عصر   مجلس   ۲۲             مئی      ۴ ۲۰۲ء     :طلباء کرام کو نصیحتیں           !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام :مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستان جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرت اقدس شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:13) اللہ تعالیٰ نے توبہ کادروازہ کھولا ہوا ہےبس اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے رہیں۔۔۔

04:14) صغیرہ گناہ باربارکرنے سے کبیر ہ بن جاتاہے۔۔۔

05:33) اصلاح آسان نہیں اس کے لیے اپنےآپ کو مٹانا پڑے گا۔۔۔

07:49) بے ریش لڑکوں سے کتنی احتیاط کرنی ہے۔۔۔

18:36) اگر ساری دُنیا کی بادشاہت مل جائے اور اللہ نہ ملے تو خسارے میں ہیں۔۔۔

21:20) وہ کون ساگناہ ہے جو اس اسمارٹ فون میں نہیں ہے؟۔۔۔

24:12) مجالس ابرار ۱۔پڑھنے کے زمانہ میں وقت و صحت و فراغت کو غنیمت سمجھے کیونکہ یہ چیزیں نہایت بے اعتبار ہیں ۔اگر یہ موقع کھیل کود میں صرف کر دیا تو بعد کو موقع نہ ملے گا ۔اور کف ِافسوس ملنا پڑے گا۔ ۲۔جس سے نفع دینی یا دنیوی حاصل کرنا چاہے اس کے سامنے اپنے کو مٹادے ۔یعنی اپنی شان و شیخی و پٹھانی طاق پر رکھ دے ۔اور ادب اور اطاعت اور خدمت اپنا شعار بنالے ۔اشتیاق سے پڑھے اور پڑھا ہوا خوب یاد رکھے ان باتوں سے انشاء اللہ تعالیٰ استاد ایسا مہر بان و خوش ہو گا کہ پچاس روپے کے دینے سے بھی اتنا مہربان و خوش نہ ہوتا ۔ ۳۔غلطی اگر کلام یا کام میں ہو جائے فوراً اپنی غلطی کا اقرار کر لے باتیں نہ بناوے کیونکہ یہ تکبر کی بات ہے۔ ۴۔جس سے پڑھے اس کی محبت اطاعت اور ادب کا بہت پاس رکھے اس سے بڑا نفع ہو گا ۔ ۶۔علم پر ناز نہ کرے بلکہ نعمت سمجھ کر شکریہ ادا کرتا رہے ۔ورنہ نعمت چھن جائے گی ۔اورایک عالم کا دماغ فالج سے خراب ہو گیا اور کل علم بھول گیا۔ ۷۔طلبہ کو چاہئے کہ اللہ والے بن کر رہیں ۔تمام چیزیں اس کی بن کر رہیں گی ! اگر اللہ تعالیٰ سے پھر گیا تو سب چیزیں پھر جائیں گی ۔ ۸۔طالب علم کو عموماً اور طالب دین کو خصوصا ً سب گناہوں سے عموماً اور شہوت کے گناہوں سے خصوصاً سخت پرہیز کرنا چاہیئے ۔کیوں کہ گناہوں سے تمام اعضاء عموماً دل و دماغ خصوصاً بہت ضعیف ہو جاتے ہیں اور حسن بھی جاتارہتا ہے اور چہرہ بدنما پیلا ہو جاتا ہے ۔دیکھنے میں خراب معلوم ہوتا ہے ۔دل بوجہ تردد اور خوف کےاور دماغ بوجہ مادہ منی کے نکل جانے کے کیونکہ سرمایہ راحت و صحت و قوت منی ہی ہے ۔۔۔

30:55) اور طالب علم کو زیادہ ضرورت انہیں اعضاء کے درست رہنے کی ہے ۔کیونکہ اگر یہ اعضاء ضعیف ہو گئے تو نہ پڑھ سکے گا اور نہ پڑھا ہوا یاد رکھ سکے گا۔کیونکہ قوت حافظہ بھی جاتی رہتی ہے ۔حضرت امام شافعیؒ نے اپنے استاد حضرت وکیعؒ سے سوء حفظ کی شکایت کی انہوں نے فرمایا گناہوں سے پرہیز کرو کیونکہ علم فضل ہے ۔اللہ تعالیٰ کااور فضل اللہ تعالیٰ کاعاصی کو عطانہیں ؎ شکوت الیٰ وکیع سوء حفظی فاوصبانی الیٰ ترک المعاصی فان العلم فضل من الہ وفضل اللہ لایعطیٰ لعاصی اور گناہوں کے ترک کے متعلق یوں سمجھ لے کہ اگر میں نے گناہ کیا تو علم سے محروم رہوں گا ۔اور صحت و عافیت سے محروم ہو جائوں گا ۔اگر اللہ تعالیٰ نے پردہ دری کر دی نعوذ بااللہ من ذالک )تو مدرسہ سے خارج کر دیا جائوں گا ۔لوگوں میں ذلت و رسوائی ہو گی منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گا ۔

33:07) ۹۔طلبہ کو چاہئیے کہ استاد کے ساتھ حسن ظن رکھیں اگر کسی طالب علم کے ساتھ کوئی خاص برتائو کرے تو یہ سمجھ لے کہ وہ صاحب اسی لائق ہیں ۔اور میں اسی لائق ہوں یا ان کے ساتھ وہی برتائو مصلحت ہے ۔اور میرے ساتھ یہی برتائو مصلحت ہے ۔یا یوں سمجھ لے کہ اگر خدانخواستہ وہ خلاف ہی کرتے ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پر ان کا حساب ہے مجھے بدگمانی سے کیا نفع ہو گا ۔دنیا میں ان کے فیوض و برکات سے محروم رہوں گا ۔اور آخرت میں بدگمانی کے وبال میں گرفتار ہوں گا اور یہ خیال کرے کہ دوسرے کے کام کی فکر میں کیوں پڑوں ۔یکساں برتائوکرنا استاد کاکام ہے وہ اپنا کام کریں یا نہ کریں ۔وہ اپنے کام کے ذمہ دار ہیں۔اور میرا کام ہے حسن ظن اور اطاعت اور خدمت میں اپنا کام کروں اور بدگمانی کایہ بھی نقصان ہے کہ تم کو استاد اور طالب علم محسود علیہ سے دشمنی ہو جائے گی ۔اور دشمنی میں جانبین کا جان و مال عزت و آبرو معرض خطر میں ہوجاتا ہے قصہ حضرت یعقوب ؑ اور یوسف ؑ اور اخوتہ علی نبیا وعلیہم السلام کا پیش نظر رکھنا چاہئیے ۔ہر چھوٹے بڑے کو یہ برتائو یاد رکھنا چاہئیے ۔مثلاً پیر ،استاد ،باپ کے ساتھ ان کے چھوٹوں کو جتنا حسن ظن رکھنا ضروری ہے ۔استاد پر تساوی فی المعاملات وغیرہ اس سے زیادہ ضروری ہے ۔کیونکہ ان کا فعل ا نہیں تک نہ رہے گا بلکہ ہر شاگرد کے رگ و ریشہ میں سرایت کرے گا اور ان کا اثر دوسروں میں پہونچے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ بدگمانی سےبہت پرہیز اور مصلحت میں بھی زیادہ غور وخوض نہ کرے بلکہ اپنے دل میں یہ سمجھ لے کہ ہوگی کوئی مصلحت ۔یہ طریقہ سرمایہ راحت دارین ہے۔

36:41) ۱۰۔استاد کی روک ٹوک اگر پڑھنے میں ہو تو اس کو برا نہ سمجھے اور نہ چہرہ پرشکن پڑے نہ ملال ظاہر کرے اس لئے کہ اس سے استاد کے دل میں انقباض پیدا ہو جائے گا۔اور دروازہ نفع کا بند ہو جائے گا ۔کیونکہ یہ موقوف ہے انشراح دل اور مناسبت پراور صورت مذکورہ میں دونوں باتیں نہیں ہیں ،بہت بڑا قاعدہ اور جلد منفعت کی کنجی یہ ہے کہ جس سے نفع حاصل کرنا ہو خواہ خالق یا مخلوق سےاس کےسامنے اپنے کو مٹادے اور فنا کردے اور اپنی رائے و تدبیر کو بالکل دخل نہ دے پھر دیکھے کیسا نفع حاصل ہوتا ہے۔

37:19) ۱۱۔طالب علم کو بڑی ضرورت فراغت قلب کی ہے یعنی قلب کاکسی چیز سے یاکسی شخص سے متعلق نہ ہونا یعنی حقہ یا پان تمباکو وغیرہ کاعادی نہ بنے اور نہ کسی امرد لڑکے یا عورت سے ناجائز تعلق پیدا کرے ورنہ علم سے بوجہ آفات دینی ودنیوی کے محروم رہے گا اور رسوائی و ذلت ہوگی ۔مدرسہ سے خارج کردیا جاوے گا ہے وہ عاقل جو کہ آغاز میں سوچے انجام ورنہ ناداں بھی سمجھ جاتا ہے کھوتے کھوتے ۱۲۔طالب علم کو چاہئے کہ بعد فارغ ہونے کے کسی اللہ والے کی خدمت میں رہ کر کچھ دنوں اصلاح ظاہر و باطن کی کرے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries