مرکزی بیان ۲۹ فروری ۴ ۲۰۲ء :منازلِ سلوک ! | ||
اصلاحی مجلس کی جھلکیاں بمقام:مسجداختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم 03:24) بلوچستان میں بارش کی وجہ سے کافی نقصان ہورہا ہے ابھی بھی بہت تیز بارش ہے سب سے دعاوں کا فرمایا کہ وہاں سے فون آیا اور کل بروز جمعہ دو بجے بھی پاکستان میں کافی بارش کا بتایا ہے سب سے عافیت کی دعا۔ 12:05) اصلی ذاکر کون ہے۔۔ 16:57) ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مشکوۃ میں فرماتے ہیں: ’’من اعترض علی شیخہ ونظر الیہ احتقارا فلا یفلح ابدا‘‘ جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا۔ 29:11) زیادہ ذکر سے کیوں منع کیا جاتا ہے ایک صاحب کو تفصیلی نصیحت جو مجلس میں تسبیح پڑھ رہے تھے ۔۔ 33:05) ذکر کا ناغہ روح کا فاقہ۔۔ 40:42) جناب سید ثروت صاحب سے اشعار پڑھنے کا فرمایا۔۔ 48:30) جب لاالہ کی تکمیل ہوگی توپھر دل میں اللہ ہی اللہ ہوگا۔۔ 53:04) بدگمانی پر نصیحت۔۔ 57:22) واذکرواسم ربک وتبتل الیہ تبتیلاً حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وَاذکُرِ السْمَ رَبِّکَ میں ربّ کیوں فرمایا جب کہ وَاذکُرِ السْمَ اللّٰہ بھی ہوسکتا تھا۔ بات یہ ہے کہ پانے والے کی محبت ہوتی ہے، پالنے والے کو آدمی محبت سے یاد کرتا ہے۔ بتائیے! ماں باپ کی یاد میں مزدہ آتا ہے یا نہیں تو یہاں ربّ اس لیے نازل فرمایا کہ میرا نام محبت سے لینا۔ خشک مُلّائوں کی طرح میرا ذکر مت کرنا، عاشقانہ ذکر کرنا کہ میں تمہارا پالنے والا ہوں جس طرح اپنے ماں باپ کا محبت سے نام لیتے ہو۔ 01:07:55) آج عاشقِ مولی بننے کا کی جدوجہد ہے لیکن کرکٹ میں گھسے ہوئے ہیں۔۔عاشق مولی اور کرکٹ الخہ۔۔۔ تبتل و یکسوئی کا ثبوت: آگے فرماتے ہیں: وَتَبَتَّلْ اَِیْہِ تَبْتِیْلًا اور غیراللہ سے کٹ کر اللہ سے جڑ جائو یعنی اللہ کی طرف متوجہ رہو۔ غیراللہ سے کٹنے اور کنارہ کش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ کیا مخلوق کو چھوڑ کر جنگل میں نکل جائو؟ ہر گز نہیں! مطلب یہ ہے کہ قلب کے اعتبار سے مخلوق سے کٹ جائو۔ جسم بستی میں رہے، مخلوق خدا کے ساتھ ہو لیکن دل اللہ کے ساتھ ہو رہبانیت حرام ہے۔ ایک تبتل شرع ہے۔ ایک غیرشرعی ہے۔ تبتل غیرشرعی جو گیوں اور سادھوئوں کا ہے، ہندوستان کے پنڈتوں اور ہندوئوں کا ہے کہ بیوی بچوں کو چھوڑ کر جنگل میں نکل گئے۔ 01:12:17) ایمان نام ہے دل کو پیش کرنا اور اسلام نام ہے جسم کو پیش کرنا۔۔ 01:13:23) بدن پر راکھ مل لی اور درخت کے نیچے آنکھ بند کرکے بیٹھ گئے اور تبتل شرعی مسلمانوں کا ہے۔ اولیاء اللہ کا ہے۔ وہ کیا ہے کہ تعلقات دنیویہ پر علاقہ خداوندی غالب ہوجائے۔ دنیاوی تعلقات پر اللہ تعالیٰ کا تعلق اللہ کی محبت غالب ہوجائے۔ اس حقیقت کو جگر مرادآبادی نے یوں تعبیر کیا ہے ؎ میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگرؔ وہ مجھ پر چھاگئے میں زمانہ پہ چھا گیا۔ 01:19:33) مثنوی میں تبتل کی عاشقانہ تمثیل: اس آیت کی تفسیر مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ عجیب انداز سے فرمائی ہے۔ یہ عاشقوں کی تفسیر ہے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دریا کے کنارے ایک شخص واجب الغسل کھڑا تھا جس کے بدن پر نجاست لگی ہوئی تھی۔ دریا نے کہا کہ کیا بات ہے؟ تُو بہت دیر سے باہر کھڑا ہے۔ کہا کہ مارے شرم کے تیرے اندر نہیں آرہا ہوں کہ میں ناپاک ہوں اور تو پاک ہے۔ دریا نے کہا تو قیامت تک ناپاک ہی کھڑا رہے گا۔ جس حالت میں ہے میرے اندر کود پڑ۔ تیرے جیسے لاکھوں یہاں پاک ہوتے رہتے ہیں اور میرا پانی پاک رہتا ہے لہٰذا اللہ کی یاد میں دیر مت کرو۔ کیسی ہی گندی حالت میں ہو اللہ کا نام لینا شروع کردو۔ ذکر کی برکت سے غیراللہ کی نجاست چھوٹے گی۔ 01:32:20) اس آیت سے تصوف کے دو مسئلے ثابت ہوگئے۔ ذکر اسمِ ذات کا اور یکسوئی کا۔ آگے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبَ تم کو یکسوئی اس لیے نہیں ہوتی کہ ذکر کے وقت تم کو دن کے کام یاد آتے ہیں کہ آج فلاں فلاں کام کرنا ہے۔ جہاں تسبیح اُٹھائی اور وسوسے شروع کہ ابھی دکان سے ڈبل روٹی اور انڈا لینا ہے۔ اس کے بعد رات کو جب اللہ کا نام لینے بیٹھے تو یاد آیا کہ یہ کام کرنا ہے، وہ کام کرنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے ہمارا نام لینے والو! میں مشرق کا ربّ ہوں۔ تمہارا جو ربّ سورج کو نکال سکتا ہے اور دن پیدا کرسکتا ہے کیا وہ تمہارے دن کے کاموں کے لیے کافی نہیں ہوسکتا؟ کیا اسلوبِ بیان ہے۔ دیکھئے! اللہ تعالیٰ کے کلام کی بلاغت کہ مَیں ربّ المشرق ہوں، میں آفتاب نکالتا ہوں اور دن پید کرتا ہوں جو دن پیدا کرسکتا ہے وہ تمہارے دن کے کام نہیں بناسکتا؟ دن پیدا کرنا زیادہ مشکل ہے یا پانچ کلو آٹا دینا مشکل ہے جس کی تہیں فکر پڑی ہوئی ہے۔ ان وساوس کی طرف خیال نہ کرو جو شیطان تمہارے دلوں میں ڈالتا ہے۔ سوچ لو کہ ہمارا اللہ ہمارے دن بھر کے کاموں کے لیے کافی ہے اور جب رات میں وسوسہ آئے تو کہہ دو وہ ربّ المغرب بھی ہے۔ جو اللہ رات کو پیدا کرسکتا ہے وہ رات کے کاموں کے لیے بھی کافی ہے ؎ تو لے اللہ کا نام تیرا سب بنے گا کام آگے ارشاد ہے: لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ غیراللہ کو دل سے نکالو جتنا تمہارا لاالہ قوی ہوگا اتنا ہی تم کو اللہ ملتا جائے گا۔ نکھرتا آرہا ہے رنگ گلشن خس و خاشاک جلتے جارہے ہیں اللہ کی تجلّی غیراللہ سے پاکی۔ ذکر نفی و اثبات کا ثبوت: تصوف میں دو اذکار ہیں۔ اسم ذات اور نفی و اثبات۔ فرمایا کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ جو ہے اس سے صوفیاء کے ذکر نفی و اثبات کا ثبوت ملتا ہے۔ تفسیر مظہری دیکھ لیجئے۔ آج میں تصوف کو تفسیروں کے حوالہ سے پیش کررہا ہوں تاکہ علماء یہ نہ سمجھیں کہ تصوف یوں ہی صوفیوں کا بنایا ہوا ہے۔ کمال ہے قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ کا جن کے لیے ان کے پیر نے کہا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کو پیش کروں گا اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ شخص اپنے وقت کا امام بیہقی ہے۔ وہ اپنی تفسیر میں تصوف کو قرآن پاک سے ثابت کررہے ہیں۔ ذکر اسم ذات، تبتل یعنی غیراللہ سے یک سوئی اور ذکر نفی و اثبات تصوف کے یہ تین مسئلے ثابت ہوگئے۔ 01:37:09) تصوف کے مسئلہ توکل کا ثبوت: آگے فرماتے ہیں: فَاتَّخِذہٗ وَکِیْلًا جب میں اتنا بڑا ربّ ہوں کہ دن پیدا کرسکتا ہوں اور رات پیدا کرسکتا ہوں تو پھر تم دن رات کے کاموں کے بارے میں وسوسے کیوں لاتے ہو۔ تم مجھ کو یعنی اللہ کو اپنا وکیل بنالو۔ مجھ سے زیادہ کون تمہارا وکیل اور کارساز ہوسکتا ہے؟ اس آیت سے چوتھا مسئلہ توکل کا ثابت ہوگیا جس کی صوفیاء تعلیم دیتے ہیں۔ 01:37:18) سلوک کے مقامِ صبر کا ثبوت: اور اگلی آیت سے سلوک کا ایک بہت اہم مسئلہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمۃ اللہ علیہ ثابت کرتے ہیں اور وہ ہے دُشمنوں کے مظالم پر صبر کرنا۔ دنیا دار صوفیوں کا موذاق اُڑاتے ہیں کہ دیکھو تسبیح لیے مکار لوگ جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ اور یہ لوگ جو باتیں کرتے ہیں ان پر صبر کرو۔ اسی طرح اللہ کے راستہ میں نفس و شیطان بھی ستاتے ہیں۔ کبھی شیطان کہے گا کہ فلاں گناہ کرلو اور کبھی نفس بھی ستائے گا اور بار بار تقاضا کرے گا کہ ارے! یہ شکل بہت حسین ہے۔ اس کو دیکھ ہی لو، بعد میں توبہ کرلینا۔ نفس و شیطان کے ورغلانے کے وقت بھی یہی آیت پڑھ دو: وَاصْبِرْ عَلٰی مَایَقُوْلُوْنَ دُشمن جو باتیں کررہے ہیں اُن پر صبر کرو۔ 01:37:51) ہجرانِ جمیل کا ثبوت: اور وَاھْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا اور خوبصورتی کے ساتھ ان سے الگ ہوجائو۔ الگ ہونا یہ ہے کہ کوئی تعلق نہ رکھو اور خوبصورتی سے یہ ہے کہ ان کی شکایت اور انتقام کی فکر میں نہ پڑو اور یہ آخری مسئلہ ہے تصوف کا ہجران جمیل جس کو تفسیر مظہری میں اس آیت سے ثابت کیا گیا ہے۔ 01:39:48) ہجرانِ جمیل کیا ہے؟ اور ہجران جمیل کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے: اَلْہِجْرَانُ الْجَمِیْلُ الَّذِیْ لَاشَکْوٰی فِیْہِ وَلَا اِنْتِقَام خوبصورتی کے ساتھ الگ ہونا یہ ہے جس میں شکایت نہ ہو اور انتقام کا ارادہ بھی نہ ہو۔ کیونکہ جس نے اپنے دُشمن سے انتقام لیا وہ مخلوق میں پھنس گیا اور جو مخلوق میں پھنس گیا۔ اس کو خالق کیسے ملے گا۔ اسی لیے علامہ ابوالقاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ قشیریہ میں فرماتے ہیں: اِنَّ الْوَلِیَّ لَایَکُوْنُ مُنْتَقِمًا وَالْمُنْتَقِمُ لَایَکُوْنُ وَلِیًّا کوئی ولی اللہ منتقم نہیں ہوتا اور کوئی منتقم ولی اللہ نہیں ہوسکتا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا فرمایا؟ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم تم پر آج کوئی الزام نہیں۔ ارے! یہ تو شیطان نے ہمارے تمہارے درمیان فساد ڈلوادیا تھا۔ تم نے کوئی گڑ بڑ تھوڑی کی تھی۔ آہ! اپنے بھائیوں کی دلجوئی بھی کررہے ہیں تاکہ ان کو ندامت بھی نہ رہے۔ 01:50:59) حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ دین کے خدام کو یہی اخلاق رکھنے چاہئیں ورنہ اگر بدلہ و انتقام کی فکر میں پڑے تو دل میں مخلوق میںپھنس جائے گا اور پھر دین کا کام نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے بیان القرآن کے حاشیہ میں مسائل السلوک کے تحت یہ مسئلہ بیان فرمایا کہ مَنْ یّنظُرُ اِلٰی مَجَارِی الْقَضَائِ لَایُفْنِیْ اَیَّامَہٗ بَِمُخَاصَمَۃِ النَّاسِ جس شخص کی نظر مجاری قضا پر ہوتی ہے، مشیتِ الٰہیہ، اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر ہوتی ہے، وہ اپنی زندگی کے دنوں کو مخلوق کے جھگڑے میں ضایع نہیں کرتا اور وہی کہتا ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْم تم پر کوئی الزام نہیں کیوں کہ جانتے تھے کہ بغیر مشیت الٰہی کے یہ بھائی مجھے کنویں میں نہیں ڈال سکتے تھے۔ 01:51:49) تو ہجران جمیل یہ ہے کہ موذیوں اور معاندین سے جدا ہوجاؤ، مگر انتقام نہ لو، نہ شکایت کرو۔ تین دن سے زیادہ بولنا چھوڑ دینا جو حرام ہے، یہ ان کے لیے جو ہے جو معمولی دنیاوی باتیں ہوجاتی ہیں کہ شادی میں نہیں آئے، غمی میں نہیں آئے یا باتوں باتوں تکرار ہوگئی اور کوئی سخت جملہ زبان سے نکل گیا لیکن جو مسلسل ستا رہا ہو مستقل موذی ہو جس کا مزاج ہی بچھو کی طرح ہو کہ جب آتا ہے فتنہ مچاتا ہے، بھائی بھائی کو لڑادیتا ہے۔ کوئی ایسی بات کہہ جاتا ہے کہ اب میاں بیوی میں لڑائی ہورہی ہے۔ ایسے مفسدین کے لیے مُلاعلی قاری شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ ایسے شخص سے ہمیشہ کے لیے ترکِ تعلق جائز ہے، چاہے وہ دینی ضرر پہنچا رہا ہو یا دنیا کا 01:52:10) بعضے رشتہ دار سے مجھے یہی کرنا پڑا، جتنا جھکتے جائو اتنا ہی اور ستاتا تھا۔ بعضوں کے مزاج میں ایسا فساد ہوتا ہے کہ ان کی اصلاح محال ہے جیسے کتے کی دُم کہ دس سال تک نلکی میں رکھو لیکن جب نکالو گے تو ٹیڑھی ہی نکلے گی۔ پھر جب میں ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ شرح دیکھی تو مفتی رشید احمدصاحب سے تصدیق کی۔ فرمایا کہ اس پر محدثین کا بھی اجماع ہے اور فقہاء کا بھی اجماع ہے اور حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کو بھی لکھا۔ حضرت نے فرمایا کہ بہترین مشورہ ہے۔ آخر میں کئی سال کے بعد ان کو ہدایت ہوگئی اور معافی مانگ کر پھر آگئے۔ البتہ ایسے معاملات میں پہلے اپنے بزرگوں سے مشورہ بھی کرلے تاکہ نفسانیت نہ ہو۔ |