عشاء مجلس ۱۵ نومبر ۳ ۲۰۲ء :نماز اور دیگر عبادات سیرت نبوی ﷺ کا ایک رخ ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 01:04) حسب معمول تعلیم۔۔ 13:46) حافظ زجاج ولدمصباح خان صاحب کے صاحبزادے کا ذکر کہ ایک عمل مجبوری میں ہوگیا اُس پر کتنا غم زدہ ہوئے پھر نصیحت فرمائی ..فرمایا ماشاء اللہ چار بھائی سب حافظ اور دو عالم بن رہے ہیں ۔۔ا س عمر میں عمل پر حضرت شیخ کا خوشی کا اظہار۔۔ 16:46) ایک ملفوظ بیان ہوا۔۔ سنت کا راستہ ۱۰ ؍ربیع الاول ۱۳۹۴ھ مطابق ۴ ؍اپریل ۱۹۷۴ء جمعرات ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی پُو رب کی طرف نماز پڑھ رہا ہو اور آپ کہیں کہ پُورب(مشرق) کی طرف نماز نہ پڑھو، پچھم (مغرب)کی طرف پڑھو تو کیا اس کو نماز سے روکا جا رہا ہے یا نماز کا صحیح طریقہ بتایا جارہا ہے؟ اسی طرح اہلِ بدعت کو اگر صلوٰۃ و سلام کے مروجہ طریقہ سے منع کر کے وہ طریقہ بتایا جائے جو حضورﷺ نے تعلیم فرمایا ہے تو کہتے ہیں کہ ہم کو صلوٰۃ و سلام سے روکتے ہیں۔ 25:07) التحیات کے بعد بیٹھ کر درود شریف پڑھنے کا طریقہ مولویوں نے نہیں سکھایا بلکہ حضورﷺ نے سکھایا ہے اور حضورﷺ کو اﷲ تعالیٰ نے معراج میں نماز سکھائی، جس میں درود شریف کھڑے ہوکر پڑھنا نہیں سکھایا بلکہ بیٹھ کر پڑھنا سکھایا۔ اگر اﷲ تعالیٰ کو کھڑے ہوکر درود شریف پڑھنا پسند ہوتا تو اﷲ تعالیٰ یہ حکم دیتے کہ قیام کی حالت میں میرے نبی پر درود شریف پڑھو لیکن اﷲ تعالیٰ نے بیٹھ کر درود شریف پڑھنا سکھایا مگر آج کل اگر کھڑے ہوکر درود شریف نہ پڑھو تو گویا بہت بڑا جرم کرلیا، حالانکہ یہ اﷲ اور اس کے رسولﷺ کے ساتھ زیادتی اور گستاخی ہے اور غیر ضروری کو ضروری سمجھنا ہے، جو عظیم گمراہی ہے۔ اسی لئے دوستو!میں یہ کہتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت یہ ہے کہ اﷲ کی مرضی پر چلو اور سرکار ِدو عالمﷺ کی محبت یہ ہے کہ سنت پر چلو۔ 26:48) نماز اور دیگر عبادات:سیرتِ نبویﷺکا ایک رُخ ۱۸ ؍ربیع الاول ۱۳۹۴ھ مطابق ۱۲ ؍اپریل ۱۹۷۴ء بروز جمعہ ارشاد فرمایا کہ نبی کریمﷺکی سیرت کا ایک رُخ آپ کی عبادت اور آپ کا حق تعالیٰ کے ساتھ تعلق ہے۔ آپﷺ کی سیرت کا یہ رُخ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی جان ِپاک کو حق تعالیٰ کے ساتھ کیا تعلق تھا اور آپ کو اللہ کی عبادت میں کیا لطف ملتا تھا۔سرور ِعالمﷺنے اللہ سے ایک نعمت مانگی:سرور ِعالمﷺنے اللہ سے ایک نعمت مانگی: ((فَاِذَا اَقْرَرْتَ اَعْیُنَ اَہْلِ الدُّنْیَا مِنْ دُنْیَاہُمْ فَاَقْرِرْ عَیْنِیْ مِنْ عِبَادَتِکَ)) 27:46) کہ اے اللہ! جب اہلِ دنیا کی آنکھیں آپ ان کی دنیا سے ٹھنڈی کریں تو ہماری آنکھیں آپ اپنی عبادت سے ٹھنڈی کیجئے گا۔ یہ نعمت تو آپﷺ کے قلب ِمبارک کو حاصل تھی ہی،عبادت تو آپﷺکی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ہی لیکن یہ دعا مانگ کر آپ نے اُمت کو مانگنا سکھلادیا اور اس نعمت کی اہمیت بتادی۔ 30:33) اور ایک دوسرے موقع پر نماز کے لئے آپﷺ کے قلب ِمبارک میں جو اہمیت تھی،اس کا اظہار اس طرح فرمایا کہ ایک مرتبہ سرور ِعالمﷺ نے اعلان فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں سب سے زیاد ہ محبوب ہیں: نمبر ایک،نیک بیوی،نمبر دو،خوشبو لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔ بےوقوف لوگ یہ کہتے ہیں کہ سرور ِعالمﷺ نے اتنے نکاح کر لئے،ایسے خیالات رکھنے والوں کو توبہ کرنی چاہیے۔حضورﷺکوچالیس جنتی مردوں کی طاقت دی گئی تھی:ور ایک ایک جنتی کو دنیا کے ایک سو مَردوں کی طاقت دی جائے گی،لہٰذا آپﷺ کو دنیا کے چار ہزار مَردوں کے برابر طاقت دی گئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مشہور سے مشہور پہلوان کبھی آپ سے جیت نہیں سکا،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نعوذباللہ! آپ کو شہید کرنے کے ارادے سے ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر آئے تو حضورﷺ اُٹھ کر تشریف لائے اور ان کا گریبان پکڑ کر ایک ہی جھٹکا مارا تو عمر رضی اللہ جیسا طاقتور بہادر گھٹنوں کے بل گر گیا۔اس لئے نوبیویوں میں بھی آپﷺ کے لئے مجاہدہ تھا۔ اس میں آپ کی شادیوں میں اعتراض کرنے والوں کو دندان شکن جواب موجود ہے،آپ نے تمام شادیاں،اپنی بھی اور اپنی بیٹیوں کی بھی وحیٔ الٰہی سے کیں: 32:14) رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ میں نے نہ اپنا نہ اپنی کسی بیٹی کا اس وقت تک نکاح نہیں کیا، جب تک کہ جبرئیل امین اللہ عزوجل کے پاس سے وحی لے کر میرے پاس نہیں آگئے۔‘‘ تو میں عرض کر رہا تھا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ مجھے دنیا میں تین چیزیں محبوب ہیں،نیک بیوی،خوشبو لیکن میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے۔آپﷺ اپنی ازواج کے پاس ہوتے تھے لیکن جب اذان کی آواز آتی تو ایسے ہوجاتے تھے کہ گویا پہچانتے بھی نہیں: 32:53) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور ِاکرمﷺ ہم سے گفتگو فرماتے ہوتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آتا توہمیں پہچا نتے بھی نہیں تھے اورہم ان کو نہیں پہچانتے تھے ، ہم بھی اللہ کی یاد میں لگ جاتے تھے۔توحضورﷺ نے تین محبوب چیزوں میں سے صرف نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا،کیوں؟ کیونکہ اگر ہم بیوی کو ،اولاد کو،کاروبار کو، موٹر کو،دولت کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنالیں، تو جب یہ چھن جائیں گی تب یہ ٹھنڈک کہاں سے ملے گی؟ 33:39) جب حضورﷺ کی یہ بات سنی کہ دنیامیں مجھے تین چیزیں پسند ہیں،تو حضرت صدیق ِاکبرtنے بھی عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ!مجھے بھی تین چیزیں کائنات میں سب سے زیادہ محبوب ہیں: ((اَلنَّظَرُ اِلَیْکَ وَالْجُلُوْسُ بَیْنَ یَدَیْکَ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلَیْکَ)) 34:48) نمبر ایک:آپ کو ایک نظر دیکھ لینا:میںایک نظر جب آپ کو دیکھ لیتا ہوں تو ساری کائنات کی نعمتوں سے زیادہ مجھے لذیذ تر وہ نظرہے۔پیغمبر کو دیکھنا ایسے ہی ہے کہ گویا اس نے اللہ کو دیکھ لیا،اللہ کانبی اللہ کے جلوؤں کا مرکز ہوتا ہے۔نمبردو: آپ کے سامنے بیٹھے رہنا،نمبر تین:اپنا مال آپ پر خرچ کرنا مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔ یہی ذوق ِصدیق شیخ کے ساتھ منتقل ہو جانا چاہیے، محبت ِشیخ جس کو ملی وہ بڑے بڑے عبادت گذاروں سے بھی آگے بڑھ گیا، عاشقانہ مزاج ،محبت والے مزاج کی اگر تربیت ہو جائےتو وہ بہت جلد اللہ تک پہنچ جاتا ہے۔محبت والا جس کو کسی اللہ والے کی صحیح رہنمائی مل گئی وہ ایک اللہ کہنے سے اس مقام پر پہنچتا ہے، جتنا غیر محبت والے لاکھوں دفعہ کہنے سے بھی نہیں پہنچتے۔شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جس نے اللہ کو پہچان لیا اور عشق ِالٰہی میں سرشار ہوگیا،اس کی دو رکعات غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہیں۔ تو بجائے اس کے کہ ہم تنہائیوں میں لاکھ رکعتیں پڑھیں، اتنی تو پڑھی بھی نہیں جائیں گی ، اس سے بہتر ہے کہ ہم کسی اللہ والے کی خدمت میں تھوڑی دیر بیٹھ جائیں ۔ 35:02) سرور ِعالمﷺکی اُمت پر شفقتیں ارشاد فرمایا کہ ہماری زندگی کو سنوارنے کی رسول اللہﷺکو اتنی فکر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن ِپاک میں اپنے نبی کے اس غم کی اور فکر کی جو آپ کو اپنی امت کے لئے تھی شہادت دی: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اے ہمارے نبی! کیا آپ ان کے غم میں اپنی جان دے دیں گے؟اور ایک مرتبہ آپﷺنماز میں سورۂ مائدہ کی یہ آیت پڑھتے رہے: ﴿ اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۚ وَاِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ اے اللہ! اگر آپ ان کو سزادیں گے تو یہ آپ کے بندے ہیں، اور اگر آپ ان کو معاف فرمادیں تو آپ زبردست ہیں اور حکمت والے ہیں۔(بیان القرآن) یہ آیت بار بار پڑھتے تھےیہاں تک کہ صبح ہوگئی اور آپﷺکی آنکھوں سے آنسو جاری تھے: 36:46) میرے دوستو!ہم نے رحمۃ للعالمینﷺسے درخواست نہیں کی تھی، ہم اس وقت موجود بھی نہیں تھے مگر حضورﷺکا کرم ہمارا بغیر کہا ہوا بھی سن رہا تھا اور آپ بارگاہ ِرب العزت میں ہماری مغفرت کی سفارش فرمارہے تھے؎ جب ہم موجود بھی نہیں تھے،ہمارے پاس تقاضائے سوال اور زبان ِطلب نہیں تھی لیکن آپ کے کرم نے ہماری ان کہی باتوں کو سن لیا۔)ہمارے کلمہ اور ایمان کے لئے آپﷺ نے کتنی بلائیں اور تکلیفیں اُٹھائیں کہ طائف کے بازار میں آپ پر پتھر برسائے گئے اور آپ کے سرِ مبارک سے خون بہہ کر آپ کی نعلین مبارک میں بھر گیا، اور آپ نے فرمایا کہ اللہ کے راستے میں جتنا میں ستایا گیا ہوں، کوئی نبی اتنا نہیں ستایا گیا:اَنَا اَشَدُّ النَّاسِ بَلَاءً 37:03) حضورﷺکی شفقتوں کا حق کیسے ادا ہوگا؟ آپﷺ نے تو ہمارے لئے اتنا غم اُٹھایا، آپ کوہمارا اتنا غم تھا، اب غور یہ کرنا ہے کہ ہمیں رسول اللہﷺکا کتنا غم ہے؟ جو دین آپ کو اتنا پیارا تھا کہ جس کی خاطر آپ نے اپنا قیمتی خون سستا کرنا گوارہ کیا، ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم اس دین پر عمل کر کے آپ کی جان ِپاک کو مسرور کرنے کی کس قدر فکر کر تے ہیں؟ ہمارے اعمال ہر جمعہ کو رسول اللہﷺپر پیش ہوتے ہیں اور دوسری روایات میں ہے کہ ہماری نیکیوں سے آپﷺخوش ہوتے ہیں، اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور گناہوں سے غمگین ہوتے ہیں۔ 42:02) عامل بابا کا دہوکہ دے کر لوگوں کو لوٹنا۔۔ 46:20) پس اگر ہم حضور ِاکرمﷺ کے دین پر نہیں چل رہے ہیں،اگر آپ کی سنتوں کو پامال کر رہے ہیں،اگر اس رسول ِ عربیﷺکی مرضی کے خلاف کام کر رہے ہیں تو خوب سمجھ لو کہ ہم آپ کی محبت کاحق ادا نہیں کر رہے۔ 49:34) ہمارے دل میں اس پیارے رسول کا غم نہیں ہے جس کو ہماری اتنی فکر تھی کہ قرآن ِپاک میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ اے ایمان والو! تمہیں جتنی اپنی جانوں سے محبت ہے، ہمارے نبی کو تمہاری جانوں کے ساتھ اس سے بھی زیادہ محبت ہے: اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ(سورۃ الاحزاب:آیۃ ۶)آج ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لندن میں کیا ہو رہا ہے، اگر وہاں کندھوں تک بال رکھے جا رہے ہیں تو ہم فوراً رکھ لیتے ہیں، اگر وہاں گالوں کی داڑھی رکھ کر ٹھوڑی کے نیچے منڈاتے ہیں تو ہم بھی ایسی شکل اختیار کرنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے بلکہ فخر کرتے ہیں۔ امریکہ اور لندن والوں کی تہذیب و معاشرت کو ہم اس طرح اپنا رہے ہیں کہ گویا ہمارے سارے چہیتے لندن میں ہی ہیں اور مدینہ میں ہمارا کوئی نہیں ہے،مدینہ میں جو نبی آرام فرما ہے،گویا ہمارا ا س سے کوئی رشتہ ہی نہیں ہے۔آہ!آنحضرتﷺکے احسانات کا کیا یہی حق ہے کہ ہم آپ کے مبارک طریقوں کو، آپ کی پسندیدہ تہذیب و معاشرت کو چھوڑ کر آپ کے دشمنوں کی تہذیب کو سینے سے لگائیں۔ 51:25) اپنی اولاد کو دیندار بنانے کی فکر کریں آج ہم عملی اور فکری طور پر بتا رہے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺکی محبت کے تقاضوں پر پورے نہیں اُتر رہے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جہاں سے حضورﷺ کی محبت ملتی ہے،جس جگہ سے آپ کے دین پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے، ہم نے ان صحبتوں اور مجلسوں میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ جج اکبر الٰہ آبادی کہتا ہے ؎ نہیں سیکھا انہوں نے دین رہ کر شیخ کے گھر میں پلے کالج کے چکر میں مرے صاحب کے دفتر میں 52:23) وہ شخص صالح نہیں خود جس کی پیشانی پر تو نماز کا نشان پڑا ہے، ہاتھ میں تسبیح بھی ہے، اشراق و چاشت و تہجد کا بھی اہتمام ہے لیکن اپنے بچوں کی اصلاح اور ان کو دیندار بنانے کی کوئی فکر نہیں ہے۔اگر اس کے دل میں دوزخ، جنت،میدان ِ محشر، قبر کے سوال و جواب کا یقین کامل ہوتا تو اپنے بچوں کو بے دین رکھنا کبھی گوارہ نہیں کر سکتا تھا۔ اگر آج فوج اعلان کر دے کہ جو شخص پانچ وقت مسجد میں نہیں جائے گا، اس کو شُوٹ کر دیا جائے گا،گولی ماردی جائے گی، پھر یہی صاحب خود اپنی نماز اور عبادت اور تسبیح و نوافل پر قناعت نہ کریں گے ،اگر بیٹا مسجد میں جانے سے انکار بھی کرے گا تو یہ اس کو مار مار کر مسجد لے جائیں گے۔کیوں؟ اس لئے کہ فوج کی سزا کا دل کو یقین ہے۔اگر اتنا ہی یقین حق سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے رسول ِعربیﷺکے ارشادات پر پیدا ہوجائے تو کوئی شخص اپنی اولاد کو بے نمازی اور بے دین نہ رہنے دے گا۔لہٰذا جو لوگ اپنی اولاد کو دیندار بنانے کی فکر نہیں رکھتے، خود چاہے صالح نظر آتے ہوں، وہ دراصل صالح نہیں ہیں،ان کے دل کو یقین ِکامل حاصل نہیں ہے۔ 53:51) س لئے اپنی اولاد کی بھی فکر کرو، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے : ﴿ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا ے ایمان والو!اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) آگ سے بچاؤ۔(بیان القرآن)رسول اللہﷺکی محبت کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اپنی اولاد کے دلوں میں آپﷺ کی عظیم ترین شخصیت کی عظمت اس قدر بٹھا دو کہ یورپ اور امریکہ والوں کی تہذیب و معاشرت ان کی نگاہوں میں بے قدر ہوجائے ۔ آج اہلِ یورپ کی سفید کھالوں کو دیکھ کر مسلمان ان کو معزز سمجھ رہا ہے، لیکن سفید تھیلے میں اگر گُو بھرا ہو تو کیا کوئی عقل مند اس سفید تھیلے کی تعریف کر سکتا ہے؟ اور اگر کالے تھیلے میں جواہرات ہوں تو کیا کوئی عاقل اس کالے تھیلے کو حقیر سمجھ سکتا ہے؟ انگریزوں کی سفید کھالوں میں تو کفر کا گُو بھرا ہوا ہے،بغیر ایمان کے ان کا وجود بے قیمت ہے،ایمان نہ لانے کی وجہ سے یہ تو سور اور کتے سے بھی بدتر ہیں: اُولٰىِٕكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ ان کو فرمایا ہے، اور ایک حضرت بلال حبشی t تھے جن کی کھال کالی تھی لیکن اس کالی کھال کے اندر دل میں اللہ و رسول کی محبت کا وہ نور تھا کہ چاند اور سورج کی روشنی بھی اس کے سامنے ماند تھی۔ 56:29) خلوت وہ مطلوب ہے جو مع الحق ہو جو مسلمان تنہائی میں، اکیلے میں ایک آنسو بہا دے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے عرش کا سایہ عطا فرمائیں گے۔تو تنہائی کی قید کیوں ہے؟ میں نےایک بڑے مفتی صاحب سےیہ جملہ سنا ہے کہ تنہائی میں آنسو کا ایک قطرہ رو لینا مجمع میں مٹکا بھر رونے سے افضل ہے،اور یہ انہوں نے اسی حدیث سے بیان کیا ہے کہ جو آدمی تنہائی میں روئے۔ تو حضورﷺ آنسو ؤں کی قیمت کے لئے تنہائی کی قید لگارہے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مجمع میں رونا حرام ہے، اگر آپ مجمع میں بیٹھے ہوں اور بے اختیار رونا آجائے تو رو لیجیے،بس رونے کا اہتمام نہ ہونا چاہیے کہ لائٹ بند کی جائے اور باقاعدہ دور دور سے لوگ آئیں۔ 01:07:53) کچھ خواتین کا ذکر کہ کس طرح دین پھیلا رہی ہیں 01:08:57) حق تعالیٰ کی طرف سےفرشتے قیامت کے دن اعلان فرمائیں گے کہ کہاں ہیں میرے وہ بندے جو تنہائیوں میں اکیلے بیٹھ کر اپنے گناہوں کو یاد کر کے رویا کرتے تھے، آج وہ میرے عرش کے سائے میں آجائیں،اس تنہائی کے رونے کی قدر وہاں ہوگی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو بے حساب بخش دیئے جائیں گے؟ 01:09:09) آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں! جو تنہائیوں میں اپنے گناہوں کو یاد کرکے اللہ سے روتے ہیں اور اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، تو ان کو اللہ تعالیٰ بے حساب بخش دیں گے جب کوئی گنہگار ندامت کے ساتھ اپنے گناہوں پر روتا ہے تو عرش ِالٰہی غلبۂ رحمت سے کانپنے لگتا ہے 01:10:33) عرش ِالٰہی اس طرح کانپتا ہے جیسے بچہ کے رونے پر ماں غلبۂ رحمت سے کانپنے لگتی ہے۔ بندوں کے اس رونے پر حق تعالیٰ کا کرم ان کا ہاتھ پکڑتا ہے اور اپنے دربار ِ خاص تک پہنچادیتا ہے۔لہٰذا اپنے گناہوں پر رب سے استغفار کرتے رہو، حضورﷺ دعا فرماتے ہیں اَللّٰھُمَّ لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی اے اللہ! آپ کو ہم سے ناراض ہوجانے کاحق ہےجب تک کہ ہم آپ کو راضی نہ کرلیں۔ |