فجر  مجلس ۱۶   نومبر ۳ ۲۰۲ء     :نفس پر غالب آنے کا طریقہ          !   

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

05:10) کمیات شرعیہ کتابوں سے ملتی ہیں لیکن کیفیات احسانیہ کے حامل اوراق کتب نہیں ہوسکتے۔ یہ کیفیات احسانیہ سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی چلی آرہی ہیں لہٰذا جب شیخ کے پاس جائو تو اضافۂ علم کی نیت نہ کرو کیفیت احسانیہ کی ترقی کی نیت کرنا چاہیے۔ اعمال کی ترقی اور قبولیت کیفیتِ احسانی پر موقوف ہے، کمیت پر موقوف نہیں جیسے جہاز میں لوہا کم ہوتا ہے اس کا حجم بھی کم ہوتا ہے اور ریل کا لوہا اور حجم زیادہ ہوتا ہے لیکن جہاز چھوٹا ہو چاہے ڈکوٹہ ہی ہو لیکن اپنی اسٹیم کی کیفیات کی وجہ سے یہاں سے چند گھنٹوں میں جدہ پہنچ جائے گا جبکہ ریل کو پہنچنے میں کئی دن لگ جائیں گے۔لہٰذا اپنے بزرگوں کی خدمت میں ہم جائیں تو یہ نیت کریں کہ کیفیت کی اسٹیم لینے جارہے ہیں کیونکہ اگر علم کی نیت کی تو ممکن ہے وہاں ایک علم کی بار بار تکرار ہو۔ اس تکرار سے بعضے نادان گھبراتے ہیں کہ میاں وہاں تو ایک ہی بات کو بار بار بیان کرتے ہیں ایسا سمجھنا سخت نادانی ہے تکرار علم قرآن پاک سے بھی ثابت ہے، ایک ہی آیت کتنی جگہ نازل ہوئی ہے۔ تکرار علم دلیل شفقت ہے۔ باپ اپنے بیٹوں سے بار بار کہتا ہے کہ بیٹا اس گلی سے نہ جانا وہاں غلط قسم کے لوگ رہتے ہیں۔ پھر دو تین دن کے بعد یہی کہتا ہے۔ بار بار ایک ہی آیت کا نزول حق تعالیٰ شانہٗ کی رحمت کی دلیل ہے۔ ایسے ہی شیخ اور مربی پر رحمت کا غلبہ ہوتا ہے تو بار بار کہتا ہے کہ دیکھو نظر بچانا۔

05:10) علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری شرح بخاری میں اس احسانی کیفیت کو بیان فرمایا کہ احسان کیا ہے؟ فرماتے ہیں: ’’اَنْ یَّغْلِبَ عَلَیْہِ مُشَاہَدَۃُ الْحَقِّ بِقَلْبِہٖ حَتّٰی کَأَنَّہٗ یَرَ اﷲَ تَعَالٰی شَانُہٗ بِعَیْنِہٖ‘‘ یعنی مشاہدۂ حق ایسا غالب ہوجائے گا کہ گویا وہ اپنی آنکھوں سے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کیفیت کو مدارس سے، کتابوں سے، تبلیغ سے، تدریس سے کوئی نہیں پاسکتا۔ یہ کیفیت صرف اور صرف اہل اللہ کے سینوں سے سینوں میں منتقل ہوتی ہے۔ کیفیات کے حامل قلوب ہوتے ہیں، قوالب اوراق کتب نہیں ہوتے۔ کتابوں سے یہ چیز نہیں مل سکتی۔

07:27) نفس پر غالب آنے کا طریقہ ارشاد فرمایا کہ میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ طاقت الگ چیز ہے اور فن الگ چیز ہے۔ ایک شخص تین من کا نہایت طاقتور ہے لیکن داؤںپیچ نہیں جانتا تو کشتی میں اس کو کم طاقت والا وہ شخص گرادے گا جو داؤں پیچ جانتا ہے۔ چنانچہ حضرت نے فرمایا کہ میرے استاد جن سے میں نے دس سال لاٹھی چلانا سیکھی اتنے ماہر تھے کہ ان پر ایک دشمن نے تلوار سے حملہ کیا اور یہ قلم سے کچھ لکھ رہے تھے کہ انہوں نے فوراً بجلی کی طرح پیترا بدلا اور قلم اس کی گردن میں ایسا مارا کہ وہ مر گیا۔ تلوار والے کو قلم والے نے مار دیا۔ اسی کو فن کہتے ہیں اور یہ سیکھنا پڑتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ اسی طرح نفس کو دبانے کا فن اللہ والوں سے سیکھا جاتا ہے ورنہ لاکھ طاقت آزمائی کروگے نفس تمہیں دبائے رہے گا۔ اللہ والے گر سکھاتے ہیں کہ نفس دشمن کو کس طرح زیر کیا جاتا ہے۔ اہل اللہ سے جو یہ فن نہیں سیکھتا نفس اس کو ہمیشہ پٹکتا رہتا ہے۔ اور وہ نفس پر کبھی غالب نہیں آسکتا۔

09:13) کسی پر طنز کرنا۔۔۔غصے کا غلام اپنے گھر کو تباہ کر دیتا ہے۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries