فجر  مجلس۶       مارچ    ۴ ۲۰۲ء     :شیخ کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہیے     !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجداختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:45) شیخ کے ساتھ تعلق کیسا ہونا چاہیے؟۔۔۔ (سورۃُ التوبۃ: اٰیۃ۱۲۰) ترجمہ: یقیناً اﷲ تعالیٰ مخلصین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ اللہ اپنے عاشقوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتا، کہاں مردہ لاشوں پر جاتے ہو۔ دونوں میں کوئی نسبت نہیں اس لیے وہ لوگ انتہائی بے و قوف اور احمق ہیں جو اللہ کو چھوڑ کر دنیا پر مر رہے ہیں۔ اس لیے اللہ پر مرنا سیکھو اور یہ بھی اللہ والوں ہی کے صدقہ میں آئے گا۔

حوصلۂ شہبازی کس سے آئے گا؟ بازِ شاہی سے اور بازِ شاہی کیسے بنو گے؟ صحبت کی برکت سے۔ دنیا میں کوئی ولی اللہ نہیں ہوا جب تک کسی ولی اللہ کی صحبت نہیںملی۔ دیسی آم کو لنگڑے آم کے متعلق ایک لاکھ کتابیں پڑھا دو، ایم ایس کرا دو لیکن ایک لاکھ کتابوں کے باوجود دیسی ہی رہے گا لیکن اسے کوئی کتاب نہ پڑھاؤ لنگڑے آم کی قلم لگا دو آہستہ آہستہ وہ خود لنگڑا آم بن جائے گا۔

09:45) اوّل اے جاں دفعِ شرِ موش کن بعد ازیں انبارِ گندم کوش کن اے دوست! پہلے نفس کے چوہے کے شر کو دفع کرنے کا اہتمام کر،اس کے بعد نیکیوں کا ذخیرہ جمع کر ورنہ نفس کا چوہا نیکیوں کے ذخیرہ کوکھاجائے گا۔

14:53) دین پر استقامت اور اعمال کی بقاء کے لیے اہل اللہ کی صحبت اتنی ضروری ہے کہ حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی تبلیغی جماعت فرماتے ہیں کہ میں جب دین کی محنت کے لیے جاتا ہوں تو مخلوق میں اختلاط اور زیادہ میل جول سے نفس میں کچھ کثافت اور گندگی سی آ جاتی ہے اس کو دور کرنے کے لیے میں اہل اللہ کی خانقاہوں میں جاتا ہوں تو دل مُجلّٰی ہو جاتا ہے جیسے موٹر کار طویل سفر پر جاتی ہے تو پرزوں میں کچھ میل کچیل لگ جاتا ہے لہٰذا اس کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور صفائی کے لیے کار کو کار خانے میں جس کو ورکشاپ کہتے ہیں بھیجا جاتا ہے۔ اسی طرح دل کی ٹیوننگ کی بھی ضرورت ہوتی ہے جس کی ورکشاپ ،خانقاہیں ہیں کیونکہ نفس چور ہے اس میں خفیہ طریقہ سے کچھ بڑائی، کچھ دِکھاوا آ جاتا ہے۔ جن کا مشایخ اور علماء سے تعلق نہیں ہوتا، ان کی گفتگو سے پتہ چل جاتا ہے اور ان کی زبان سے بڑائی کی باتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں اور انہیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ میرے دل میں کیا مرض پیدا ہو گیا۔

20:50) حضرت حکیم الامت رحمۃ اﷲعلیہ فرماتے ہیں چونکہ بدون رہبر کامل کے اصلاحِ اخلاق ناممکن ہے اور اصلاحِ نفس فرض ہے پس حصولِ فرض کا مقدمہ یعنی ذریعہ بھی فرض ہوتا ہے اور یُزَکِّیْھِمْ میں فعل تزکیہ اس کی تائید کرتا ہے کہ مُزَکِّیْ کی ضرورت ہے ۔تزکیہ فعل متعدی ہے جو صرف اپنے فاعل پر تمام نہیں ہوجاتا یعنی مُزَکِّی بھی ہو مُزَکیّٰ بھی ہو اور تزکیہ بھی ہو جیسے مُربہ بدون مُربی کے نہیں بنتا۔ اب اگر آملہ کا مربہ چاندی کے ورق کے ساتھ کوئی تقویتِ قلب کے لئے کھائے تو وہ آملہ جو غیر مربہ ہے اگر وہ بھی ہمسری کا دعویٰ کرتے ہوئے مطالبہ کرے کہ ہمارے اوپر بھی چاندی کا ورق لگاؤ اور ہمارے ساتھ بھی وہی اعزازی برتاؤ کرو تو آپ کیا جواب دیں گے۔ پس وہ علماء جو بزرگوں کے صحبت یافتہ اور تربیت یافتہ ہوتے ہیں اُن کی شانِ نسبت اور شانِ مقبولیت کو اسی طرح قیاس کرلیا جاوے۔ حضرت شاہ فضل الرحمن صاحب رحمۃاﷲ علیہ اپنے مرشدرحمۃ اﷲ علیہ کی محبت میں یہ دو شعر پڑھا کرتے تھے ؎ اے شہہ آفاق شریں داستاں باز گو از من نشان بے نشاں صرف نحو و منطقم را سوختی در دلم عشق خدا افروختی اے شاہ محمد آفاق رحمۃ اﷲ علیہ شیریں داستاں مجھ سے حق تعالیٰ شانہٗ کے قرب کی باتیں کیجئے آپ نے ہمارے صرف و نحو اور منطق کے پندار کو جلا کر ہمارے قلب میں حق تعالیٰ کا عشق روشن کر دیا۔

22:05) نفس کا تزکیہ کرانے سے متعلق آملوں کی مثال۔۔۔

26:51) مفتی محمود الحسن گنگوہی نے فرمایا کہ شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ سے ایک ہندو نے کہا کہ تم اتنی تکلیف اٹھا کر بیس میل دور گنگوہ کیوں جاتے ہو؟ حضرت شیخ الہند نے فرمایا کہ ظالم! تجھے کیا معلوم، کچھ پاتا ہوں تو بیس میل جاتا ہوں ؎ لطفِ مے تجھ سے کیا کہوں زاہد! ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries