فجر   مجلس۷        مارچ    ۴ ۲۰۲ء     :کن لوگ کو اللہ ملتے ہیں؟

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجداختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

05:51) کن لوگوں کو اللہ ملتے ہیں ؟حضرت شیخ الہند محمود الحسن گنگوہی رحمہ اللہ کا واقعہ۔۔۔

05:52) شیخ کے پاس دوسروں کی شکایتیں لانا او ر شیخ کی ڈانٹ ڈلوانا۔۔۔

17:37) شیخ سے کیسا تعلق رکھنا چاہیے؟۔۔۔

21:24) حکایت حضرت شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ حضرت مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی صدر مفتی دیو بند نہ فرمایا کہ حضرت شیخ الہندرحمۃاﷲ علیہ ہر جمعہ کو دیو بند سے اپنے شیخ و مرشد حضرت گنگوہی رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں حاضری دیا کرتے تھے ایک دن ایک بے تکلف دوست نے کہا مولانا کیوں جاتے ہو، گنگوہ میں کیا ملتا ہے؟ فرمایا ؎ لطف مے تجھ سے کیا کہوں زاہد ہائے کمبخت تو نے پی ہی نہیں

21:37) آثارِ فنائیت لوازمِ نسبت سے ہے احقر عرض کرتا ہے کہ یہ پندار اور خود بینی اور انانیت بدون صحبت مرشد کامل اور بدون عطاء نسبت فنا نہیں ہوتی۔حضرت مولانا شاہ وصی اﷲ صاحب رحمۃاﷲ علیہ (خلیفہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃاﷲ علیہ ) نے اس مضمون کی تائید میں ایک عجیب اور لطیف استدلال پیش فرمایا ہے جو احقر کو ڈاکٹر صلاح الدین صاحب سے معلوم ہوا وہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {اِنَّ الْمُلُوْکَ اِذَا دَخَلُوْا قَرْیَۃً اَفْسَدُوْھَا وَجَعَلُوْا اَعِزَّۃَ اَہْلِہَا اَذِلَّۃً} (سورۃ النمل، آیت:۳۴) ترجمہ وتفسیر:سلاطین جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس کو تہہ وبالا کردیتے ہیں اور اس بستی کے معززین کو ذلیل کردیتے ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایا کہ یعنی جب کسی شہر میں لڑائی کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو شہر والوں کو خراب کردیتے ہیں اور سرداروں کو بے عزّت کردیتے ہیں یعنی امیروں اور وزیروں کو سخت ذلیل کرتے ہیں یا قتل کردیتے ہیں یا گرفتار کرلیتے ہیں اور حضرت بن عباس رضی اﷲ عنہٗ نے فرمایا کہ اَذِلَّۃً تک بلقیس کا قول ہے وَکَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ حق تعالیٰ کا قول ہے۔(ابنِ کثیر) حضرت شاہ صاحب رحمۃاﷲ علیہ نے ارشاد فرمایاکہ اس آیت سے یہ بات قلب میں وارد ہوئی کہ یہی حال تجلیات ربانی کا ہے جب سالکین کو ذکر اور صحبت اہل اللہ کی برکت سے نسبت خاصہ عطا ہوتی ہے اور حق تعالیٰ کا نور قرب اس کے دل میں داخل ہوتا ہیکما ہو فی الحدیث: {اِنَّ النُّوْرَ اِذَا قُذِفَ فِی الْقَلْبِ الٰخ} (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الرقاق، ص:۴۴۶) تو یہ تجلیات ربّانی اس سالک کے عجب وپندار اور تکبر اور خودبینی وخود پرستی اور اس کی انانیت کو تہہ وبالا کردیتی ہیں پھر اس کا اَنَافنا سے تبدیل ہوجاتا ہے۔

23:05) میسر چوں مرا صحبت بجان عاشقان آید ہمیں بینم کہ جنت برزمیں از آسماں آید یہ شعر الٰہ آباد میں ہوا۔ احقر نے حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب پرتابگڈھی کی خدمت میں ایک مضمون عرض کیا تھا جس پر حضرت کو وجد آگیا اور پھر اس مضمون کو بعد عصر کی مجلس میں دوبارہ بیان کرنے کا حکم فرمایا۔ اس مضمون کا خلاصہ یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْکو وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ پر مقدم فرمایا ہمارے حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃاﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ اس تقدیم سے حق تعالیٰ شانہٗ نے اپنے مقبول بندوں کی معیت اور رفاقت کو جنت کی نعمت پر افضل قرار دیا ہے۔

پھر احقر مؤلف نے عرض کیا کہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ مکین افضل ہوتے ہیں مکان سے اور اہل جنت مکین ہیں اور جنّت مکان ہے نیز جنت کے یہ مکین دنیا ہی سے جاتے ہیں اور ہر زمانے میں یہاں موجود ہوتے ہیں۔ پس جس نے یہاں ان کی صحبت اور رفاقت کو اخلاص اور صدقِ دل سے اختیار کیا تو اس نے افضل نعمت تو یہیں پالی پھر مفضول نعمت بھی ضرور پالے گا پس فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ پر عمل جس نے دنیا میں کرلیا یعنی صحبت اولیاء اللہ اختیار کرلی اور صحبت کامل اتباع کے ساتھ مشروط ہے جیساکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَاتَّبِعْ سَبِیْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَیَّ} (سورۃ لقمان، آیت:۱۵) توآخرت میں بقاعدہ جَزَآئً وِّفَاقًا الاٰیۃ کے مطابق (یعنی جزاء موافق عمل) جنت میں بھی ان کی رفاقت پاجائے گا۔ لہٰذا حق تعالیٰ کے عاشقین کی صحبت میں بیٹھنا گویا کہ جنّت میں بیٹھنا ہے اور قلب سلیم ہو تو ان کے پاس بیٹھنے سے واقعی جنّت کا لطف ملتا ہے اس مضمون کو اس شعر میں احقر نے بیان کیا ہے کہ ؎

میسر چوں مراصحبت بجان عاشقان آید

ہمیں  بینم کہ جنت برزمیں از آسمان آید

حضرت پرتابگڈھی نہایت محظوظ ہوئے۔

28:49) آج یہاں تخصص کے طلباء اپنے گھروں کو جارہے ہیں تو اس موقع پر نصیحت۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries