فجر  مجلس   ۲۲             مئی      ۴ ۲۰۲ء     :ملفوظات مجالسِ ابرار          !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

08:35) مجالس ابرار طالبین کے نصائح میں منصب طالب علم ۱۔پڑھنے کے زمانہ میں وقت و صحت و فراغت کو غنیمت سمجھے کیونکہ یہ چیزیں نہایت بے اعتبار ہیں ۔اگر یہ موقع کھیل کود میں صرف کر دیا تو بعد کو موقع نہ ملے گا ۔اور کف ِافسوس ملنا پڑے گا۔ ۲۔جس سے نفع دینی یا دنیوی حاصل کرنا چاہے اس کے سامنے اپنے کو مٹادے ۔یعنی اپنی شان و شیخی و پٹھانی طاق پر رکھ دے ۔اور ادب اور اطاعت اور خدمت اپنا شعار بنالے ۔اشتیاق سے پڑھے اور پڑھا ہوا خوب یاد رکھے ان باتوں سے انشاء اللہ تعالیٰ استاد ایسا مہر بان و خوش ہو گا کہ پچاس روپے کے دینے سے بھی اتنا مہربان و خوش نہ ہوتا ۔ ۳۔غلطی اگر کلام یا کام میں ہو جائے فوراً اپنی غلطی کا اقرار کر لے باتیں نہ بناوے کیونکہ یہ تکبر کی بات ہے۔

08:37) لذتِ اعترافِ قصور یعنی اپنی غلطی کا اعتراف کرنایہ بہت بڑی چیز ہے۔۔۔

14:26) ۴۔جس سے پڑھے اس کی محبت اطاعت اور ادب کا بہت پاس رکھے اس سے بڑا نفع ہو گا ۔ ۵۔ساتھ یاد کرنے میں ہمت اور شوق میں ترقی ہوتی ہے ۔ ۶۔علم پر ناز نہ کرے بلکہ نعمت سمجھ کر شکریہ ادا کرتا رہے ۔ورنہ نعمت چھن جائے گی ۔اورایک عالم کا دماغ فالج سے خراب ہو گیا اور کل علم بھول گیا۔

18:35) ۷۔طلبہ کو چاہئے کہ اللہ والے بن کر رہیں ۔تمام چیزیں اس کی بن کر رہیں گی ! اگر اللہ تعالیٰ سے پھر گیا تو سب چیزیں پھر جائیں گی ۔؎ چوں از دگشتی ہمہ چیز از تو گشت ۸۔طالب علم کو عموماً اور طالب دین کو خصوصا ً سب گناہوں سے عموماً اور شہوت کے گناہوں سے خصوصاً سخت پرہیز کرنا چاہیئے ۔کیوں کہ گناہوں سے تمام اعضاء عموماً دل و دماغ خصوصاً بہت ضعیف ہو جاتے ہیں اور حسن بھی جاتارہتا ہے اور چہرہ بدنما پیلا ہو جاتا ہے ۔دیکھنے میں خراب معلوم ہوتا ہے ۔دل بوجہ تردد اور خوف کےاور دماغ بوجہ مادہ منی کے نکل جانے کے کیونکہ سرمایہ راحت و صحت و قوت منی ہی ہے اور طالب علم کو زیادہ ضرورت انہیں اعضاء کے درست رہنے کی ہے ۔کیونکہ اگر یہ اعضاء ضعیف ہو گئے تو نہ پڑھ سکے گا اور نہ پڑھا ہوا یاد رکھ سکے گا۔کیونکہ قوت حافظہ بھی جاتی رہتی ہے ۔

حضرت امام شافعیؒ نے اپنے استاد حضرت وکیعؒ سے سوء حفظ کی شکایت کی انہوں نے فرمایا گناہوں سے پرہیز کرو کیونکہ علم فضل ہے ۔اللہ تعالیٰ کااور فضل اللہ تعالیٰ کاعاصی کو عطانہیں ؎ شکوت الیٰ وکیع سوء حفظی فاوصبانی الیٰ ترک المعاصی فان العلم فضل من الہ وفضل اللہ لایعطیٰ لعاصی اور گناہوں کے ترک کے متعلق یوں سمجھ لے کہ اگر میں نے گناہ کیا تو علم سے محروم رہوں گا ۔اور صحت و عافیت سے محروم ہو جائوں گا ۔اگر اللہ تعالیٰ نے پردہ دری کر دی نعوذ بااللہ من ذالک )تو مدرسہ سے خارج کر دیا جائوں گا ۔لوگوں میں ذلت و رسوائی ہو گی منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا ۔اور یوں سمجھ لے کہ آدمی کی موت و بیماری کا کوئی وقت نہیں جب ہی مرجاوے یا بیمار ہو جائے ۔اور بیمار ہو کر اور مر کر تو گناہ چھوڑنا ہی پڑے گا ۔تو جو چیز مر کر یا بیمار پڑ کر چھوٹنے والی ہو اسے صحت و حیات ہی میں چھوڑ دینا چاہئیے ۔تاکہ تارک المعصیت ہو متروک المعصیت نہ ہو ۔اور قابل اجر و مدح تارک ہے نہ متروک اور یہ ٹھان لے کہ شہوت کے کہنے پر عمل نہ کروں گا ۔نہ دیکھوں گا نہ بات کروں گا ۔اور نہ بات سنوں گا ۔اور لڑکو ں اور عورتوں کی صحبت سے بہت سخت پرہیز کرے اگر کسی لڑکے کے ساتھ پڑھنے میں یا سبق کی تکرار میں یا دور میں ہو تو قدر ضرورت پر اکتفاکرے اور اگر اپنی طبیعت میں برا میلان پاوے تو فوراً بہت جلد اس کا ساتھ چھوڑ دے اور تکرار وغیرہ سب بند کر دے علیحدہ پڑھے اور جلد سے جلد دو رکعت نماز توبہ پڑھے کر توبہ کرے کیونکہ اگر علیحدہ ہونے میں تاخیر کرے گا تعلق کی جڑ مضبوط ہو جاوے گی اور علیحدہ ہونے کی ہمت کمزور ہو جاوے گی ۔اور پھر گناہ سے بچنا مشکل ہو جاوے گا ۔اور اگر اللہ تعالیٰ نے بعد مدت کے کبھی دستگیری بھی کی اور توبہ نصیب بھی ہوئی تب بھی برسوں اس کے خیالات اور وساس نماز وکتاب کو خراب کریں گے ۔اور سخت الجھن ہو جاوے گی ۔دل پریشان و متردد و مغموم ،متفکر رہے گا ۔اور جلدی تدارک کرنے سے ان سب باتوں سے نجات رہے گی ۔اور دل میں فرحت و انسباط خوشی کا ایک بڑا عالم رہے گا ؎ اور لڑکوں اور عورتوں کو دل میں جگہ دینا اور اللہ کو نکالنا کیا خراب بات ہے ۔؎

کعبہ سے بت نکال دئیے تھے رسول نے اللہ کو نکال رہے ہیں دلوں سے آپ اور خدا عزوجل کے جمال بے مثال کو چھوڑکر ان مردہ ناپائیدار اشکال پر عاشق ہونا کیا بے سمجھی کی بات ہے ۔کہاں وہ نور آفتاب اور کہاں یہ چراغ مردہ ۔۔۔

24:30) ۹۔طلبہ کو چاہئیے کہ استاد کے ساتھ حسن ظن رکھیں اگر کسی طالب علم کے ساتھ کوئی خاص برتائو کرے تو یہ سمجھ لے کہ وہ صاحب اسی لائق ہیں ۔اور میں اسی لائق ہوں یا ان کے ساتھ وہی برتاؤمصلحت ہے ۔اور میرے ساتھ یہی برتاؤ مصلحت ہے ۔یا یوں سمجھ لے کہ اگر خدانخواستہ وہ خلاف ہی کرتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پر ان کا حساب ہے مجھے بدگمانی سے کیا نفع ہو گا ۔دنیا میں ان کے فیوض و برکات سے محروم رہوں گا ۔اور آخرت میں بدگمانی کے وبال میں گرفتار ہوں گا اور یہ خیال کرے کہ دوسرے کے کام کی فکر میں کیوں پڑوں ۔

یکساں برتاؤکرنا استاد کاکام ہے وہ اپنا کام کریں یا نہ کریں ۔وہ اپنے کام کے ذمہ دار ہیں۔اور میرا کام ہے حسن ظن اور اطاعت اور خدمت میں اپنا کام کروں اور بدگمانی کایہ بھی نقصان ہے کہ تم کو استاد اور طالب علم محسود علیہ سے دشمنی ہو جائے گی ۔اور دشمنی میں جانبین کا جان و مال عزت و آبرو معرض خطر میں ہوجاتا ہے قصہ حضرت یعقوب ؑ اور یوسف ؑ اور اخوتہ علی نبیا وعلیہم السلام کا پیش نظر رکھنا چاہئیے ۔ہر چھوٹے بڑے کو یہ برتائو یاد رکھنا چاہئیے ۔مثلاً پیر ،استاد ،باپ کے ساتھ ان کے چھوٹوں کو جتنا حسن ظن رکھنا ضروری ہے ۔استاد پر تساوی فی المعاملات وغیرہ اس سے زیادہ ضروری ہے ۔کیونکہ ان کا فعل ا نہیں تک نہ رہے گا بلکہ ہر شاگرد کے رگ و ریشہ میں سرایت کرے گا اور ان کا اثر دوسروں میں پہونچے گا ؎ بے ادب تنہا نہ خود را داشت بد بلکہ اتش در ہمہ آفاق زد خلاصہ یہ ہے کہ بدگمانی سےبہت پرہیز اور مصلحت میں بھی زیادہ غور وخوض نہ کرے بلکہ اپنے دل میں یہ سمجھ لے کہ ہوگی کوئی مصلحت ۔یہ طریقہ سرمایہ راحت دارین ہے۔

31:18) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبّہ سے بالوں سے متعلق کچھ نصیحت ۔۔۔

دورانیہ 38:19

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries