عشاء مجلس۱۹     اپریل     ۴ ۲۰۲ء     :کینہ اور اس کی علامات        ! 

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہربلاک 12 کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

07:22) حسبِ معمول حضرت والا رحمہ اللہ کی سوانح حیات رشکِ اولیاء حیاتِ اختر سے تعلیم ہوئی۔۔۔

07:23) غرفۃ السالکین میں قیام کے لیے آنے والے حضرات کے لیے کچھ نصیحتیں۔۔۔

11:25) شیخ الحدیث عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت مولانا شاہ عبدالمتین بن حسین صاحب دامت برکاتہم نے عید کے دن حضرت والا دامت برکاتہم سے فون پر بات کی اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے سے متعلق ایک مضمون بیان فرمایا جو حضرت والا دامت برکاتہم نے پڑھ کر سنایا۔۔۔

22:39) ھدیے سے متعلق نصیحت۔۔۔

28:45) مالدار بزرگ سے بیعت ہونے سے متعلق حضرت والا رحمہ اللہ کی کتاب دُنیا کی حقیقت سے ایک حکایت پڑھ کر سنائی۔۔۔حکایت ہے کہ ایک بزرگ مالدار تھے گھوڑے نوکر چاکر سب کچھ تھےایک طالب علم مرید ہونے آیا یہ ٹھاٹ امیر ی دیکھ کر بد گمان ہوا اور دل میں کہا ؎ نہ مرد آن ست کہ دنیا دوست دارد ترجمہ: مرد کامل و ہ نہیں ہے جو دنیا کو دوست رکھتاہے رات کو خواب میں دیکھا کہ اس فقیر کو لوگ پکڑے ہوئے ہیں اور اپنا قرضۂ مانگ رہے ہیں میدان حشر ہے یہ بزرگ گھوڑے پر سوار قریب سے گذرے ٹھہرگئے اور اس کاقرضہ ادا کیا اور فرمایا کہ فقیر کو تنگ نہیں کیا کرتے آنکھ کھلی نادم ہوا۔پھر حاضر خدمت ہوئے۔ان بزرگ کوبھی کشف سے اس کاحال معلوم ہوا۔ فرمایاکیامصرعہ پڑھاتھا ۔ندامت کے ساتھ عذر کیا۔ مگر اصرار پرپڑھناپڑا؎

نہ مرد آن ست دنیا دوست دارد

شیخ نے فرمایا اس میں دوسرا مصرعہ میری طرف سے لگالو؎

اگر دارد برائے دوست دارد

یعنی اللہ والے اگر دنیا بھی رکھتے ہیں تو اپنے دوست یعنی اپنے مولیٰ ہی کے لیے رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ہی کی خوشنودی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور نافرمانی کی راہ سے بچتے ہیں۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کی مسند میں یہ حدیث اس مضمون کی تائید کرتی ہے۔ لَابَاْسَ بِالْغِنٰی لِمَنِ اتَّقَی اللہَ عَزَوَجَلَّ (احمد)(مسند احمد ص ۴۳۵،ج۵،رقم (۲۳۲۲۰) ترجمہ: نہیں مضر ہے مالداری اس شخص کو جو اللہ تعالیٰ عزوجل سے ڈرتا ہے پس دنیا سانپ ہے او ر تقویٰ اس کا منتر ہے اگر دنیا کا سانپ پالنا ہے تو پہلے تقویٰ دل میں حاصل کر ے ورنہ یہ سانپ ڈس لے گا۔

30:45) بدگمانی سے اللہ نہیں ملتے۔۔۔

32:27) کینہ رکھنے سے متعلق مضمون بیان ہوا۔۔۔کینے کی علامات۔۔۔

36:28) حسد اور کینے کا علاج۔۔۔

38:10) خزائن القرآن:آیت نمبر ۶۹ وَلَوْ اَنَّ مَا فِي الْاَرْضِ مِنْ شَجَـرَۃٍ اَقْلَامٌ وَّالْبَحْرُ يَمُدُّہٗ مِنْۢ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللہِ۝۰ۭ (سورۃ لقمان: اٰیۃ۲۷) ترجمہ: اور جتنے درخت زمین بھر میں ہیں اگر وہ سب قلم بن جاویں اور یہ جو سمندر ہے اس کے علاوہ سات سمندر اور ہو جاویں تو اﷲ تعالیٰ کی باتیں ختم نہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر ساری دنیا کے درخت قلم بن جاتے اور ساری دنیا کے سمندر اور اس سمندر جیسے سات اور سمندر روشنائی بن جاتے تو بھی میری عظمت اور میری صفات کو لکھنے کے لیے نا کافی ہو جاتے لہٰذا جب سارے عالم کے قلم اور سات سمندروں کی روشنائی اللہ تعالیٰ کی عظمتوں کے لکھنے کے لیے نا کافی ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک طبقہ شہداء کا پیدا فرمایا جس کے خونِ شہادت سے اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمتوں کی اور اپنی محبت کی تاریخ لکھوا دی اور ان کو اس کام کے لیے انتخاب فرمایا لِیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآ ئَکافروں کی کیا مجال تھی کہ وہ کسی مومن کاخون بہا سکتے، اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت اور عظمت کی شہادت کے لیے ان کو منتخب فرمایا تاکہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ یعنی نبیین، صدیقین اور صالحین کے ساتھ شہداء کا ایک گروہ بھی روئے زمین پر موجود رہے ورنہ کفار قرآن پاک کی صداقت پر اعتراض کرتے کہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ میں شہداء کے مصادیق کہاں ہیں۔ لہٰذا ایک طبقہ پیدا فرمایا کہ تم لوگ مجھ پر اپنی جانوں کو فدا کر دو اور اپنے خون سے میری محبت کی تاریخ لکھ دو۔ اب اگر کوئی کہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر بندوں کی جان فدا کرنے کا حکم کیوں دیا؟

تو اس کا جواب یہ ہے کہ جو خدا ہم کو زندگی عطا کر سکتا ہے وہی خدا شہادت کا حکم دے کر ہماری زندگی کو اپنے اوپر فدا کرنے کا بھی حق رکھتاہے۔ جو ہم کو عدم سے وجود میں لاتا ہے وہ اگر کہہ دے کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کر دو تو اس میں تم کو کیا اِشکال ہے۔ جب ہم تم کو زندگی دینے پر قادر ہیں اور ہم تم کو زندگی عطا کرتے ہیں تو ہمیں تمہاری زندگی لینے کا حق حاصل ہے۔ جب ہم تم کو حیات دے سکتے ہیں تو تمہاری حیات اپنے اوپر فدا کرنے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ ہماری عطائے حیات ہمارے ہی لیے فدائے حیات ہے۔ ہماری طرف سے عطائے حیات کے بعد فدائے حیات کا حکم ظلم نہیں ہے۔ ہمارا حق ہے کہ ہم تم کو زندگی دیں اور پھر حکم دے دیں کہ اپنی زندگی کو مجھ پر فدا کرو تاکہ مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ کا یہ طبقۂ شہداء قیامت تک زندہ رہے۔ اگر شہادت کا باب بند ہوتا تو قرآن پاک کی اس آیت مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ میں شہداء کے مصادیق کہاں ملتے لہٰذا قیامت تک جہاد ہوتا رہے گا اور شہید ہوتے رہیں گے۔جس نے زندگی دی ہے شہداء اسی پر اپنی زندگی فدا کرتے رہیں گے۔

45:15) اللہ تعالیٰ کے دوحق ہیں ایک محبت اور دوسرا عظمت۔۔۔

47:28) اصلاح فرض ہے۔۔۔

48:00) دُعا کی پرچیاں اور کچھ حضرات کو بیعت کیا۔۔۔

دورانیہ 52:10

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries