عشاء  مجلس   ۲۰             مئی      ۴ ۲۰۲ء     :مدارس کا مقصد                      !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم شیخ العرب و العجم عارف باﷲ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ نے ۱۲؍شعبان المعظم ۱۴۱۷؁ھ مطابق ۴؍جنوری ۱۹۹۶؁ء بروز جمعرات بعد نمازِ فجر ساڑھے پانچ بجے صبح مدرسہ مفتاح العلوم اوخس جنوبی افریقہ کی مسجد میں بیان فرمایاجس میں حضرت والا نے بندگی کی معراج حق تعالیٰ کے قربِ اعظم یعنی مقامِ اولیاء صدیقین کے حصول کا طریقہ اپنے مخصوص سہل و دلنشین انداز میں بیان فرمایا جس کے ایک ایک لفظ میں محبت کی مے دو آتشہ بھری ہوئی ہے۔ اس کا نام حضرت والا نے روحِ سلوک تجویز فرمایا اﷲ تعالیٰ شرفِ قبول عطا فرمائیں اور قیامت تک امتِ مسلمہ کے لیے ہدایت ورہنمائی کا ذریعہ بنائے۔

00:15:57 ہدایات برائے مہتممینِ مدارس۔۔۔

00:19:57 مدارس کا مقصد محض پڑھنا پڑھانا نہیں ہے بلکہ اﷲ تعالیٰ کی محبت کا درد حاصل کرنا ہے۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں دار العلوم دل کے پگھلنے کا نام ہے دار العلوم روح کے جلنے کا نام ہے مہتمم کو چاہیے کہ رات دن دعا کرے کہ ہمارے اساتذہ و طلباء سب سو فیصد اﷲ والے بن جائیں۔ ان کو تقویٰ خاص طور سے نظر کی حفاظت سکھائیے۔ ان کی نگرانی کا خاص اہتمام ہونا چاہئے۔ دارالاقامہ میں رات کو بھی معاینہ کرائیے اور ہر طرح ان کی اخلاقی نگہداشت کا خیال رکھیں۔ بڑے لڑکے چھوٹے لڑکوں سے ربط نہ رکھیں، اساتذہ بے ریش طلباء سے خصوصی تعلق نہ رکھیں مثلاً ’’اسپیشلسٹ‘‘ نہ بنیں کہ تم رات کو بھی ہم سے کچھ پڑھا کرو۔ جرائم کی ابتداء یہیں سے ہوتی ہے کہ میں آپ کو خصوصی طور پر کچھ زیادہ مشق کرانا چاہتا ہوں، رات کو مجھ سے پڑھا کرو اور کچھ پیر بھی دبادیا کرو۔ درس گاہ میں جو پڑھادیا بس ٹھیک ہے۔ کوئی خاص بات ہو تو درس گاہ میں ہی سب کے سامنے بتادے۔ خلوت مع الامارد جائز نہیں جیسے کسی اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت جائز نہیں ایسے ہی امرد کے ساتھ بھی جائز نہیں۔ مجدد ملت حضرت تھانوی کی امارد سے احتیاط۔۔۔

00:22:57 مولانا شبیر علی صاحب نے جو حضرت کے بھتیجے اور خانقاہ کے مہتمم تھے حضرت حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کے پاس ایک امرد طالبِ علم کو کسی کام سے بھیجا۔ حضرت فوراً نیچے اُتر آئے۔ فرمایا کہ مولوی شبیر علی آئندہ سے کسی لڑکے کوجس کے ڈاڑھی مونچھ نہ ہو میرے پاس تنہائی میں مت بھیجا کرو اور اب اس زمانہ میں ڈاڑھی مونچھ کی بھی قید نہیں ہے، قربِ قیامت کا زمانہ ہے، اب چھوٹی چھوٹی ڈاڑھی اور مونچھ کے باوجود لوگ مبتلا پائے جارہے ہیں اب سے دوسوسال پہلے علامہ شامی نے اس کا احساس کیا تھا جو اب مزید بڑھتا جارہا ہے، پچاس سال پہلے جو گناہ نہیں تھے اب دیکھو کتنے بڑھتے جارہے ہیں۔ علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں {اِنَّ بَعْضَ الْفُسَّاقِ یُقَدِّمُ ذَا اللِّحْیَۃِ الْقَلِیْلَۃِ عَلَی الْاَمْرَدِ الْحَسَنِ}۔۔۔

00:23:57 یعنی بعض فساق امرد حسین پر تھوڑی تھوڑی ڈاڑھی والے کو ترجیح دیتے ہیں۔ لہٰذا اﷲ سبحانہ تعالیٰ کے ارشادات و احکام کوکبھی کبھی سنایا جائے اس میں شرم و حیاء نہیں کرنی چاہیے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسے احکام سنانے میں شرم معلوم ہوتی ہے۔ اگر یہ ایسی شرم کی بات تھی تو اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں کیوں نازل فرمایا۔ شرم تو وہ ہے جو گناہ کرنے سے روک دے۔ ملا علی قاری لکھتے ہیں { فَاِنَّ حَقِیْقَۃَ الْحَیَائِ اَنَّ مَوْلاَ کَ لاَ یَرَاکَ حَیْثُ نَھَاکَ} شرم کی حقیقت یہ ہے کہ تیرا مولیٰ تجھے گناہ کی حالت میں نہ دیکھے۔ بعض طلباء جب ہمارے یہاں سے بعض دوسرے مدرسوں میں گئے تو کہا کہ یہاں جو تقویٰ کا اہتمام تھا وہ اب ہم کو نہیں ملتا۔ گناہ کے مدارج و منازل۔۔۔

00:24:57 اور گناہ کے بھی مدارج اور منازل ہیں۔ اگر کسی کو گناہ میں صرف ایک آنہ مزہ آرہا ہے تو وہ بھی زہر ہے۔ اﷲ تعالیٰ سے یہی دعا کرو کہ اے خدا آپ کی ناخوشی کی راہوں سے ایک ذرّہ خوشی سے بھی ہم پناہ مانگتے ہیں کیونکہ یہ خوشی خلافِ عبدیت ہے، شرافتِ بندگی کے خلاف ہے کہ جس خدا نے ہم کو پیدا کیا اور پالااس پالنے والے کی ناخوشی کی راہوں سے ہم خوش ہورہے ہیں، یہ کون سی وِلایت اور اﷲ تعالیٰ کی دوستی کا یہ کون سا مقام ہے؟ اس لئے اصل دوستی یہ ہے کہ دل کی ہر وقت نگرانی کیجئے کہ دل میں اﷲ تعالیٰ کی ناخوشی کی راہوں سے کوئی خوشی تو نہیں آرہی ہے۔ جو دل کی نگرانی کرے گا تو اس کے جسم کی نگرانی اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ اس شخص سے گناہ نہیں ہوسکتے جو اپنے دل کی نگرانی کرتا ہے کیونکہ قلب بادشاہ ہے اور اعضائے جسم اس کی رعایا اور ماتحت ہیں تو جب قلب گناہ سے محفوظ رہے گا تو جو اس کے ماتحت ہیں وہ اس کے تحت میں رہیں گے اور اسی کا نام تزکیہ ہے کہ قلب و جسم گناہوں کی نجاست سے پاک ہوجائیں۔ تزکیہ کی تعریف۔۔۔

00:28:11 کل میں نے بیان کیا تھا کہ تزکیہ تین چیزوں سے مرکب ہے لَہَا اَجْزَائُ الثَّلٰثَۃِ۔ طَہَارَ ۃُ الْقُلُوْبِ وَ طَہَارَۃُ النُّفُوْسِ وَ طَہَارَۃُ الْاَبْدَانِ یَعْنِیْ طَہَارَۃُ الْقُلُوْبُ عَنِ الْعَقَائِدِ الْبَاطِلَۃِ وَ عَنِ الْاِشْتِغَالِ بِغَیْرِ اﷲِ وَ طَہَارَۃُ النُّفُوْسِ عَنِ الْاِخْلاَ قِ الرَّذِیْلَۃِ وَ طَہَارَۃُ الْاَبْدَانِ عَنِ الْاَنْجَاسِ وَالْاَعْمَالِ الْقَبِیْحَۃِ یعنی قلب پاک ہوجائے عقائد باطلہ سے اور غیر اﷲ سے اور نفس پاک ہوجائے برے اخلاق سے اور بدن پاک ہوجائے نجاستوں سے اور برے اعمال سے۔ اﷲ تعالیٰ علامہ آلوسی کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے تزکیہ کی کیا عمدہ تفسیر فرمائی۔ اسی لئے ملا علی قاری رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ طہارت کی حقیقت یہ ہے کہ ہمارا باطن غیر اﷲ سے پاک ہوجائے حَقِیْقَۃُ الطَّہَارَۃِ طَہَارَۃُ الْاَسْرَارِ مِنْ دَنَسِ الْاَغْیَارِ۔

وضو کے بعد اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ التَّوَابِیْنَ وَاجْعَلْنِیْ مِنَ الْمُتَطَہِّرِیْنَ کی دعا پڑھنے کی سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جو تعلیم دی اس میں کیا حکمت ہے؟ مُحَدِّثِ عظیم ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ چاہا کہ اے میری امت کے لوگو! وضو سے اپنا ظاہری بدن تو تم نے دھولیا لیکن اپنا دل تم نہیں دھو سکتے ہو لہٰذا توّابیت مانگ لو، طہارتِ باطنی بھی مانگ لو۔ وضو غسل الاعضاء یعنی اعضاء کے دھونے کا نام ہے۔ وضو کے بعد جو دعا سکھائی اس کا مقصد یہ ہے کہ ہمارا دل بھی دُھل جائے، دل تک اے اﷲ آپ ہی کا ہاتھ جاسکتا ہے ہمارا ہاتھ نہیںجاسکتا اور دل کو وَساوِس اور گندے خیالات اور گناہ سے روکنا اﷲ کی توفیق پر ہے اس لئے کہ گناہ سے نفسِ امّارہ کو مزہ آتا ہے، نفس امارہ کے خلاف کرنے سے تکلیف ہوتی ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries