرمایاکہ ان کا اختلاف ان کے اتفاق سے افضل ہے

کیونکہ ان کے مزاجوں میں مناسبت نہیں ہے، اکٹھے رہیں گے تو لڑائی شروع ہوجائے گی، جب دل سے دل نہیں ملتا تو آدمی کہاں تک نباہ کرے گا، جب محبت نہ ہو اور دل سے دل نہ ملے تو اس کے ساتھ نباہ کرنا سخت مجاہدہ ہے ؎ بڑی مشکل سے ان کی بیوفائی مجھ کو راس آئی کبھی اوپر کبھی نیچے اگرچہ میری سانس آئی جس کے ساتھ مناسبت نہ ہو اور پھر اس کے ساتھ گذارا کرنا پڑے تو شدید مجاہدہ ہوتا ہے، گو اس مجاہدہ پر اجرِ عظیم ہے لیکن اس سے اﷲ کی پناہ مانگنی چاہیے تو حضرت فرماتے ہیں کہ یہ جملہ کہ ولی کو ولی پہچانتا ہے صحیح نہیں ہے بلکہ مشہور ہوگیا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ولی را نبی می شناسد کہ ولی کو نبی پہچانتا ہے کیونکہ نبی جامع ہوتا ہے تمام اولیاء اﷲ کو، نبوت کا مقام بہت اونچا ہوتا ہے جیسے کوئی آدمی اوپر سے دور بین کے ذریعہ سب کو دیکھ رہاہے لیکن نیچے والے اسے نہیں دیکھ پارہے چنانچہ نبی سب کو پہچانتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کس مقام پر ہیں اور حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کس مقام پر ہیں۔ شیخ کا مقام لہٰذا اصلاح کے لیے مرید کی خود رائی کو مٹانا بھی شیخ کے ذمہ ہے۔

ایک مرتبہ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اے عمر! تم رات کو تہجد میں زور زور سے قرآن شریف کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے کہاکہ میں شیطان کو بھگانے کے لیے بلند آواز سے پڑھ رہا تھا پھر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے دریافت فرمایا کہ اے ابوبکر! تم رات کو تہجد میں بہت آہستہ آواز سے قرآن شریف کیوں پڑھ رہے تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں اﷲ تعالیٰ کو سنارہا تھا اور چاہے جس آواز سے بھی ہو اﷲ سنتا ہے۔ پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دونوں کو اپنی اپنی رائے سے نزول فرمادیا تاکہ نبوت کی رائے صحابہ کی رائے پر غالب آجائے۔ آپ نے صدیق اکبر سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑی بلند کرلو اور حضرت عمر فاروق سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کو تھوڑا ساکم کرلو۔

حضرت امام مجدد الف ثانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے مکتوبات میں لکھا ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی اپنی رائے سے ہٹا کر خود رائی کے مقام سے نکالا اور ان کو مقامِ فنا تک پہنچادیا لہٰذا شیخ کبھی جائز کام کو بھی چھڑا دیتا ہے تاکہ مرید میں شیخ کی اتباع اور اطاعت کی شان پیدا ہو۔ میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ نے شیخ کو عجیب مقام دیا ہے۔ اگر وہ ذکر اور تلاوت ملتوی کراکے کسی مرید سے یہ کہہ دے کہ تمہارا کام خانقاہ میں صرف جھاڑو لگانا اور لیٹرین صاف کرنا اور مہمان جو اﷲ کے لیے خانقاہ میں ہیں ان کی خدمت کرنا ہے تو وہ اسی راہ سے اﷲ تک پہنچ جائے گا، شیخ نے جو طریق اس کے لیے مقرر کیا ہے اسی سے وہ اﷲ تک پہنچ جائے گا۔ ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے لکھا ہے کہ ایک محدث اور مفتی ایک اﷲ والے سے بیعت ہوئے تو شیخ نے کہاکہ اب نہ فتویٰ دینا، نہ بیان کرنا اور نہ حدیث پڑھانا تو ا س وقت کے بعض مفتیوں نے فتویٰ دے دیا کہ یہ پیر کافر ہے حالانکہ وہ پیر بہت بڑے شیخ تھے اور چونکہ ان کے مقام سے یہ مفتی صاحب جو مرید ہوئے تھے واقف تھے لہٰذا انہوں نے شیخ کی بات پر عمل کیا اور سال بھر تک نہ بیان کیا، نہ حدیث کا درس دیا اور نہ فتویٰ دیا بس ذکر و فکر کرتے رہے، شیخ نے جو معمول بتایا تھا وہ کرتے رہے۔ ایک سال کے بعد جب شیخ نے دیکھا کہ اصلاح ہوگئی اور دل نسبت مع اﷲ کے نور سے بھر گیا

تو فرمایا کہ اب منبر پر جاؤ اور بیان کرو، سال بھر کے بعد جب بیان کیا تو ایک ایک لفظ سے لو گ صاحبِ نسبت ہورہے تھے، ان الفاظ کا اثر بڑھ گیا تھا کیونکہ نفس مٹ گیا تھا، ایک سال تک نفس کو مٹانا پڑا حبِّ جاہ سے اور حبِّ باہ سے یہاں تک کہ حبِّ آہ میں مشغول ہوگئے ۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries