عشاء مجلس ۲۰    نومبر ۳ ۲۰۲ء     :سیرت النبی ﷺ پر مضامین !  

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:12) حسب معمول تعلیم۔۔

06:12) اشعار۔۔

10:56) اصلاح کا طریقہ کیا ہے؟

15:10) سیرت پر بیان وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ۔۔۔ وَقَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَللّٰہُمَّ اَجْعَلْ حُبَّکَ اَحَبَّ الْاَشْیَائِ اِلَیَّ۔ میرے دوستو اور بزرگو! میں نے اس وقت جس آیتِ مبارکہ کا اور جس حدیث پاک کا انتخاب کیا ہے اس کا موضوع صرف یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی محبت بندوں کے ذمہ کس قدر معین ہے یعنی کتنی محبت اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتے ہیں اور کس قدر محبت ہو تو انسان اللہ کا پورا فرمانبردار ہوسکتا ہے۔

دنیا کی محبت جائز، ماں باپ کی بال بچوں کی، کاروبار کی، مال و دولت کی، ان چیزوں کی محبت شدید بھی جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہماری فطرت بیان فرمائی ہے: ’’اِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں کسی جنگ کی فتح کا مالِ غنیمت جب مسجد نبوی میں آیا اور مسجد نبوی میں مال کا ڈھیر لگ گیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ یااللہ! یہ مالِ غنیمت دیکھ کر میرا دل خوش ہوا اور محبت اس کی ہے مگر آپ اپنی محبت کو دنیا کی تمام محبتوں پر غالب فرمادیجئے تو معلوم ہوا کہ محبت شدید بھی جائز ہے اور محبت حبیب بھی جائز ہے یعنی اس کو حبیب بنالینا بھی جائز ہے۔ حبیب پر یاد آیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو حبیب سے خطاب فرمایا۔

18:46) ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’مَتٰی اَلْقٰی اَحْبَابِیْ۔‘‘ میں اپنے حبیبوں سے کب ملوں گا۔ احباب اور احبّاء جمع ہے حبیب کی، جیسے اطباء جمع ہے طبیہ کی تو صحابہ نے پوچھا: ’’اَوَلَیْسَ نَحْنُ اَحِبَّائُ کَ۔‘‘ کیا ہم لوگ آپ کے احباء نہیں ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اَنْتُمْ اَصْحَابِیْ۔‘‘ تم تو میرے صحابہ ہو۔ وَلٰکِنْ اَحْبَابِیْ قَوْمٌ لَمْ یَرَوْنِیْ وَاٰمَنُوْا بِیْ اَنَا اِلَیْہِمْ بِالْاَشْواقِ۔‘‘ (کنزل العمال: ج ۱۴، ص ۵۱-۵۲) لیکن میرے احباب میرے احباء وہ لوگ ہیں جنہو ںنے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لائے، میں ان کا مشتاق ہوں۔ یعنی ہم لوگ ان میں شامل ہیں جو آپ کے بعد ایمان لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔

23:29) للہ تعالیٰ اس نبی اُمی صلی اللہ علیہ وسلم پر بے شمار رحمتیں اور سلام نازل فرمائے کہ جنہوں نے ہم کو احبّاء سے خطاب فرمایا اور ہمارے لیے اشتیاق ظاہر فرمایا۔ تو حبیب کا اطلاق یہاں مخلوق کے لیے ہے لیکن احب اور اشد محبت اللہ تعالیٰ کی ہونی چاہئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی محبت احب اور اشد نہیں ہے تو پھر بندہ پورا فرمانبردار نہیں ہوسکتا۔ دل سے بھی زیادہ، جان سے بھی زیادہ، اہل و عیال سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ ہمیں پیارے ہونے چاہئیں۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس محبت کو اس عنوان سے طلب فرمایا ہے:

23:36) {اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ حُبََّ اَحَبَّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ وَاَہْلِیْ وَمِنَ الْمَائِ الْبَارِدِ} یااللہ! اپنی محبت میرے اندر میری جان سے زیادہ عطا فرمادیں اور اہل و عیال سے بھی زیادہ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ یعنی پیاسے کو جتنا ٹھنڈا پانی عزیز ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ اے اللہ! آپ مجھے محبوب ہوں۔ تو معلوم ہوا یہ خطوط اور حدود ہیں۔ محبت کے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث شریف کے اس آخری جز کا اپنے ایک شعر میں گویا ترجمہ کردیا ہے۔

24:50) ورفعنالک ذکرک اﷲتعالیٰ نے فرمایا کہ اے رسول صلی اﷲعلیہ وسلم ہم نے آپ کا نام بلند کردیا۔ بلندکردیں گے نہیں فرمایابلکہ فرمایا کہ بلندکردیا۔وعدہ نہیں ہے کہ آئندہ بلندکردیں گے، اس کا انتظار کیجئے۔ انتظار کی تکلیف ہم آپ کو نہیں دینا چاہتے، اپنے محبوب کو کوئی تکلیف دیتاہے؟ اس لئے ورفعنالک ذکرک ، ازل سے ہی ہم نے آپ کا نام بلند کردیا۔ صحابہ نے پوچھا کہ اس کی تفسیر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اﷲتعالیٰ نے فرمایا، جس نے قرآن پاک نازل کیا اسی نے اس کی تفسیر بیان کی ہے اور تفسیر درمنثور میں یہ ہے کہ ورفعنالک ذکرک کی تفسیر اﷲتعالیٰ نے حدیث قدسی میں فرمائی کہ اِذَاذُکِرْتُ ذُکِرْتَ مَعِیْ جب میرا ذکر کیا جائے گاتو تیراذکر بھی کیا جائے گا،میرے نام کے ساتھ تیرا نام بھی لیاجائے گا۔ اس مثال سے معلوم ہواکہ ملک کی عظمت سے سفیر کی عظمت ہوتی ہے۔ رسول، اﷲ کاسفیر ہوتاہے۔

پس جب اﷲعظیم الشان ہے توثابت ہواکہ اﷲکارسول بھی عظیم الشان ہے اور یہ بات سوفیصد یقینی ہے کہ اگرکوئی عمر بھرلاالہ الااﷲپڑھتارہے اور محمدرسول اﷲنہ کہے تویہاں علماء بیٹھے ہوئے ہیں وہ بتائیں کہ اس کا ٹھکانہ کہاں ہوگا؟ (مجلس میں موجودعلماء نے عرض کیا کہ اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جامع) کیونکہ لاالہ الااﷲ تو اس نے مانا لیکن محمدرسول اﷲتسلیم نہیں کیاجبکہ اﷲتعالیٰ ہی کا حکم ہے توقروہ کہ میرے رسول کی تم عزت کرو اور اس نے اﷲ کے حکم کا انکار کیا اس لئے منکرِ رسالت کافر ہے۔ عظمتِ رسالت کا انکار اﷲکا انکار ہے۔

29:06) مولاناشاہ محمداحمدصاحب پرتابگڈھی رحمۃاﷲعلیہ فرماتے ہیں ؎ اﷲ کا انکار ہے انکارِ محمد اقرار ہے اﷲ کا اقرارِ محمد اسی لئے حدیث قدسی میں اﷲنے فرمایا کہ اذاذکرت ذکرت معی جب میرا نام لیاجائے گا تو اے محمدصلی اﷲعلیہ وسلم تیرا نام بھی لیاجائے گا۔ جب کوئی موذن اشھدان لا الہ الااﷲ کہے گا تو اشھد ان محمدارسول اﷲ بھی کہے گا۔ ایک شاعر کہتاہے ؎ اب مرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ

32:04) طلباء کو بزم سے متعلق نصیحت۔۔

42:21) طلباء کو نصیحت بڑے بال رکھنے سے متعلق۔۔

46:36) مشورہ لینے کے بارے میں

50:02) اب مرا نام بھی آئے گا ترے نام کے ساتھ یہ عاشقوں کی عزت ہے، عاشقوں کو اﷲ نے یہ درجہ دیاہے، اﷲاپنے عاشقوں کو عزت دیتاہے اور رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وسلم جیسا اﷲکا عاشق کوئی نہیں ہوسکتا۔حضورصلی اﷲعلیہ وسلم دنیا میں اﷲ کے سب سے بڑے عاشق ہیں آپ جیسا عاشق ہونا ناممکن ہے آپ جیسا اﷲکا عاشق نہ کوئی ہوا، نہ کوئی ہے اور نہ قیامت تک ہوگا۔ اسی لئے آپ کو یہ اعزاز ملا کہ اذاذکرت ذکرت معی جب میرانام لیاجائے گا توتیرانام بھی لیاجائے گا۔ اگرمیرا نام لیاجائے اور تیرانام نہ لیاجائے توایسی زبان سے مجھے اپنا نام بھی قبول نہیں ہوگا یعنی جو میرے نام کے ساتھ تیرا نام نہ لے اس کی زبان سے میں اپنا نام بھی قبول نہیں کروں گا، تیرے انکارکو میں اپنا انکار قرار دوں گا۔

58:21) سنت پر عمل کی تاکید۔۔

01:01:56) لاالہ الااﷲ تو اس نے مانا لیکن محمدرسول اﷲتسلیم نہیں کیاجبکہ اﷲتعالیٰ ہی کا حکم ہے توقروہ کہ میرے رسول کی تم عزت کرو اور اس نے اﷲ کے حکم کا انکار کیا اس لئے منکرِ رسالت کافر ہے۔ عظمتِ رسالت کا انکار اﷲکا انکار ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries