عشاء مجلس  ۲۰۔ اکتوبر۳ ۲۰۲ء     :ہر گناہ پر چار گواہ بنتے ہیں      !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک 12کراچی

02:39) حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب اصلاح اخلاق سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:40) مولانا محمد کریم صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ جس نے سر بخشا ہے اُس سے سرکشی زیبا نہیں اپنے خالق پر فدا ہو اور غیراللہ کو چھوڑ دامنِ مرشد پکڑ اور نفس کے رشتے کو توڑ خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن عارضی دلبر کی خاطر راہِ پیغمبر نہ چھوڑ

07:37) خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن عارضی دلبر کی خاطر راہِ پیغمبر نہ چھوڑ جتنے بھی گناہ ہیں یہ سب خاک ہیں ایک نہ ایک دن مٹی ہوجائیں گے ۔۔

09:22) اپنے خالق پر فدا ہو اور غیراللہ کو چھوڑ دامنِ مرشد پکڑ اور نفس کے رشتے کو توڑ خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن عارضی دلبر کی خاطر راہِ پیغمبر نہ چھوڑ جانے کب آجائے رب سے تجھ کو پیغامِ اجل راہ گم کردہ نَفَس کو اُس کی گمراہی سے موڑ تو نے جو رب سے کیا تھا عہد و پیمانِ اَزَل نفس دُشمن کی وجہ سے اس کو اے ظالم نہ توڑ میں نے مانا ہے بہارِ عارضی تجھ کو لذیذ دائمی راحت کی خاطر عارضی راحت کو چھوڑ جس نے سر بخشا ہے اُس سے سرکشی زیبا نہیں اُس درِ جاناں پہ سر رکھ اور درِبُت خانہ چھوڑ

14:15) جس نے سر بخشا ہے اُس سے سرکشی زیبا نہیں اُس درِ جاناں پہ سر رکھ اور درِبُت خانہ چھوڑ بت خانہ سے کیا مراد ہے؟۔۔۔

18:00) نفس امّارہ کیا ہے؟۔۔۔ ہمارے نفس امارہ نے جب دامِ بتاں بدلا تو ہم نے بابِ تقویٰ پر بھی فوراً پاسباں بدلا

19:02) ہمتِ مردانہ اے ظالم تو کر اب اختیار راہِ سر بازی میں اپنی خوئے رُوباہی کو چھوڑ دین جس کا ہے اُسی پر آسرا اخترؔ کرو کام جس کا ہے اُسی پر اپنی سب فکروں کو چھوڑ

23:13) مکہ مکرمہ میں ایک نئے دوست ملے جو آزاد کشمیر کے تھے جو جیل میں لوگوں کو قرآن پاک پڑھاتے ہیں حضرت والا رحمہ اللہ کی بہت عجیب عجیب باتیں سنائیں۔۔۔

25:38) ہمیں شیخ سے فائدا کیوں نہیں ہوتا ؟۔۔۔

26:14) ہر گناہ پر چار گواہ بنتے ہیں۔۔۔توبہ کرنے سے سب معاف ہوجاتے ہیں سوائے حقوق العباد کے۔۔۔

29:59) توبہ کی تین قسمیں: توبہ کی تین قسمیں ہیں۔ جس درجہ کی توبہ ہوگی اسی درجہ کی محبوبیت عطا ہوگی۔ بتائیے آپ فرسٹ ڈویژن میں پاس ہونا چاہتے ہیں یا سیکنڈ ڈویژن میں یا تھرڈ ڈویژن میں۔ تین ڈویژن ہوتے ہیں آج تینوں ڈویژن پیش کررہا ہوں۔ عوام کی توبہ پہلے تیسرا ڈویژن پیش کرتا ہوں کہ سب سے معمولی درجہ یعنی پاسنگ نمبر کی توبہ یہ ہے کہ معصیت چھوڑدو اور فرماںبرداری کا راستہ اختیار کرلو۔ جس کا نام الرجوع من المعصیۃ الی الطاعۃ ہے اور اُردو میں گنہگار زندگی چھوڑکر فرماںبرداری کی زندگی اختیار کرنا ہے۔ خواص کی توبہ اور سیکنڈ ڈویژن کی توبہ ہے الرجوع من الغفلۃ الی الذکر غفلت کی زندگی چھوڑ کر اللہ کو یاد کرو، معمولات پورے کرو، خالی فرض واجب ادا کرکے اللہ تعالیٰ سے ضابطہ کا معاملہ نہ کرو۔ اللہ سے رابطہ کا معاملہ کرو۔ ضابطہ والوں کو ضابطہ ملتا ہے، رابطہ والوں کو رابطہ ملتا ہے، اللہ کو یاد کرو، اوابین بھی پڑھو، کچھ نقلیں بھی پڑھو، کم سے کم شیخ کا جو بتایا ہوا ذِکر ہے اس کو کرو۔ اس کا نام سیکنڈ ڈویژن کی توبہ ہے اور عربی میں اس کا نام توبۃ الخواص ہے اور جس کی تشریح ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے الرجوع من الغفلۃ الی الذکر کے عنوان سے فرمائی کہ غفلت کی زندگی چھوڑکر ذِکر والی زندگی شروع کردی ؎ مدت کے بعد پھر تری یادوں کا سلسلہ اِک جسم ناتواں کو توانائی دے گیا اگر کچھ دن اللہ کو یاد نہیں کیا تو اب یہ شعر پڑھ کے اللہ کا نام لینا شروع کردو۔ ذِکر کی قضا نہیں ہے، ذِکر کی قضا یہی ہے کہ ذِکر شروع کردو، یاد کی قضا یہی ہے کہ یاد الٰہی میں لگ جائو۔ اعلیٰ درجہ یعنی اخص الخواص کی توبہ اب فرسٹ ڈویژن یعنی اعلیٰ درجہ کی توبہ کیا ہے جس سے اعلیٰ درجے کی محبوبیت ملے گی الرجوع من الغیبۃ الی الحضور کہ اپنے دل کو ہر وقت نگرانی میں رکھو، اپنے قلب کی نگرانی کیجئے جس کو انگریزی میں انسپکشن کہتے ہیں۔ آپ اپنے قلب کے انسپکٹر بن جائیے اور ہر وقت قلب کا انسپکشن کیجئے اور انسپکشن کیسے کریں گے؟ بس یہ دیکھیں گے کہ دل میں کہیں غیراللہ کا انفیکشن تو نہیں ہورہا ہے، ہمارے قلب میں کوئی نمک حرام تو نہیں آرہا ہے؟ کہیں بدنظری تو نہیں ہورہی ہے، کہیں غیر اللہ کی یاد تو دل میں نہیں آرہی ہے، کسی گناہ کا مراقبہ تو دل میں نہیں ہورہا ہے، فرسٹ ایر کے کسی گناہ کا مراقبہ ففتھ ایر میں تو نہیں کررہے ہو کہ پچاس سال کے ہوگئے اور بچپن کا مزاج نہ گیا۔ اس پر میرا شعر ہے ؎ ترا بچپن یہ پچپن میں مجھے حیرت ہے اے ناداں بڑھاپے میں بھی تیری خوئے طفلانی نہیں جاتی بس آپ انسپکشن کیجئے کہ کہیں دل میں غیر اللہ کا انفیکشن تو نہیں آرہا ہے؟ آج آپ سب لوگوں کو میں نے انسپکٹر بنادیا۔ آپ کہیں گے کہ انسپکٹر کی تو بہت اچھی تنخواہ ہوتی ہے، ہم لوگوں کی کیا تنخواہ ہوگی؟ تو اللہ تعالیٰ کی محبوبیت معمولی تنخواہ ہے؟ توبہ کا فرسٹ ڈویژن یہی انسپکشن کہ دل کی نگرانی کرو کہ ہمارا دل کہیں غیر اللہ کی یادوں سے سابقہ حرام لذت کی لید دوبارہ سونگھنے کی پلید خاصیت میں تو مبتلا نہیں ہورہا ہے۔

43:10) بعض لوگوں کو اپنے پرانے گناہوں کی لید سونگھنے کی ایسی عادت ہے کہ وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ اس پلید حالت میں کوئی پلید کیسے بایزید ہوسکتا ہے؟ بعض ظالموں کو یہ پتا ہی نہیں چلتا کہ میرے دل میں کیا ہورہا ہے؟ وہ اپنے قلب سے اتنے بے خبر ہیں کہ ان کے قلب میں عہدِ ماضی کی فلم چل رہی ہے اور ان کو پتا ہی نہیں کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ یہ نفس کے پیچھے آنکھیں بند کرکے چلے جارہے ہیں۔ یہ کیا جانور کی سی زندگی ہے، کہیں اہل اللہ کی زندگی ایسی ہوتی ہے۔ جب دل میں غیراللہ آئے فوراً کھٹک جائو ؎ نہ کوئی راہ پا جائے نہ کوئی غیر آجائے حریم دل کا احمد اپنے ہر دم پاسباں رہنا توبہ کی یہ تین قسمیں ہوگئیں۔ اب آپ کو اختیار ہے کہ آپ عوام کے زمرے میں رہنا چاہتے ہیں یا خواص میں یا اخص الخواص میں فرسٹ ڈویژن آنا چاہتے ہیں۔

48:19) آپ ﷺ کا رونا۔۔۔

50:21) شیخ دروازۂ فیض ہے اس پر اﷲ تعالیٰ نے ایک بات دل میں ڈالی کہ شیخ دروازۂ رحمت اور دروازۂ فیض ہے، مبدأ فیاض سے بندے تک وہ بیچ میں کٹ آؤٹ اور واسطہ ہوتا ہے اور ہر انسان اپنے دروازے کی صفائی کو محبوب رکھتا ہے اور دروازے کو گندا رکھنا مشابۂ یہودیت ہے ،یہودی لوگ اپنے دروازے کو گندا رکھتے تھے۔ تو شیخ اﷲ کا دروازہ ہے، لہٰذا دروازے کو صاف رکھنا، خوش رکھنا، تکدر نہ ہونے دینا، یہ مطلوب ہے یا نہیں؟ جس طرح انسان اپنے دروازے کی گندگی سے ناراض ہوتا ہے، غم محسوس کرتا ہے تو جو شیخ کو ستاتا ہے یا ناراض رکھتا ہے، اﷲ تعالیٰ بھی اپنے اس دروازے کو ناراض کرنے والے کو اپنے فیضِ رحمت سے محروم کردیتا ہے۔ دریائے رحمت سے جو ٹونٹی تم کو مل رہی ہے اگر کوئی اس ٹونٹی میں نجاست لگادے تو اس میں سے جو پانی آئے گا تم کو بد بودار لگے گا لیکن اس میں دریا کا قصور نہیں ہے، تم نے ٹونٹی میں نجاست کیوں لگائی لہٰذا شیخ کو مکدر مت کرو بلکہ گاہے گاہے اس کو خوش کرو، کبھی غلطی ہوجائے تو فوراً معافی مانگ لو تاکہ اس پر اﷲ کی رحمتوں کی جو بارش برس رہی ہے اس میں سے ہمیں بھی کچھ حصہ مل جائے اور ہم جو طرح طرح کی سزاؤں کے مستحق تھے تو ہم پر طرح طرح کی نعمتیں برس جائیں۔ محبت میں بعض دوست ایسے ہیں کہ شاید روئے زمین پر ان سے زیادہ کوئی محبت کرنے والا نہ ہو مگر وہ اپنی نادانی اور اپنے نفس کے وجود سے اور فنائے نفس کے نہ ہونے سے اگر مگر لگا کر اذیت پہنچانے میں بھی روئے زمین پر اوّل نمبر ہوتے ہیں، جہاں وہ محبت میں روئے زمین پر اوّل نمبر ہیں وہاں ایذا رسانی میں بھی اوّل نمبر ہوتے ہیں، ایسا شخص شیخ کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس لیے اس نسخے کو یاد کر لو اور دنیا اور آخرت برباد مت کرو، اگر تمہارے دل میں محبت ہے تو محبت کا حق اداکرو، تم کیوں نہیں چاہتے کہ میرا محبوب خوش رہے، اس کی آنکھیں ہم سے ٹھنڈی رہیں، اس کا بال بال ہمارے لیے دعا گو رہے۔ بولو بھئی! محبت کیا چاہتی ہے؟ محبوب کو اذیت پہنچانا یا محبوب کو خوش رکھنا؟ تو اپنی عقل پر خاک ڈالو، جو محبوب چاہتا ہے اس طرح سے رہو۔

01:02:22) عقل عقل سے نہیں فضل سے ملتی ہے: اور یاد رکھو! کہ محبوب کی مرضی کے مطابق محبوب سے محبت کرنا اور ا پنی مرضی کو فنا کر کے اس کو خوش رکھنا اس مقام کو عقل سے نہیں پاسکوگے۔ یہ جملہ یا د رکھو کہ عقل سے عقل نہیں ملتی، فضل سے عقل ملتی ہے، یعنی جب اﷲ تعالیٰ رہنمائی فرمائیں گے تب سمجھ آئے گی کہ میں اب تک کس حماقت میں مبتلا تھا۔ اس لیے اﷲ سے فضل مانگو کہ اے خدا! مجھے ایسا ادب سکھا دے کہ میرا شیخ مجھ سے خوش رہے۔ اﷲ سے عقل مانگو، ادب مانگو اور شیخ کے دل میں اپنی محبوبیت مانگو کہ ہم تو نالائق ہیں مگر آپ میرے شیخ کے قلب میں مجھ کو پیارا بنا دیجئے، دنیا میں سب سے بڑا رشتہ شیخ کا ہے، کسی کے لاکھوں کروڑوں مرید ہوں، کروڑوں تصنیفات ہوں لیکن اگر شیخ کے دل میں وہ محبوب نہیں ہے تو خطرہ میں ہے، اس لیے شیخ کو ہر طرح سے خوش رکھو۔ حضرت میاں مظہر جانِ جاناں رحمۃ اﷲ علیہ کو ان کے خادم حضرت غلام علی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ پنکھا جھل رہے تھے، حضرت نے فرمایا کہ میاں تم مجھے بہت آہستہ آہستہ پنکھا جھل رہے ہو، کیا ہاتھ میں جان نہیں ہے؟ پھر انہوں نے اتنا زور سے جھلا کہ حضرت نے فرمایا: کیا اُڑا دے گا مجھ کو؟ تو ان کے منہ سے نکل گیا کہ کسی طرح چین نہیں ہے، ہلکا پنکھا جھلتا ہوں تو آپ کہتے ہیں ہاتھ میں جان نہیں ہے، تیز جھلتا ہوں تو کہتے ہیں کہ اڑا دے گا۔ حالانکہ ان کو کہنا چاہیے تھا کہ حضرت دونوں صورتوں میں معافی چاہتا ہوں، اب درمیانی رفتار سے جھلوں گا مگر وہی بات ہے کہ جب تک خدا عقل نہ دے یہ بات پیدا نہیں ہوتی۔ بعد میں انہوں نے اپنے قصور کی خوب تلافی کی اور شیخ نے بھی انہیں معاف فرما دیا اور بہت دین کا کا م اللہ تعالیٰ نے ان سے لیا۔ اور دیکھو! اپنا شیخ تو کیا کسی بھی اﷲ والے کا دل نہ دُکھاؤ۔ اپنے شیخ کے علاوہ بھی جو لوگ اﷲ والے صاحبِ نسبت ہیں میںنے کبھی ان کا دل بھی نہیں دُکھایا اور اگر دل دُکھانے کا ارادہ بھی نہیں ہے تب بھی اپنی بے وقوفی اور نادانی سے شیخ کو تکلیف مت پہنچاؤ، عقلِ سلیم کے لیے دعا کرو کہ اے اﷲ! مجھے عقلِ سلیم نصیب فرما اور میری عقل پر اپنے فضل کا سایہ نصیب فرما کہ میری وجہ سے میرے شیخ کو اذیت نہ پہنچے کیونکہ عقل سے اللہ کا راستہ نہیں طے ہوتا، فضل سے طے ہوتا ہے، سمجھ گئے! ورنہ عقل ہوتے ہوئے بھی بعض لوگ شیخ کے دل کو مکدر کردیتے ہیں۔ لہٰذا فضل کی ضرورت ہے ؎ کام بنتا ہے فضل سے اختر فضل کا آسرا لگائے ہیں

01:09:18) حضرت والارحمہ اللہ کی ایک خاص دعا: میں مسجد میں ہوں او رقسم بھی اٹھا سکتا ہوں کہ میں یہی دعا کرتا ہوں یااﷲ! میرے شیخ کے بال بال کو میرے لیے دعا گو بنادے اور ان کے قلب میں اختر کو پیارا بنا دے۔ کیا کہوں، آج راز کی بات ظاہر کیے دیتا ہوں کہ میں یہ دعا مانگتا ہوں: جتنے حضرت کے مرید ہیں اﷲ مجھے سب سے زیادہ پیارا بنا دے، اَحَبُّ الْمُرِیْدِیْنَ بنا دے، اَحَبُّ الْمُسْتَرْشِدِیْنَ بنا دے، اَحَبُّ الْخُدَّامِ بنا دے۔ ہماری عقل پر یااﷲ! اپنا فضل شامل فرمادے تاکہ ہم اپنے بڑوں کو ہمیشہ خوش رکھیں اے خدا! جوئیم توفیقِ ادب اے اﷲ! اختر کو میرے احباب کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک بنا اور میرے احباب کو میرے لیے آنکھوں کی ٹھنڈ ک بنا، بے ادبی، بے وقوفی اور نالائقی سے حفاظت عطا فرما او رساتھ ساتھ یہ بھی کہتا ہوں کہ یا اﷲ! اپنے بڑوں کے سامنے اعترافِ قصور اور اعترافِ خطا اور فوراً معافی مانگنے کی توفیق نصیب فرما دے۔

01:14:29) ہر خلیفہ کے لیے یہ مراقبہ ضروری ہے خاص طور پر ان خلفاء کے لیے جو اہلِ علم ہیں۔ (۱۷)…… ریا کاری وہ ہے کہ کسی عمل کو لوگوں کو دکھانے اور ان کو اپنا معتقد بنانے کے لیے کرے۔ اگر یہ نیت نہ ہو اور لوگوں پر ظاہر ہوجائے تو یہ اخلاص کے منافی نہیں ہے۔ شیخ کے سامنے عمدہ عمل کرنے کو بھی اخلاص میں شمار کیا گیا ہے کیونکہ شیخ سے تعلق کا مقصد اﷲ تعالیٰ تک پہنچنا ہے، بس جس نے شیخ کا دل خوش کرنے کے لیے عمدہ نماز پڑھی یا عمدہ تلاوت کی تو یہ بھی لوجہ اﷲ تعالیٰ شمار ہوگا، اس کی دلیل حدیث شریف میں ہے کہ ایک صحابی رات کو نماز تہجد میں تلاوت کررہے تھے آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم سنتے رہے۔ صبح کو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تعریف فرمائی کہ تم نے بہت عمدہ تلاوت کی تو انہوں نے عرض کیا اے اﷲ کے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم سن رہے ہیں تو میں اور زیادہ خوش الحانی کے ساتھ پڑھتا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہ سن کر خاموش ہوگئے، ان سے یہ نہیں فرمایا مجھے سنانے کے لیے اچھا پڑھنا اخلاص کے خلاف ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries