مرکزی بیان ۱۶ نومبر ۳ ۲۰۲ء :دل کو محنت کر کے بنا لیں ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 08:02) بیان سے پہلے مولانا محمد کریم صاحب نے حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ یہ کیسی شرافت ہے ، کیسی نجابت، کریں جلوتوں میں شرافت کی باتیں مگر جا تے ہیں خلو توں میں جب اپنی، حسینوں سے کرتے ہیں ذلت کی باتیں زنا کار آنکھوں کا ، فاسق خدا کا، نبی نے ہے ملعون جس کو پکارا خریدے نظر سے جو لعنت خدا کی، وہ کیا کر رہا ہے ولایت کی باتیں نہیں چھو ٹتی لت اگر معصیت کی، تو رکھ دے سر اپنا تُو چوکھٹ پہ رب کی کہ محبوب ہیں بارگاہِ صمد میں، ندامت کے آنسو ، ندامت کی باتیں خود اپنی تمنائوں کا خون کرنا، نہیں کام اے دل ہے یہ ہیجڑوں کا حسینوں سے نظریں بچا کر تڑپنا، یہ ہیں شیرمردوں کی ہمت کی باتیں اے زاہد تو کس وہم میں مبتلا ہے، کہ نامِ طریقت سے شعلہ بپا ہے شریعت کی باتیں محبت سے کرنا، یہی تو فقط ہیں طریقت کی باتیں کہاں کا گنہ معصیت کیسی یارو، تم اندھے ہو کیا اس حقیقت کو جانو نہیں تیس برسوں میں اک لمحہ کو بھی، سنی میں نے حضرت سے غفلت کی باتیں مر ے شیخ کے پاس آ کر تو دیکھو، محبت کے دن ہیں ، محبت کی راتیں ارے وہ تو خود ہیں سراپا محبت، سنو گے بس ان سے محبت کی باتیں محبت کو کوئی اگر جسم ملتا، وہ ہوتا سراپا میرے شیخ ہی کا کہ ہم نے نہیں دیکھی ایسی محبت، نہ ایسی سنی ہیں محبت کی باتیں خدا جن تمنائوں سے بھی ہو ناخوش، دلیری سے ہر اک تمنا کا خوں کر کہ ہیں یہ بظاہر تو حسرت کی باتیں، مگر درحقیقت ہیں عشرؔت کی باتیں 08:02) جناب سید ثروت صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار شروع کیے۔۔۔ بتاؤں کیا کیا سبق دئیے ہیں تیری محبت کے غم نے مجھ کو حضرت والا رحمہ اللہ کو کیسے کیسے ستایا گیا اور حضر ت والا رحمہ اللہ نے کیسے صبر کیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے کیسا انعام دیا۔۔۔آج تھوڑا سا کوئی ستائے یا کچھ کہے دے تو ہماری کیا حالت ہوتی ہے۔۔۔مٹنے سے متعلق نصیحت۔۔۔ 26:58) جب تک اللہ والا بننے کا ارادہ نہ ہو اس وقت تک کوئی اللہ والا نہیں بن سکتا۔۔۔ 27:38) حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کس قدر امتحان آئے سب میں کامیاب ہوگئے۔۔۔ 29:20) حضرت والا رحمہ اللہ کو کس قدر تکلیفیں آئیں۔۔۔ 42:57) کینے کا علاج۔۔۔ 44:05) ایک مولانا کی نصیحت کے جس شعبے میں ہو اسی کے ساتھ لگے رہو لیکن دُعائیں سب کے لیے کرو۔۔۔ 44:44) حضرت والا رحمہ اللہ کے مجاہدات۔۔۔ 47:57) جناب سید ثروت صاحب نے دوبارہ اشعار شروع کیے۔۔۔ بتاؤں کیا کیا سبق دئیے ہیں تیری محبت کے غم نے مجھ کو ترا ہی ممنون ہے غم دل اور آہ و نالہ دل حزیں کا جفائیں سہہ کر دعائیں دینا یہی تھا مجبور دل کا شیوہ حضرت والا رحمہ اللہ اپنی جان کے دشمن کو بھی ھدیہ بھیجتے تھے۔۔۔ 50:50) ترا ہی ممنون ہے غم دل اور آہ و نالہ دل حزیں کا جفائیں سہہ کر دعائیں دینا یہی تھا مجبور دل کا شیوہ زمانہ گذرا اسی طرح سے تمہارے در پر دل حزیں کا جو تیری جانب سے خود ہی آئے پیامِ الفت دل حزیں کو تو کیوں نہ زخمِ جگر سے بہہ کر لہو کر ے رخ تیری زمیں کا نہیں تھی مجھ کو خبر یہ اخترؔ کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا 53:43) بیان سے پہلے اخلاص ِنیت اور باقی کام کیا کرنے چاہیے ۔۔۔ 56:54) معافی مانگنے میں جو مزا ہے وہ کسی اور چیز میں نہیں ہے۔۔۔ 57:34) ظاہری اور باطنی گناہ۔۔۔بڑی مونچھ سے متعلق نصیحت۔۔۔ 01:05:03) حضرت مولانا قاسم صاحب دامت برکاتہم نے کچھ نصیحتیں کیں ان کا ذکر۔۔۔ 01:12:12) اپنے لیے سختی اور دوسروں کے لیے نرمی۔۔ 01:14:03) طلباء اللہ تعالی کے مہمان ہیں ان کا زیادہ خیال رکھو۔۔ 01:17:00) قرآن پاک کے زجدان کی فکر کرنا چاہیے اور دہلوانا بھی چاہیے اور طریقہ کیا ہونا چاہیے۔۔ 01:19:10) نوارنی قاعدہ بھی جو پڑھاتا ہے تو یہ بھی دین ہے شرمانا نہیں چاہیئے اور کسی کوحقیر بھی نہ سمجھیں کہ یہ نورانی قاعدہ پڑھاتا ہے۔۔ 01:27:42) چمن اور چارسدہ اور مری میں ایک جگہ ہے وہاں کے پہلے اسفار کا ذکر کہ کیا کیا معاملات پیش آئے اور کتنے خطرناک راستے تھے الخہ واقعات۔۔ 01:29:24) جب تقوی دل میں آئے گا تو شیطان و نفس کی بدمعاشیاں بھی اللہ تعالی دل سے نکال دیں گے۔۔ 01:32:32) خواتین کو نصیحت کہ اپنے شوہر کے موبائل کی ٹو مت لگاو۔۔ 01:36:12) سمارٹ فون کی ضرورت ہے تو کسطرح استعمال کرنا ہے۔۔ 01:37:57) دل اللہ تعالی کے رہنے کی جگہ ہے۔۔ 01:39:14) دل کی محنت۔۔دل کو بنالیں 01:42:20) قرآن پاک حفظ کرنے کا طریقہ۔۔ 01:45:48) حلاوت ایمانی کی مٹھاس۔۔ 01:47:51) بدنظری پر حلاوت ایمانی کی مٹھاس چھن جاتی ہے لیکن توبہ کی برکت سے واپس آجاتی ہے۔۔ 01:55:26) ارشاد فرما یا کہ محنت کی دو قسمیں ہیں، ایک تو جسم کی محنت ہے اور دوسری محنت دل کی محنت ہے، اور دل چونکہ جسم کا بادشاہ ہے، اس لئے شاہ کی محنت زیادہ قیمتی اور قابل ِقدر ہوتی ہے۔جس طرح ایک گھسیارا(گھاس کاٹنے والا) اپنی کھرپی اور ٹوکری ترک کرکے جنگل میں اللہ کی یاد میں بیٹھ گیا اور اللہ میاں سے کہا کہ اب دنیا نہ کمائوں گا، بس اب جو کچھ اے اللہ!تُو دے گا وہی کھائوں گا،تو اس کے لئے غیب سے چٹنی اور روٹی آنے لگی،دس سال تک وہ اسی طرح اللہ کی یاد میں لگا رہا۔ 01:55:32) تو اللہ تعالیٰ اسی وقت اس کے دل کو ایمان کی مٹھاس عطا فرماتے ہیں، یہ نقد انعام تو اسی وقت عطا ہو جاتا ہے۔ غرض دل کی محنت کا حاصل یہ ہے کہ جب تمہاری خواہش میں اور اللہ کے حکم میں ٹکرائو ہو تو اپنے دل کو توڑ دو لیکن اللہ کے حکم کو نہ توڑو۔اللہ کے لئے جسم کی محنت کر لینا اور سر پر بستر لے کر شہر شہر در بدر پھرنا آسان ہے، اس میں نفس کچھ نہ کچھ خوش ہوتا ہے کہ لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ یہ اللہ کے دیوانے اللہ کے لئے پھر رہے ہیں۔ جہاں جاتے ہو لوگ عزت بھی کرتے ہیں لیکن دل کی محنت ایسی ہے کہ جسے کوئی آدمی دیکھنے والا نہیں، جب نگاہ بچانے کا وقت آتا ہے اور کوئی نگاہ بچالیتا ہے تو اس وقت کسی شخص سے کوئی تعریف نہیں ملتی کہ مولانا واہ! آپ بڑے مجاہد ہیں، یا دل میں ریا آنے لگی تو آپ نے اللہ سے استغفار کر کے نیت درست کر لی یا کسی مسلمان کی تحقیر دل میں پیدا ہونے لگی تو آپ نے وہاں بھی بریک لگایا، اس وقت کوئی آپ کی تعریف کرنے والا نہیں ہوگا۔دل کی محنتوں کو تو صرف دل ہی جانتا ہے اور اللہ باخبر ہوتا ہے، کسی اور کو خبر بھی نہیں ہوتی۔ داڑھی رکھ لینا بھی آسان ہے، نماز روزہ کر لینا بھی آسان ہے، چلّے لگالینا بھی آسان ہے لیکن دل کے امراض سے نجات پاجانا اور نفس کی اصلاح آسان کا م نہیں ہے،اس کے لئے کسی مصلح و مربی کی ضرورت پڑتی ہے کہ جس کو اپنے امراض ِباطنی کی اطلاع کرتارہے اور اس کی تجاویز کی اتباع کرتا رہے۔ محض اپنی محنتوں اور چلّوں سے اصلاح ِکامل نہیں ہوتی، چلّوں کی محنتوں کو تو شیطان ذراسی دیر میں خاک میں ملا دیتا ہے، مثلاً آپ نے تین چلّے لگائے،پورے چار مہینے خلوت اور جلوت میں دین کی محنتیں کیں، اب جب گھر واپس ہوئے تو شیطان نے دل کی گہرائیوں میں تکبر کا چھوٹا سا بیج ڈال دیا کہ دین کے لئے محنت کرنے والے اور در بدر پھرنے والے صرف تم ہی ہو، یہ خانقاہوں والے، مدرسوں والے، مسجدوں میں نماز پڑھانے والے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں، یہ سب بیکار لوگ ہیں، یہ دین کے لئے کوئی قربانی نہیں دیتے، قربانی تو ہم دیتے ہیں، بیوی بچوں کو چھوڑ کر، گھر کا آرام چھوڑ کر دین کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ غرض اگر اپنی بڑائی اور دوسرے مسلمانوں کی تحقیر دل کے کسی گوشہ میں پیدا ہوگئی تو سمجھ لو کہ سارے چلّے بیکار ہوگئے، کیونکہ حضور ِاکرمﷺفرماتے ہیں کہ جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہوگا، اس کو جنت کی خوشبو بھی نہ پہنچے گی: 01:56:14) (( لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ کَانَ فِيْ قَلْبِهٖ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ مِّنْ کِبْرٍ ۔ رواہ مسلم)) دس بیس مسلمان نہیں اگر کسی ایک مسلمان کی تحقیر بھی دل میں موجود ہے تو خَرْدَلٍ مِّنْ کِبْرٍکا تحقق ہوگیا، ایسے شخص پر جنت حرام ہے۔ ایٹم بم چھوٹا سا ہوتا ہے لیکن پہاڑوں کو اُڑا دیتا ہے، پس اگر رائی کے برابر بھی دل میں تکبر ہے تو یہ ایسا ایٹم بم ہے جو دین کی ساری عمارت کو اُڑا دیتا ہے۔ یہ دل کی بیماریاں ہیں، جن کی آدمی کو بعض دفعہ خود خبر نہیں ہوتی لیکن دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوتی ہیں، پس ان ہی کے علاج کے لئے کسی مربی، مصلح یعنی پیر کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ مصلح تمہارے نفس کی چالوں سے تمہیں آگاہ کرے گا،اور عبادت سے جو نور پیدا ہوتا ہے اُس کی بدولت وہ محفوظ رہے گا، ورنہ چلّے اور دوسری عبادات سے جو نور پیدا ہوتا ہے وہ نفس کی شرارتوں سے ضائع ہوجاتا ہے 01:59:11) مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں (اے عزیز!پہلے چوہے کی شرارت سے حفاظت کا انتظام کر، اس کے بعد گندم جمع کرنے کی کوشش کر)۔پوری اُمت کا اس بات پر اجماع ہے کہ کسی اللہ والے کی صحبت اُٹھائے بغیر اور ان سے اپنے دل کی بیماریوں کا علاج کرائے بغیر کوئی ولی اللہ نہیں ہوا۔ صدیق ِاکبر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کون چلّے لگا سکتا ہے؟انہوں نے حضورﷺپر اپنا جان و مال سب قربان کردیا، وہ تو مربی کے محتاج ہوں، اصلاح کے محتاج ہوں اور ہم اور آپ کو مربی کی اور اصلاح ِنفس کی ضرورت نہ ہو۔ایک بار حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایک غلام کو لعنت کر رہے تھے،اتنے میں حضورﷺتشریف لے آئے اور فرمایا: کیا تم صدیق بھی ہو اور لعنت کرنے والے بھی ہو؟ صدیق کے لئے زیبا نہیںہے کہ وہ لعنت کرے،اس پر حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ نادم ہوئے اور کئی غلام آزاد کئے اور عرض کیا کہ آئندہ نہیں کروں گا۔ تو جب صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ محتاج ِاصلاح ہوئے تو ہماری اور آپ کی کیا حقیقت ہے؟ 02:00:40) ہم اور آپ اصلاح سے بے نیاز کیسے ہوسکتے ہیں؟ تزکیۂ نفس کے بعد ہی علم، علم ہوتا ہے، تبلیغ، تبلیغ ہوتی ہے۔ شیشی میں عطر رکھنے کے لئے پہلے شیشی کو صاف کیا جاتا ہے، پھر عطر رکھا جاتا ہے، اگر گندی شیشی میں عطر رکھ دو گے تو جو سونگھے گا وہ عطر ہی کو بُرا کہنے لگے گا کہ یہ کیسا بدبو دار عطر ہے۔ اسی طرح تزکیۂ نفس کے بغیر ہمارے اسلام ہی سے لوگ متنفر ہو جائیں گے، لہٰذا پہلے دل کی شیشی صاف کرا لو پھر لوگوں کو دعوت دو، کیونکہ اب دل کی شیشی صاف ہوگئی، اب تمہارے اسلام کی خوشبو دوسروں کو بھی مست کر دے گی، ورنہ دل کی شیشی بیماریوں سے گندی رہی تو لوگ کہیں گے اس شخص کا کیسا اسلام ہے کہ نماز پڑھتا ہے، تبلیغ کرتا ہے اور دھوکہ بھی دے دیتا ہے، رشوت بھی لے لیتا ہے۔ 02:02:55) غرض تزکیہ کے بغیر چارہ نہیں ہے، قرآن کا انداز ِبیان اور ترتیب دیکھ لو، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:يَتْلُوْا عَلَيْھِمْ اٰيٰتِہٖ(سورۃ آل عمران:آیت ۱۶۴) ہمارا نبی ان کو ہماری آیات سناتا ہے: وَيُزَكِّيْھِمْاور ان کا تزکیہ کرتا ہے، پھر تزکیہ کے بعد فرمایا: وَيُعَلِّمُھُمُ الْكِتٰبَ اور وہ قرآن ِپاک کی تعلیم دیتا ہے۔پہلے شیشی کو صاف کیا، پھر علم کا عطر رکھا۔اس ترتیب سے معلوم ہوا کہ تزکیہ علم پر مقدم ہے، پہلے تزکیہ کرا لو، پھر علم حاصل کرو اور تزکیہ فعلِ متعدی ہے جس میں فاعل کی ضرورت ہوتی ہے، معلوم ہوا کہ کوئی شخص خود اپنا تزکیہ نہیں کرسکتا بلکہ تزکیہ کے لئے ضروری ہے کہ ایک مزکِّی ہو اور دوسرا مزکّٰی ہو، اس سے مزکی و مصلح کی ضرورت ثابت ہوگئی۔ 02:05:11) تزکیہ فعل لازم ہے حضرت تھانوی رحمہ اللہ علمی نقطہ۔۔۔ 02:12:18) صوفیاء اپنے کو علماء سے مستغنی نہ سمجھیں اور علماء بھی تزکیہ سے غافل نہ ہو اپنی اصلاح بھی کرائیں علم دین اللہ کا نور ہے جو ناپاک دلوں میں نہیں آتا۔۔ملفوظ حضرت مولانا مسلم خان سیواتی صاحب دامت برکاتہم۔۔۔ 02:20:19) کرکٹ کے نقصانات آ ج کیا کیا ہورہے ہیں؟۔ 02:20:43) علم دین ایک نور ہے جو گناہگاروں کے دلوں میں نہیں آتا۔۔ 02:21:57) حکمت کی پانچ تفسیر۔۔ |