مرکزی بیان        ۱۷            مئی      ۴ ۲۰۲ء     :اللہ تعالیٰ کا ذکر جانِ کائنات ہے                !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

بمقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲۔

بیان :عارف باللہ حضرتِ اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

03:11) صحت سے متعلق خاص نصیحت کہ صحت کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔۔۔

03:12) خطبہ۔۔۔ان اولیاء الا المتقون۔کسی کو ٹارگٹ بنا کر بیان نہیں کرنا چاہیے،دین کو پھیلانے کے لیے حکمت چاہیے۔۔۔

12:11) اصلاح خود سے نہیں ہوتی اصلاح کرانی پڑتی ہےاسی طرح گناہ خود سے نہیں چھوٹتے چھوڑنے پڑتے ہیں حضرت والا رحمہ اللہ کی ایک مثال۔۔۔

13:32) راہِ خدا میں ادب کی اہمیت ذکرکو شکر پر مقدم کرنےکا راز: دیکھو!یہ میری نصیحت قرآن ِپاک کے اسلوب پر ہے،اللہ تعالیٰ نے قرآن ِپاک میںشکر کو بعد میں اور ذکر کو پہلے بیان فرمایا: ﴿ فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ۝﴾ (سورۃ البقرۃ : آیۃ ۱۵۲) کیونکہ شکر کا تعلق نعمت سے اور ذکرکا تعلق نعمت دینے والے سے ہے، اللہ تعالیٰ نے ذکر کو مقدم فرمایا۔یہاں ایک بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کوشکر پر مقدم کیوں کیا؟اس پر علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بہت اہم تفسیری نکتہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکر کو شکرسے پہلے کیوں بیان کیا ہے؟پہلے یہ کیوں نہیں فرمایا کہ تم لوگ ہمارا شکر ادا کرو؟فرماتے ہیں کہ اصل میں بات یہ ہے کہ ذکر کا حاصل کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہونا: (( اِنَّمَا قَدَّمَ اللہُ تَعَالَی الذِّکْرَ عَلَی الشُّکْرِ لِاَنَّ فِی الذِّکْرِ اشْتِغَالًا م بِذَاتِہٖ وَفِی الشُّکْرِ اشْتِغَالًا بِنِعْمَتِہٖ وَالْاِشْتِغَالُ بِذَاتِہٖ تَعَالٰی اَوْلٰی مِنَ الْاِشْتِغَالِ بِنِعْمَتِہٖ)) ( روح المعانی : (رشیدیہ) ؛ سورۃ البقرۃ ؛ ج ۲ ص ۵۷۱ ) ذکر کا حاصل یہ ہے کہ تم نعمت دینے والے کے ساتھ مشغول ہو جاؤاور ان کی یاد میں لگے رہو۔۔۔

20:07) ۔۔۔اور حاصلِ شکر کیا ہے؟ اَلْاِشْتِغَالُ بِالنِّعْمَۃِ شکر کا حاصل یہ ہے کہ تم نعمت میں مشغول ہوجائو۔ تونعمت دینے والے کے ساتھ مشغولی کیا نعمت کے ساتھ مشغولی سے افضل نہ ہوگی؟اس لئے ذکر کو شکر پر فضیلت ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کو یاد کرو پھر نعمت کھائو، اﷲ کو ناراض کرکے نعمت کھانا غیرشریفانہ حرکت ہے۔جو بیٹا باپ کو ناراض کئے ہوئے ہو، وہ چوری چھپے چور دروازہ سے آتا ہے اور باپ کی میراث اور ملکیت سے اماں سے لے کرچپکے سے کھاتا ہے کہ ابّا دیکھنے نہ پائے،ڈنڈا لئے بیٹھے ہیں۔اماں سے کہتا ہے کہ جلدی سے چھپا کر ناشتہ دے دو۔یہ کوئی کھانا پینا ہے؟اسی لئے ان کے کھانے پینے میں مزہ نہیں ہے، جتنے نافرمان ہیں ان کو کھانے پینے کا مزہ نہیں ہے۔حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر تم اللہ کو راضی کرلو تو تمہاری دنیا بھی مزیدار ہوجائے،فرمایا کہ اولیاء اللہ کی دنیا بھی لذیذ ہوتی ہے، وہ سوکھی روٹی بھی کھاتے ہیں تو جو مزہ پاتے ہیں وہ مزہ دنیا دار لوگ بریانی میں بھی نہیں پاسکتے۔ اللہ تعالیٰ جس سے راضی ہوتے ہیں اس کو ہر چیز میں لذت ملتی ہے۔

23:46) فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ کی تفسیر: ابھی میں نے جس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم ہمیں یاد کرو ہم تم کو یاد کریں گے، لیکن کس بات سے یاد کریں گے؟ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ نے اس پر جو تفسیری جملہ بڑھایا ہے وہ قابل ِ وجد ہے: (( فَاذْكُرُوْنِيْ بِالطَّاعَۃِ اَذْكُرْكُمْ بِالْعِنَایَۃِ)) (بیان القرآن :(تالیفاتِ اشرفیہ ،ملتان)؛ ج ۱ص ۹۶) یعنی تم ہم کو یاد کرو اطاعت کے ساتھ،ہم تم کو یاد کریں گے اپنی عنایت کے ساتھ۔جماعت کی نماز ہورہی ہے اور ہم یہاں بیٹھے اللہ اللہ کررہے ہیں تو یہ طاعت نہیں ہوگی،جس وقت کی جو اطاعت ہو اسے ادا کرو۔

27:43) ایک جملہ کے شیخ مجھ سے ناراض ہےاس سے متعلق نصیحت فرمائی۔۔۔

32:40) ۔۔۔اب اس وقت حاجیوں پر منیٰ میں شیطان کو کنکری مارنے کی اطاعت ہے، یہ لاکھوں نمازوں سے افضل ہے، یا اگرماں باپ بیمار ہیں تو جب تک ان کو ہماری خدمت کی ضرورت ہے ہم اس وقت تک تبلیغ میں نہیں جاسکتے،یااس وقت بیٹا مراقبہ میں بیٹھا رہے، اب عرش پر نہ رہئے فرش پر رہئے، اہلِ فرش کا حق ادا کیجئے۔ غرض جس وقت کا جو دینی کام ہے وہی اطاعت ہے، وہی اس وقت کا ذکر ہے، جب فارغ ہو تو آپ بیشک اللہ اللہ کا ذکر بھی کرو۔

35:31) خزائنِ شریعت و طریقت قلب کے تالہ کی کنجی: ہر اسمِ ذات سے قلب کا قفل کھلتا ہے۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے دعا فرمائی: ((اَللّٰھُمَّ افْتَحْ اَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ )) (عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی، باب کیف مسئلۃ الوسیلۃ، ص:۵۰) اے اﷲ! ہمارے قلوب کے تالوں کو کھول دیجئے اپنے ذکر سے۔ اور جب تالہ کھلتا ہے تب دروازہ کے اندر کا خزانہ نظر آتا ہے جب ذکر کی برکت سے دل کا تالہ کھلے گا تب خزانۂ قربِ الٰہی کا اِدراک ہوگا۔ اور تا لہ اس صندوق پر لگتا ہے جس میں قیمتی چیز ہو ۔

37:43) اللہ تعالیٰ کا ذکر جانِ کائنات ہے:۔۔۔

41:31) ۔۔۔ معلوم ہوا کہ قلوب میں بڑی قیمتی امانت رکھی ہوئی ہے۔ پھر کنجی کی قیمت سے امانت کی قیمت کا پتہ چلتا ہے۔ قیمتی تالہ کی کنجی بھی قیمتی ہوتی ہے۔ ذکر جیسی انمول کنجی سے جس کا تالہ کھلے گا اس میں کیا کچھ قیمتی چیز ہو گی اور وہ تعلق مع اﷲ اور محبت الٰہیہ کی قیمتی امانت ہے جو عالمِ ازل میں اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ فرما کر قلوب میں رکھ دی تھی؎ کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جا سکی اے دل غضب دیکھا وہ چنگاری مر ی مٹی میں شامل کی ۔۔۔

45:42) حدیث شریف کی دعا ہے (اَللّٰہُمَّ افْتَحْ أَقْفَالَ قُلُوْبِنَا بِذِکْرِکَ) (عمل الیوم و اللیلۃ لابن السنی، باب کیف مسئلۃ الوسیلۃ، ص:۵۰) اے اللہ! ہمارے دل کے تالوں کو اپنے ذکر کی کنجی سے کھول دیجئے۔ اس دعا میں اشارہ ہے کہ ہر دل میں نسبت مع اللہ اور تعلق مع اللہ کی صلاحیت اور دولت موجود ہے اور ذرّئہ درد سیل بند دل میں پڑا ہوا ہے، ذکر اللہ کی برکت سے اس کی سیل ٹوٹی ہے، لیکن کنجی جب ہی کام کرتی ہے جب کسی کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ مرشد اور شیخ ہے جس کی نگرانی اور تربیت اور توجہ اور دعا کے ساتھ ذکر اللہ کا اہتمام مفید ہوتا ہے۔

48:00) صرف رنگِ تقویٰ باقی رہتا ہے: جس نے خدا کو نہیں پایا اور اللہ کے نام کا لطف نہ اُٹھایا وہ دنیا سے محروم گیا،کچھ نہیں لے کر گیا،آیا تو ننگا ،جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو کیا پہن کر آتا ہے؟ چڈی بھی نہیں ہوتی، آیا تو ننگا اور گیا تو کفن لپیٹ کر ۔اس کے علاوہ آپ حضرات بتائیں کہ کوئی دنیا سے اور کیا لے کر جاتا ہے مگرہاں! جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا ان کی روح میں انوارِ الہٰیہ یعنی ذِکر اللہ کے انوارات پیوست ہوجاتے ہیں، ان کی روح سے ان انوارات کو ساری کائنات کے سائنس داں الگ نہیں کرسکتے ؎ رنگِ تقویٰ رنگِ طاعت رنگِ دیں تا ابد باقی بود بر عابدیں مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تقویٰ کا رنگ، نیکی اور پرہیزگاری کا رنگ، اللہ کے ذکر کا رنگ قیامت تک اللہ والوں پر قائم رہے گا، اس کو کوئی نہیں چھڑا سکتا، اللہ باقی اس کا رنگ بھی باقی، دنیا فانی اس کا رنگ بھی فانی۔آپ دیکھیں جب جنازہ جاتا ہے تو آپ اس کے ہاتھوںمیں نوٹ کی کتنی گڈیاں دیکھتے ہیں؟ اور اس کے منہ میں کتنے شامی کباب اور بریانیاں ہوتی ہیں؟ اور اس کے ساتھ کتنی بیویاں ہوتی ہیں؟ قبر میں کون کسی کے ساتھ جاتا ہے

55:21) جو اپنے لئے وہی اوروں کے لئے پسند کرتا ہوں: دوستو ! میں اپنے لئے جو پسند کرتا ہوں آپ کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہوں جو میں اپنی اولاد کے لئے پسند کرتا ہوں اپنے دوستوں کے لئے بھی وہی پسند کرتا ہوں۔ جب میں یہ کہتا ہوں کہ اے خدا! اختر کو میری اولاد کو صاحبِ عزت کردے اور اولیاء والا دردِ دل عطا کردے تو یہ بھی کہتا ہوں کہ جو میرے ساتھ محبت رکھتے ہیں ان کو بھی محروم نہ فرمائیے، کیونکہ آپ کے خزانے میں کیا کمی ہے، میں صرف اپنی اولاد کے لئے کیوں مانگوں؟ میرے جو احباب ہیں وہ بھی میری روحانی اولاد ہیں لہٰذا ان کے لیے بھی مانگتا ہوں۔

56:36) خلوت میں یاد الٰہی کی عادت ڈالیں: تو یہ عرض کرتا ہوں کہ کچھ دیر خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کی عادت ضرور ڈالیں، یہ نہ کہو کہ فرض نماز تو ادا کردی اب یہ کیا ضروری ہے۔ کیا اللہ کا حق صرف فرض نماز ہی ہے؟ یہ اللہ کی عظمت کا حق ہے لیکن تنہائی میں ان کو یاد کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا حق ہے۔ ایک شخص اپنی ماں کے پاس قبر پر گیا اور جاتے ہی قرآن شریف کی تلاوت شروع کر دی، رات کو ماں نے خواب میں کہا کہ بیٹا! ذرا دیر خاموش کھڑے رہا کرو تاکہ تم کو دیکھ لوں تو تم آتے ہی فوراً قرآن پاک کی تلاوت شروع کردیتے ہو، قرآن پاک کے انوار میں تمہارا چہرہ چھپ جاتا ہے ،ا للہ کے کلام کا تم پر غلبہ ہوجاتا ہے اورمیں تمہیں دیکھ نہیں پاتی۔ تو میں یہ عرض کررہا تھا کہ جو میںاپنے لئے چاہتا ہوں وہی اپنے احباب کے لئے چاہتا ہوں کہ تھوڑا سا وقت روزانہ تنہائی میں اللہ کا نام لینے کی عادت ڈالئے پھر یہ وقت نہیں ملے گا۔ اگر قبلہ رو ہو جائیے تو گھر کا کمرہ بھی کافی ہے، قبلہ رو ہوگئے تو بیوی بچے ایسے تھوڑی ہی آکر جھانکیں گے کہ ابا کیا کررہےہو! خلوت کی ایک قسم یہ بھی ہےاور اگر کبھی اللہ کہیں لے جائے اور جگہ ہو تو تنہائیوں میں بھی ٹھیک ہے۔ بہر حال جو تلاش کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ ضرور مل جاتا ہے، جو خلوت چاہتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لئے انتظام کردیتے ہیں۔ کوئی کتنا ہی مشغول ہو کچھ منٹ ضرور تنہائی میں بیٹھ کر اﷲ کا ذکر کرے، اگر روزی میں اور اپنی مشغولیات اور مصروفیات میں یا دینی خدمات میں بہت تھک جاتا ہے تو بھی تنہائی میں دس منٹ اللہ کی یاد میں بیٹھ جاؤ، چاہے زبان کو حرکت بھی نہ دوبس اتنا ہی خیال کر لو کہ میںاللہ کے سامنے بیٹھا ہوں جیسے کوئی بچہ بیمار ہو ماں کا پیر نہیں دبا سکتا، ابا کا پیر نہیں دبا سکتا تو چارپائی پر آکر لیٹ جائے کہ ابا اماں کو دیکھ تو لوں ،دیکھنے سے بھی ان کو تسلی ہوجائے گی چاہے بات کریں یا نہ کریں۔ تو اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے بندوں سے ایسی محبت ہے۔

01:02:10) ذکر و مناجات مقبول اور اگر اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی طاقت اس کو ہے تو پھر خاموش کیو ں بیٹھے! اور جب اللہ تعالیٰ کا نام لیں تو پہلے اللہ پر جلَّ جلالہٗ کہنا واجب ہے، اسی طرح جب لاالٰہ الا اللہ کا ذکر کریں تو چند مرتبہ لاالٰہ الا اللہ کہنے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ کر کلمہ پورا کریں۔ اگر مناجاتِ مقبول کی ایک منزل روزانہ پڑھ لیں تو سات دنوں میں قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک کی ساری دعائیں اس کی زبان سے ادا ہو جائیں گی۔ مناجاتِ مقبول حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ترتیب فرمائی ہوئی ہے، اس کی روزانہ ایک منزل پڑھ لیں تو قرآنِ پاک اور حدیثِ پاک میںجتنی بھی دعائیں آئی ہیں سات دنوںمیں سب اس کو حاصل ہوجائیں گی۔ درد بھرے دل سے اور محبت سے جتنا ہوسکے اللہ کا نام لیا کریں۔ یہ بظاہر تو دس منٹ کا ذکر ہے لیکن پتھر پر پانی کا قطرہ روزانہ گرے تو چند ماہ بعد پتھر پر نشان پڑجائے گا۔ ایسے ہی ایک بار اللہ کے بعد جب دوسری مرتبہ اللہ کہا جاتا ہے تو بزرگوں نے لکھا ہے کہ پہلی بار اللہ کہا ہوا قبول ہوتا ہے تب دوسرا کہنے کی توفیق ہوتی ہے، اگر پہلا والا اللہ قبول نہ ہوتا تو دوسری دفعہ اللہ کہنے کی توفیق ہی نہ ہوتی ، حق تعالیٰ کی طرف سے پہلے اللہ! کہنے میں بہت سے لبیک پوشیدہ ہیں ۔ آپ خود سوچئے جس کا آنا پسند نہ ہو تو آدمی اُس کے لئے دروازہ بند کردیتا ہےتو اگر اِس کا ذکر خدا کو پسند نہ ہوتا تو دوبارہ اللہ! کہنے کی اِسے توفیق ہی نہ دیتے۔ایک اللہ! کے بعد جب دوسرا اللہ! نکلتا ہے تووہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے۔ آپ لوگ جتنا ہوسکے میری باتوں کوغور سنئے۔( باہر کسی دکان کے لائوڈ اسپیکر سے تلاوتِ قرآن پاک کی آواز آرہی تھی اس پر فرمایا) اگر کلام اللہ کی تلاوت کی آواز آرہی ہے تو بھئی یہی سمجھ لوکہ اس میں اللہ کے کلام کے انوار ہوتے ہیں اورجب فضاؤں میں کلام اللہ کے انوار پھیلتے ہیں تو گناہوں کے اندھیروں کی نحوستیں دور ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی فضائوں میں انشاء اللہ تعالیٰ ہماری بات اور زیادہ مفید ہوگی، میں یہ نہیں کہتا کہ ایسے وقت پر اُن کو یہ لگانا چاہیے تھا ، مناسب تو یہی تھاکہ اس وقت ایک دین کا کام ہورہا ہے وہ اِ س کو نہ لگاتے لیکن اب جب کہ لگادیا تو شکر ادا کرو کہ گانے کی آواز نہیں آرہی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے انوارفضائوں میں پھیل رہے ہیں یہ اُس سے تو بہتر ہے جو آج کل ہورہا ہے ۔

01:08:07) أَنَا جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِی اور صحبت اہل اللہ تو دس منٹ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت میں گذاریں ۱۴۴۰منٹ اللہ تعالیٰ دے رہےہیں ۲۴ گھنٹے دن و رات کے خدا دیتا ہے اور ایک گھنٹے میں ۶۰ منٹ ہوتے ہیں ۔ ۲۴ گھنٹے کو ۶۰ سے ضرب کیجئے تو ۱۴۴۰ منٹ بنتے ہیں تو دس منٹ کا وقت بھی اللہ کو دینے کےلئے نہیںہے! ارے اگر تھکے ہوئے تو دس منٹ خاموش ہی بیٹھ جائو اور اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرلو۔ حدیث قدسی میں ہےأَنَا جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِی اللہ پاک فرماتےہیں جب بندہ مجھ کو یاد کرتا ہے تو میں اُس کے پاس رہتا ہوں جلیس ہوجاتا ہوں ہم نشین ہوجاتا ہوں اوروہ میر ی مجالست سے مشرف ہوجاتاہے، کتنی بڑی نعمت ہے کہ بندہ زمین پر ہو اور عرش اعظم والا مولیٰ ہمارے ساتھ ہو جائے ان کی ہمیںہم نشینی نصیب ہو جائے ۔

01:08:30) ور دیکھو جملہ بھی کیسا ہے یہ ! جملہ اِسمیہ ہے ۔کیا مطلب کہ جب تک تم ذَكَرَنِیرہوگے میں تمہارا جلیس رہوں گا۔آہ! کیا مزہ آرہا ہے اس بات کو بیان کرنے میں ، تو جب تک ہمیں یاد کرتے رہو گے ہمارے قرب سے تم مشرف رہوگے۔ جملہ اِسمیہ دوام اور ثبوت کے لئے آتا ہے أَنَا جَلِيسُ مَنْ ذَكَرَنِیجب تک تم ذَكَرَنِی رہوگے میں تمہارا ساتھی اور ہم نشین رہوں گا اورجو آدمی نیک بندوں کے ساتھ رہتا ہے اس میںپاکی آنے لگتی ہے، صالحین بندوں کے پاس بیٹھنے سے پاکی آتی ہے، اچھے خیال آتے ہیں، پاکیزہ خیالات آتے ہیں، گندے خیالات سے اس کو پاکی اور طہارت حاصل ہوتی ہے، تو جو خدائے پاک کے ساتھ رہے گا اس میںکتنی پاکی آئے گی، اس کا دل کتنا پا ک ہوگا، جو حق تعالیٰ کے ساتھ روزانہ مجالست کرے گا تو آہستہ آہستہ حق تعالیٰ کی عافیت، ان کی سبحانیت اس کے قلب میں نفوذ کرجائے گی پھر اندھیروں سے اس کو مناسبت نہیں ہوگی ، اللہ کے قرب کامزہ چکھنے کے بعد اُس کی روح حق تعالیٰ کے قرب سے مانوس ہوجائے گی اور پھر گناہوں سے اپنے کوحق تعالیٰ سے دور کرنے پر راضی نہیں ہوگی۔

01:11:15) ماں باپ کے حقوق یہ بات بھی حکیم الامت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے کہ تنہائی میں تھوڑی دیر ماں باپ کے پاس بیٹھا کرو، چاہے کتنا ہی روزی میں مشغول ہو، بال بچوں کی تربیت میںمصروف ہو لیکن ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ میرا بیٹا کم از کم پانچ منٹ ہمارے پاس بھی بیٹھ جائے۔ بظاہر یہ بات ہر ایک کی سمجھ میں نہیں آتی، بعض بیٹے نادانی سے کہتے ہیں کہ میں بہت مشغول ہوں۔

01:12:56) میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ ایک شخص کا بیٹا بارش میں گھر کی چھت ٹھیک کروارہا تھا، اس زمانہ میں برسات میں گھر کی چھتوں کو ٹھیک کرانا ہوتا تھا ورنہ بارش کا پانی ٹپکتا تھا۔ تو اس کو بارہ بج گئے تب اس کے باپ نے کہا کہ بیٹا یہ تمہارے اوپر جو دھوپ کی تیز ی پڑ رہی ہے اس سے مجھ کو اذیت پہنچ رہی ہے، مجھ سے تمہاری تکلیف نہیں دیکھی جاتی۔ اس نے کہا کہ ابا آپ کو اس سے کیا مطلب؟ آپ اللہ اللہ کیجئے،یہ کام بہت ضرور ی ہے، اگر بارش ہوگئی تو میرے بیوی بچے سب پریشان ہوجائیں گے۔ اس کا باپ اس کے بچہ کو دھوپ میں لے آیاتب وہ چلّا اٹھا کہ آپ نے میرے چھوٹے سے بچہ کو دھوپ میں کیوں رکھا؟ تو باپ نے کہا کہ تم بھی تو میرے بیٹے ہو، اپنے بچے کا تو تم کو خیال آتا ہے مگر تم بھی تو میرے بچہ ہو، اب تمہیں پتہ چلا کہ ماں باپ کو کیا غم ہوتا ہے ؎

01:13:08) اگر تو صاحبِ اولاد ہوگا تجھے اولاد کا غم یاد ہوگا تو تھوڑی دیر ذکر اﷲ کے لیے خلوت کی عادت ڈالئے اور تھوڑی دیر اپنے ماں باپ کے پاس بیٹھئے چاہے کتنے ہی مشغول ہوں کیونکہ بال بچوں کے ساتھ تو پوری رات گذارنی ہے، وہاں چاہے آپ بات بھی مت کریں جاکے سو جائیں لیکن بیوی کو احساس ہے کہ شوہر ہمارے ساتھ ہیں اور بچوں کو بھی احساس ہے کہ ابا کمرے میں ہیں لیکن غریب ماں باپ کو ترساؤ مت، پانچ منٹ ان کے پاس بیٹھ جاؤ۔

01:14:32) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ آٹھ سو شاگردوں کو پانچ ہزار تین سو چونسٹھ احادیث پڑھاتے تھے، راستہ میں ان کی درسگاہ کے پاس ان کی امّاں کا گھر پڑتا تھا تو وہ امّاںکو سلام کرتے ہوئے جاتے تھے۔

01:14:40) وہ ماں جو بچپن میں ہگاتی مُتاتی ہے اور سردی کے موسم میں جہاں بچہ پیشاب کرتا ہے وہاں خود سوتی ہے، گیلی جگہ پر خود سوتی ہے اور خشک جگہ پر بچے کو سلاتی ہے۔جس ماں نے اتنی قربانیاں دی ہوں اس کے دل کی رعایت رکھنی چاہیے اور ابا کا بھی خیال رکھنا چاہیے ۔تو ماں باپ کے بلانے پر جانا کمال نہیں خود جائو اور کہہ دو کہ میں آپ کے پاس پانچ منٹ بیٹھنے آیا ہوں، میں اللہ کی رضا کے لئے خالص آپ کی محبت میں آیا ہوں۔ ارے! آپ یہ کام کرکے تو دیکھو، کتنی برکت ہوتی ہے، اللہ وقت میں برکت ڈال دیتا ہے، اللہ روزی میں بھی برکت ڈال دیتا ہے، علم میںبرکت ڈالے گا، ہر عمل میںبرکت ڈالے گا۔ صرف پانچ منٹ اپنے امّاں ابا کے پاس جہاں وہ بیٹھے ہوں بیٹھ جاؤ اور اگر کبھی ایسا ہو کہ باپ کسی اور کمرہ میں مشغول ہے اور اماں کسی اور کمرہ میں تو اگر پانچ منٹ مشکل لگتے ہیں تو کم از کم انہیں ایک ایک منٹ ہی دے دیں بس سلام کرکے خیریت پوچھ کر خاموش ہی بیٹھ جائو اور پھر سلام کر کے چلے جائو۔

01:21:51) جلد اللہ والابننے کا نسخہ یہ چند باتیں میں نے عرض کردیں باقی ان شاء اللہ پھر عرض کروں گا۔ ہاں! ایک صاحب نے آج صبح مجھ سے ایک سوال کیا تھا کہ جلد سے جلد دین دار بننے کا کیا نسخہ ہے؟ کہیے صاحب! کیسا سوال ہے؟ اس نے کہا کہ کیا نسخہ ہے کہ ہم جلد سے جلد اللہ والے دین دار بن جائیں۔ بہت غور سے سنو! اُس کا جواب میں نے دیا کہ انسان جو مٹی سے بنا ہوا ہے، مٹی کی چیزوں سے اس کو الگ ہونا مشکل نظر آتا ہے، مٹی کی عورت، مٹی کے بچے، مٹی کا کاروبار، مٹی کا کباب، مٹی کی بریانی، مٹی کا مکان، مٹی کی روٹیاں، مٹی کے کپڑے، اپنی فطرت کے اعتبار سے انہی مٹیوں میں وہ مشغول رہنا چاہتا ہے، کیونکہ مٹی سے اس کی تخلیق ہوئی ہے لہٰذا خلافِ فطرت، اپنی تخلیقی فطرت کے خلاف اگر ٹیک آف کرنا یا اُڑنا چاہتا ہے تو اسے بہت زیادہ پیٹرول چاہیے۔ جیسے ہوائی جہاز لوہے سے بنا ہوا ہے، لوہے کا مرکز زمین ہے، ہوائی جہاز کا پیتل، تانبا، لوہا جو کچھ بھی ہے اس کا مرکز کیا ہے؟ زمین ہے یا نہیں؟ یہ سب دھاتیں زمین سے نکلتی ہیں یا نہیں؟

01:22:41) تو ہوائی جہاز کو اپنے مرکز یعنی رَن وے سے اُڑنے میں یعنی ٹیک آف کرنے میں کئی ہزار گیلن پیٹرول خرچ ہوجاتا ہے، لیکن جب زیادہ اوپر ہوجاتا ہے اور ہوا کے دوش پر چلتا ہے پھر پیٹرول کم خرچ ہوتا ہے، جو پائلٹ ہیں ان سے پوچھ لیں میں حقیقت پیش کررہا ہوں۔ میں ہوا بازوں سے تحقیق کرکے یہ مسئلہ پیش کررہا ہوں کہ چونکہ جہاز اپنے فطری مٹیریل کے لحاظ سے کہ اس کا مٹیریل زمین کا لوہا، تانبا ہے لہٰذا زمین سے اس کا ٹچ رہنا، وصل کرنا اس کی فطرت ہے، اب خلافِ فطرت زمین سے آسمان کی طرف اُڑنے کے لیے اور اتنا اوپر جانے کے لیے کہ اس کو ہوا کا سہارا مل جائے دو ہزار تین ہزار گیلن پیٹرول چاہیے، جب اس کو ہوا کا سہارا مل جاتا ہے تو پھر پیٹرول کم خرچ ہوتا ہے، تو ہم لوگ بھی اگر اللہ تعالیٰ کی طرف اپنے قلب کے جہاز کو ٹیک آف کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اللہ تعالیٰ کی محبت کے عظیم پیٹرول کی ضرورت ہے۔ ورنہ یہی دنیا ہمیں اپنے اندر مشغول رکھے گی اور ہمارے قلب کا جہاز اللہ کی طرف نہیں اُڑسکے گا۔ تو ان صاحب کو میں نے یہی جواب دیا۔ اُس نے کہا کہ سچ کہتا ہوں کہ ایسی مثال شاید ہی دنیا میں مل سکے۔

01:24:24) محبت کے پیٹرول کی ضرورت جس طرح سے جہاز کو زمین کے مرکز سے دور ہونے کے لیے اور ٹیک آف کرنے کے لیے کئی ہزار گیلن پیٹرول چاہیے اسی طرح ہمارا قلب ہے، ہم زمین کے اجزاء سے تخلیق شدہ ہیں تو زمین چھوڑنے کے لیے اور اللہ کی طرف اُڑنے کے لیے ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا زبردست پیٹرول چاہیے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: والَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہ

01:31:08) ذکر اللہ پر یہاں سے تفصیلی مضمون بیان ہوا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries