فجر مجلس ۱۳ نومبر ۳ ۲۰۲ء     :شیخ کا فیض دو چیزوں سے حاصل ہوتا ہے    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:29) ایک بچے کا ذکر کہ اس سے پوچھا کہ مکہ شریف جاؤ گئے تو کہا نہیں پھر کہا کہ مدینہ شریف جاؤ گے کہا کہ نہیں پھر اس سے کہا کہ کہا ں جاؤ گے تو کہا کہ فلسطین پوچھا کہ وہاں جا کہ کیا کرو گے تو کہا کہ کفّار کو مارتے مارتے شہید ہوجاؤں گا۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔اگر گھر میں ویڈیو گیم ،فلموں کی باتیں نہ ہوں تو پھر بچے ایسے ہوتے ہیں۔۔۔

03:29) کفّا ر کی کتنی بھی طاقتیں ہوں اگر مسلمان ایک ہوجائیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند کر دے۔۔۔

06:34) ان کفّار کی اگر صرف گاڑیوں کا ہی بائیکاٹ کر دیں تو ان کا جینا حرام ہو جائے ۔۔۔

09:14) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات۔۔۔

13:45) صحبت یافتہ اور فیض یافتہ: جس طرح خاتم النبیین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین میں فرمایا کہ: ((اَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ، اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ)) (صحیحُ البخاری) اور قیامت تک کے لیے اعلان فرمادیا: ((اَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ)) (المعجم الکبیر لطبرانی) کہ میں خاتم النبیین ہوں اب میرے بعد قیامت تک کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لہٰذا اب قیامت تک جو نبی ہونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا کذاب اور دجال ہے۔ انبیاء کو تو وحی سے اپنی نبوت کا یقینی علم ہو جاتا ہے لیکن اولیاء اللہ کو بھی حالات و قرائن سے معلوم ہوجاتا ہے کہ میرے قلب میں وہ مولیٰ اپنی تجلی خاصہ سے متجلی ہوگیا، ولایت خاصہ عطا ہوگئی۔ جس کو اپنے قلب میں اس مولیٰ کا قرب خاص محسوس نہ ہو وہ ولی نہیں، اس کا دل خالی ہے۔ ناممکن ہے کہ دریا میں پانی ہو اور اس کو محسوس نہ ہو کہ میرے اندر پانی ہے۔ اگر دریا خاک اُڑا رہا ہے یہ دلیل ہے کہ اس دریا میں پانی نہیں ہے چاہے وہ لاکھ دعویٰ کرے کہ میں لبا لب بھرا ہوا ہوں اور سینہ تان کر بہہ رہا ہوں لیکن اس کا خاک آمیز ماحول بتائے گا کہ یہ پانی سے محروم ہے، یہ ڈینگ بانک رہا ہے اور لاف زنی کررہا ہے جب دریا لبالب بہتا ہے تو بہت دور تک اس کی ٹھنڈک فضائوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ کئی میل دور سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس طرف دریا ہے کیونکہ ادھر سے جو ہوا آتی ہے وہ پانی سے لگ کر آتی ہے۔ پانی کی صحبت یافتہ ہوا اور ٹھنڈی نہ ہو! جو ہوا ٹھنڈی نہ ہو تو دلیل ہے کہ یہ پانی کی صحبت یافتہ نہیں ہے۔ اگر صحیح معنوں میں صحبت یافتہ ہوتی اور پانی کی ٹھنڈک کو صحیح معنوں میں جذب کیا ہوتا تو ضرور ٹھنڈی ہوتی۔

18:26) حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایاکہ جب لوگ کسی سے ڈرنے لگیں کہ ذرا ذراسی بات پرڈنسے گا تو سمجھو کہ اس وقت اس کی روحانی موت آگئی۔۔۔

19:14) صحبت یافتہ کے معنی خالی صحبت یافتہ نہیں بلکہ فیض یافتہ صحبت ہے۔ اس لیے خالی یہ نہ دیکھئے کہ یہ شخص شیخ کے ساتھ رہتا ہے بلکہ یہ دیکھئے کہ اس کے اندر شیخ کا فیض کتنا آیا ورنہ وہ صحبت یافتہ تو ہے فیض یافتہ نہیں کیونکہ ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کا بدل الکل من الکل ’’صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ‘‘ ہے یعنی انعام والے بندوں کا راستہ پکڑو تب صراط مستقیم پائو گے اور انعام والے بندے کون ہیں؟ ان کو دوسری آیت میں بیان فرمایا’’اُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا‘‘پس اگر انعام والے بندوں کے ساتھ رہنے کے باوجود کوئی ان کی صفات کا حامل نہیں تو کہا جائے گا کہ یہ فیض یافتہ صحبت منعم علیہم نہیں ہے، اس کے حسن رفاقت میں کوئی کمی ہے۔ ’’وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا‘‘سے معلوم ہوا کہ صرف رفاقت کافی نہیں حسن رفاقت مطلوب ہے۔معلوم ہوتا ہے کہ اس کے حسن رفاقت میں کوئی کمی ہے اور وہ کمی کیا ہے؟ مثلاً شیخ کے ارشادات پر عمل نہ کرنا۔ بے برکتی کا سبب بے عملی اور بے فکری ہے۔ شیخ نے مشورہ دیا کہ غصہ نہ کرنا مخلوقِ خدا پر رحمت و شفقت کرنا تو شیخ کی بات کو مان لو اور زندگی بھر غصہ کو قریب نہ آنے دو۔ اگر شیخ کے مشوروں پر عمل کی توفیق نہیں تو وہ فیض یافتہ صحبت نہیں ہے خواہ وہ لاکھ دعویٰ کرے کہ مجھے فیض صحبت حاصل ہے لیکن اگر تمہارے قلب میں نسبت مع اللہ کا دریا بہہ رہا ہے تو مغلوبیت نفس کی خاک کیوں اُڑارہی ہے؟ یہ غصہ سے تمہارا مغلوب ہوجانا دلیل ہے کہ دل اللہ کے تعلق خاص سے محروم ہے کیونکہ اللہ کی محبت کی لازمی علامت تواضع اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی:’’ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ‘‘ کہ یہ لوگ مومنین کے لیے بچھے جاتے ہیں، تواضع سے پیش آتے ہیں۔ جس شاخ میں پھل آجاتا ہے وہ جھک جاتی ہے اور یہ تمہارا اکڑ کے چلنا اور ہر کسی سے لڑنا اور ہر وقت طبیعت سے شکست کھاکر گر پڑنا دلیل ہے کہ تمہارے اندر اللہ کی محبت کی کمی ہے اور شیخ کا فیض صحبت تمہیں نہیں ملا اور ملا تو بہت ہی کم ملا۔

23:46) شیخ کے فیض کے جذب کی صلاحیت دو چیزوں سے ملتی ہے : (۱)… ذکر اللہ پر مداومت ۔ (۲)… تقویٰ پر استقامت۔

24:23) محبت شیخ علیٰ سبیل خلت مطلوب ہے: ارشاد فرمایا کہ پیر کی کتنی محبت ہونی چاہیے اس مضمون کے متعلق ایک بہت بڑا راز اللہ تعالیٰ نے میرے قلب پر مکشوف فرمایا اور وہ یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ : انسان اپنے خلیل اور گہرے دوست کے دین پر خود بخود آجائیں گے اور جب تک یہ ادائیں اس کے اندر نہیں آرہی ہیں تو صحبت شیخ اس کے لیے نفع کامل کا ذریعہ نہیں بن رہی ہے بوجہ اس کی نالائقی اور عدم اتباع کے۔ شیخ کامل کی صحبت سے نفع کامل حاصل کرنے کے لیے تفسیر روح المعانی کا ایک جملہ ہے کہ ’’خَالِطُوْھُمْ لِتَکُوْنُوْا مِثْلَھُمْ‘‘اتنا ساتھ رہو کہ تم بھی اپنے شیخ کی طرح ہوجائو، وہی دردِ دل، وہی آہ و فغان، وہی غض بصر، وہی تقویٰ تمہارے اندر بھی منتقل ہوجائے۔

اس حدیث کی رو سے کہ’’اَلْمَرْئُ عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ‘‘ اگر شیخ تمہارا خلیل ہوتا اور علیٰ سبیل خلت تم کو شیخ کی محبت نصیب ہوتی تو شیخ کی راہ میں اور تمہاری راہ میں فرق نہ ہوتا۔ معلوم ہوا کہ تمہاری رفاقت میں حسن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا‘‘یہ خالی جملہ خبر یہ نہیں ہے اس میں جملہ انشائیہ پوشیدہ ہے۔ یہ بہت اچھے رفیق ہیں اس خبر میں یہ انشاء موجود ہے کہ ان کے ساتھ حسین رفاقت اختیار کرو۔

جب تک شیخ کے راستہ میں اور مرید کے راستہ میں فرق ہے تو اللہ تعالیٰ سے شیخ کی محبت علی سبیل خلت مانگو کہ اے اللہ شیخ میرے قلب میں اتنا محبوب کردے کہ میرا خلیل ہوجائے اور میں’’عَلٰی دِیْنِ خَلِیْلِہٖ‘‘ ہوجائوں۔ پس جب شیخ کی محبت خلت کے درجہ میں پہنچ جائے گی تو اس کے مشورہ پر اتباع کامل کی توفیق ہوگی اور پھر خود بخود شیخ کے تمام اخلاق آپ کے اندر منتقل ہوجائیں گے۔ یہ شرح اللہ تعالیٰ نے ابھی میرے دل کو عطا فرمائی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries