عشاء    مجلس ۲۳    جنوری  ۴ ۲۰۲ء     :دین کے کام کو   بڑھانے سے متعلق اہم نصیحتیں!

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲ کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:05) حسبِ معمول حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب اپنے ایمان کی حفاظت کیجیے سے تعلیم ہوئی۔۔۔

02:06) دین کے کام کو بڑھانے سے متعلق نصیحت۔۔۔

07:41) اپنی تعریف سے خوش نہیں ہونا چاہیے جتنے کمالا ت ہیں سب کو اللہ تعالیٰ کی عطاسمجھے نفس اور شیطان انسان کے بھاؤ بڑھاتے ہیں۔۔۔

11:33) نفس کا ڈینٹ ایسے نہیں نکلتا۔۔۔پانچ قسم کے نفس۔۔۔

17:19) دردِ دل اور احسانی کیفیت کیسے حاصل ہوگی؟۔۔۔

27:04) شیخ سے اصلاح کا تعلق آخری سانس تک رکھنا ہے۔۔۔

27:56) خلافت کی طلب بھی غیر اللہ ہے۔۔۔

29:57) مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات ہونی چاہیے۔۔۔

33:08) غیر اللہ سے تعلق کو کیسے ہٹانا ہے حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا علاج۔۔۔

36:48) مبلغ ِدین کا کام ہدایت کی بات پہنچا دینا ہے ۲۴ ؍محرم الحرام ۱۳۹۴؁ھ مطابق ۱۷ ؍فروری ۱۹۷۴؁ء بروز اتوار ارشاد فرمایا کہ آج صبح قرآن پڑھتے ہوئے دو آیتوں پر حق تعالیٰ نے خاص لذت اور علم عطا فرمایا۔(۱) مبلغ کو،دین پہنچانے والے کو چاہیے کہ وہ یہ سوچ لے کہ ہمارے ذمہ صرف پہنچانا ہے، حق تعالیٰ فرماتے ہیں: وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ؁ (سورۃ النور:آیۃ ۵۴) ہمارے رسول کے ذمہ صرف یہ ہے وہ کھول کھول کر ہماری باتوں کو لوگوں تک پہنچادے۔ رسول تو اللہ کا سفیر ہوتا ہے، سفیر کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ اپنے بادشاہ کی سلطنت کے احکام پہنچادے،سفیر اپنا یہ منصب پورا کر کے بری الذمہ ہوجاتا ہے۔ پس رسول کا منصب صرف یہی ہے کہ اللہ کے احکام لوگوں کو پہنچادے، لوگوں کے دلوں میںبھی اُتارنا یہ نبی کا کام نہیں ہے۔ ہدایت دینا صرف اللہ کا کام ہے اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللہَ یَھْدِیْ مَنْ (سورۃ القصص: آیۃ۵۶) آپ ﷺ جس کو چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ جس کو چاہے ہدایت کر دیتا ہے۔(بیان القرآن)البتہ رونا اور ہدایت کے لئے گڑ گڑانا اس کا کام ہے، لہٰذا مبلغ ِدین کو یہی چاہیے کہ تبلیغ کے بعد خلوت میں اللہ کے سامنے بندوں کی ہدایت کے لئے گڑگڑائے۔ پس جب علم ہوگیا کہ مبلغ کا کام صرف پہنچادینا ہے، پھر اگر کوئی ایک آدمی بھی اس کی بات نہ مانے تو انسان کومایوسی نہ ہوگی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم میں ساڑھے نو سو برس تبلیغ کی: ((كَانَ نُوْحٌ عَلَيْهِ السَّلَامُ مُلًا)) (تفسیر ابن کثیر:(دار الکتب العلمیۃ،بیروت)؛سورۃ ھود ؛ج ۴ ص ۲۸۱) صرف ۸۰ آدمی ایمان لائے تو اس سے حضرت نوح علیہ السلام کی نبوت میں ذرّہ برابر فرق نہیں آیا،وہ نبی ہی رہے۔ اس کے برعکس حضرت معین الدین چشتی اجمیررحمہ اللہ کے ہاتھ پر نوّے لاکھ کافر ایمان لائے تھے، تو کیا اس سے ان کا درجہ حضرت نوح علیہ السلام سے بڑھ گیا؟ ہرگز نہیں، نبی نبی ہے،کسی امتی کا رتبہ نبی سے نہیں بڑھ سکتا۔ غرض اس آیت وَمَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُمیں مبلغین کے لئے بڑی تسلی ہے کہ تم دین لوگوں تک پہنچاتے رہو، ہدایت تو ہم دیتے ہیں،پھر اگر کوئی ہدایت نہ پائے تو انہیں مایوسی نہ ہوگی۔

40:44) اصلی مہاجر وہ ہے جو گناہوں سے ہجرت کرلے ارشاد فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم ہندوستان سے ہجرت کر کے آئے ہیں لہٰذا ہم مہاجر ہیں لیکن نبیﷺنے ہجرت کس چیز کو قرار دیا ہے؟ فرماتے ہیں: ((اَلْمُهَاجِرُ مَنْ هَجَرَ السُّوْءَ)) (کنز العمال :(دار الکتب العلمیۃ)؛کتاب الایمان ؛ج ۱ ص ۸۹ ؛رقم ۷۴۵ ) ہجرت یہ ہے کہ آدمی بُرائی کو چھوڑ دے،معلوم ہوا وطن سے دور ہونا کوئی ہجرت نہیں ہے۔۔۔

50:56) سفر سے متعلق کچھ باتیں۔۔۔

52:58) کہتے ہیں کہ ہم نے ہجرت کی حالانکہ کوئی گناہ نہ چھوڑا، یہ کیا ہجرت ہے! یہ سب مہاجر الی الدنیا ہیں،اور بعض ایسے بندے ہیں جو مثلاً سندھ میں ہی پیدا ہوئے اور کبھی سندھ کی سرزمین سے باہر نہ نکلے لیکن ہر گناہ سے ہجرت کر رہے ہیں، ہر بُرائی کو چھوڑ رہے ہیں، یہ مہاجر ہیں۔ ایسا شخص بزبان ِحال کہہ رہا ہے اِنِّيْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ ، الیٰ کے معنی تک کے ہیں (انتہاء الغایۃ کے لئے مستعمل ہوتا ہے) جیسے کہتے ہیں سَافَرْتُ اِلٰی مَکَّۃَ، ذَہَبْتُ مِنَ الْبَیْتِ اِلَی الْمَسْجِدِ یعنی میں مکہ تک گیا، میں گھر سے مسجد تک گیا تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ مسجد کے باہر ہی رہ گیا؟ نہیں،اس کے معنی ہیں کہ مسجد کے اندر داخل ہوگیا۔ بس ہجرت الی اللہ کے معنی ہیں کہ بارگاہ ِحق میں داخلہ ہوگیا، درباری و مقرب ِبارگاہ ہوگیا۔۔۔

54:53) دنیا کی محبت دل سے نکالنے کا آسان نسخہ مظاہرِ حق میں لکھا ہے کہ جس شخص کے دل سے دنیا کی محبت نکل جائے، ایسا شخص اگر دنیا کے کام میں بھی مشغول رہتا ہے تو اس کی نیت دنیا کی نہیں ہوتی، آخرت کی ہوتی ہے، اور جس کے دل میں دنیا گھس گئی ہو، وہ اگر آخرت کا کام بھی کرے گا تو نیت دنیا ہی کی ہوگی۔ نماز پڑھے گا تو اس لئے کہ روزی میں برکت ہو، بزرگوں کے پاس جائے گا تو اس لئے کہ بچہ کی زندگی میں برکت ہو یا کاروبار بڑھ جائے یا بیماری نہ آوے، غرض جو کام بھی کرے گا اس میں نیت دنیا کی ہوگی۔

56:08) دُعا ئیہ پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries