فجر  مجلس ۱۵  نومبر ۳ ۲۰۲ء     :کیفیت احسانی اور صحبتِ اہل اللہ        !   

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:49) اپنی ہر ادا کو اللہ تعالیٰ کی عطا سمجھنا چاہیے اور ہمیشہ اپنے سر پر مُربی کا سایہ رکھنا چاہیے۔۔۔

03:50) مشورے سے متعلق کچھ نصیحت۔۔۔جس عالم نے اپنے پر اعتماد کر لیا وہ برباد ہوگیا۔۔۔

07:14) شیخ سے احسانی کیفیت لینے کے لیے آنا چاہیے۔۔۔

11:07) حضرت والا رحمہ اللہ کے تبلیغی جماعت کے ایک بیان کا ذکر جس میں حضرت نے فرمایاکہ ہم دین کو جسم دیتے ہیں اور اللہ والے اپنا دل دیتے ہیں۔۔۔

12:21) کیفیت احسانی اور صحبت اہل اللہ ارشاد فرمایا کہ جس دروازہ سے کوئی نعمت ملتی ہے اس بابِ رحمت کا بھی اکرام کیا جاتا ہے۔ شیخ کا بھی اکرام اسی لیے ہے کہ وہ بابِ رحمت ہے، اس کے ذریعہ سے اللہ ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بے مثال قیمت والا ہے، اس کا راستہ بھی بے مثال قیمت والا، راستہ کا رہبر بھی بے مثال قیمت والا، اس راستہ کا رہرو بھی بے مثال قیمت والا، اس راستہ کا غم اور کانٹا بھی بے مثال قیمت والا ہے۔ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اگر اللہ کے راستہ میں ایک کانٹا چُبھ جائے تو یہ کانٹا اتنا قیمتی ہے کہ اگر ساری دنیا کے پھول اس کو سلام احترامی اور گارڈ آف آنر پیش کریں تو اس کانٹے کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ اگر اللہ کے راستہ میں گناہ سے بچنے میں، نظر بچانے میں دل میں کوئی غم آجائے تو ساری دنیا کی خوشیاں اگر اس غم کو سلام کریں تو اس غم کی عظمت کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ کے راستہ کا غم ہے۔

13:47) اللہ والے کیسے ہوتے ہیں؟۔۔۔بنگلہ دیش کے کچھ مہمان آئے ان میں سے ایک مفتی صاحب کی بات جو ماشاء اللہ سو مدارس چلاتے ہیں۔۔۔

22:04) ہٰذا صحبت شیخ کو نعمتِ عظمیٰ سمجھو اور اپنی تمام نفلی عبادات و اذکار سے زیادہ شیخ کی صحبت کے ایک لمحہ کو غنیمت سمجھو۔ اگر صحبت ضروری نہ ہوتی اور علم کافی ہوتا تو قرآنِ پاک پڑھ کر ہم سب صحابی ہوجاتے۔ تلاوتِ قرآنِ پاک سے صحابی نہیں ہوتا۔ نگاہِ نبوت سے صحابی ہوتا ہے۔ نگاہِ نبوت سے صحابہ کو وہ کیفیت احسانی حاصل ہوئی تھی کہ ان کا ایک مُد جَوْ صدقہ کرنا ہمارے اُحد پہاڑ کے برابر سونا صدقہ کرنے سے افضل ہے۔ یہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔ اور اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم جیسا حاملِ کیفیتِ احسانیہ قیامت تک کوئی نہیں آئے گا لہٰذا اب کوئی شخص صحابی نہیں ہوسکتا۔ اس حدیثِ پاک میں سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا کہ تمہارا اُحد کے برابر سونا خرچ کرنا اس کیفیت احسانیہ کے ساتھ نہیں ہوگا۔ جس کیفیت احسانی سے میرا صحابی ایک مُد جَو اللہ کے راستہ میں دے گا۔

27:36) اور کیفیتِ احسانی کیا ہے؟ ’’اَنْ تَعْبُدَ اﷲَ کَأَنَّکَ تَرَاہٗ‘‘قلب کو ہر وقت یہ کیفیت راسخہ حاصل ہوجائے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ جس کو یہ کیفیتِ راسخہ حاصل ہوگئی اس کا ایمان بھی حسین ہوجاتا ہے، اس کا اسلام بھی حسین ہوجاتا ہے۔ احسان باب افعال سے ہے اور باب افعال کبھی معنی میں اسم فاعل کے ہوتا ہے۔ احسان معنی میں محسن کے ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ احسان ایمان کو بھی حسین کو کردیتا ہے اسلام کو بھی حسین کردیتا ہے، اس کی بندگی ہر وقت حسین رہتی ہے۔ جس کو ہر وقت یہ استحضار ہو کہ میرا اللہ مجھ کو دیکھ رہا ہے اس کا ایمان حسین نہیں ہوگا؟ اس کو تو ہر وقت حضوری حاصل ہوگی، ایمان بالغیب نام کا ایمان بالغیب رہ جائے گا اور اس کا اسلام بھی حسین ہوجائے گا یعنی اس کی نماز اس کی تلاوت اس کا سجدہ سب حسین ہوجائے گا۔

32:03) لہذا شیخ کے پاس اضافہ علم کی نیت سے نہ جاؤ، اس نیت سے جاؤکہ اس کے قلب کی کیفیت احسانی، اللہ تعالیٰ کا تعلق، قرب و حضوری، ہمت تقویٰ و ایمان و یقین کا اعلیٰ مقام ہمارے قلب میں منتقل ہوجائے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries