عشاء  مجلس    ۱۰ جنوری  ۴ ۲۰۲ء     :دنیا کا سارا عیش ایک دھوکہ ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲ کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:20) حسبِ معمول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب اپنے ایمان کی حفاظت کیجیے سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:21) حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایاکہ جس کی قسمت خراب ہوتی ہے وہ حق با ت پر اعتراض کرتا ہے۔۔۔

10:44) شیخ کی ضرورت کیوں ہے؟۔۔۔شیخ کس با ت سے خوش ہوتا ہے؟۔۔۔

13:55) دُنیا کی حقیقت۔۔۔

21:25) علماء اور طلباء کو خاص نصیحتیں۔۔۔اپنے اکابرین کے نقشے قدم پر چلیں۔۔۔

29:14) تقویٰ کے انعامات۔۔۔

32:08) الہامات ربّانی: ہمارے دلوں میں دنیا کی قیمت زیادہ ہونے کی مثالیں اسی طرح اگر آج ہمارے دل میں بھی اللہ کی بڑائی اُتر جائے جیسے حضرات ِصحابہyکے دلوں میں اُتر گئی تھی تو ہمیں بھی اللہ کے لئے اپنی جانیں سستی نظر آئیں۔ لیکن آج ہم زبانوں سے تو کہتے ہیں اللہ اکبر! اللہ سب سے بڑا ہے مگر ہمارا عمل گواہی دیتا ہے کہ ہمارے دلوں میں ہماری دکانیں اللہ سے بڑی ہیں، ہمارا مال اللہ سے بڑا ہے،بیوی بچے اللہ سے بڑے ہیں کیونکہ ان چیزوں کا جب اللہ کے حکم سے مقابلہ ہوتا ہے تو ہم ان کی خاطر اللہ کے حکم کو توڑ دیتے ہیں۔مثلاً نمبر۱:دکان پر گاہک کھڑے ہیں اور اذان ہوچکی ہے، جماعت تیار ہے،اب حساب لگاتے ہیں کہ اگر مسجد جائوں گا تو اس وقت پانچ سو روپے کا نقصان ہوجائے گا لہٰذا جماعت چھوڑدی کہ بعد میں جب گاہکوں سے فارغ ہوجائوں گا تو تنہا نماز پڑھ لوں گا۔ تو ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کر دیا کہ ہمارے نزدیک مال خدا سے بڑا ہے۔ نمبر۲:ایسے ہی بیوی سے باتوں میں مزہ آرہا ہے،اتنے میں اذان ہوگئی ،نفس کہتا ہے کہ بیوی کے جو موتی جیسے دانت چمک رہے ہیں اس کو چھوڑ کر مسجد کیسے جائوں؟ اُس وقت یہ بھی خیال نہیں آتا کہ آج جو دانت موتی کی طرح چمک رہے ہیں، ایک دن قبر میں منہ سے باہر پڑے ہوں گے۔نمبر۳: بچہ نے ضد کی کہ تصویر والا کھلونا خریدوں گا، خیال آیا کہ اگر تصویر والا کھلونا اس کو دیا تو اللہ ناراض ہوجائے گا لیکن اگر نہ خریدا تو بچہ کا دل ٹوٹ جائے گا لہٰذا بچہ کا دل نہ توڑ سکے، اللہ کا حکم اور اللہ سے محبت کا رشتہ توڑ دیا اور عملاً بتا دیا کہ ہمارا بچہ خدا سے بڑا ہے۔

34:29) خوش نصیب وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی بڑائی صرف ہماری زبانوں پر ہے ،حلق سے نیچے نہیں اُتری، دل میں عظمت ِالٰہیہ کا رسوخ نہیں ہوا۔ اللہ کی عظمت جب دل میں اُتر جائے گی تو جان دینے کے لئے تیار ہوجائو گے۔ آج کہتے ہیں کہ صاحب! حرام مال چھوڑنا بڑا مشکل کام ہے۔ ایک دوست جو حرام آمدنی میں مبتلا تھے،ان سے میں نے کہا کہ بھئی! کب تک حرام کھائو گے، ایک دن مرنا ہے،اگر ایک ہزار روپے حرام کے کما رہے ہو تو حلال ملازمت پانچ سو کی کر لو،یہ پانچ سو حرام کے ایک ہزار سے بہتر ہے، تو کہتے ہیں کہ بات تو آپ کی ٹھیک ہے مگر مکھن کی ٹکیہ اور انڈے پراٹھے کے بغیر تو میرا لقمہ حلق سے ہی نہیں اُترتا۔آہ!سُوکھا لقمہ تو حلق سے نہیں اُترتا لیکن دوزخ کے انگارے اُتارنا ان کو آسان ہے!

35:41) ہمارا وجود دو(۲) فنا کے درمیان ہے ۲۴ ؍محرم الحرام ۱۳۹۴؁ھ مطابق ۱۷ ؍فروری ۱۹۷۴؁ء بروز اتوار آزاد صاحب، سردار صاحب،رفاقت صاحب،قاضی خدا بخش صاحب،حافظ عبدالمجید صاحب، حافظ جہانگیر صاحب، محمد میاں وغیرہ حاضرِ خدمت تھے ارشاد فرمایا کہ دو فنا کے درمیان ہم موجود ہیں،پہلے نہیں تھے، اب ہیں اور ایک دن ایسا ہوگا کہ پھر نہیں ہوں گے۔یعنی دو منفی کے درمیان ایک مثبت ہے، دو عدم کے درمیان ہمارا وجود ہے۔ پس عقل مند وہی ہے جو اس زندگی سے آخرت کے کام لے لے۔ قبل اس کے کہ ہم پر عدم طاری ہو، ہم ایسے اعمال کرلیں جو اللہ کے خزانہ میں باقی ہوجاویں۔ہمارے پاس جو کچھ ہے وہ فنا ہونے والا ہے اور جو چیز اللہ تعالیٰ کے پاس جمع ہوجاتی ہےوہ باقی ہوجاتی ہے: مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰہِ بَاقٍ( سورۃ النحل: آیۃ ۹۶)۔

48:10) حدیث شریف میں ہے کہ ایک بکری ذبح کی گئی: (( اِنَّهُمْ ذَبَحُوْا شَاةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَقِيَ مِنْهَا قَالَتْ مَا بَقِيَ مِنْهَا اِلَّا كَتِفُهَا قَالَ بَقِيَ كُلُّهَا غَيْرَ كَتِفِهَا۔ رواہ الترمذی)) (مشکٰوۃ المصابیح:(قدیمی) ؛کتاب الزکٰوۃ؛باب فضل الصدقۃ ؛ ص ۱۶۹) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ گھر کے آدمیوں نے یا صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ نے ایک بکری ذبح کی( اور اس میں سے تقسیم کر دیا )حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتناباقی رہا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے عرض کیا کہ اور کچھ باقی نہ رہا، صرف ایک دست گوشت باقی رہ گیا (باقی سب تقسیم ہوگیا )، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جتنا تم نے دے دیا،وہ سب وہاں باقی ہوگیا،ہمیشہ رہنے والا ہوگیا سوائے اس دست کے یعنی جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیا، اس کا اجر آخرت میں ملے گا۔ میں تو کہتا ہوں نبی کریمﷺکی رسالت کی ایک دلیل آپ کا کلام بھی ہے، ایک نبی امی کے کلام میں اتنی فصاحت و بلاغت کا ہونا دلیل ہے آپ کی رسالت کی۔

52:58) دنیا کا سارا عیش ایک دھوکہ ہے ارشاد فرمایا کہ جس کی بینائی صحیح ہو اور بیمار بھی نہ ہو تو اس کی نظر صحیح دیکھتی ہے، اور جس کی آنکھ میں یرقان ہو،اس کو سفید دیوار بھی پیلی نظر آتی ہے۔ ساری دنیا کی نظریں بیمار ہیں، صرف حضورﷺکی نظرپاک اور صحیح دیکھنے والی ہے کیونکہ آپ کی نگاہ ِپاک میں وحیٔ الٰہی کا سرمہ لگا ہوا ہے، حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى ؁﴾ (سورۃ النجم:آیۃ ۱۷) آپ کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ حد سے بڑھی(از ترجمہ مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ ) یعنی جو کچھ دیکھا اس میں نظر نے کوئی خطا یا غلطی نہیں کی۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries