عشاء مجلس    ۳   جنوری  ۴ ۲۰۲ء     :والدین،میاں بیوی  اور رشتہ داروں کے حقوق   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲ کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:34) حسبِ معمول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب اپنے ایمان کی حفاظت کیجئیے سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:35) کچھ لوگوں کو سوالا ت کرنے کا مرض ہوتا ہے اس طرح کے دو واقعات۔۔۔

06:05) والدین اور میاں بیوی کے حقوق سے متعلق کچھ نصیحت۔۔۔

09:52) غیر اختیاری کاموں کے پیچھے مت پڑیں جو اختیار میں ہے وہ کریں۔۔۔

11:22) حرام عشق سے بچیں اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کی فکر کریں اور توبہ کرنے میں دیر مت کریں۔۔۔

16:52) دُنیا کس چیز کا نام ہے؟۔۔۔

19:16) بدنظری کرنے والے پر سب سے پہلے عذاب عقل پر آتا ہے۔۔۔

23:26) قبر میں خاک چھانی مگر کیا ملی نہ تو مجنوں ملا نہ تو لیلیٰ ملی

25:56) اکڑ انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔۔۔

29:13) کتنے بھی مصائب آئیں پریشان نہیں ہونا چاہیے ۔۔۔ بلائیں تیر اور فلک کماں ہے چلانے والا شہنشہاں ہے اسی کے زیر قدم اماں ہے بس اور کوئی مفر نہیں ہے

34:19) خود ہی فیصلہ کر کہ شیخ سے مشورہ کرتے ہیں اب کیا فائدا شیخ کے ہوتے ہوئے بھی بے شیخ ہیں۔۔۔

39:20) اللہ تعالیٰ کو راضی کرنےسے بڑھ کر خدا کی قسم کوئی چیز نہیں۔۔۔

41:48) توبہ سے متعلق حضرت تھانوی رحمہ اللہ کے ملفوظات: اِرشاد فرمایا کہ توبہ کی مثال مرہم کی سی ہے اور گناہ کی مثال آگ کی سی ہے۔۔۔

46:35) حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا کرنے سے متعلق ایک خاص مراقبہ ۔۔۔

49:16) کامل ایمان والا کون ہے؟ حدیث شریف میں ہے کہ سب سے کامل ایمان اُس شخص کا ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں جبکہ ہمارے ذہنوں میں یہ ہے کہ جو زیادہ عبادت کرتا ہے، زیادہ حج اور عمرہ کرتا ہے، زیادہ تسبیح وظیفے پڑھتا ہے اس کا ایمان کامل ہے مگر سرورِ عالم صلی اﷲعلیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے کہ جس کے اخلاق اچھے ہوتے ہیں اس کا ایمان سب سے زیادہ اعلیٰ اوراکمل ہوتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق نہ ہونے کی وجہ سے کم گھرانے ہیں جو سکون سے رہتے ہیں ورنہ کہیں شوہر کی طرف سے زیادتی ہے تو کہیں بیگم کی طرف سے زیادتی ہے جو شوہر کو بے غم نہیں رکھتی، اس کا نام تو بیگم ہے مگراپنے شوہر کو بے غم رکھنا نہیں جانتی۔ اس لیے آج آپ جو کچھ سنیں وہ اپنے بیٹوں، بیٹیوں اور بیویوں کو بھی سنائیں۔

50:41) عورتوں پر شوہر کے حقوق حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اﷲعلیہ نے بہشتی زیور حصہ نمبر چار میں ’’شوہر کے ساتھ نباہ کرنے کا طریقہ‘‘ میں سرورِ عالم صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم کے ارشادات تحریر فرمائے ہیں کہ عورتوں کو شوہر کے ساتھ کس طرح رہنا چاہیے۔ اگر بیویاں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان ارشادات پر عمل کریں تو شوہر ان پر مہربان ہوجائے گا۔ ان ارشادات کو بار بار اپنے گھروں میں بھی سنائیے، ان شاء اﷲتعالیٰ ان کی برکت سے میاں بیوی میں نہایت ہی محبت اور اُلفت کا تعلق قائم ہوجائے گا اور احقر کے تین مواعظ ہیں ’’خوشگوار ازدواجی زندگی‘‘، ’’حقوق النساء‘‘ اور ’’حقوق الرجال‘‘ ان کو بھی پڑھئے لہٰذا اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بیوی آپ سے محبت کرے، اکرام سے رہے، شرارت نہ کرے تو ’’خوشگوار ازدواجی زندگی اور حقوق النساء‘‘ پڑھئے اور اس کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آئیے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ میری بیٹی اپنے شوہر کے حقوق صحیح ادا کرے تو اس کو ’’حقوق الرجال‘‘ پڑھائیے۔

51:45) والدین کے احسانات کو کبھی مت بُھولیں۔۔۔

01:03:33) والدین کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا۔۔۔ایک واقعہ۔۔۔

01:06:28) شوہر اور بیوی میں مساوات کا مسئلہ کم عقلی کی دلیل ہے آج کل عورتوں میں مساوات کا مسئلہ چل رہا ہے کہ ہم شوہر سے کم نہیں ہیں، آپ بتائیے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا تو یہ ارشاد ہے کہ خدا کے سوا اگر کسی اور کو سجدہ کرنے کے لیے کہتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، یہ مساوات ہے؟ اگر مرد اپنی بیوی کو حکم دے کہ ایک پہاڑ کے پتھر کو اٹھا کر دوسرے پہاڑ پر لے جائے اور دوسرے پہاڑ کے پتھر کو تیسرے پہاڑ پر لے جائے تو اس کو یہی کرنا چاہیے۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے اچھی بیوی وہ ہے کہ جب اس کا میاں اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور جب کچھ کہے تو اس کا کہا مان لے اور اپنے جان اور مال میں شوہر کے خلاف ایسا کوئی کام نہ کرے جس سے اس کو ناگواری ہو، بیوی کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھنا چاہیے اور نفل نماز بھی نہ پڑھے، ہوسکتا ہے اس کو کوئی ضرورت پیش آجائے۔ اب بتائیں یہ مساوات ہے؟ بیوی شوہر کے برابر ہے؟ یہ تکبر ہے اور اس کی وجہ کم عقلی ہے۔ بہشتی زیور میں یہ بھی لکھا ہے کہ کوئی کام شوہر کے مزاج کے خلاف نہ کرو، شوہر اگر دن کو رات بتلا دے توتم دن کو رات کہنے لگو، اس کا مقصد کیا ہے؟ اس کا مقصد بہشتی زیور کے حاشیہ میں لکھا ہو ا ہے یعنی اس کی انتہائی فرماں برداری کرو۔

01:08:50) سسرال سے نباہ کرنے کا طریقہ حضرت حکیم الامت لکھتے ہیں کہ جب تک ساس سسر زندہ ہیں بہو کو چاہیے کہ اپنے ساس سسر کی خدمت اور تابعداری کو فرض سمجھے اور اس میں اپنی عزت سمجھے، ساس نندوں سے الگ ہوکر رہنے کی ہرگز فکر نہ کرے کہ ساس نندوں سے بگاڑ ہونے کی یہی جڑہے۔ خود سوچو کہ بچے کو ماں باپ نے پال پوس کر جوان کیا، اب جہاں میاں جوان ہوئے بیوی صاحبہ آتے ہی بوڑھے ماں باپ سے اس کو الگ کرنے کی سازش شروع کردیتی ہے حالانکہ ماں باپ اس امید پر شادی کرتے ہیں کہ ہم بوڑھے ہوگئے ہیں، بہو آئے گی تو ہمیں ایک گلاس پانی دے گی، کچھ پکا کر کھلائے گی لیکن وہاں معاملہ اُلٹا ہوتا ہے، جب بہو آئی تو ڈولے سے اُترتے ہی یہ فکر کرنے لگی کہ میاں آج ہی ماں باپ کو چھوڑ دے، پھر جب ماں کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرے بیٹے کو مجھ سے چھڑا رہی ہے تو فساد شروع ہو جاتا ہے اور پھر بہو شکایت کرتی ہے کہ ساس بڑی ظالم ہے۔ ذرا خود بھی تو سوچو کہ تمہاری بھی کوئی زیادتی ہے یا نہیں؟ جب تمہارا بیٹا جوان ہوگا، تمہاری بہو آئے گی اور تمہارے بیٹے کو تمہارا مخالف بنائے گی تب پتہ چلے گا لہٰذا آج اپنے بڑوں کا ادب کرلو کل ہماری بیویاں بھی ساس بنیں گی یا نہیں پھر جتنا ادب اپنے ساس سسر کا کرے گی اتنا ہی ادب اﷲ تعالیٰ ان کی بہو سے کرائے گا۔ یہ بات حدیث سے ثابت ہے اور راوی بھی حضرت انس رضی اﷲتعالیٰ عنہٗ ہیں کہ جو اپنے بڑے بوڑھوں کی عزت کرے گا اﷲتعالیٰ اس کے چھوٹوں سے اس کو عزت دلائیں گے، جو جوانی میں اپنے بڑوں کی عزت کرتا ہے جب یہ جوان بڈھا ہوگا اور اس کے چھوٹے جوان ہوں گے تو وہ اس کا ادب کریں گے کیونکہ اس نے اپنے بڑوں کا ادب کیا تھا۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries