عشاء مجلس  ۱۴ نومبر ۳ ۲۰۲ء     :دنیا کی محبت دل سے نکالنے کا      آسان نسخہ  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزدسندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک12کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

01:12) حسب معمول تعلیم۔۔

03:09) تعریف کہاں ممنوع اور کہاں جائز ہے۔۔

04:21) اصلی مہاجر وہ ہے جو گناہوں سے ہجرت کرلے ارشاد فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں لہٰذا ہم مہاجر ہیں لیکن نبیﷺنے ہجرت کس چیز کو قرار دیا ہے؟ فرماتے ہیں: ((اَلْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السُّوْءَ)) ہجرت یہ ہے کہ آدمی بُرائی کو چھوڑ دے،معلوم ہوا وطن سے دور ہونا کوئی ہجرت نہیں ہے۔دوسری حدیث میں ہے: ((اَلْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوْ بَ ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک شخص کسی ملک میں رہتا ہے اور وہ اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاتا لیکن اگر گناہوں کو چھوڑ دے گا تو قیامت کے دن مہاجر شمار ہوگا، اور ایک شخص کافروں کے ملک کو تو چھوڑ آیا لیکن گناہ نہیں چھوڑے تو یہ مہاجرنہیں ۔پس ہجرت وہ ہے جو بندے کو اس کے رب سے ملادے،دور ہو اغیار سے اور مل جائے اپنے یار سے، اصل میں یہ مہاجر ہے۔

07:05) حضرت لوط علیہ السلام کی بات جب ان کی قوم نے نہیں مانی اور سرکشی میں حد سے زیادہ بڑھ گئے تو آپ نے فرمایا، جس کو قرآن میں حق تعالیٰ بیان فرماتے ہیں: ﴿قَالَ اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں، تم لوگ میری بات نہیں مانتے تھے، اس لئے اب میں تم سے دور ہو رہا ہوں، اپنے رب مولیٰ حقیقی کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں یعنی اپنے رب کی رضا کی طرف جائوں گا، جس سرزمین پر میں اپنے مولیٰ کو زیادہ سے زیادہ راضی کر سکوں گا، وہاں جا رہا ہوں۔کوئی ہجرت کرتا ہے فیکٹری کی طرف،کوئی ہجرت کرتا ہے وزارت و سلطنت کی طرف، کوئی ملازمت وتجارت کی طرف مہاجر ہوتا ہے، ایک ملک چھوڑ کر دوسرے ملک چلے جاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت کی حالانکہ کوئی گناہ نہ چھوڑا، یہ کیا ہجرت ہے!

13:42) چوری کے واقعات کا ذکر۔۔

21:21) آج جو اللہ والے بزرگ بڑے عالم دین نے بیان فرمایا اُس بیان کو ضرور سنیں مشورے کے بارے میں کیا اہم بیان تھا کہ جو عالم اپنے استاذہ سے مشورہ کرتا رہے زیر نگرانی رہے تو بچا رہے گا ورنہ پھر گمراہی کا سخت خطرہ ہے۔۔

23:08) پس ہجرت وہ ہے جو درباری بنادے، اللہ کا پیارا اور مقرب بنادے،یہ روح ہجرت کی ہے..اور یہ ہر جگہ حاصل کر سکتا ہے،اس کے لئے نہ کوئی ملک چھوڑنا ضروری ہے نہ سفر، کسی زمین پر بھی رہے مہاجر شمار ہوگا۔

37:24) دنیا کی محبت اور موت کا خوف۔۔

43:24) دنیا کی محبت دل سے نکالنے کا آسان نسخہ مظاہرِ حق میں لکھا ہے کہ جس شخص کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے، ایسا شخص اگر دنیا کے کام میں بھی مشغول رہتا ہے تو اس کی نیت دنیا کی نہیں ہوتی، آخرت کی ہوتی ہےاور جس کے دل میں دنیا گھس گئی ہو، وہ اگر آخرت کا کام بھی کرے گا تو نیت دنیا ہی کی ہوگی۔ نماز پڑھے گا تو اس لئے کہ روزی میں برکت ہو، بزرگوں کے پاس جائے گا تو اس لئے کہ بچہ کی زندگی میں برکت ہو یا کاروبار بڑھ جائے یا بیماری نہ آوے، غرض جو کام بھی کرے گا اس میں نیت دنیا کی ہوگی۔

44:39) ملا علی قاری رحمہ اللہ کا قول صاحب ِمظاہرِ حق نے نقل کیا ہے: کہ جس کے دل میں دنیا کی محبت گھس جائے تو کوئی مرشد و پیر اس کو پاک نہیں کرسکتا اور اگر دنیا کی محبت دل سے نکل جائے تو بڑے سے بڑا طاغوت بھی اس کو گمراہ نہیں کرسکتا۔

46:50) اب یہ دنیا کی محبت نکلے گی کیسے؟ اگر کسی کو چالیس پاور کے بلب سے محبت ہے،اس کی روشنی اور چمک پر فدا ہو رہا ہے تو چالیس پاور کے بلب کی بُرائی بیان کرنے سے اس کی محبت دل سے نہ نکلے گی بلکہ ایک ہزار پاور کا بلب اس کو دِکھادو تو خود چالیس پاور کی روشنی اس کی نگاہوں سے گر جائے گی۔

47:35) پس جو دل دنیائے فانی پر فدا ہو رہا ہے اس کو اللہ کی محبت کا مزہ چکھا دو تب دنیا کا مزہ دل سے نکلے گا ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لَو شمع محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی

50:57) پھر ٹیڈیاں اچھی نہیں معلوم ہوں گی،بندر روڈ کی سڑکیں اچھی نہیں لگیں گی، اللہ کے جمال کے سامنے دنیائے فانی کا جمال بے حقیقت ہوجائے گا۔اسی وجہ سے بعض مشائخ پہلے گناہوں کو چھوڑنے کی تلقین نہیں کرتے، پہلے ذکر بتادیتے ہیں کہ جب ذکر کا مزہ مل جائے گا تو گناہوں کا مزہ خود پھیکا معلوم ہونے لگے گا۔جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو اندھیرے کا وجود فنا ہوجاتا ہے،اس ایک آفتاب کا نور جو اللہ کی ایک ادنیٰ مخلوق ہے، یہ اثر ہے کہ ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے تو جس دل میں خود اس خالق ِآفتاب کا نور آئے گا تو اس کا کیا حال ہوگا! اس نور کے سامنے ساری کائنات مع اپنی لذات کے جیب ِعدم میں اپنا سر ڈال دے گی

51:53) حضرت سعدی شیرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب عزت کاوہ سلطان اپنا جھنڈا اللہ والوں کے دلوں میں لہراتا ہے تو پوری کائنات جیب ِ عدم میںفنا ہوجاتی ہے ، تمام کائنات بے قدر ہوجاتی ہے

52:07) اورمولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم حق تعالیٰ کے قرب کی شان و شوکت دیکھ لو تو دنیائے فانی کی لذتیں تم کو مردار معلوم ہوں گی، جس کو وہ اپنی محبت کی تیز والی شراب پلادیں،پھر اس کی مستی کے سامنے مجموعۂ لذات ِکائنات ہیچ معلوم ہوتا ہے؎ اگر تم ایک نَفَس، ایک سانس بھی اللہ کے حُسن کو دیکھ لو تو اپنی پیاری جان کو تم آگ میںڈال دو یعنی مجاہدے کے ہر غم کو برداشت کرلوگے؎

53:55) فرماتے ہیں کہ اے اللہ! میرے ہاتھ پر اپنی محبت کی تیز والی شراب رکھ دیجئے، ایسا تیز والا جام پلا دیجئے جو آگ لگادے، اس کے بعد میری محبت دیکھئے کہ میں کیسے مست ہوتا ہوں۔ایک بار مولانا رومی رحمہ اللہ نے اپنے پیر شمس تبریزی رحمہ اللہ سے عرض کیا ؎

54:31) اے سراپا جمال میرے شیخ !میں اس بات کا عادی نہیں ہوں کہ آپ اکیلے اکیلے اللہ کی محبت کے خُم کے خُم پی رہے ہوں اور ہمارے ہونٹ خشک اور پیاسے رہیں، اپنے جامِ محبت سے تھوری سی شراب ِمحبت ہمیں بھی عطا فرمادیجئے۔ یہ بات سن کر حضرت شمس الدین تبریزی نے تواضع کی کہ میرے پاس کیا رکھا ہے، میں تو خالی خولی ہوں، تمہیں میرے ساتھ حسن ِظن ہو گیا ہے ورنہ میرے پاس کچھ نہیں ہے۔یہ سن کر مولانا رومی اپنے پیر سے عرض کرتے ہیں بوئے مے را گر کسے مکنوں کند چشم مست خویشتن را چوں کند اگر کوئی شراب پی کر آئےاور شراب کی بُو کو چھپا لے لیکن اپنی لال لال مست آنکھوں کو کہاں سے چھپائے گا؟ پس آپ کی سرخ مست آنکھیں بتا رہی ہیں کہ رات کو تہجد کے وقت سجدوں میں آپ نے خاص شراب ِمحبت پی ہے، محبت کی اس مستی کو آپ نہیں چھپا سکتے جو آپ کی آنکھیں ظاہر کر رہی ہیں

01:00:51) شیخ کا عشق کیسا ہونا چاہیے حضرت شمس تبریزی رحمہ اللہ کا تذکرہ اور اہم ملفوظ۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries