فجر مجلس۲۶     فروری   ۴ ۲۰۲ء     :مغفرت کے لئے ایک عظیم الشان وظیفہ       !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجداختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

02:40) دین کس طرح پھیلتا ہے،خاموش تبلیغ سے بڑا اثر ہوتا ہے۔۔۔

02:41) وَمَا كَانَ اللہُ لِيُعَذِّبَہُمْ (سورۃُ الانفال:اٰیۃ۳۳) ترجمہ: اور اﷲ تعالیٰ ایسا نہ کریں گے کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دیں اور اﷲ تعالیٰ ان کو عذاب نہ دیں گے جس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے رہتے ہیں۔ کافر لوگ طواف کی حالت میں کہتے تھے غُفْرَانَکَ اے خدا ہم کو بخش دے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ آیت کافروں کے لیے نازل فرمائی وَمَا کَانَ اللہُ لِیُعَذِّبَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ وَمَا کَانَ اللہُ مُعَذِّبَھُمْ وَھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ اے نبی جب تک آپ ان کافروں میں زندہ ہیں اس وقت تک میں ان پر عذاب نازل نہیں کروں گا اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے۔ حکیم الامت مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان القرآن میں اس کی تفسیر میں فرمایاکہ اللہ نے کافروں کو جو بشارت دی ہے وہ دنیا کے لیے ہے کہ اگر کافر بھی استغفار کرتا رہے تو دنیا میں اس پر عذاب نہیں ہو گا لیکن آخرت کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا بوجہ ایمان نہ لانے کے۔ محدث عظیم ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اِذَا کَانَ الْاِ سْتِغْفَارُ یَنْفَعُ الْکُفَّارَ فَکَیْفَ لَا یُفِیْدُ الْمُؤْمِنِیْنَ الْاَبْرَارَیعنی جب استغفار کافروں کو بھی نفع دے رہا ہے اور ان کو دنیا کے عذاب سے بچا رہا ہے تو مسلمان کو کیوں نفع نہ دے گا۔

08:44) ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے اس آیت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول مشکوٰۃ کی شرح مرقاۃ جلد نمبر۵ کتاب الاستغفار میں نقل فرمایا۔ حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اے مسلمانو! اے اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین سن لو اور قیامت تک کے لیے سن لو کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے بچانے کے لیے دو امان نازل فرمائے تھے ۔ فَرُفِعَ اَحَدُھُمَا تو عذاب سے نجات کا ایک ذریعہ تو ہم سے اُٹھ گیا یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو دنیا سے اٹھا لیے گئے وَ بَقِیَ ثَانِیْھِمَااور دوسرا باقی ہے یعنی استغفار۔ اگر تم اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے رہو، گریہ و زاری کرتے رہو تو ان شاء اللہ تعالیٰ عذاب سے بچ جائو گے جس سے بھی کوئی خطا ہو جائے دو رکعات توبہ پڑھ کر اللہ سے رو لو استغفارکر لو جہاں جہاں آنسو لگ جائیں گے دوزخ کی آگ وہاں حرام ہو جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کریم ہیں جب ایک جُز کو جنت میں داخل کریں گے تو پورا جسم ہی جنت میںداخل کر دیں گے۔ ان کے کرم سے یہ بعید ہے کہ چہرہ تو جنت میں داخل کر دیں اور باقی جسم دوزخ میں ڈال دیں بس اگر گناہ ہو جائے تو فوراً اللہ سے معافی مانگیں اور بندوں کے حقوق میں کوتاہی ہوجائے تو بندوں سے معاف کرائیں یہ نہیں کہ کسی کا مال مارلیا اور زبان سے کہہ رہے ہیں توبہ یا اللہ توبہ یا اللہ توبہ، اس وقت محض زبانی توبہ سے معافی نہیں ہو گی جب تک کہ اس کا مال واپس نہیں کریں گے جب اس کا مال اس کو دے دیں گے تب معافی ہو گی۔

11:17) مغفرت کے لیے ایک عظیم الشان وظیفہ ارشاد فرمایا کہ آج میں آپ کو ایک عظیم الشان وظیفہ دے رہا ہوں۔ اس کو چلتے پھرتے بقدر تحمل کثرت سے پڑھیے۔ صبح و شام ایک ایک تسبیح روزانہ پڑھ لیا کریں۔ ’’رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ‘‘اور یہ وظیفہ کس نے عطا فرمایا ہے؟ سب سے بڑے پیارے نے سب سے بڑے پیارے کو سب سے بڑا پیارا وظیفہ دیا ہے۔ سب سے بڑے پیارے یعنی اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑے پیارے کو یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سب سے بڑا پیارا وظیفہ دیا۔ جو سب سے بڑا پیارا ہوتا ہے اس کو سب سے بڑی پیاری چیز دی جاتی ہے۔ پیارے کو معمولی چیز نہیں دی جاتی لہٰذا یہ اُمت کی مغفرت کے لیے بہترین وظیفہ ہے۔ ’’وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ‘‘اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! آپ اپنے پالنے والے سے مغفرت مانگیے۔ رب کیوں نازل فرمایا؟ جو پالتا ہے اس کو اپنی پالی ہوئی چیز سے محبت ہوتی ہے۔ تم ایک بلی پال لو تو بلّی سے محبت ہوجاتی ہے، کتّا پال لو تو کتّے سے بھی محبت ہوجاتی ہے۔ میں تمہارا پالنے والا ہوں، مجھے تم سے محبت نہ ہوگی؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے دریائے رحمت میں جوش کے لیے خود سکھارہے ہیں کہ رب کہو تاکہ تمہارے منہ سے جب سنوں کہ اے میرے پالنے والے! تو میرے دریائے رحمت میں طوفان پیدا ہو۔ جیسے چھوٹا بچہ جب کہتا ہے کہ اے میرے ابا! تو باپ کے دل میں محبت کا کیسا جوش اُٹھتا ہے۔ رَبِّ اغْفِرْ اے میرے رب! مجھے معاف فرمادیجیے تو مغفرت کے کیا معنی ہیں؟ ’’بِسِتْرِ الْقَبِیْحِ وَ اِظْہَارِ الْجَمِیْلِ‘‘ میری بُرائیوں کو چھپادیجیے اور نیکیوں کو ظاہر فرمادیجیے۔ وَارْحَمْ اور رحمت کے کیا معنی ہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے رحمت کی چار تفسیریں کی ہیں یعنی توفیقِ طاعت، فراخیِ معیشت یعنی رزق میں برکت، بے حساب مغفرت اور دخولِ جنت۔

17:22) بندہ جب مغفرت مانگتا ہے تو شیطان کو انتہائی غم ہوتا ہے، بہت چلاتا ہے، اپنے سر پر مٹی ڈالتا ہے کہ یہ بندے تو بہت چالاک ہیں، میں نے تو ان کو گناہ کا مزہ چکھایا تھا اللہ سے دور کرنے کے لیے لیکن انہوں نے تو اللہ سے معافی مانگ کر اپنا کام بنالیا۔ میری ساری محنت بے کار گئی، میری بزنس تو لاس (Loss) میں جارہی ہے، شیطان مایوس ہوجاتا ہے۔ اس لیے سفر میں، حضر میں جہاں بھی رہیے اس وظیفہ کو کثرت سے پڑھتے رہیے، اس کی برکت سے ان شاء اللہ تعالیٰ معافی بھی ہوجائے گی۔ اللہ کو رحم آجائے گا کہ یہ بندہ اپنی خطائوں پر بار بار روتا ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries